غلام یاسین (درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان غوث الاعظم حیدرآباد ، پاکستان)
ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے
میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا
ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک،
ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک
ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر اسلامی
بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا
ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں
اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان
و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔
وہ مؤمن نہیں ہوسکتا
: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی
قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام علیہمُ
الرّضوان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی برائيوں سے اس کا ”پڑوسی“ محفوظ نہ
رہے۔(بخاری،4/104، حدیث: 6016)
اسلام میں ”پڑوسی“ کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے
کا معیار اس کے ”پڑوسی“ کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ!
مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن
جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے
”پڑوسیوں“ سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہيں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو
تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث: 9567)
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار
نہیں دیتے کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“ میں بچے بھوک و پیاس
سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود
شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر، 12/119،
حدیث: 12741)
”پڑوسیوں“ سے حُسنِ
سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے
ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف
نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73) دوسری روایت میں آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو تکلیف دی بے شک اُس نے
مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے
اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے
شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث: 3907)
”پڑوسی“ کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت
ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ
عیب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)
ایک اور روایت میں
یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو
تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ ”پڑوسی“ کا حق کم
لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب
والترہیب،3/243، حدیث:3914 ) ايک اور روایت میں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو
اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس
سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير
اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف
نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو
اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ
اور ”پڑوسی“ کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔
(شعب الایمان،7/83، حدیث: 9560)
بسا اوقات ”پڑوسی“ سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان
ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی
اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے ”پڑوسی“ کے ساتھ حُسنِ
سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی
نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا
”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس
کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637) مُعَاشَرے
کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے ”پڑوسیوں“ کے متعلق اسلام
کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ
سمجھنے لگے گا۔
پڑوسی کے چند حقوق: قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔(پ5،النساء:36)
اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے
میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو
اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ
بالجاروالاحسان الیہ ، حدیث:2664،ص 1413)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن
کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو۔ ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کیا کہ ہم لوگ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے
میں یہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ
جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت
کرے۔ یا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے
کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ
امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(شعب الایمان ، باب فی
تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ... الخ ، 2/201،حدیث: 1533)
اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا
رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)
چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت
کرلیں۔
(1)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان
کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔
(2)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی
میں ہمیشہ لگا رہے۔
(3)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے
کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم
لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب
البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)
(4)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان
کی پردہ پوشی کرے ۔ اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے
۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے
والا بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم