ذیشان عمران (درجۂ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی کراچی ، پاکستان)
انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے
علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق بلکہ ہر وقت ملاقات، لین دین کا ہمسایوں اور
پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون
اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ تو چند پڑوسیوں
کے حقوق درج ذیل ہیں۔
ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے
اسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اسکا شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور
اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔ ( مسلم، كتاب البر والصلۃ ) نیز رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن یا اسکے ھدیے کو حقیر نہ
سمجھے اگرچہ اسکا بھیجا ہوا ہدیہ بکری کا کھر ہی ہو۔ ( بخاری، کتاب الادب )
ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ
بھیجتے رہنا چاہئے یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ہدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے
اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ہدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے
خوش دلی سے قبول کرے اور ھدیہ دینے والی کاشکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک
دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی
ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوجاتے ہیں ۔
اللہ اور اسکے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت
کو جن باتوں کا حکم دیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور
انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)نیز رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو
اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے۔( مسلم ، کتاب الایمان )
مطلب یہ ہےکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ
ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہوتو
مبارک باد دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو،
اسکے دین ودنیا کی درست رہنمائی کرو، اسکے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اسکی لغزشوں
سے درگزر کرو، اسکی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اسکو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ
کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے کے تحت آتی ہیں۔
ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی
یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ
کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ
مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول
كون ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ شخص جس کا پڑوسی اسکی
شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔( بخاری ،کتاب الادب ) اورایک روایت میں فرمایا جو اللہ
اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ ( بخاری )
لفظ مؤمن کا مصدر ،ایمان امن سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر
ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر پسند نہیں ہو سکتا ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ
مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں
لگاتا، اسکی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ
صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے
بھی اسکی،شرافت امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں جوشخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی
کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن
نہیں ہے۔
اللہ پاک ہمیں
پڑوسیوں اور اہل محلہ سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔