الحمدللہ! ہمیں اولیائے کرام، صحابۂ کرام اور بالخصوص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے فضائل و کمالات سے واقفیت حاصل کرنے کا خوب خوب موقع ملتا ہے۔ انہی جلیل القدر ہستیوں میں ایک عظیم المرتبت نام حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بھی ہے، جنہیں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں خاص مقام اور محبت حاصل تھی۔

اسلام لانے پر خوشی کا اظہار: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اسلام میں آمد سے پہلے مسلمان چھپ چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ ایمان لائے تو پیارے آقا ﷺ کو بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرمائی تھی: اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما! (مستدرک، 4/34، حدیث: 4541) اللہ کریم نے اپنے محبوب ﷺ کی دعا کو قبول فرمایا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کو عزت ملی۔ یہی وجہ ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)

یہ صرف تعریف نہیں، بلکہ حضور ﷺ کے دل کی محبت کا مظہر ہے۔

محبت کا عملی مظاہرہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنے کو باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ آپ کی زبان سے جو بات نکلتی، وہ اللہ کے حکم سے موافقت پاتی۔ قرآن کی کئی آیات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں، جنہیں موافقات عمر کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور فہمِ دین پر ایسا اعتماد تھا کہ کئی مواقع پر آپ نے فرمایا: عمر جہاں ہوتا ہے، حق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

(تاریخ ابن عساکر، 48/324)

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک شیطان، عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔ (ترمذی، 5/387، حدیث: 3711 مفہوماً)کیا مقام ہے ان ہستی کا جن سے شیطان بھی ڈرے! اور کیا عظمت ہے اس محبت کی جو آقا ﷺ کے دل میں ان کے لیے ہو!

وصال مصطفی ﷺ پر حالت: جب پیارے آقا ﷺ کا وصال ہوا، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غم کی شدت سے بے خود ہو گئے۔ تلوار کھینچ لی اور اعلان کیا کہ جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے، میں اسے قتل کر دوں گا۔ یہ اظہار اس عاشقِ رسول کا تھا جو نبی پاک ﷺ کی جدائی کو برداشت نہ کر سکا۔

محبت کا اجر: حضور ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنی زندگی میں دعا کی اور بعدِ وصال آپ کو وہ عظمت عطا ہوئی کہ آپ کو حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ کیا یہ کسی معمولی محبت کا صلہ ہو سکتا ہے؟ نہیں! یہ محبتِ مصطفی ﷺ کا عظیم انعام ہے۔

آئیے! ہم بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنتوں پر چلیں، عدل، تقویٰ، جرأت اور عشقِ رسول سے اپنے دل کو روشن کریں۔ مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر اور سنتوں بھری زندگی گزار کر، اس محبت کو عملی طور پر اپنائیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آقا ﷺ سے کی اور جو آقا ﷺ نے ان سے فرمائی۔

اللہ کریم ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا عشق رسول، عدل، حیا اور دین داری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


خلیفہ دوم امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول تھے، آپ کا دل اللہ پاک کے نور سے منور تھا، اللہ کریم نے شمع رسالت کے صدقے ایسا کمال عطا فرمایا تھا کہ آپ کی فہم و فراست ان واقعات و حقائق کا ادراک کر لیتی تھی جو مستقبل میں رونما ہونے والے تھے، حق و باطل کی پہچان کرنے میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ قربت و صحبتِ رسالت مآب ﷺ کی برکت سے سیرت فاروق اعظم ایک حسین مرقع ہے۔

حضور ﷺ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام اور نبی کریم ﷺ کے لیے بے مثال قربانیوں اور خدمات کے پیش نظر آپ ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم ﷺ سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کی اطاعت میں اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔

محبت کا اظہار: نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہادری، جرأت اور اسلام کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے ان سے محبت کا اظہار فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)

حضرت عمر کی محبت:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی اطاعت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ وہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے پیچھے چلنے اور ان کی ہر بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی خاطر اپنی جان اور مال کی قربانی دینے میں کبھی دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے وقف کر دی تھیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اکثر آرا نبی کریم ﷺ کی وحی کے موافق ہوتی تھیں، جو ان کی گہری عقیدت اور محبت کا نتیجہ تھی۔

نبی کریم ﷺ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جن میں آپ ﷺ کا ان کے بارے میں اچھے کلمات کہنا اور ان کی تعریف کرنا شامل ہے۔ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کو دنیوی حیات اور بعدِ ممات بھی سرور کائنات ﷺ کا قرب خاص رہا۔ چنانچہ عاشقِ مصطفیٰ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

محبوبِ ربِ عرش ہے اس سبز قبے میں پہلو میں جلوہ گاہ عتیق وعمر کی ہے

سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں جھرمٹ کئے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے

آپ رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان کی کیا بات ہے کہ آپ کا شمار ان صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں ہوتا ہے کہ جن سے سرکار دو عالم ﷺ کو خصوصی محبت تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ان کے بہت سے انوکھے فضائل بیان فرمائے ہیں جو صرف آپ کی شان و عظمت پر مشتمل ہیں آئیے! ہم بھی ان کی مثالیں سنتی ہیں: چنانچہ

٭ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود علم عطا فرمایا۔ (بخاری، 2/525، حدیث: 3681ملخصا) ٭ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی دعا فرمائی۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3703) ٭رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706) ٭ میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہوگا وہ جہاں بھی ہوں۔ (مسند بزار، 6/98، حدیث: 2154) ٭ فاروق اعظم کی محبت ایمان کی ضمانت ہے۔ (کنز العمال، 7/8، حدیث: 3611) ٭ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (بخاری، 2/529، حدیث: 3693) ٭ جس سے عمر ناراض ہو جائے اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہو جاتا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! ہم نے فضائل فاروق اعظم بزبان مصطفیٰ ﷺ سنے۔ اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا صدقہ نصیب فرمائے۔ ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین


آج ہم ایک ایسے عظیم المرتبت صحابی رسول کے بارے میں پڑھیں گی جن کے بارے میں خود اللہ کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ کیا آپ جانتی ہیں ایسے عظیم انسان کون ہیں؟ ان کی کنیت ابو حفص، لقب فاروق اعظم اور نام مبارک عمر ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی ﷺ کی دعا سے نبوت کے چھٹے سال 39 مردوں کے بعد ایمان لائے۔ آپ کے ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کو بہت بڑا سہارا مل گیا۔

نبی کریم کا خاص قرب: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضور سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں تو آپ نبی کریم ﷺ کی قربت سے شرف پاتے ہی رہے لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ وصال ظاہری کے بعد آپ کو نبی کریم ﷺ کا خاص قرب نصیب ہوا کہ روضہ رسول ﷺ کے قرب میں آپ کو جگہ نصیب ہوئی۔

حیاتی میں تو تھے ہی خدمتِ محبوبِ خالق میں

مزار اب ہے قریبِ مصطفےٰ فاروق اعظم کا

آقا ﷺ کی عمر سے محبت: نبی کریم ﷺ نے فاروق اعظم کی محبت کے بارے میں کیا ہی خوب لب کشائی فرمائی کہ من ابغض عمر فقد ابغضنی ومن احبّ عمر فقد احبّنی یعنی جس نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ (معجم اوسط،5/102، حدیث: 6726)

عمر بولتے تو باقیوں کو خاموش کروا دیا جاتا: حضرت سیدنا اسود رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: کہ یارسول اللہ! میں نے اپنے رب کی حمد میں کچھ کلمات کہے ہیں اور آپکی بھی تعریف کی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک تمہارا رب اپنی تعریف کو پسند فرماتا ہے۔ وہ کلمات مجھے بھی سناؤ جن سے تم نے اپنے رب کی تعریف کی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں وہ کلمات سنانے لگا کہ ایک مرد حاضر ہوئے اور اجازت طلب فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے خاموش کروا دیا۔ وہ شخص داخل ہوئے کچھ دیر بات کرنے کے بعد چلے گئے۔ میں نے دوبارہ حمد کے کلمات سنانا شروع کیے وہ پھر واپس آ گئے حضور ﷺ نے مجھے پھر خاموش کرا دیا۔ میں عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! یہ کون صاحب ہیں؟ جن کے لیے آپ نے مجھے خاموش کرا دیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ ایسا شخص ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا، یہ عمر بن خطاب ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 303، حدیث: 15590)

شان عمر فاروق: کیا شان ہے حضرت عمر کی کہ ٭جن کے بولنے سے باقی سب کو خاموش کروا دیا جاتا٭ جب آپ محبوبِ خدا سے ہم کلام ہوتے تو محبوبِ خدا بھی آپ ہی کی طرف توجہ فرماتے ٭عمر وہ ہیں جن کے لیے آخری نبی ﷺ فرمایا: جس نے عمر سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ٭عمر وہ ہیں جن کے بارے میں آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ٭عمر وہ ہیں جن کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عمر اہل جنت کے چراغ ہیں ٭عمر وہ جن کے لیے فرمایا گیا یہ وہ شخص ہے جو باطل کو نا پسند کرتا ہے ٭عمر وہ ہیں جن کے لیے کہا گیا اللہ کی پسند عمر کی پسند ہے اور عمر کی پسند اللہ کی پسند ہے ٭عمر وہ ہیں جن کو دنیا میں بھی قربِ مصطفےٰ کی دولت نصیب ہوئی اور دنیا سے جانے کے بعد بھی قرب مصطفے میں جگہ ملی۔

اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بخشش ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے ہمارے معاشرے میں افواہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے یہ افواہیں بعض اوقات افراد خاندانوں یہاں تک کہ پوری قوم کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی ہیں، قرآن و سنت میں ہمیں اس حوالے سے واضح ہدایت دی گئی ہیں کہ ہم سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں اور تحقیق کے بغیر کوئی خبر آ گے نہ پھیلائیں، اللہ تعالیٰ سورۂ حجرات میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت میں نہ صرف افواہوں کو پھیلانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ باقاعدہ ایک اصول بیان کیا گیا ہے تحقیق کے بغیر کسی خبر پر عمل نہ کیا جائے۔

یہی وہ وجہ ہے جس سے افواہ پھیلتی ہے اگر ہر شخص اس آیت پر عمل پیرا ہو جائے تو افواہوں کے پھیلنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا پھرے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

افواہوں کے نقصانات: آ ج کے دور میں خصوصا سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی موجودگی میں افواہیں بہت تیزی سے گردش کر رہی ہیں اور ان کے نقصانات بھی شمار سے باہر ہیں معاشرتی بے چینی اور خوف افواہیں اکثر خوف کی فضا قائم کرتی ہیں مثلا بیماریوں فسادات یا معاشی بحرانوں سے متعلق غلط معلومات لوگوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتی ہے افواہوں کے باعث کئی مقامات پر پرامن ماحول بد امنی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

تعلیمی اور دینی اداروں پر بداعتمادی: بعض افواہ دینی تعلیمی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے پھیلا ئی جاتی ہیں جن سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور ادارے معاشی اور مالی نقصان اٹھاتے ہیں۔

معاشی نقصان: اسٹاک مارکیٹ کاروبار یا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے متعلق پھیلائی گئی جھوٹی اطلاعات عام آ دمی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

شخصیت کشی: بعض افواہیں مخصوص افراد کے خلاف ہوتی ہیں حالانکہ وہ بے قصور ہوتے ہیں ان افواہوں کے سبب ان کی نجی زندگی بے حد متاثر ہوتی ہے افواہ معاشرتی ناسور ہیں ہمیں اپنے معاشرے کو پاکیزہ سچائی پر مبنی اور باہمی محبت اور اعتماد والا بنانے کے لیے افواہوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنا ہوگا اس کے لیے ہمیں اس حدیث مبارکہ کا مصداق بننا ہوگا کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ (بخاری، 1 / 15، حدیث : 10)

اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو یا کسی کے بارے میں بات ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اگر بغیر تحقیق اس کی بات پر یقین کرلیں گے تو اس سے بدگمانیاں اور فتنا و فساد پھیلنے کا خدشہ ہے۔

ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-( سورہ النساء:04 آیت 83) ترجمہ: اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں۔

اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہل دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط الجنان، 2/260)

اس کے متعلق ایک واقع ہے کہ ایک استاد اپنی کلاس میں آیا اور آگے بیٹھے ہوئے بچے کے کان میں بولا کہ لاہور میں بس کے ساتھ ایک حادثہ ہوا ہے اور اس میں تین لوگ انتقال کرگئے اور دو لوگ زخمی ہوئے اور کہا کہ یہ بات دوسرے بچے کو کان میں بتاؤ اور وہ دوسرے کو بتائے گا اس طرح کر کے جب یہ بات سب سے آخری بچے کے پاس پہنچی تو استاد نے اس سے کہا کہ اب یہ بات بلند آواز سے سب کو بتاؤ اس بچے نے کہا: لاہور میں بس کے ساتھ ایک حادثہ ہوا جس میں دس لوگ انتقال کر گئے اور 15 لوگ زخمی ہوئے۔

اس واقعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ افواہ اڑتی ہے اور لوگوں تک پہنچتی ہے تو لوگ اس میں اپنی بات اور جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے بات بہت بڑی ہو جاتی ہے حالانکہ اتنی وہ بڑی بات ہوتی نہیں ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کیے بغیر) بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اس حدیث مبارکہ میں بغیر تحقیق بات کو آگے بڑھانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ جھوٹا ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے بات کو آگے پہنچا دیتے ہیں جب کہ ہمارا دین اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کرتا ہے۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں کو حدیث یا کوئی روایت ملے تو ہم اسے علما کے سامنے پیش کریں اور اس کا حکم معلوم کریں۔

اسی طرح بعض اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔ (مراٰۃ المناجیح،6/477)

بغیر تحقیق بات کو آگے پہنچانے کے نقصانات:

• جو بغیر تحقیق بات کو آگے بڑھائے وہ اپنے آپ کو جھوٹ میں مبتلا کرتا ہے۔

• بغیر تحقیق بات کے نتیجے میں کوئی مسئلہ یا اختلاف، لڑائی وغیرہ ہوتی ہے تو اس کا وبال بتانے والے کے سر پر ہوتا ہے۔

• بلا تحقیق بات کرنا واٹس ایپ کے دور میں زیادہ تیز ی سے پروان چڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجے میں لوگوں میں دشمنیاں،عداوتیں، لڑائیاں، بغض و حسد اور ناراضگی وغیرہ بڑھ جاتی ہے۔

• اگر وہ بلا تحقیق بات ہمارے ملک یا شہر وغیرہ کی ہو تو اس کے نتیجے میں بات پھیلانے والے کو قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

• اس طرح کوئی شخص آکر کہے کہ فلاں نے آپ کے بارے میں کچھ کہا ہے تو وہ اس کی تحقیق کئے بغیر اپنے دل میں دوسرے کے بارے میں بغض وعداوت پیدا کر دیتا ہے۔

• بلا تحقیق بات کو لوگ آگے پھیلانے میں اپنا کردار خوب ادا کرتے ہیں اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کتنے بڑے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں۔

اس لیے ہم کو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بلا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔ جب کوئی بات ہمارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کی جائے پھر آگے بڑھائی جائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی سوچ سمجھ کر درست اور حقیقت حال کے مطابق محتاط انداز میں بات کرنے والا بنائے، ہمیں خیر پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہر طرح کے فتنہ وفساد کی ترویج واشاعت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ


آج کے معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو کوئی خطہ ایسا نظر آنا ناممکن ہے جہاں جھوٹی افواہوں کا رواج نہ ہو۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی جھوٹی افواہوں کا ہونا عام ہے جسے لوگ بغیر تحقیق کے آگے بڑھادیتے ہیں۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ-وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۳) (پ 5، النساء: 83) ترجمہ کنز العرفان: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے تو ضرور ان میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس (خبر کی حقیقت) کوجان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم میں سے چند ایک کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط الجنان، 2/260)

یاد رکھیں! مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا، طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے لوگوں کو چاہیے جھوٹی خبریں، افواہوں پر کان نہ دھریں اس پر توجہ نہ دے اپنے کام سے کام رکھے اور بغیر تحقیق کے ایسی باتوں کو آگے ہرگز نہ بڑھائے ورنہ کوئی بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے اللہ پاک ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

حضرت حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

بازاری افواہیں: جہاں بہت سی جگہوں اور سوشل میڈیا پر افواہوں کا سلسلہ جاری ہے وہی بازاری افواہیں بھی عام ہے بغیر تصدیق کے ہر ایک ایسی باتوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے جسکی کچھ حقیقت نہیں۔

جیساکہ سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بازاری افواہ قابل اعتبار اور احکام شرع کی مناط ومدار نہیں ہوسکتی بہت خبریں بے سروپا ایسی مشتہر ہوجاتی ہیں جن کی کچھ اصل نہیں یا ہے تو بہزار تفاوت اکثر دیکھا ہے ایک خبر نے شہر میں شہرت پائی اور قائلوں سے تحقیق کیا تو یہی جواب ملاکر سنا ہے نہ کوئی اپنا دیکھا بیان کرے نہ اس کی سند کا پتا چلے کہ اصل قائل کون تھاجس سے سن کر شدہ شدہ اس اشتہار کی نوبت آئی یا ثابت ہوا تو یہ کہ فلاں کا فرمایا فاسق منتہائے اسناد تھا پھر معلوم ومشاہد کہ جس قدر سلسلہ بڑھتا جاتا ہے خبر میں نئے نئے شگوفے نکلتے آتے ہیں زید سے ایک واقعہ سنیے کہ مجھ سے عمرو نے کہا تھا عمرو سے پوچھئے تو وہ کچھ اور بیان کرے گا۔بکر سے دریافت ہوا تو اور تفاوت نکلا۔ علی ھذا القیاس (فتاویٰ رضویہ، 4/479)

ایسی بات جس میں کسی مسلمان کی شکایت ہو یا اسکی سزا سے متعلق بات ہو تو پہلے اسکی تحقیق کرلی جائے اسکے بعد ہی فیصلہ کیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹی بات ہو اور اگر وہ جھوٹی بات ہوگی تو اس سے ایک مسلمان کو اذیت ہوگی اور مسلمان کو اذیت دینا ناجائز و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

مشہور تابعی مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ مسلمان کو تکلیف دینے سے متعلق فرماتے ہیں: جہنمیوں پرخارش مسلط کردی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتّی کہ ان میں سے ایک کی (کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکارکر کہا جائے گا:اے فلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براء ت ظاہر ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)

دین اسلام کی کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقت حال جانے بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

شیطان کا جھوٹی خبریں پھیلانا: شیطان بھی بعض اوقات انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے ”انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے“ کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔

جھوٹی افواہوں کے نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات کے ذرائع کو دیکھ لیا جائے کہ وہ کس حد تک بھروسے کے لائق ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں بھی سوچ سمجھ کر درست اور حقیقت حال کے مطابق محتاط انداز میں بات کرنے والا بنائے، ہمیں خیر پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہر طرح کے فتنہ وفساد کی ترویج واشاعت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

افواہ کے معنی: افواہ عربی زبان کا لفظ ہے جو فوهٌ سے بنا ہے اردو زبان میں بھی مستعمل ہے، جس کے معنی ہیں بے اصل بات مشہور کرنا، جھوٹی خبر مشہور کرنا، اڑتی ہوئی خبر، غیر یقینی و نامعتبر لوگوں کی خبریں۔

دین اسلام میں افواہ: دین اسلام نے افواہ کو برائی گناہ اور ایک معاشتی برائی تصور کیا ہے اور اس برائی کو سختی کے ساتھ ختم کرنے کی تعلیم دی ہے اور ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت کے انجام بد سے باخبر بھی کیا ہے، عوام الناس میں سے بعض کا یہی مشغلہ ہوتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک کوئی نہ کوئی افواہ پھیلاتے رہتے ہیں اور انسانی سماج بالخصوص مسلم امت کو آزمائشوں، اضطراب و کرب سے دوچار کرتے ہیں۔ اس دور میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا و ذرائع ابلاغ و خبر رساں ادارے بھی اس کے محرک و علمبردار ہیں جس کے سبب معاشرتی زندگیاں درہم برہم ہیں، بنا کسی تحقیق و تصدیق کے کوئی نہ کوئی خبر مشہور کردی جاتی ہے کہیں بھی فسادات کی خبریں مشہور کردی جاتی ہیں، کسی کا الزام کسی کے سرڈال دیا جاتا ہے، کسی کی بیماری یا انتقال کی خبریں عام کردی جاتی ہیں ایسی خبروں سے انسانیت مجروح ہوجاتی ہے اور معاشرے میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، فرقہ وارانہ منافرت پھیل جاتی ہے، فساد برپا ہو جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا:

افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا

فاسق کی خبر کی تحقیق: دین اسلام نے اس معاملے میں بات کی تعلیم دی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت میں ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے کہ دین اسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے، جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کو اگر ہم آج کل کے دور میں پیش نظر رکھیں تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کو کوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ فوراً اس پر رد عمل کرتا ہے۔

ہر بات آگے پھیلانا: یوں ہی حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

نگہبان فرشتے: آج کل کے سوشل میڈیا کے جدید ماحول میں مشہور ہونے کے لیے انسان بغیر تحقیق کے سچی اور جھوٹی باتیں آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں کوئی بھی بات آگے پہنچانے میں بندے کو بہت غور تفکر کرنا چاہئے کیونکہ کراما کاتبین ہمارے ہر قول فعل کو لکھ رہے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸) (پ 26، ق:18) ترجمہ: وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھاہوتا ہے۔

اکثر وہ باتیں بے معنی فضول یا جھوٹی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں جھوٹوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) (پ 3، اٰل عمران: 61) ترجمہ کنز العرفان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔

جھوٹی افواہیں پھلانے والوں کو اس آیت مبارکہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، لہٰذا ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ افواہوں کے پھیلاؤ میں حصہ نہ لے بلکہ ان کی روک تھام میں کردار ادا کرے۔ حکومت، میڈیا اور سماجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کریں تاکہ افواہ ساز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔

افواہیں صرف الفاظ نہیں ہوتیں، یہ وہ چنگاریاں ہیں جو پورے معاشرے کو جلا سکتی ہیں۔ ان کے سد باب کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پرامن، باشعور اور مہذب معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صرف درست و حق بات کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبیین ﷺ

افواہیں معاشرے کی وہ بیمار سوچیں ہیں جو حقیقت کے بغیر صرف سننے، پھیلانے اور بدگمانی پیدا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہیں۔ افواہوں پر کان دھرنے سے نہ صرف فرد کی سچائی سے دوری بڑھتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں انتشار، بدگمانی، فساد اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں سچائی، تحقیق اور حسن ظن کی تعلیم دیتا ہے، اور بلا تحقیق کسی بات کو قبول کرنے یا پھیلانے سے سختی سے روکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت میں واضح طور پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر عمل یا یقین نہ کیا جائے بلکہ تحقیق کی جائے۔ افواہ اکثر فاسق یا غیر معتبر ذرائع سے آتی ہے، اور اگر انسان بغیر تحقیق اس پر کان دھرتا ہے تو وہ خود بھی گناہگار ہوتا ہے اور دوسروں کے حقوق بھی پامال کر دیتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کرتا پھرے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

یہ حدیث افواہوں کے پھیلاؤ کی جڑ پر ضرب لگاتی ہے۔ جب انسان بغیر تحقیق بات کرتا ہے، خاص کر افواہ، تو وہ جھوٹا شمار ہوتا ہے۔

بزرگان دین کا طرز عمل: بزرگان دین ہمیشہ افواہوں سے بچنے کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اگر کوئی تمہارے پاس کسی کے خلاف بات لائے تو پہلے یہ دیکھو کہ وہ شخص تمہارے سامنے کسی دوسرے کے بارے میں بھی ایسی بات کرتا ہے۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ بدگمانی، تجسس، غیبت اور افواہوں کو دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ یہ دلوں میں کدورت، نفرت اور فتنہ پیدا کرتی ہیں۔

افواہوں کے نقصانات: شخصیت کشی اور عزتیں پامال ہوتی ہیں، معاشرے میں بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے، فرقہ واریت اور فتنہ جنم لیتا ہے، لوگوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں، فتنہ و فساد اور بدگمانی پروان چڑھتی ہے۔

اسلام ہمیں تحقیق، سچائی اور خیر خواہی کا سبق دیتا ہے۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لینا نہ صرف جہالت کی نشانی ہے بلکہ معاشرتی فتنوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں، نہ ان کو آگے بڑھائیں اور نہ ان کا شکار بنیں۔ یوں ہم ایک پرامن، باخبر اور سچائی پر قائم معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔


غیر مستند،غیر تصدیق شدہ یا اڑائی ہوئی خبر کو افواہ کہتے ہیں۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کوسنا جس کی صورت پہچانتا ہوں (مگر) یہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے (انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد و شرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔

افواہیں پھیلنے کا سلسلہ اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے کا ہے، چنانچہ

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ ایک دفعہ مدینہ میں دہشت پھیل گئی تو نبی کریم ﷺ نے ابو طلحہ سے گھوڑا مانگا جسے مندوب کہا جاتا تھا آپ اس پر سوار ہوئے پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا: ہم نے وہاں کچھ بھی نہ دیکھا اور ہم نے اس گھوڑے کو دریا پایا۔ (بخاری، 2/272، حدیث: 2867)

افواہ یہ پھیل گئی کہ دشمن کا لشکر یا ڈاکو حملہ آور ہوگئے اس پر شور مچ گیا اور اہلِ مدینہ خوفزدہ ہوگئے۔

اسی طرح غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں پر حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبرﷺ کی شہادت کی افواہ بجلی بن کر گری تو سب شکستہ دل اور رنجیدہ ہو گئے۔

حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لو! یہ بہت بڑی خرابی و فساد ہے کہ انسان ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔ (سیر اعلام النبلاء، 8/66)

قرآن کریم بھی بغیر تحقیق کیے خبر کی تصدیق کرنے سے منع فرماتا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براءت ظاہر ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)

اگرچہ یہ سلسلہ بہت پہلے کا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر کوئی سنی سنائی بات کو بلاتحقیق جلدی سے آگے بڑھا دیتا ہے اور افواہ سازی (Rumor making)میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ فرمان مصطفٰےﷺہے: انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو کوئی واقعہ، خبر یا حدیث سنے، اسے بغیر سوچے سمجھے، بغیر یہ جانے کہ یہ صحیح بھی ہے یا غلط، جس نے بیان کی ہے وہ بھی سچا ہے یا نہیں، اس بات کو آگے کر دے جیسا کہ آج خبروں اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے کہ جھوٹی احادیث و خبریں بغیر سوچے سمجھے آگے بھیجی جاتی ہیں اور لوگوں کے جان و مال اور عزت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے مطلقا آگے بیان کر دینا ہی قابل گرفت نہیں بلکہ جس کا تعلق کسی کی جان و مال یا عزت کے ساتھ ہو اور بتانے والا کوئی معتبر شخص نہ ہو اور اسے آگے پھیلا دینا قابل گرفت ہے۔ خصوصا دینی شخصیات پر بعض لوگ اپنے بغض کی وجہ سے جھوٹی خبریں مشہور کر دیتے ہیں حدیث پاک سے ان لوگوں کو بالخصوص درس حاصل کرنا چاہئے جوموبائل فون پر sms کے ذریعے موصول ہونے والی طرح طرح کی من گھڑت روایات دوسروں کو فارورڈ کرتے (یعنی آگے بڑھاتے) رہتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

لہٰذا بغیر تحقیق و تصدیق ہر سنی سنائی بات پر یقین کر کے آگے نہیں پھیلانی چائیے،اگر بات آگے شیئر کرنا ضروری ہو تب بھی پہلے کسی مستند ذرائع سے تحقیق کر لی جائے پھر حکمت عملی کے تحت آگے شیئر کیا جائے۔

اللہ کریم ہمیں حق پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

افواہ کا مطلب:افواہ ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر غیر تصدیق شدہ اور غیر مستند ذرائع سے پھیلی ہو، جس میں عام طور پر صداقت کے حوالے سے شک و شبہ موجود ہو۔ یہ ایک ایسی خبر یا کہانی ہے جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہے اور اس کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی فوری یا مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

افواہ درحقیقت واقعات کی لمبی توجیہات ہیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتے ہیں اور یہ کسی شے، واقعے یا عوامی دلچسپی کے موضوع سے متعلق ہو سکتی ہیں۔

غیر متوقع اور غیر منطقی: افواہیں اکثر غیر متوقع اور غیر منطقی ہو سکتی ہیں، جو عام طور پر لوگوں کی سوچ اور عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

افواہیں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتیں ہیں، جو عام طور پر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی افواہی نوعیت سے ایک ساتھ ملتی جلتی ہوتی ہیں۔

افواہ کی مثالیں:

غیر تصدیق شدہ خبریں: غیر مستند ذرائع سے پھیلی خبریں جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

شایعات: شایعات جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر شایعات: فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شایعات جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

افواہوں کی افادیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی سچائی پر سوال کرنے اور ان پر اعتماد نہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ افواہیں عام طور پر غلط معلومات فراہم کرتی ہیں اور ان پر اعتماد کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے، جو کہ ایک اہم نقطہ نظر ہے جو افواہوں کے بارے میں سچائی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

سنی سنائی باتیں پھیلانے کا نقصان: ٹیچر کلاس میں داخل ہوئے اور ایک پرچی پر یہ خبر لکھی کہ راولپنڈی میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا دونوں طرف سے لاٹھیاں، گولیاں چلیں جس میں تین افراد کی موت جبکہ چار افراد زخمی ہوئے اور اپنے قریب بیٹھے اسٹوڈنٹ کو دکھاتے ہوئے کہا: اب آپ میں سے ہر ایک اس بات کو دوسرے کے کان میں بتائے، جب سب سے آخر میں بیٹھے اسٹوڈنٹ تک یہ سلسلہ مکمل ہوا تو اب ٹیچر نے اس آخری اسٹوڈنٹ کو کان میں بتائی گئی خبر بلند آواز سے بیان کرنے کو کہا تو اس نے کچھ یوں اطلاع دی:پنڈی میں جھگڑا ہوا جس میں آٹھ آدمی قتل جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔

کہنے کو تو یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔شاید کبھی ہمارے ساتھ بھی اس طرح ہوا ہو کہ کوئی سنسنی خیز،دل ہلا دینے والی خبر ہم تک پہنچی ہو جو بعد میں جھوٹی اور فیک ثابت ہوئی ہو یا حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا جو پھیلتے پھیلتے مذکورہ پریکٹیکل اسٹوری کی طرح رد و بدل اور کمی زیادتی کا شکار ہو گیا ہو مگر یاد رکھئے !خبر پھیلنے سے لے کر فیک ثابت ہونے تک کئی نقصان دہ اور بھیانک نتائج متوقع ہیں اور بعض مرتبہ یہی جھوٹی خبر یں کسی سچی اذیت ناک خبر کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ معاشرے میں اڑتی فیک باتیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا انتشار،لڑائی جھگڑوں اورفسادات کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کو بھی متاثر کرتی ہیں اور اس کے ساتھ خواہ مخواہ کے فضول و بےجا تبصرے ماحول کو مزید دہشت ناک بنا دیتے ہیں۔ معاشی (لین دین کے متعلق) سرگرمیاں اور نظام زندگی بھی اس کے سبب متأثر ہوتےہیں۔ اسی طر ح مذاق میں پھیلائی گئی جھوٹی خبر بسااوقات سخت نقصان کا باعث بنتی ہے جیسا کہ فرسٹ اپریل کو اپریل فول کے نام پر ہرسال مختلف واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

بہرحال ان سب نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات کے ذریعے تک بھروسے کے لائق ہیں۔

ہمارا دین اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

سبحٰن اللہ! دین اسلام کی کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقت حال جانے بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

یوں ہی حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اسی طرح بعض اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔(مسلم، ص 18، حدیث: 17)مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔

افواہیں شرعی طور پر منع کی گئی ہیں اور انہیں جھوٹ اور غیبت کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے نقصان ہوتا ہے اور اس سے معاشرے میں بداخلاقی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔ اسلام سچائی کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور افواہیں پھیلانے سے منع کرتا ہے۔

افواہوں کے دینی و دنیوی نقصانات:

افواہیں جھوٹ کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور انہیں سچ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا اسلام میں منع ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔

افواہیں غیبت کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر کسی کے بارے میں غلط اور بدنامی کی باتیں ہوتی ہیں جو غیبت کی ایک شکل ہے۔ غیبت کرنا بھی اسلام میں منع ہے، اور اس سے نفسانی خواہشات اور بدعقلی پیدا ہوتی ہے۔

افواہیں نقصان کا باعث بنتی ہیں: افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے لوگوں کی ساکھ اور عزت کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میں بدعقلی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔

افواہوں سے بچنے کا حکم: اسلام افواہوں سے بچنے اور سچائی کو ترجیح دینے پر زور دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے منع کیا گیا ہے اور سچائی اور ایمانداری پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

افواہوں کی سزا: افواہیں پھیلانے اور سننے کی سزا دنیاوی اور اخروی دونوں طرح ہے۔ دنیا میں یہ سماجی نقصان اور رسوائی کا باعث بنتی ہیں، جبکہ آخرت میں یہ گناہ شمار ہو گی اور ان کی سزا جہنم ہے۔

افواہوں سے بچنے کے لیے کیا کریں؟

سچائی کو ترجیح دیں: سچائی کو ہمیشہ ترجیح دیں اور جھوٹ سے بچیں۔

غیبت سے گریز کریں: کسی کے بارے میں غلط اور بدنامی کی باتیں کرنے سے گریز کریں۔

افواہوں کو نہ پھیلائیں: افواہوں کو پھیلانے سے بچیں اور انہیں نہ سنیں۔

معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کریں: معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کریں اور جھوٹ اور افواہوں سے بچیں۔

صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں: اگر کوئی افواہ آپ کی طرف متوجہ ہو تو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور سچائی کا اظہار کریں۔

افواہوں سے بچنا ایک ضروری دینی فرض ہے، اور اس پر عمل کرنے سے ہم معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کرنے اور بدعقلی اور ناانصافی سے بچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ افواہیں پھیلانے سے منع کیا جاتا ہے اور اس کی ممانعت اسلامی عقائد میں شامل ہے۔ یہ بات قرآن و سنت میں بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ افواہیں پھیلانا ایک سنگین جرم ہے اور اس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

افواہیں پھیلانے سے ممانعت کی وجوہات:

جھوٹ اور فریب: افواہیں عام طور پر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔

بدنامی اور تنازع: افواہیں لوگوں کے درمیان بدنامی اور تنازع پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلامی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔

حقائق کو مسخ کرنا: افواہیں حقائق کو مسخ کرتی ہیں اور لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

نفسانی خواہشات کی تکمیل: افواہیں پھیلانے والے اکثر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان بغض اور عداوت: افواہیں مسلمانوں کے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔

افواہیں پھیلانے سے ممانعت کی مثالیں:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹی بات کہتا ہے وہ جہنم میں جائے گا۔

لوگ تفریحاً جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں پرانے وقتوں میں اگر کوئی افواہ پھیلتی تھی گلی محلے میں پھیلتی تھی افواہ پھیلنے میں وقت لگتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب تو چھوٹی سی بات بھی چند لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور لوگ جھوٹی افواہوں پر بہت غور کرتے ہیں جھوٹی خبریں یا کوئی بھی مسئلہ شرعی اسے بغیر تحقیق دوسرےلوگوں کو شیئر کریں گے۔

جھوٹی خبر عقل مند کے کان سے ٹکراتی ہے تو دم توڑ دیتی ہے۔ نادان کے کان سے ٹکراتی ہے تو مزید طاقتور ہو جاتی ہے، جھوٹی افواہیں زیادہ تر دشمن بناتا ہے، احمق اور بے عقل شخص افواہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ آج کل ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کی زد میں آیا ہوا ہے یہ ایک بڑھتا ہوا مرض بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ شخص جسے کچھ نہیں پتا جسے گھر میں کوئی نہیں پوچھتا دوستوں میں جس کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ بیٹھ کر خبریں دے رہا ہوتا ہے۔

یاد رکھیں مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے۔ اور سننے والوں کو بھی چاہیے کہ بلاتحقیق کسی بھی افواہ پر یقین نہ کرلیا کریں بلکہ اس کی تحقیق لازمی کریں کہ خبر دینے والا کس قدر معتمد و معتبر ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

احادیث مبارکہ میں بغیر تحقیق سنی سنائی بات پر عمل کرنے کی ممانعت ہے۔ جھوٹی افواہیں پھیلانے کی وعید بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے، پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)بغیر تحقیق کسی پر تنقید بھی نہیں کرنی چاہیے۔

الله پاک ہمیں عقل سلیم نصیب فرمائے جھوٹی افواہیں پھیلانے سے محفوظ فرمائے گناہوں سے بچ کر نیکیاں کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین

افواہ سے مراد ایسی بات ہے جو بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پھیلائی جائے اور اس کی بنیاد شک اور جھوٹ پر ہو، شریعت ہمیں تحقیق و تصدیق کرنے کا حکم دیتی ہے اور افواہوں پر کان دھرنے سے منع کر تی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کی سنی سنائی بات پر یقین کرکے کسی کی حق تلفی کرنے یا کسی کو تکلیف پہنچانے کے جرم میں مبتلا ہو جائیں۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ افواہوں پر کان دھرنے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ- (پ 5، النساء:83) ترجمہ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں، حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور بااحتیار لوگوں کی خدمت میں پیش کر تے تو ضرور ان میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس کو جان لیتے۔

اس آیت مبارکہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے ہمیں اس کی تحقیق کروانی چاہیے جبکہ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ایک شخص کوئی بات اچھالتا ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے وہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔

آج کل مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں لہذا ان مسائل سے بچنے کا واحد حل جو ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اس طرح کی خبر پہنچے تو اس کی تحقیق عقل مند اور سمجھدار لوگوں سے کروانی چاہیے اسی طرح حدیث پاک میں ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اس حدیث پاک سے معلوم ہو رہا ہے کہ سنی سنائی بات بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے دین اسلام میں جھوٹ بولنا گناہ ہے اسی مناسبت سے سنی سنائی بات بیان کرنا بھی گناہ ہے لہذا ہمیں اس گناہ سے بچنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم کوئی بھی کام تصدیق کئے بغیر نہ کریں، کیونکہ تصدیق کرنا سنت سے ثابت ہے آقا ﷺ کوئی بھی کام تصدیق کئے بغیر نہیں کر تے تھے، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر کفار نے خاموشی کے ساتھ جنگ کی تیاری کی تاکہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس جو کہ خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں ہی رہتے تھے انہوں نے حضور ﷺ کو خط لکھ کر کفار کے حملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے پہلے تحقیقات کروائیں تحقیقات کروانے کے بعد معلوم ہوا کہ کفار کا لشکر مدینہ کے بہت قریب آ چکا ہے۔

اس واقعے میں ہمارے لیے بہت پیارا درس چھپا ہوا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپناتے ہوئے ہر کام تصدیق کے بعد کرنا چاہیے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں افواہیں پھیلانے جیسے جرم سے محفوظ رکھے اور نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین