الحمدللہ ہم پر اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور دینِ اسلام اتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔ کئی احادیثِ مبارکہ میں کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی بجاآوری کا ذہن دیا گیا ہے آئیے! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سنتے ہیں:

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی ارشاد فرمایا) کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے پوچھو اور اس کا خیال کرو اور جب بیمار ہو تو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو اسے صبر دلاؤ اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے اور اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اس کو ایذا نہ دو بلکہ اس میں سے کچھ اس کے لئے بھی حصہ نکالو اور اگر کوئی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ دو اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ کر سکو تو اس سے چھپا کر استعمال کرو بلکہ تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں : بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے، جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں۔حق جوار اور حق اسلام اور حق کے قرابت، مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں، حق جوار اور حق اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔ (شعب الایمان،باب فی اکرام الجار )

بیان کردہ حدیثِ پاک سے ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتا ہے کے پڑوسیوں کے حقوق کی بجاوری ان کی خبرگیری و حاجت روائی کرنے، ان کی دل جوئی کرنے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف نہ پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور ان کے متعلق عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی مدنی انقلاب برپا ہو جائے مگر افسوس کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جا رہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گھڑے میں گرتے جا رہے ہیں ۔ ایک ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی پہچان، اس کی موجودگی اور حقِ پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے اور ہم سے اسی گلی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز کا پتہ معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں کیونکہ ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ اس کا کیا نام ہے کیا کام کرتا ہے ہم تو بس اپنی مستی میں مست رہنے والے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو یا کسی پریشانی کا شکار ہوجائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی۔

ہاں مالداروں، صاحبِ منصب لوگوں، مخصوص دوستوں، برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خوشی اور غم کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے ہاں تقریبات میں بلاتے ہیں مگر غریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی قسم کا رنج یا تکلیف پہنچانے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین