پچھلے دنوں ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ محمود نوتیزئی کی اپنے وفد کے ہمراہ دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سبی میں آمد ہوئی جہاں صوبائی ذمہ دار شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان محمد وقار عطاری  نے انہیں خوش آمدید کہا۔

معلومات کے مطابق صوبائی ذمہ نے ایس پی محمود نوتیزئی کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سمیت وہاں قائم مرکزی جامعۃ المدینہ بوائز کے بارے میں بریفنگ دی جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پر ہونے والی دینی و فلاحی خدمات کو سراہا اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

صوبائی ذمہ دار نے ایس پی محمود نوتیزئی کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کا وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔بعدازاں ملک و قوم کی سلامتی اور شہدائے پولیس کے لئے خصوصی دعا کروائی گئی۔

اس وزٹ کے دوران پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے سپرنٹنڈنٹ میر مالک داد ابڑو، رسول بخش کلہواڑ، اللہ ڈنہ رند چشتی اور جامعۃ المدینہ بوائزکے ناظم و مدرسین بھی موجود تھے۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے سلسلے میں سنی تحریک بلوچستان کے صوبائی صدر صاحبزادہ سعد اللہ خان باروزئی سے پچھلے دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے صوبائی ذمہ دار محمد وقار عطاری اور نگرانِ ڈسٹرکٹ محمد اسحاق عطاری سمیت دیگر ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی ملاقات ہوئی۔

اس دوران ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے صوبائی صدر صاحبزادہ سعد اللہ خان باروزئی کو دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے بارے میں بریفنگ دی جبکہ مبلغِ دعوتِ اسلامی نے اُن کی مسجد و مدرسے میں بعد نمازِ مغرب سنتوں بھرا بیان کیا۔

اس موقع پر شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ٹاؤن ذمہ دار اللہ ڈنہ رند چشتی اور مولانا علی احمد عطاری مدنی بھی موجود تھے۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

گزشتہ روز عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے سلسلے میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے صوبائی ذمہ دار بلوچستان کی کمرشل سپر وائزر آفیسر ریلوے  سبی سیّد آصف علی شاہ بخاری سے ملاقات ہوئی۔

اس دوران صوبائی ذمہ دار نے سیّد آصف علی شاہ بخاری کے داد جان مرحوم سیّد عبد الحکیم شاہ بخاری کے انتقال پر اُن سے تعزیت کی اور فاتحہ خوانی پڑھی۔

علاوہ ازیں صوبائی ذمہ دار نے دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا جس پر سیّد آصف علی شاہ بخاری نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


تریہڑ شریف لہڑی بلوچستان کے قبائلی و سماجی رہنما  سیّد لعل شاہ جیلانی اور سید سجاد حسین شاہ جیلانی کی گزشتہ روز دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سبی میں آمد ہوئی جہاں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے صوبائی ذمہ دار سمیت دیگر اسلامی بھائیوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔

شخصیات سے گفتگو کے دوران صوبائی ذمہ دار نے شخصیات سے دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے بارے میں کلام کیا جس میں انہوں نے علاقہ تریہڑی میں دعوتِ اسلامی کو مسجد و مدرسۃ المدینہ کے لئے جگہ وقف کرنے کی نیتیں کروائیں۔

اس موقع پر تحصیل ذمہ دار نے شخصیات سے ہاتھوں ہاتھ مسجد و مدرسۃ المدینہ کے لئے جگہ کے متعلق چند اہم امو رپر مشاورت کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی دینی و فلاحی اعتبار سے لوگوں کی مدد کرنے اور انہیں نیکیوں بھری زندگی گزارنے کا ذہن دینے والی عاشقانِ رسول کی وہ دینی تحریک ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو دینِ کی راہ پر چلانے میں مصروفِ عمل ہے۔

پچھلے دنوں قبائلی و سماجی رہنما PCB بلوچستان کے عہدیدار / فی سبیل للہ ٹرسٹ کے رکن محمد آصف چانڈیو اور قبائلی و سماجی رہنما (ایکسین پبلک ہیلتھ انجینئرنگ) کے بیٹے ثناء اللہ بنگلزئی سے دعوتِ اسلامی صوبہ بلوچستان کے صوبائی ذمہ دار (شعبہ رابطہ برائے شخصیات)کی ملاقات ہوئی۔

دورانِ ملاقات صوبائی ذمہ دار نے شخصیات کو ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت دی نیز دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے چند اہم نکات پر گفتگو کی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

پڑوسیوں کے حقوق کی پہچان ایک انسانیت اور ایمانی ذمہ داری کی نمایاں علامت ہے۔اسلامی تعلیمات میں پڑوسی کے حقوق کے علاوہ ان کی محبت، احترام، خوش آمدید اور مدد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ پڑوسی کی مشکلات اور پریشانیوں میں مدد کرنا اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا، اسلامی تعلیمات کے تناظر میں دینی ذمہ داری کی علامت ہے۔اسلامی تعلیمات میں پڑوسیوں کے حقوق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے تاکہ رشتوں میں محبت، احترام، اور تعاون کی بنیادیں مضبوطی سے قائم رہ سکیں۔ لہذا ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں اور ان کے حقوق ادا کریں، ہمیں ان حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ ویسے تو پڑوسیوں کے حقوق بہت ہیں لیکن ان میں سے چند زینت قرطاس کئے جا رہے ہیں لہذا توجہ سے پڑھئے:

(1)مدد و اعانت: پڑوسیوں کا سب پہلا حق تو یہ ہے کہ پڑوسی کی مدد اور اعانت کرنا کہ یہ ایک انسانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر پڑوسی کو مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا ہو، تو ہمارا دینی فرض ہوتا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان کے لئے دعا کریں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسولﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں فرمایا جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد3 ،حدیث :1936 )

(2) بڑھاپے میں دیکھ بھال: بڑھاپے میں پڑوسی کی دیکھ بھال کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ان کے ساتھ احترام سے پیش آکر، ان کے لئے آسانیوں کی فراہمی کرنا اور ان کے لئے زندگی کو آسان سے بنانے میں مدد کرنا، دینی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔

(3) پریشانیوں میں مدد: اگر پڑوسی کو کسی قسم کی مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا ہو، تو ان کی مدد کرنا ایک دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مؤمن وہ نہیں جو خود سیر ہو جائے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد6 ، حدیث :4991 )

(4) محبت اور احترام: پڑوسی کے ساتھ احترام سے پیش آنا اور ان کے حقوق کا خصوصی خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہئے۔ ان کی خوش آمدید کرنا اور ان کے لئے خوشیوں کا باعث بننا، ان کے دلوں کو جیتنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد4، حدیث: 2964 )

(5) حسن سلوک :پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا ۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ہر مصیبت میں ان کی مدد و اعانت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاکٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُسے اچھے برے کی تمیز سکھائی اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے قرآن اور حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی ذات کو مشعل راہ بنایا ہے ۔ تاکہ انسان اپنے عبادت اور معاملات میں ان سے رہنمائی لے کر درست طریقہ سے اُن کی ادائیگی کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائیں۔ اس وجہ سے حضور صلی لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جسے یہ پسند ہو کہ اللہ رسول سے محبت کرے یا اُس سے اللہ اور رسول محبت کریں تو جب وہ بات کرے تو سچی کرے جب امین بنایا جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کا پڑوس اچھا نبھائے چونکہ یہ تین کام درستی معاملات کی جڑ ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا کہ جو مسلمان معاملات درست کرے گا اس کیلئے عبادات کو درست کرنا بھی آسان ہوگا اور معاملات میں اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک بڑی ہی اہم چیز ہے، ہمارے پڑوسیوں کے ہم پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہم پر لازم ہوتا ہے۔ اُن میں چند حقوق یہ ہیں :

(1) سب سے بڑا حق پڑوس کا کا یہ ہے کہ مناب موقع ملتے ہی اللہ و رسول کی تعلیمات سے روشناس کیا جائے ، نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کرتے وقت اپنے پڑوس کو بھی نیکی کی دعوت دی جائے۔

(2) پڑوسیوں کا ایک حق ہے ہم پر یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر خوشی و غم کے موقع پر اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور حسب استطاعت ان مواقع پر کچھ نہ کچھ مالی امداد بھی کی جائے۔

(3) کچھ پڑوسی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سفید پوش ہوتے ہیں اپنے دکھ درد ظاہر نہیں کرتے لیکن بحیثیت پڑوس ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم حکمت عمل سے ان کی خیرو و عافیت اور پریشانیوں وغیرہ کا معلوم کر کے ان کی مدد کریں۔

(4) پڑسویں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گھروں اور محلہ میں اتنی بلند آواز سے ساؤنڈ سسٹم وغیرہ نہ لگائیں اور ان تمام لہو و لعب کی حرکات سے اجتناب کریں جن سے ہمارے پڑوسی کو تکلیف پہنچے ۔

(5) پڑوس میں اگر کوئی یتیم ہو تو ہمارا حق ہے کہ ہر حوالے سے ان کی مدد کریں

(6) ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم موقع ملتے ہیں اپنے پڑوس کے بچوں کی اچھی تربیت کریں اور انہیں ادب سکھائیں۔

(7) کچھ کچھ عرصہ بعد اپنے پڑوس میں تحائف وغیرہ بھی بھیجتے رہیں تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو جائے۔

(8) ایک حق یہ بھی ہے کہ جس چیز کو ہم اپنے لیے اچھا جانتے ہیں اپنے پڑوسی کیلئے بھی انہی چیزوں کو اچھا جانیں ۔

(9) پڑوسی کا ایک حق یہ ہے کہ کسی دوسرے کے سامنے اپنے پڑوس کی خامیاں ذکر نہ کریں بلکہ اچھے الفاظ میں تذکرہ کریں

(10) پڑوس کا ایک حق ہم پر یہ بھی ہے کہ پڑوسی کی غیر موجودگی میں ہم اُن کے جان و مال کی ایسی ہی حفاظت کریں جس طرح اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کے مذکورہ حقوق کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ارشاد فرمائے ہیں:1۔ جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرو 2۔ اگر معمولی قرض مانگے دے دو3۔اگر وہ غریب ہو تو اسکا خیال رکھو۔ 4۔وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرو5۔اگر وہ مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ۔ 6۔ اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو 7۔اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شرکت کرو 8۔اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اسکی ہوا روک دو مگر اسکی اجازت سے۔ 9۔ گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ بھیجتے رہو ، نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمھارے بچے اسکے بچوں کے سامنے نہ کھائیں۔

10- اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو 11۔اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اسکی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میری جان ہے۔ پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے (مرقات) کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہیے۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قراٰنِ کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا۔ بہر حال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگتے رہا کریں۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد ششم باب دعوت کا بیان ، صفحہ نمبر52) 


ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں ، دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی یشانیاں اور مشقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے اسلام نے ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک ، ہمدردی ،ا خوت ،پیار و محبت اور امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں ر ہنے والے دیگر لوگوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ جان ومال اور اہل وعیال کی حفاظت کا درس دیا اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کی جان ومال ، عزت و آبرو اہل وعیال کا حافظ ہوگا ۔

حدیث : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خدا کی قسم ! وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی: کون یا رسول الله ؟ فرمایا: جس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں ( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتا ہے)۔ (صحیح بخاری کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ، الحدیث : 4014 ، ج4، ص 104 )

اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)

اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے” پڑوس “ میں بچے بھوک وپیاس سے بلبلاتے ہوں، چنانچہ فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں ۔ (معجم کبیر ، ج12،ص 19 1)

پڑوسیوں سے حسن سلوک تکمیل ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا ، بدسلوکی کے ذریعے ان زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا وآخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آہ و سلم کو تکلیف پہنانے کے مترادف ہے جیسا کہ بنی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (مسلم، ص 43 ، حدیث: 73)

معاشرے کے پُر سکون سکون اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے پڑوسیوں احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت وآبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے۔


﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو انکا ہم پر بہت بڑاحق ہے۔ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔

(1) رزق میں وسعت: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے رسول اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری ، کتاب البیوع ، 2/10،حدیث:2067)

(2) پڑوسی کی وراثت : اُمِّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہو کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے (صحیح بخاری )

(3) پڑوسی کا ہاتھ ہمارا گریبان : رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے جو قیامت کے دن اپنے پڑوسی سے (حقوق کے سلسلے میں)جھگڑتے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے: اے میرے رب ! اس سے پوچھیئے کہ اس نے اپنا دروازہ مجھ پر کیوں بند کر دیا تھا، اور اپنے فضل (ضرورت سے زائد اشیاء اور حسن سلوک ) مجھ سے کیوں محروم رکھا۔ ( صحیح ادب المفرد ،ص111)

(4) بکری کا کھر : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث: 6017)

(5) جھگڑا مت کرو: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑ امت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔( کنز العمال ،جز:9،ج5،ص79،حدیث:25599)

انسان کا اپنے والدین، اولاد کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق پڑسیوں سے ہی ہوتا ہے اور ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پرحق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچاتی جائے۔رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فر ماتے ہیں : چاروں طرف (دائیں بائیں آگے پیچھے) چالیس گھر انسان کے پڑوسی شمار ہوتے ہیں۔ انتہیٰ پڑوسیوں کا حق تو یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، سکی دین و دنیا کی درستگی میں رہنمائی کرو ، ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا دنیاو آخرت کا سرمایہ ہے۔

اللہ تبارک وتعالی مجھے ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق کو اسلام کے دائرہ کار میں رہ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


اس فانی دنیا میں خالق حقیقی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اس کے ذمہ کئی ایک کام بھی ہیں کہ جو انسان کو پورا کرنے چاہئیں اُنہی کاموں میں سے ایک کام انسان کے اوپر یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق کو پورا کرے اب اس میں بھی کئی ایک حقوق ہیں مثلاً: والدین کے حقوق ، اساتذہ کرام کے حقوق وغیرہ مگر ہمارا جو اصل ٹاپک (topic) ہے وہ ہے " پڑوسیوں کے حقوق اس سے متعلق ، مختصر کے معلومات درج ذیل ہے :

حق پڑوس ہے کیا ؟: حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے! حق پڑوسی صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے اور اسی طرح حسن اخلاق سے پیش آنا بھی پڑوسیوں کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اس مذکورہ آیت مقدسہ میں جو پڑوسی کا ذکر ہے قریب کے یادور کے تو اسکی مختصر وضاحت درج ذیل ہے : رشتہ دار پڑوسی: یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتہ دار بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے ۔ اجنبی پڑوسی: اِس سے مراد وہ ہمسایہ ہے جو رشتہ دار نہیں ہے صرف اسکا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی : جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ دفتر، فیکٹری یا کسی ادارے میں اسکول و کالج میں پڑھنے والے طلبہ ، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ۔

40 گھروں پر خرچ کیا کرتے :حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے 40۔ 40 گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے، عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر 100 غلام آزاد کیا کرتے تھے ۔ ( المستطرف ،1/ 276)

پڑوسیوں کے عام حقوق :پڑوسیوں کے کئی ایک حقوق ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حجۃ الاسلام حضرت سید امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالی پڑوسیوں کے حقوق بیان فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کریں، ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کریں۔ جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کریں۔ ان کی خوشی میں شرکت کریں، اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھر میں مت جھانکیں وغیرہ۔ (احیاء العلوم، 2/772)

اور جب آپ اپنے گھر والوں کیلئے کچھ پھل وغیرہ لائیں اور آپ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ آپ اپنے پڑوسی کیلئے بھی پھل وغیرہ لیں تو آپ کو چاہیے کہ پھل کے چھلکوں کو گلی میں نہ پھینکیں (یہ تو ویسے بھی اچھی بات نہیں) اور پھر اگر آپ کے پڑوسی نے اسکو دیکھا اور اسکے پاس گنجائش نہ ہوئی لینے کی تو اس کو تکلیف ہوگی ۔ پہلے سے آپ کی نیت نہ تھی تکلیف دینے پر اس کو ہوئی تو اس سے بھی اجتناب کریں

اس مذکور مکمل مضمون میں ہم نے کیا کیا سیکھا وہ سب چیزیں درج ذیل ہیں اس میں ہم نے سیکھا پڑوسی کا حق آخر ہے کیا قراٰنِ پاک کی آیت سے رشتہ دار ، اجنبی پڑوسی وغیرہ کا فرق معلوم ہوا وہ پڑوسیوں پر خرچ کرنے کی فضیلت، پڑوسیوں کے حقوق ۔ جو مذکورہ باتیں لکھی گئی ہیں مضمون میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر خُلوص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اگر کچھ غلطی کو تاہی ہو گئی ہو تو اسے بھی اللہ پاک معاف فرمائے ۔امین 


ہر انسان کا روز مرہ کے مختلف میں افراد کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ، ان میں سے ایک پڑوسی بھی ہے ، پڑوسی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لیے اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دیگر بزرگان دین کی سیرت سے پتا چلتا ہے کہ ان کا اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک دیکھ کر غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے۔ہمیں بھی چاہئے کہ پڑوسیوں کی خوشی غمی کا احساس کریں اور اس میں شمولیت اختیار کریں، پڑوسیوں کے چند حقوق لکھے جا رہے ہیں پڑھئے:

(1) پڑوسی کے ہدیہ کو حقیر نہ جانو: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث: 6017)

(2) پڑوسی کی دیوار میں لکڑی لگانا: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویت ہے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی لگانے سے منع نہ کرے راوی فرماتے ہیں: کیا بات ہے میں تمہیں اس بات سے اعراض کرتے دیکھ رہا خدا کی قسم اس حدیث کو تمہارے کندھوں کے درمیان رکھ دوں گا(یعنی تمہارے سامنے اعلانیہ بیان کرتا رہوں گا)۔ (بخاری، کتاب المظالم، 2/132،حدیث:3463)

(3) پڑوسی کو اذیت نہ دو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہم نے ارشاد فرمایا: جو الله پاک اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے ۔ وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جو الله پاک اور یوم آخرت. پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ اچھی با ت کہے یا خاموش رہے ۔ (مسلم، کتاب الحث على اکرام الجار ، ص 43، حدیث:47)

(4) قریبی پڑوسی کا زیادہ حق ہے: حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: میں نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دونوں میں سے جس کا دروازہ تجھ سے کریں ہے۔ (بخاری،12/174، حدیث:2595)

15 پرومیوں کے لئے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ :حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفر مایا ابوذ رجب تم شوربہ پکاؤ تو پانی زیادہ رکھو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور ایک روایت انہی سے مروی ہے فرماتے ہیں:بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت کی کہ جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے ساتھ کچھ دے دو۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب الوصیۃ ، صفحہ 1413 ،حدیث:2625 15)اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


پڑوسیوں کے اسلام میں بہت زیادہ حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ پڑسیوں کی بڑی اہمیت ہے، روزانہ جن لوگوں کے ساتھ انسان کا تعلق ہوتا ہے ان میں سے ایک پڑوسی بھی ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے، خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے اس کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرے وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کرے ۔ وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ، اس کی عزت آبرو کی حفاظت کرے۔

(1) پڑوسی کو اذیت نہ دینا :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے ، جو اللہ عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے ۔ جو الله عز و دل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خا موش رہے ۔ (مسلم کتاب ،الایمان باب الحث علی اکرام الجارو الضيف )

(2) پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرنا چاہیے: حضرت سیدنا ابو شریح خزائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے۔ جو الله پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ (مسلم ، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الضیف ، حدیث :48)

(3) پڑوسی کی حفاظت کرنی چاہیے: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ! اوہ مؤمن نہیں خدا کی قسم ! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون ؟ ارشاد فرمایا : وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں اور مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ (مسلم، کتاب الایمان)

(4) پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بنانا چاہیے: حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفر مایا ابوذ رجب تم شوربہ پکاؤ تو پانی زیادہ رکھو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور ایک روایت انہی سے مروی ہے فرماتے ہیں:بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت کی کہ جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے ساتھ کچھ دے دو۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب الوصیۃ ، صفحہ 1413 ،حدیث:2625 15)

قریبی پڑوسی کا حق زیادہ ہے : حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: میں نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دونوں میں سے جس کا دروازہ تجھ سے کریں ہے۔ (بخاری،12/174، حدیث:2595)