فیصل یونس (درجہ دورۃُ الحدیث
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ جوہڑ ٹاؤن لاہور،پاکستان )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں
جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے، اللہ پاک نے رشتہ
داروں اور دوستوں ،ساتھیوں کے علاوہ پڑوسیوں سے بھی نیک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا
ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا یہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے اور ان کے
ساتھ بدسلوکی و ایذا رسانی کرنا حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
۔پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق
بیان کیے گئے ہیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام علیہمُ الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا
مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک کی وجہ سے کئی
غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ
بھلائی کرے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو
اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور
یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور
راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے (پ 5، النسآء : 36)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جبریل (علیہ السّلام) مجھے پڑوسی کے بارے میں مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں
تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنادیں گے۔( بخاری ، کتاب الادب،
4/104، حدیث : 6015)
سرکار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر !جب تم شور بہ پکاؤ تو
اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔( مسلم، كتاب البر والصلة
والآداب، باب الوصية بالجار و الاحسان ، ص 1413، حدیث:2625)
حدیث پاک میں سالن کے دیگر اجزاء کے بجائے شوربہ بڑھانے کا
فرمایا گیا کیونکہ شوربہ بڑھانا ہر ایک کے لئے آسان ہوتا ہے جبکہ گوشت اور مصالحہ
وغیرہ بڑھانا سب کے لیے آسان نہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ مستحب کاموں میں سے جو آسان
ہو اسے کرنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ بندہ آسانی سے عمل کر کے زیادہ اجر و ثواب
کما سکے ۔
مذکورہ حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لذت پر الفت و محبت
کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ شور بے میں گھی اور مصالحہ بڑھانے کے بجائے صرف پانی
بڑھانے سے اگر چہ اس کا مزہ کم ہو جائے گا لیکن پڑوسیوں کو دینے کی برکت سے ان کے
ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں گے اور باہمی محبت بڑھے گی کیونکہ تحفہ دینے سے آپس میں
محبت بڑھتی ہوتی ہے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس ہے الفت و محبت
پر مزے کو ترجیح دی جاتی ہے۔(فیضان ریاض الصالحین، 3/481 تحت الحدیث 304،مکتبۃ
المدینہ)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ
اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے۔ " اگلی حدیث
پاک میں فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ
احسان کرنا چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان ، باب الحث علی اکرام الجار و
الضیف۔۔۔الخ،ص43،حدیث:47،48)
علامہ محمد بن عَلان شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے
ہیں: ” مصنف یعنی امام نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ان دونوں احادیث کو جمع کر کے
اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کامل ایمان اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک
دونوں چیزوں کو جمع نہ کیا جائے یعنی پڑوسی کو اذیت دینے سے بھی بچا جائے اور اپنی
قدرت کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جائے۔(دليل الفالحين ، باب في حق الجار
والوصيۃ،2/140 ،تحت الحديث : 310)
اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کا احساس کرنے ،اور انہیں ہدیہ
دینے، اور انہیں تکلیف و اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم