دعوتِ اسلامی کے شعبہ فیضانِ اسلام کے تحت 7اکتوبر2021ءبروزجمعرات ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے دینی کاموں کے سلسلے میں ملتان ریجن کے زون احمد پور شرقیہ کا دروہ کیا۔

اس موقع پر پاکستان سطح کےنگران ِشعبہ فیضان اسلام محمد نعمان عطاری نے نگرانِ کابینہ کے ہمراہ نیو مسلم سے ملاقات کی اور اُن کی تربیت کرتے ہوئے فیضان نماز کورس میں داخلہ لینےکی دعوت پیش کی جس پر نیو مسلم نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: محمد فرمان عطاری شعبہ فیضان اسلام ملتان ریجن ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں ميڈیا ڈیپارٹمنٹ (دعوت اسلامی) نواب شاہ کے ذمہ دارنے پریس کلب دوڑ کا وزٹ کیا جس میں کابینہ ذمہ دار قاری محمد راشد عطاری نے پریس کلب دوڑ کے صدر غلام محمد سیال ،سینئر صحافی فقیرمحبوب علی ، منظور علی بروہی سندھ (Tv)اوربابر علی وسان ( ٹائم نیوز ) سمیت دیگراسلامی بھائیوں سے ملاقات کی۔

ا س موقع پر ذمہ داراسلامی بھائی نے دینی حلقے کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے صحافیوں کو نیکی کی دعوت پیش کرتے ہوئے سرکارﷺْکی اخلاق کریمہ کے متعلق بتایا، ذمہ دار اسلامی بھائی کا مزید کہنا تھا کہ آقا کریم ﷺ کا حُسنِ اخلاق ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، روزمرہ کی زندگی میں ہمارا واسطہ معاشرے میں ہر طبقے کے لوگوں سے پڑتا ہے ،ہم اپنے اچھے اخلاق کی بدولت لوگوں کا دل جیت سکتے ہیں جبکہ ہمارا دین بھی ہمیں لوگوں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے۔

بعدازاں ذمہ دار نے صحافیوں کو دعوتِ اسلامی کی زیرِ نگرانی منعقد ہونے والےہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع اور مدنی مذاکرے میں شرکت کرنےکی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: قاری محمد راشد عطاری ذمہ دار میڈیا ڈیپارٹمنٹ نواب شاہ کابینہ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے میڈیاڈیپارٹمنٹ تحت 7اکتوبر2021ءبروزجمعرات ملتان میں رکنِ شعبہ و رکنِ ملتان زون محمد ریاض عطاری نے دیگر ذمہ داران  کے ہمراہ نیوز ون کے بیورو آفس کادورہ کیا جہاں انہوں نے بیو روچیف جنید ملک ، رپورٹر انجم پتافی اور کیمرہ مین طارق چودھری سے ملاقات کی۔

اس دوران ذمہ داران نے 12ربیع الاول کے موقع پر انہیں نیوز ون بیورو آفس میں اجتماعِ میلاد کروانے کا ذہن دیاجس پر انہوں نے اپنے آفس میں اجتماعِ میلاد کروانے کی نیت کا اظہار کیا،آخر میں مکتبۃ المدینہ کارسالہ انہیں تحفے میں پیش کیا گیا۔

دوسری جانب ذمہ داران نے اب تک نیوزچینل کے رپورٹر حسان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات بیان کی اور مدنی قافلے میں سفر کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اظہار مسرت کیا۔ (رپورٹ: اسرار عطاری میڈیا ڈیپارٹمنٹ آفس ذمہ دار ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


معروف اداکار عمر شریف کے بیٹے جواد عمر کی 09 اکتوبر 2021ء کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی آمد ہوئی۔ اس دوران نگرانِ مرکزی مجلسِ شوریٰ (دعوتِ اسلامی) مولانا حاجی عمران عطاری اور ترجمان دعوتِ اسلامی مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری نے ان سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران جواد عمر کا کہنا تھا کہ دعوتِ اسلامی کی ٹیم نے جس طرح میرے والد مرحوم کی آخری رسومات کی ادائیگی میں تعاون کیا ہے اور بڑھ چڑھ خدمات انجام دی ہیں اس پر شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں،میں تہہ دل سے دعوتِ اسلامی کی ٹیم کا شکرگزار ہوں۔

نگرانِ شوریٰ نے جواد احمد کو عالمی مدنی مرکز کراچی میں ہونے والے بارہویں شب کے مرکزی اجتماعِ پاک میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر جواد احمد نے بارہویں رات فیضانِ مدینہ میں منانے کی نیت کا اظہار کیا۔

اس کے بعد نگرانِ شعبہ رابطہ برائے شوبز سید عارف الحسن عطاری نے جواد احمد کو مدنی چینل کے بیورو کا وزٹ کروایا اور دعوتِ اسلامی کی خدمات سے آگاہی فراہم کی۔ اس موقع پر دعوتِ اسلامی کے فلاحی ڈیپارٹمنٹ FGRF کے نگران محمد شفاعت علی عطاری بھی موجود تھے۔

واضح رہے کہ عمر شریف کا 2 اکتوبر 2021ء کو جرمنی کے نورنبرگ کے ایک ہسپتال میں 61 سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا، مرحوم کی نمازِ جنازہ مولانا بشیر فاروقی صاحب نے پڑھائی جبکہ تدفین مزار مبارک حضرت سیدنا عبداللہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے احاطے میں کی گئی۔مرحوم کا سوئم(تیجہ) 08 اکتوبر کو گلشن اقبال میں ہوا تھا جس میں ترجمان دعوتِ اسلامی مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا تھا۔


حضرت لوط علیہ السلام کو منصبِ نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اُردن کے مشرق اور فلسطین کے درمیان بحرِ مردار کے کنارے جنوبی حصّے میں سرسبز و شاداب علاقے تھے۔ یہ علاقے سُدوم اور عمورہ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان علاقوں میں پانی وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے زمین زرخیز تھی۔ کھیتی باڑی بھی خوب ہوتی تھی۔ ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی۔ یہاں کے لوگوں کو زندگی کی تمام تر آسائشیں حاصل تھیں۔انسان کے اَزلی و ابدی دشمن شیطان نے انہیں گمراہ کرنے کا یہ ’’بہترین موقع‘‘ ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ابلیس نے اس خوشحالی اور آسائش کی زندگی کو ان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔جس  کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بستیوں کے مکین اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنے زور بازو پر مَحمول کرنے لگے اور عطائے خداوندی کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ رب کائنات کا خوف اور خشیت جب ان کا مقصود نہ رہا تو وہ غرور و تکبر سے بدمست ہو گئے اور یہی وہ غرور و تکبر تھا جس نے عزازیل جیسے عبادت گزار کو تا قیام قیامت شیطانیت کے وصف سے موسوم کر دیا اور اس کی تباہی کا موجب بن گیا۔ تکبر نے ہی عزازیل کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا۔ اسی غرور کی بنا پہ اہل سدوم ان وادیوں کی سرسبزی اور شادابی کو اپنی ملکیت مانتے تھے اور دوسرے علاقوں کے باشندوں کا ان نعمتوں سے مستفید ہونا گواراہ نہیں کرتے تھے ۔

اسی طرح ان کی ایک اور بڑی نافرمانی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے قدرت کا مقرر کردہ طریقہ کار چھوڑ کر عورتوں کے بجائے مردوں اور لڑکوں سے اختلاط رکھنا اس قوم کا دستور بن گیا۔ سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی ۔اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے خباثت اور بے حیائی کی انتہا یہ تھی کہ عوام الناس سے لے کر قوم کے سردار اور حاکم تک اس عمل بد کو عیب نہیں گردانتے تھے بلکہ علی الاعلان فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے تھے اور محفلوں میں ناپسندیدہ حرکات بیان کرتے تھے حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھانا اور اس فعل بد سے منع کرنا شروع کر دیا مگر یہ سرکش قوم اپنے بیہودہ افعال سے باز نہ آئی۔

اس قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کی گستاخی بھی کی حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں پر دروازہ بند کر لیا۔ پس وہ آئے اور انہوں نے دروازہ توڑا اور اندر داخل ہوگئے۔

اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت کا یہ تربیتی پروگرام قوم پر نہایت شاق گزرا۔ وہ حضرت لُوط علیہ السلام سے متنفّر رہنے لگے اور ان کی سبق آموز باتوں کواپنی عیاشی کی زندگی کے لئے ایک رکاوٹ تصور کرنے لگے۔اورنوع انسانی کا یہ سرکش گروہ نافرمانی و بے حیائی اور اخلاق سوز افعال پر مُصر رہا۔جس بنا پر ان پر عذاب الہی مسلط ہوا۔


ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین!

انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے۔انہی میں سے ایک شخصیت حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہاران بن تارخ کے فرزند تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بابل سے ارضِ مقدس کی طرف ہجرت فرمائی۔ ابتدا میں اردن میں سکونت اختیار کی پھر اللہ نے انہیں سدوم اور اس کے قریب موجود دیگر بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا یہاں کے باشندے طرح طرح کے گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ اپنے وقت کے بد ترین گناہوں، بری عادات اور قابل نفرت افعال میں مبتلا تھی، یہاں ان کے اعمال و افعال کی فہرست ملاحظہ کیجئے۔

(1)کفر و شرک کرنا

(2) حضرت لوط علیہ سلام کی

(3)تکذیب کرنا

(4)واجب حقوق کی ادائیگی میں بخل کرنا

(5)صدقہ نہ دینا

(6)مسافروں کی حق تلفی کرنا

(7)بات بات پر گالیاں دینا

(8)تالیاں اور سیٹیاں بجانا

(9)ریشمی لباس پہننا

(10)مونچھیں بڑی رکھنا اور داڑھیاں تراش دینا

(11)ایک دوسرے کا مذاق اڑانا

12 گانے باجے کے آلات بجانا

(13)شراب پینا

(14)مردوں اور نوجوان لڑکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کرنا

(15)لوگوں کے سامنے پورا برہنہ (ننگا) ہو جانا وغیرھم

مذکورہ بالا اعمال کی فہرست کو سامنے رکھتے ہوئے ہم عالمی سطح پر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو قومِ لوط کے اعمال میں سے شاید ہی کوئی ایسا عمل ہے جو فی زمانہ لوگوں میں نہ پایا جاتا ہو بلکہ ان سے بہت زیادہ گندے اعمال میں زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا نظر آتے ہیں اور انتہائی افسوس کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایک تعداد بھی ان اعمال میں مبتلا نظر آتی ہے ۔

(ماخوذ سیرت الانبیا )

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرتِ لوط علیہ السلام حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔اللہ تعالٰی نے آپ کو اہلِ سدوم کی طرف مبعوث فرمایا ۔ (صراط الجنان ،3/362 )

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم انتہائی نافرمان اور بے ہودہ قوم تھی اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی شرک تھی ۔ یہ قوم حضرتِ لوط علیہ السلام کو جھٹلاتی اور عذاب کی وعیدات سے نہ ڈرتی اور ہدایت حاصل نہ کرتی تھی ۔ (صراط الجنان ، 7/147)

شرک کے بعد اس قوم کا سب سے قبیح اور ذلیل فعل جو ان سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا تھا کہ یہ قوم حلال طیب عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بد فعلی جیسے حرام اور خبیث چیز میں مبتلا تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بھی بد فعلی کرتے تھے حتّٰی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کردیا ۔ (صراط ا لجنان ، 7/369)

حضرتِ لوط علیہ السلام کی قوم بد فعلی کے علاوہ ایسے ذلیل افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عرفی دونوں طرح قبیح اور ممنوع تھے ، جیسے راہ گیروں کو قتل کر کے ان کا مال لوٹ کر لوگوں کا راستہ کاٹتے اور اپنی مجلسوں میں برے کام اور بری باتیں کرتے ، گالیاں دیتے ، فحش بکتے ، تالی اور سیٹیاں بجاتے ، ایک دوسرے پر کنکری وغیرہ پھینکتے ، شراب پیتے ، مذاق اُڑاتے ، گندی باتیں کرتے اور ایک دوسرے پر تھوکتے تھے ۔(صراط الجنان ،7/370)

حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کو ان قبیح و ذلیل حرکات سے منع فرمایا اور نصیحت کی تو اس قوم نے جواباً دھمکی دی کہ اگر تم ہمیں روکنے سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اس شہر سے نکال دیں گے ۔ (صراط الجنان ،7/147)

جب اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی امید باقی نہ رہی تو حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے عذاب نازل کرنے والی وعید کو پورا کرنے کے لیے دعا فرمائی۔(صراط الجنان ،7/370)

اوراللہ تعالٰی نے قومِ لوط کو دردناک عذاب میں مبتلا کیا کہ پہلے اس بستی کو آسمان کی طرف اٹھا کر زمین پر دے مارا پھر آسمان سے پتھر یا گندھک اور آگ کی بارش برسائی ۔

(صراط الجنان ،7/148)

اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پکڑ سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


امام ابو القاسم علی بن حسن بن عساکر لکھتے ہیں :۔

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ علیہ السلام کا نام لوط بن ھاران تھا اور ھاران یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی تھے اس نسبت سے آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہوئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ارض مقدسہ کی طرف بھیجا گیا اور حضرت لوط علیہ السلام کو چار شہروں کی طرف بھیجا گیا سدوم، اموراء، عاموراء، صبویراء، ان کی آبادی کا مجموعہ چار لاکھ تھا اور ان میں سب سے بڑا شہر سدوم تھا حضرت لوط علیہ السلام اسی میں رہتے تھے یہ شام کے شہرں میں سے ہے اور فلسطین سے ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر واقع ہے اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو مہلت دی تھی انہوں نے اسلامی شرم و حیاء کے حجاب چاک کر دیئےاور بہت بڑی بے حیائی کا ارتکاب کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے درازگوش پر سوار ہو کر قوم لوط کے شہروں میں جاتے اور ان کو نصیحت کرتے وہ لوگ ان کی نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔

وہ سب سے بڑی بے حیائی لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا اسی پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کیلئے مردوں کے پاس جاتے ہو یقیناً تم حد سے گز چکے ہو۔

لواطت کو لواطت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بد فعلی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں پائی گئی تھی تو اس نسبت سے اس کا لواطت رکھ دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قوم لوط کو دس عادتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا اور میری امت میں اس سے ایک عادت زیادہ ہوگی ان کے مرد ہم جنس پرست تھے، وہ غلیل سے شکار کرتے تھے ،حمام میں کھیلتے تھے ، کنکریاں مارتے تھے، دف بجاتے تھے، شراب پیتے تھے، داڑھی کٹاتے تھے، اور مونچھیں لمبی رکھتے تھے، سیٹی بجاتے تھے، اور تالیاں پیٹتے تھے، ریشم پہنتے تھے اور میری امت میں ان سے ایک عادت زیادہ ہوگی کہ عورتیں عورتوں سے جنسی خواہش پوری کریں گی ۔( کنزالعمال 10314مختصرتاریخ دمشق جلد 21صفحہ 236.تا241)

اللہ تعالیٰ قوم لوط کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم برھان رشید پارہ 8 سورۃ الاعراف میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان : تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزرگئے ۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں قوم لوط کے عمل کے بارے میں مذمت :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن لوگوں کو تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ تو فاعل ( فعل کو کرنے والے ) اور مفعول بہ (جس کے ساتھ کیا گیا ہو) دونوں کو قتل کر دو۔

(سنن ابو داؤد؛ رقم الحدیث :4462 شعب الایمان ؛رقم الحدیث :5836)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے ۔

(سنن الترمذی؛ رقم الحدیث : 1461)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ عزوجل اس مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا جو مرد سے جنسی خواہش پوری کرے یا عورت سے عمل معکوس کرے ۔(سنن الترمذی؛ رقم الحدیث :1168)

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین


دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی ۔وہ حضرت سیدنا  لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم ہے۔ امرد حسین یعنی خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی جانب نہیں مائل کیا یہاں تک کہ گندہ کام کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اس کا ان کو ایسا چسکا لگا کہ اس برے کام کے عادی ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔( مکاشفۃ القلوب ،ص 76)

سیدنا لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے سمجھایا :حضرت سیدنا لوط علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے ان لوگوں کو اس فعل بد سے منع کرتے ہوئے جو بیان فرمایا اس کو پارہ 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 80 اور 81 میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا۔ ترجمہ کنز الایمان : اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔

حضرت سیدنا لوط علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل بیان عافیت نشان کو سن کر بے حیا قوم نے بجائے سر تسلیم خم کرنے کے جو بے باکانہ جواب دیا اسے پارہ 8 سورۃ الأعراف آیت نمبر 82 میں ان لفظوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے: ترجمہ کنز الایمان اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

پتھر نے پیچھا کیا:حضرتِ سیِّدُنالوطعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم کا ایک تاجِر اُس وَقت کاروباری طور پر مکّۃُالمکرَّمہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا آیا ہوا تھا، اُس کے نام کا پتھر وَہیں   پَہُنچ گیا مگر فِرشتوں   نے یہ کہہ کر روک لیا کہ یہاللہ عَزَّوَجَلَّ کا حرم ہے۔ چُنانچِہ وہ پتھر40 دن تک حرم کے باہَر زمین و آسمان کے درمیان مُعَلّق ( یعنی لٹکارہا جُوں   ہی وہ تاجِر فارِغ ہوکر مکّۃُالمکرَّمہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًاسے نکل کر حرم سے باہَرہواکہ وہ پتھر اُس پر گر ا اوروہ وَہیں   ہلاک ہوگیا۔( مُکاشَفۃ الْقُلوب ص 76ماخوذاً(

بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا ۔

(عجائب القرآن)


حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بھتیجے تھے ۔اللہ پاک نے آپ علیہ سلام کو  سدوم اور اس کے قریب موجود بستیوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ کی قوم طرح طرح کے گناہوں میں پڑی تھی ۔جن میں سے دس یہ ہیں:۔

1) کفر و شرک

2) واجب حقوق کو پورا نہ کرنے میں کمی

3) مسافروں کی حق تلفی

4)ان سے زبردستی بد فعلی کرنا

5)کبوتر بازی

6)تالیاں، سیٹیا بجانا

7)مجلسوں میں فحش باتیں کرنا

8)خوبصورت لڑکوں کو شہوت کی تسکین کے لیے دیکھنا ،ہاتھ ملانا

9)مردوں کا مردوں کے ساتھ اور اور عورتوں کا آپس میں بد فعلی کرنا

10)بد فعلی نہ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا

ان میں موجود برے کاموں میں سے غیر شرعی ،غیر فطری اور غیر طبعی کام بد فعلی ہے۔ جس کو شروع کرنے والی یہی قوم ہے۔ اسی وجہ سے اس کام کو لواطت کہتے ہیں۔

آپ نے اپنی قوم کو اس برے کام پر تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا :کیا مخلوق میں تم ہی اس حرام اور خبیث کام کے لیے رہ گئے ہو؟ مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہو اور ان عورتوں کو چھوڑ بیٹھے ہوجنہیں اللہ پاک نے تمہاری بیویاں بنایا۔ تم اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھ گئے ہو۔ اس راستے پر چل کر میری اطاعت کرو جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں۔ اس قوم نے آپ کی ایک نہ مانی اور حضرت لوط علیہ سلام کی مخالفت پر اتر آئی۔ ان لوگوں نے آپ علیہ سلام کو دھمکی دی کہ تم اس کام کو برا کہنے سے باز نہ آئے تو ہم ضرور اس شہر سے نکال دیں گے۔ آپ علیہ سلام نے اپنی قوم کو عذاب الہی سے ڈرایا، ان سے قوم نے کہا :اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اس فعل کے کرنے پر عذاب نازل ہوگا تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ ان کے اصرار کرنے پر رب کا عذاب نازل ہوا ۔حضرت لوط علیہ سلام ایمان والوں کو لے کر بستی سے نکل گئے جن بستیوں میں یہ قوم آباد تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے نیچے اپنا بازو ڈالا ۔ان بستیوں کو اونچا اٹھایا ۔پھر اس بلندی سے ان کو اندھا کر دیا ۔اس کے بعد پتھر برسا کر انہیں ہلاک کر دیا۔ رب تعالی نے انہیں بعد میں آنے والی امتوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔

آج اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو بہت سے لوگ اس کام میں لگے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے ممالک نے اس حرام کام کو قانونا جائز قرار دیا ہے۔ شرم و حیا کا قتل گلی گلی نظر آتا ہے ۔اس فعل کے عادی بہت سے لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے ایک مہلک مرض ایڈز (AIDS)ہے۔کروڑوں لوگ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ اس کام سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کریں۔

اس برے کام سے بچنے کے چند طریقے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:۔

1) اللہ پاک سے دعا کرنا

2) یہ تصور قائم کرنا کہ اللہ دیکھ رہا ہے

3) اچھے کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کرنا تاکہ ان کاموں کی طرف توجہ نہ جائے

4) اچھی صحبت اپنانا۔

اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


 ہدایت انسانی کے لیے اللہ تعالٰی نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار(124000) پیغمبر مبعوث فرمائے۔انہیں میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام ہیں۔ جو شہر سدوم کے لوگوں کی ہدایت کرنے کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ۔

شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد تھیں اور یہاں پر طرح طرح کے پھل اور میوے بکثرت پائے جاتے تھے۔ لوگ ان کے پاس مہمان بن کر آتے اور ان لوگوں کو مہمان نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا ۔اس شہر کے لوگ مہمانوں کی بکثرت آمد کی وجہ سے تنگ آگئے اور شیطان نے ان لوگوں کو مشورہ دیا ۔"کوئی مہمان آئے تو تم لوگ اس کے ساتھ زبردستی سے بدفعلی کیا کرو"۔ ان لوگوں کو اس بدفعلی کی کی ایسی لذت پڑی کہ ان لوگوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنے لگے ۔

حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو فعل بد سے منع کرتے ہوئے فرمایا :۔

ترجمہ کنزالایمان :اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر ،بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔

(پ8،سورۃ الاعراف 80، 81)

حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کہا :

ترجمہ کنزالایمان :اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں ۔(پ8، الاعراف 82)

جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفالی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالی کا عذاب آ گیا چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے اتر پڑے اور پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو الٹ کر رکھ دیا ۔

اس قوم نے جو نافرمانیاں کی تھی ان میں سے کچھ یہ ہیں :

(1) اللہ تعالی کے نبیوں کو جھٹلایا

(2) حضرت لوط علیہ السلام کی بےادبی و گستاخیاں کی

(3)لواطت کرتے تھے۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی بے ادبی وغیرہ سے محفوظ فرمائے ۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


رب تعالیٰ نے انسان اور جنوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔اور یہی انسان کا مقصد حیات ہے اور اس مقصد حیات کی تکمیل کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو ہدایت کے واسطے بھیجا تاکہ بھٹکی انسان ان اعلیٰ صفت انسانوں کے ذریعے اپنے خالق حقیقی کو پہچانے اور ان کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم( جو کہ اللہ کے آخری نبی ہیں) تک چلتا رہا ہے ۔ان  نفوس قدسیہ نے تبلیغ دین کا کام کماحقہ (جیسا کہ حق تھا ) ادا کیا ۔ لیکن جہاں میں خوش بخت لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ۔وہی کچھ بدبخت قومیں بھی تھیں جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور جہاں ابدی عذاب کے مستحق ہوئے وہاں رب عزوجل نے دنیا میں بھی ان کی پکڑ فرمائی ۔انہی بدبخت قوموں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیٰ نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کی بھی تھیں ۔جن کا ذکر رب تعالیٰ نے اپنے کلام میں تقریبا ً سولہ بار فرمایا ۔اب اس قوم کے کچھ نافرما نیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔

حضرت لوط کی قوم بے حیائی کے اعلیٰ درجے پر فائز تھی کیونکہ وہ حلال عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے شہوت کو پورا کیا کرتے یعنی ان سے بدفعلی کرتے تھے ان کے اس فعل کا ذکر قرآن عظیم میں کم وبیش دس سے زائد مرتبہ آیا ہے ۔

اس کے ساتھ قوم لوط رسول کو بھی جھٹلاتی تھی۔ ان کے تمام افعال بد کا صلہ ان کو یوں ملا کہ ان پر آسمان سے پتھراؤ کیا گیا اور پھر پتھر پر اس کے مرنے والا کا نام درج تھا ۔

ہمیں اللہ پاک سے ڈر جانا چاہیے اور اس پاک ذات سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں گناہوں کی دلدل سے نکال کر نیکی کی راہ پر گامزن فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم