ایک ہی محلے یا سو سائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پر پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں والدین اور عزیز واقارب کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و اخوت ، پیارو محبت اور امن و سلامتی کی تعلیم دی ہے وہیں ہمارے قرب و جوار میں بسنے والے پڑوسیوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ بلکہ ان کی جان ومال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔

(1) پڑوسی کے حقوق بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر وہ (پڑوسی) بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائےتو اس کی پردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، ج 19 ، ص 419 ، حدیث : 1014 )

(2) ایک اور روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ (پڑوسی) تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج 3، ص 243 ، حدیث:3914)

(3) پڑوسیوں کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اس کی خوشی وغمی میں شریک ہوں ، اسے تکلیف نہ پہنچائیں اور اپنے لیے جو پسند کریں اس میں سے کچھ حصہ پڑوسی کے گھر بھیج دیں۔

ایک روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر وہ (پڑوسی ) تنگ دست ہو جائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزیت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کیلئے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں ۔ (شعب الایمان، ج 7 ،ص 83 ، حدیث : 9560)

(4) کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت سیدنا امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے. ہیں : میں حضرت سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے غلام ! جب تو کھال اتارلے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا ، غلام نے کہا : آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں ۔ (ترمذی، كتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فى حق الجوار، 3/379 ،حدیث:1949)

(5) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا چنانچہ ایک شخص نے عرض کی یارسولُ الله مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں؟ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نیک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی : مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ برا کہیں تو تم بڑے ہی ہو۔(شعب الایمان ، ج 7، ص 85 ، حدیث : 9567)

پڑوسیوں کے چند عام حقوق بیان کئے جا رہے ہیں:

۱۔ پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے ۔

٢۔ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

۳۔ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے۔

۴۔ جب وہ بيمار ہو تو ان کی عیادت کرے۔

٥۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے ۔

٦۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے۔

۷۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔

۸۔ ان کے گھر میں مت جھانکے ۔

۹۔ اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے ۔

۱۰۔ ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔

١١۔ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔

١٢۔ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔

معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کی تکمیل کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین