اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ 30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یتیم کو دھکے دینا، اس سے بدسلوکی کرنا، دین کے انکار کی نشانیوں میں سے ہے۔ دین کا تقاضا ہے کہ یتیم کو پیار، محبت اور سہارا دیا جائے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی یتیم کے ساتھ سختی کی، اللہ قیامت کے دن اس سے سختی کرے گا۔

نبی کریم ﷺ نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک کو جنت کا ذریعہ بتایا اور بدسلوکی کو ہلاکت کا راستہ۔

یتیم کا مال کھانا:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک شخص یتیموں کی جائیداد کا سرپرست بنا۔ اس نے کچھ مال خود پر خرچ کیا، یتیموں سے سختی کی۔ کچھ عرصہ بعد وہ فالج میں مبتلا ہو گیا، اس کا مال برباد ہو گیا، بیٹے نافرمان ہو گئے۔ مرتے وقت سخت تکلیف میں تڑپتا رہا اور زبان پر صرف یہ الفاظ تھے کاش! میں یتیموں کے مال میں خیانت نہ کرتا۔

یتیم وہ ہوتا ہے جس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، یتیم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے، یتیم کے ساتھ نرمی، شفقت، محبت اور عدل فرض ہے، جو یتیموں پر ظلم کرے، وہ اللہ کے قہر سے بچ نہیں سکتا۔

نبی کریم ﷺ کی یتیم نوازی: آپ ﷺ خود یتیم تھے، مگر آپ نے کبھی کسی یتیم کو رنج نہیں دیا۔ بلکہ فرمایا: جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا، اللہ تعالیٰ اس کے ہربال کے بدلے نیکی لکھے گا۔

ہم کیا کریں؟ یتیم بچوں سے حسن سلوک کریں، ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ لائیں، ان کے مال میں خیانت نہ کریں، انہیں احساس محرومی نہ ہونے دیں۔

یا اللہ! ہمیں یتیموں سے حسن سلوک کرنے والا بنا اور ان کی دعائیں پانے والا بنا۔ یا رب! ہمیں یتیموں کا سہارا بنا، نہ کہ ان کا غم!

یتیم کے چہرے پہ ہنسی لا کے تو دیکھو

خدا خود تیرے لبوں کو مسکرا دے گا


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ نابالغ بچے جن کے والد دنیا سے رخصت ہو جائیں ان كو یتیم کہتے ہیں۔ یتیم معاشرے کا نہایت کمزور طبقہ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ایمان کا حصہ اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

الله تعالی نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر یتیموں کا ذکر فرمایا، چنانچہ ایک جگہ فرمایا گیا: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ 30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

یعنی دین کو جھٹلانے والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اس آیت میں کفار کا یتیموں کے سا تھ سلوک بیان کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں یتیموں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات ملاحظہ کیجئے۔

چنانچہ الله تعالی یتیموں کے سرپرستوں سے ارشاد فرماتا ہے:

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

احادیث کی روشنی میں:

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

حضور ﷺ خود بھی یتیم تھے، اس لیے آپ کا دل یتیموں کے لیے بہت نرم تھا۔ آپ نے ہمیشہ یتیموں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا۔

اسلام کا پیغام: اسلام صرف یتیموں سے ہمدردی کا نہیں بلکہ ان کی محبت سے پرورش کرنے، ان کا حق دینے اور انہیں معاشرے کا باعزت فرد بنانے کا حکم دیتا ہے۔

یتیم بچے ہماری توجہ، محبت اور تعاون کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی کفالت کریں، ان کی دلجوئی کریں اور انہیں وہ محبت دیں جو وہ اپنے ماں باپ سے حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔


وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416)

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

اسلام کی آمد سے قبل دور جاہلیت میں دیگر کئی برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و ستم کرنا بھی عام تھا ۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے سلوک کی مذمت فرمائی بلکہ ان سے نرمی و شفقت سے پیش آنے،ان کی ضروریات کا خیال رکھنے،ان کی کفالت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر یتیم کے حقوق کو واضح کیا گیا ہے مگر افسوس! آج ہمارا معاشرہ؟؟ گویا کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو اپنے اللہ اور رسول کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں اور دور جاہلیت کی روش پر آکھڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں کے لیے مضبوط محافظ،بہترین نگران،شفیق استاد اور ایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے جس وقت یہ سایہ رخصت ہوتا ہے اس وقت دنیا کی دھوپ معلوم ہوتی ہے گویا کہ سر سے ساری چھتیں گرا دی گئی ہوں جس وقت بچہ اس دنیا کی دھوپ کی تپش میں جل رہا ہوتا ہے چاہیے تو یہ کہ اسے اضافی پیار، محبت،انسیت، خلوص، نرمی، شفقت دی جائے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس اس تپش کو اور شدت سے محسوس کرایا جاتا ہے۔ نام نہاد ہمدردی کے نام پر بار بار اسے یہ جتایا جاتا ہے کہ اس کا باپ نہیں رہا، اب وہ یتیم ہے،اب اس کی زندگی پہلی جیسی نہیں اور کہیں اس نام نہاد ہمدردی کے بھی لالے پڑے ہوتے ہیں اور کھانے، پینے، پہننے یہاں تک کہ سر چھپانے کو چھت تک میسر نہیں ہوتی۔

یتیم کی کہانی یتیم کی زبانی: زید اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنی تمام خواہشات کے پورا نہ ہونے کے افسوس میں اپنے باپ سے شکایتوں کے ڈھیر لگائے اداسی کا شکار اپنے پاس موجود بچے کو اپنا غم سنا رہا تھا اچانک وہ اس بچے سے دریافت کرتا ہے آپ کون ہیں؟ بچہ جواب دیتا ہے: میں یتیم ہوں پھر سوال کرتے ہوئے پوچھتا ہے: یہ یتیم کیا ہوتا ہے؟ بچہ جواب دیتے ہوئے کہتا: یتیم وہ ہوتا ہے جس کا میری طرح پیٹ خالی ہوتا ہے، یتیم وہ ہوتا ہے جس کے پاؤں میں چپل نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کے جوتے پالش کرتا ہے، یتیم کے پاس خود پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کی منتیں کر کے قلم بیچ رہا ہوتا ہے، یتیم اپنے تن پر کپڑا لانے کی لیے محنت و مزدوری کرتا ہے۔

زید پھر سے سوال کرتے ہوئے دریافت کرتا: میں سمجھا نہیں کیا غریب کو یتیم کہتے ہیں؟ بچہ کہتا: نہیں بھائی غریب کے پاس تو صرف پیسے نہیں ہوتے لیکن یتیم کی زندگی غریب سے کئی زیادہ مشکل ہوتی ہے،یتیم کو بچپن سے ہی بڑا ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا باپ نہیں ہوتا، یتیم وہ ہوتا ہے جیسے خود اپنی ساری خواہشات کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی خواہشات سننے والا کوئی نہیں ہوتا، یتیم وہ ہوتا ہے جسے اپنی آنکھ سے نکلنے والے آنسو خود اپنے حلق میں اتارنے ہوتے ہیں، یتیم وہ ہوتا ہے کہ دنیا چاہے اس پر جتنا بھی ظلم کر لے اس کے لیے لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا، یتیم کو ہر کوئی حقارت سے دیکھتا ہے، یتیم کو ہر کوئی دھتکارتا ہے، کچھ لوگ تو یتیم کو ایسے کوستے ہیں جیسے یتیم ہونے میں خود اس کا قصور ہو۔

بچہ زید سے مخاطب ہوتے ہوئے: آپ تو شکر کیجیے آپ کے والد موجود ہیں آپ کی خواہشات سننے کے لیے آپ کے سر پر ہاتھ رکھنے والے آپ میری طرح یتیم نہیں ورنہ دنیا یتیموں سے اچھا سلوک نہیں کرتی ہے۔

غور کیجئے! یہ کہانی ہمارے معاشرے میں یتیموں سے ہونے والی بدسلوکیوں کو واضح طور پر بیان کر رہی ہے۔ واقعی یتیم کو پیار دینے والا کوئی نہیں ہوتا باپ کی دنیا سے رخصت ہوتے ہی رشتوں کی حقیقت کھلنے لگتی ہے سب اپنے پرائے ظاہر ہو جاتے ہیں اگر باپ ورثے میں مال چھوڑ گیا ہے تو پھر کفالت کرنے والے تو پیدا ہو جاتے ہیں مگر صرف مال و دولت کے لالچ میں، یتیموں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعید بیان کی گئی ہیں:

ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)

یتیم کا مال ناحق کھانا، اپنے مال کے ساتھ ملا لینا، مال پر قبضہ کرنا، اس سے برے طریقے سے بات کرنا، طعن و تشنیع کرنا، حقارت سے پیش آنا، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا خیال نہ رکھنا، یہ تمام ہی بدسلوکیوں میں شامل ہے۔

یاد رکھیے! آج اگر ہم یتیموں کے دکھ درد کو ہلکا کرنے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ کر ان کی زندگیوں پر چھائی تاریکیاں مٹانے اور ان کے مرجھائے اور غمزدہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کریم ہماری دنیا و آخرت کو روشن فرمائے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں یتیموں سے اچھا سلوک کرنے اور ان کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس کے والد وفات پاجائیں اسے یتیم کہتے ہیں یتیم کے ساتھ آج کے دور میں لوگ برا سلوک کرتے ہیں، یتیم کا مال ناحق کھاتے ہیں یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے، قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے افسوس کہ لوگ اس میں بھی پروا نہیں کرتے عموماً یتیم بچے اپنے تایا چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ہمیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔یتیم کا مال ناحق کھانے والے کی تین وعیدیں بیان کی جاتی ہیں، چنانچہ

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ سے آگ نکل رہی ہوگی عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا، ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 9/6، جزء: 4،حدیث:9279)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2/427، حدیث:725)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے: شراب کا عادی نمبر، سود کھانے والا، ناحق یتیم کا مال کھانے والا اور والدین کا نافرمان۔ (مستدرک، 2 / 338، حدیث: 2307)

یتیم بچے بچیوں کے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں خصوصا یتیم بچیوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یتیموں سے پیار و محبت اور بہترین سلوک کر کے اس عمل کو اپنے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں یاد رکھیے یتیم کی آہیں اور بددعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہے روز قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہوگا۔

وہ کیسا بھیانک منظر ہوگا جب ایک یتیم بچہ روز محشر اللہ کے دربار میں اپنی مظلومیت و بربادی کی داستان سنا رہا ہو گا اور اس وقت وہاں مجرم کی حیثیت سے سر جھکائے ایسے غاصب و وارث بھی ہوں گے اور اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے اور سننے کے بعد آنکھیں بند کرنے والے اس کے پڑوسی اور دیگر رشتہ دار بھی اور سب قہرِ الٰہی کے منتظر ہوں گے جو دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔


اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو رحم محبت اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے یتیموں سے حسن سلوک کو ایمان کا حصہ قرار دیا، قرآن مجید میں بھی بار بار یتیموں کا ذکر آیا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یتیموں سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات اور انسانیت دونوں کے خلاف ہے۔

یتیم وہ بچہ ہوتا ہے جس کے والدین خصوصا باپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں ان بچوں کو محبت سہارا اور تحفظ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بعض افراد یتیموں سے سختی، حق تلفی اور ظلم کا سلوک کرتے ہیں ان کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے ان کی جائیداد پر قبضہ کیا جاتا ہے اور انہیں تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔

بدسلوکی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ یتیم بچوں کو ملازم بنا کر ان سے سخت محنت لی جاتی ہے ان پر چیخا جاتا ہے مارا جاتا ہے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ قانوناً بھی جرم ہے۔ اسلامی تاریخ میں یتیموں سے محبت اور خیال رکھنے کے بہترین نمونے موجود ہیں.

ہمیں چاہیے کہ ہم یتیموں سے حسن سلوک کریں ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، انہیں تعلیم دلوائیں ان کی عزت کریں ان کے دلوں کو ٹوٹنے سے بچائیں، معاشرے میں یتیموں کے لیے بہترین سہولیات مہیا کرنا حکومت اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے یتیم بچوں کے ساتھ بدسلوکی جیسے ان پر ظلم کرنا ان کے مال پر قبضہ کرنا ان کی تعلیم و تربیت سے غفلت برتنا نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔

ایسے بچے احساس کمتری، محرومی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر معاشرے کے لیے بوجھ بن سکتے ہیں، قرآن کریم میں یتیموں کے حقوق کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

یتیموں سے حسن سلوک اور ان کی کفالت صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے معاشرے کو چاہیے کہ یتیم بچوں کی تعلیم تربیت اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے محسن نظام قائم کریں، حکومتی سطح پر یتیموں کے لیے خصوصی ادارے وظائف اور تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی معاشرے کے عام شہری بن سکیں، یتیم وہ پھول ہیں جنہیں اگر وقت پر پانی نہ دیا جائے تو وہ مرجھا جاتے ہیں اور ان کے ساتھ بد سلوکی صرف ان کے ساتھ زیادتی نہیں، بلکہ انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کریں کہ ہم ایک مہذب اور بااحساس معاشرے سے ہیں یتیموں کو عزت محبت اور سہارا دیں تاکہ وہ بھی ایک باعزت اور مفید شہر ی بن سکیں۔


یتیم کی تعریف یہ ہے کہ وہ نابالغ بچہ جس کا باپ انتقال کرجائے۔ اسلام نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے یتیموں کی کفالت کو جنت میں اپنی قربت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یتیموں کے حقوق کا ذکر آیا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا: وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ- (پ 8، الانعام: 152)ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر بہتر طریقے سے، یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائے۔

لیکن افسوس! آج کے معاشرے میں یتیموں سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ نہایت افسوسناک ہے۔ ان سے ان کا حق چھین لیا جاتا ہے، وراثت میں دھوکا دیا جاتا ہے، ان کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انہیں نوکر یا بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ رب کریم کے غضب کو دعوت دینے کا سبب بھی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یتیم بچے صرف کسی اور کے بچے نہیں، بلکہ وہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشی لانا، ان کو تعلیم دینا، ان کے خوابوں کو سہارا دینا یہ سب ہمارے فرض میں شامل ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے، تو ہمیں بھی دوسروں پر رحم کرنا ہوگا، خاص طور پر ان پر جو بے سہارا اور یتیم ہیں۔ آیئے! آج سے یہ عہد کریں کہ نہ صرف خود یتیموں سے حسن سلوک کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں گے، کیونکہ ایک مہذب، اسلامی معاشرہ وہی ہے جہاں یتیم محفوظ، خوش اور باوقار زندگی گزار سکیں۔

یتیموں سے بدسلوکی کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کا مظہر ہیں جو ہمیں یتیموں سے حسن سلوک اور شفقت کا درس دیتی ہیں، چنانچہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یتیم کو جھڑکنا نہیں، نہ اس پر ظلم کرنا۔

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، معاف کرو تاکہ تمہیں معاف کیا جائے، تم میں سے ان لوگوں کے لیے خرابی ہے جو یتیموں پر ظلم کرتے ہیں۔

یتیموں سے بدسلوکی کا انجام نہایت سنگین اور دردناک ہوتا ہے، جو دنیا و آخرت دونوں میں نظر آ سکتا ہے۔ احادیث، قرآن اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یتیموں سے بدسلوکی کا نتیجہ درج ذیل ہو سکتا ہے:

1۔ اللہ کی ناراضگی: یتیموں سے بدسلوکی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ یتیموں سے حسن سلوک کیا جائے۔

2۔ دوزخ کی وعید: جو لوگ یتیموں کے مال میں خیانت یا ان پر ظلم کرتے ہیں، ان کے لیے سخت وعید آئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

3۔ رسول ﷺ کی ناراضی: نبی کریم ﷺ نے بھی یتیموں پر ظلم اور بدسلوکی کرنے والوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ ایسے لوگ رسول اللہ ﷺ کی قربت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

4۔ معاشرتی نفرت اور ذلت: ایسے افراد جو یتیموں سے بدسلوکی کرتے ہیں، معاشرے عزت نہیں پاتے، بلکہ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں بھی ذلت کا باعث بنتی ہے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں یتیموں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سر زمین عرب پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کےحقوق دبانا اور ان پرظلم و ستم کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں کےساتھ ہونے والے برے سلوک کی مذمّت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔

یتیم کا معنی: (لفظاً) تنہا رہ جانے والا یا ایسا شخص جس کی طرف سے غفلت برتی جائے۔

یتیم و نادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔ (درمختار مع رد المحتار، 10/416)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

دور جاہلیت میں یتیموں کے بارے میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان کے مالوں پر قبضہ کر لیتے،ان پر دباؤ ڈالتے اور ان کے حقوق کے معاملے میں ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! آپ کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ فرمائیے گا۔ (خازن، 4 / 387)

مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حديث:3679)

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک،2/338، حدیث:2307)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا، ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 2 / 9، جزء: 4 ، حدیث: 9279)

رسول اللہ نے فرمایا: اے اللہ! میں دو ضعیفوں کا حق (مارنا) حرام کرتا ہوں یتیم کا اور عورت کا۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)

ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم کو دیکھا تو میں نے اس سے اتنا زیادہ عزت و محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتا ہوگا۔ رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فرشتے بڑے برے طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم درمیان میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں رب کریم سے اس کے بارے میں گفتگو کرلوں، مگر فرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک ندا سنائی دی: اسے چھوڑ دو! ہم نے یتیم پر رحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی، اس دن سےہی میں یتیموں سے انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 231) معلوم ہوا کہ یتیم سے کیا گیا حسن سلوک دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔

آج اگر ہم یتیموں کے دکھ درد کو ہلکا کرنے، ان کی زندگیوں پہ چھائی تاریکیاں مٹانے اور ان کے مرجھائے اور غم زدہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کریم ہماری دنیا و آخرت کو روشن فرمائے گا۔ اللہ پاک ہمیں یتیموں کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت حقوق ہیں۔اسی میں شامل یتیموں کے حقوق بھی ہیں۔

آئیے پہلے یتیم کی تعریف دیکھ لیتے ہیں کہ یتیم کہتے کسے ہیں؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (در مختار مع رد المحتار،10/416)

یتیموں سے ظلم و زیادتی کرنا،انکے حقوق پامال کرنا اور ان کے مال کو ناحق کھانے کو قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یتیم کا مال کھانا بہت سخت حرام اور گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں یتیموں کے حقوق اور ان سے بدسلوکی کی مذمت ملاحظہ فرمائیں۔

گھروں میں سے سب سے بہترین گھر: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سے سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم رہتا ہواور اس کے ساتھ بہترین سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بدترین گھر وہ ہے کہ جس میں کوئی یتیم رہتا ہو اور اس کے ساتھ برا برتاؤ کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث 3679)

مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنے والا گناہ: حضور اکرم ﷺ نے ان بڑے بڑے گناہوں کو جو مسلمان کو ہلاک کر ڈالنے والے ہیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یتیم کا مال کھا ڈالنا وہ گناہ کبیرہ ہے جو مومن کو ہلاکت میں ڈال دینے والا ہے۔ (بخاری،4/354، حدیث 6857)

یتیم کا مال ظلم سے کھانے والوں کے لیے عذاب: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر انکے منہ میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔میں نے پوچھا:اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں؟عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2 /467، حدیث: 725)

یتیم کے مال کو ناحق کھانا اس کے کسی مال یا سامان یا اس کی زمین و مکان کو ناحق طریقے سے لے لینا یا اس کو جھڑکنا یا کسی قسم کی ایذا اور تکلیف دینا یا برا سلوک کرنا یہ سب حرام اور گناہ کی باتیں ہیں جن کی سزا آخرت میں جہنم کا عذاب عظیم ہے۔

اللہ پاک سے دعاہے ہم سب کو یتیموں سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا مال ناحق طور پر کھانے سے بچائے۔ آمین


اسلام میں یتیموں سے بدسلوکی کی مذمت کی گئی ہے۔ یتیموں سے ظلم و زیادتی، ان کے حقوق پامال کرنا اور ان کے مال کو ناحق کھانے کو قرآن و سنت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں یتیموں کا مال ہڑپ کرنے کے بارے میں فرمایا گیا: اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یتیموں کا مال ہڑپ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن سخت ترین عذاب ہوگا۔

فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

یتیموں کے حقوق پامال کرنے کی مذمت اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں یتیم اور عورت کے حق کے بارے میں خبردار کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)

اسلامی معاشرت میں یتیموں سے بدسلوکی کے بجائے یتیموں کی کفالت اور ان کے حقوق کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ اسلام میں یتیموں سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے بد سلوکی سے منع کیا گیا ہے اور ان کے مال کی امانت داری پر زور دیا گیا ہے۔ یتیموں پر ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید دی گئی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ یتیموں سے محبت اور نرمی سے پیش آئیں۔

اسلام کی آ مد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و ستم کرنا بھی عام تھا۔اسلام نے یتیموں سے برے سلوک کی مذمت کی۔ ان سے اچھے سلوک کا حکم دیا۔اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416)

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک،2/338، حدیث:2307)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں دو کمزوروں کی حق تلفی کرنا ممنوع اور حرام قرار دیتا ہوں: (1) یتیم اور (2) عورت۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)

سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، جادو کرنا، کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ سے بھاگ جانا، پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)


اسلام دین رحمت ہے جو معاشرے کے کمزور طبقوں خصوصا یتیموں سے حسن سلوک کی خصوصی تلقین کرتا ہے یتیم وہ معصوم ہستی ہے جو اپنے والد کے سائے سے محروم ہو چکی ہو اور اسے محبت، توجہ اور تحفظ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے بعض افراد یتیموں سے بد سلوکی کرتے ہیں ان کا مال ہڑپتے ہیں یا انہیں ذلیل کرتے ہیں قرآن و سنت نے ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید سنائی ہے۔

یتیم کی تعریف: لغوی طور پر یتیم اس بچے کو کہتے ہیں جس کا والد فوت ہو جائے اور وہ ابھی سن بلوغت کو نہ پہنچا ہو شریعت اسلامیہ میں یتیم کی کفالت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں یتیموں سے بد سلوکی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

بعض صحابہ کرام کو اندیشہ ہوا کہ اگر یتیموں کا مال اپنے مال میں شامل کریں گے تو کہیں گناہ نہ ہو جائے۔اس آیت کے ذریعے واضح کیا گیا کہ نا انصافی اور ظلم کی صورت میں یتیم کا مال کھانا جہنم کا باعث ہے مگر جائز طریقے سے خرچ کرنا حرام نہیں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یتیموں کی تربیت تو نگہداشت ایسا عمل ہے جس میں اللہ تعالی کی خصوصی مدد شامل ہوتی ہے اور جو ان سے بد سلوکی کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یتیموں پر ظلم کرنا نہ صرف دنیاوی گناہ ہے بلکہ آخرت میں شدید عذاب کا باعث ہے۔

علامہ ابن کثیر سورہ نساء کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یتیموں کا مال ہڑپ کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان جہنم کی آگ خرید رہا ہے۔

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ 30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ علامہ صاوی اور دیگر مفسرین کے مطابق یہ آیت عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ یا ابو جہل جیسے سرداران قریش کے بارے میں نازل ہوئی جو یتیموں کو دھتکارتے اور ان کے حقوق تلف کرتے تھے۔

یتیم کو دھتکارنا اس بات کی علامت ہے کہ ایسا انسان دین کی روح سے خالی ہو چکا ہے۔ قرآن مجید میں الماعون کے ذریعے بتایا گیا کہ جو لوگ یتیموں سے حسن سلوک نہیں کرتے وہ اللہ کی طرف سے عذاب کے مستحق ہیں۔

اسلام نے یتیموں کو عزت دی ان کی کفالت کو باعث جنت قرار دیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو دین کا انکار قرار دیا ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ یتیم کے ساتھ نرمی محبت اور حسن سلوک سے پیش آئے یتیموں سے بدسلوکی کرنے والوں کے بارے میں وعید نازل ہوئی ہے اور یتیموں کے حقوق کا خیال رکھے یہی اسلام کی اصل تعلیم اور انسانیت کی روح ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں یتیموں سے حسن سلوک کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور یتیموں کا مال ناحق کھانے سے محفوظ رکھے۔


الله نے ہر انسان کو محبت، عزت اور رحم دلی کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ خاص طور پر یتیم بچے، جو اپنے ماں باپ کے سائے سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ ہماری توجہ اور محبت کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ دین اسلام نے بھی یتیموں سے حسن سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ یتیموں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، ان پر ظلم کرتے ہیں، ان کا حق مار لیتے ہیں یا ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے بلکہ الله کے عذاب کو دعوت دینے والا بھی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں بھی یتیموں سے بدسلوکی کرنے کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔

الله پاک پارہ 4 سورۃ النساء آیت نمبر 10 میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

اس آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر الله کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے الله کے مزید لطف و کرم کے حقدار تھے۔ اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔ (تفسیر کبیر، 3 / 506)

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟ یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سی چیز کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں ملوّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثا میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گا اور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

یتیم کہتے کسے ہیں؟ یتیم وہ نابالغ بچہ یا بچی ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، اگر اس کے پاس مال ہو اور اپنے کسی ولی کی پرورش میں ہو تو وہ یتیم ہے۔

رسول الله ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں میں بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

یتیم کے ساتھ بدسلوکی الله اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناپسند ہے۔ نبی کریم ﷺ نے یتیموں کے حقوق کی حفاظت کو امت پر لازم قرار دیا ہے، یتیموں کو نظرانداز کرنے، ان کا مال کھانے یا ان سے ظلم کرنے والے سخت عذاب کے مستحق ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں سے بدسلوکی یا ان کے مال میں خیانت کرنے والے پر الله کا غضب نازل ہوتا ہے اور قرآن میں اسے آگ کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتیم کے ساتھ ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

یتیم معاشرے کا کمزور طبقہ ہے جن کی کفالت اور حسن سلوک کا حکم قرآن و سنت میں بار بار دیا گیا ہے۔ ان سے بدسلوکی کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یتیموں سے حسن سلوک صرف دینی حکم نہیں بلکہ ایک انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا معاشرتی ہمدردی اور انسانیت کی علامت ہے۔

اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کے فائدے کے لئے کمزوروں پر ظلم نہ کریں، بلکہ الله کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کو یاد رکھیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم یتیموں سے محبت، احترام اور نرمی کا برتاؤ کریں تاکہ الله کی رضا، رسول الله ﷺ کی قربت اور جنت کا مقام حاصل ہو۔آمین