یتیموں سے
بدسلوکی از بنت میاں محمد یوسف قمر، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ

دین اسلام وہ
پیارا دین ہے جو جاہلیت کی برائیوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیمات کی
طرف رہنمائی بھی کرتا ہے تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر رضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ ثواب
و نجات آخرت کا سامان بھی اکٹھا کیا جاسکے۔ جیسا کہ اسلام سے پہلے یتیموں سے برا
سلوک کیا جاتا تھا اس کی مذمت کی گئی اور ان سے شفقت کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا
تَقْهَرْؕ(۹) (پ
30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔
یتیم
کسے کہتے ہیں؟ وہ
نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (درمختار، 10/416) بچّہ
یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
(یتیم کسے کہتے ہیں؟، ص 2)
آئیے یتیموں
کے حقوق کے متعلق چند احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)فرمان
مصطفے ﷺ ہے: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھروہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا
برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بد ترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے
ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ،4/193، حدیث:3679)
(2)ایک شخص نے
نبیّ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی،ارشاد فرمایا:
یتیم پر رحم کیا کر، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کراور اپنے کھانے میں سے اسے بھی
کھلایا کر، ایسا کرنے سے تمہارا دل نرم اور حاجتیں پوری ہوں گی۔ (مجمع الزوائد، 8/293،
حدیث:13509ملتقطاً)
(3)یتیموں کو
وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلّق
سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں
کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا، ان
میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث:2307)
(4)حضور اکرم ﷺ
نے (بارگاہ الہی)میں عرض کی: اے اللہ! میں دو کمزور انسانوں یتیم اور عورت کا حق
(ضائع کرنا خاص طور پر) حرام قرار دیتاہوں۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)
(5) میں اور
یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی اور
درمیانی انگلی سے اشارہ کیااور ان کے درمیان کچھ کشادگی فرمائی۔ (فیضان ریاض
الصالحین، 3/262)
یتیم کی کفالت
کرنے والے کو قیامت کے دن حضورسید الانبیاء، احمد مجتبیٰ ﷺ کی مبارک رفاقت نصیب ہو
گی۔
اللہ سے دعا
ہے کہ وہ ہمیں یتیموں کی کفالت کرنے کی سعادت عطا فرمائے، ہمیں بھی کل بروز قیامت حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ کی مبارک رفاقت
نصیب فرمائے۔ آمین

یتیم کسے کہتے
ہیں؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (در مختار مع رد
المحتار، 10/416)
اس میں شک
نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں کے لئے مضبوط محافظ، بہترین نگران (Guardian)،
شفیق استاذ اورایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے
تو بچّوں کے سر سے گویا سائبان لپیٹ دیا جاتا ہے۔ بظاہر پورا گھر بے سہارا ہو جاتا
ہے اور ایسے میں بعض اپنے بھی پرائے ہونے لگتے ہیں، بعض رشتہ دار نگاہیں پھیر لیتے
ہیں اور تعلق رکھنے والے حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اگر باپ کچھ مال چھوڑ کر گیا ہو
تو کچھ رشتےدار بھوکے گدھ کی طرح مال وراثت پر نظریں گاڑ کر تاک میں بیٹھ جاتے اور
موقع ملنے پر یتیموں کا حق ہتھیا کر اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
اسلام نے
مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی
سختی سے تاکید کی ہے،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں معاشرے کے ہر فرد کے
حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کر
دیئے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔
یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے
حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ سر زمین عرب
پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کےحقوق دبانا اور ان پرظلم و
ستم کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں کےساتھ ہونے والے برے سلوک کی
مذمّت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے
کا حکم دیا ہے۔آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق
متعین کئے ہیں اور آج کل یتیموں سے ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔
دنیا کو حاصل
کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا
بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی
جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ
30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اسی طرح ارشاد ہے:
وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ
4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ
کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ
ہے۔
یتیم کے حقوق
پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن
حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں سے حسن سلوک، ان
کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور ان پر ظلم و
زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ افسوس کہ لوگ
اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا
شکار ہوتے ہیں، انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔
یتیموں کو
وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق
سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى
ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ
نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء:
10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ
بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
حدیث پاک میں
ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ
ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔
(مستدرک،2/338، حدیث:2307) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے
بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو اور مسلمانوں
کے گھروں میں سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی
ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حديث:3679)
یاد رکھیے!
یتیم کی آہیں اور بد دعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روز قیامت ہم سب کو اللہ کے
حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہو گا۔جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف
توجہ کرتے ہیں، اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے کے یتیموں
کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت،پیار کے منتظر ہوتے
ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا
صاحبِ حیثیت کی ذمہ داری ہے، بہرحال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو
ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب
فرمائے۔

سرزمین عرب پر
اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و
ستم کرنا بھی عام تھا دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے سلوک کی مذمت
کی بلکہ نرمی شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم دیا۔
یتیم
کسے کہتے ہیں؟
وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416) بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے
ہیں جب تک بالغ نہ ہو جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
اسلام نے
مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی
سختی سے تاکید کی ہے اسلام مکمل نظام حیات ہے اس میں معاشرے کے ہر فرد کی حقوق کا
خیال رکھا گیا ہے، لیکن آج کل ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے
بےپناہ حقوق متعین کیے ہیں اور آج کل یتیموں سے ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار
گرم ہے دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتی کہ وہ خونی
رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں کوئی ان کا پرسان حال
نہیں رہتا اور ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام
ہے۔
اللہ پاک نے قرآن
پاک میں یتیموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا
تَقْهَرْؕ(۹) (پ
30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اور ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا:
وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ
4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ
کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ
ہے۔
یتیموں کے
حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن
پاک میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں سے حسن سلوک اور
ان کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی۔ حدیث مبارکہ میں
بھی سرکار ﷺ نے یتیموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: جو یتیم کے سر پر اللہ پاک کی
رضا کے لیے ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے بدلے اس کے لیے
نیکیاں ہیں اور جو شخص سے یتیم لڑکی یا لڑکے کے ساتھ بھلائی کرے (دو انگلیوں کو
ملا کر فرمایا) میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ (مسند امام احمد، 8/272، حدیث: 22215)
حکیم الامت
مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ ثواب تو خالی ہاتھ پھیرنے کا ہے
جو اس پر مال خرچ کرے اس کی خدمت کرے اسے تعلیم و تربیت دے سوچ لو کہ اس کا ثواب
کتنا ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، 6/562)
یتیموں
سے حسن سلوک کی صورتیں: یتیموں سے حسن سلوک کی کئی صورتیں ہیں، مثلا ان کی
پرورش کرنا، کھانے پینے کا انتظام کرنا، اچھی تعلیم و تربیت کرنا، اس نے یتیموں کے
بارے میں کیسی عمدہ تعلیم دی ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: مسلمانوں
کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور
مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔
(ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)
اللہ پاک نے قرآن
مجید میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ
4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ
میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
فرمان: مصطفی ﷺ:
یتیم کا مال ظلماً کھانے والا قیامت کے روز اس طرح اٹھے گا کہ اس کے منہ کان آنکھ
اور ناک سے آگ کا شعلہ نکلتا ہوگا جو اسے دیکھے گا پہچان لے گا کہ یہ یتیم کا ناحق
مال کھانے والا ہے جس نے یتیم کا مال کھایا وہ ظن غالب کا اعتبار کرتے ہوئے اتنا
مال ان کو لوٹائے اور ساتھ میں ان سے معافی بھی مانگے یاد رہے کہ یتیموں کا حق کسی
کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہو سکتا بلکہ یتیم خود بھی معاف نہیں کر سکتے نہ کہ ان
کی معافی کا کچھ اعتبار ہے ہاں یتیم بالغ ہونے کے بعد معاف کریں تو اس کا معاف
ہوسکے گا۔ (تفسیر طبری، 3/615)
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت عبدالرشید،جامعۃ المدینہ ام حفصہ رائیونڈ لاہور

حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے ان جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں
نبی کریم ﷺ کی خاص محبت اور قربت حاصل تھی۔ آپ کا لقب الفاروق نبی کریم ﷺ نے عطا
فرمایا، جس کے معنی ہیں: حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور متعدد مواقع پر ان کی
رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
قبولِ
اسلام اور نبی کریم ﷺ کی خوشی: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول
کرنے سے قبل مسلمان خفیہ طور پر عبادت کرتے تھے، لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا
تو مسلمانوں کو تقویت ملی۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی تھی: اے اللہ! اسلام کو ان دونوں
میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو، اس کے ذریعے عزت عطا فرما: ابو جہل یا عمر
بن خطاب کے ذریعے۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
اس دعا کے بعد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور نبی کریم ﷺ کی محبت و قربت حاصل کی۔
نبی
کریم ﷺ کی گواہی: جب
سے عمر مسلمان ہوئے ہیں، ہم ہمیشہ باعزت رہے ہیں۔ (بخاری، 2/526، حدیث: 3684)
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: بیشک اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ (ترمذی، 5/383،
حدیث: 3702)
یہ حدیث مبارک
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی اہمیت اور نبی کریم ﷺ کی ان سے محبت کی واضح
دلیل ہے۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں، ابوبکر اور
عمر ایک ساتھ تھے، تو میں نے ایسا ایسا کیا۔
یہ انداز نبی
کریم ﷺ کی حضرت عمر سے قریبی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت محمد عدنان عطاری، جامعۃ المدینہ دھوراجی کراچی

کتنا خوش نصیب
ہے وہ شخص جسے ایمان کی دولت نصیب ہے، یقینا وہ شخص کفر کی اندھیرے میں ڈوبا ہو
پھر اسے اسلام کی دولت نصیب ہوگئی ایسا شخص بھی یقینا خوش نصیب ہے، سوچئے اس شخص
کے ایمان کی کیا شان ہوگی جس کےلیے پیارے حبیب ﷺ ایمان کی دعا فرمائیں! جی ہاں
پیاری بہنوں میری مراد حضرت عمر فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ ہیں جنہوں نے پیارے حبیب ﷺ کی
دعا کے نتیجے میں اسلام قبول کیا۔
رسول
اللہ نے فاروق کو اللہ سے مانگا
عطاء
ربّ سبحاں حضرت فاروق اعظم ہیں
چنا
اس پاک نے دیں کے لئے اس پاک ستھرے کو
حبیب
دین داراں حضرت فاروق اعظم ہیں
پیاری اسلامی
بہنو! حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی ہیں، آپ مرادِ رسول ﷺ ہیں۔
پیارے نبی سب
سے آخری نبی ﷺ آپ سے محبت فرمایا کرتے تھے۔
پیارے آقا ﷺ کی
حضرت عمر سے محبت کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نا عبد
الله بن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ میرے والد گرامی امیر المؤمنین حضرت
عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اللہ کے محبوب ﷺ سے عمرہ پر جانے کی اجازت چاہی تو
آپ نے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھول
جانا۔ امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم فرماتے ہیں: دوجہان کی تمام تر نعمتوں سے بڑھ
کر میرے لیے یہ بڑی نعمت ہے کہ آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے میرے بھائی! (فیضان
فاروق اعظم، 2/363)
پیاری اسلامی
بہنو! اس واقعہ سے جہاں ہمیں پیارے حبیب ﷺ کی فاروق اعظم سے محبت کا پتا چلا وہیں
یہ بھی درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم دوسروں سے اپنے لیے دعائیں کروائیں۔
حضور ﷺ کی
فاروق اعظم سے محبت کے متعلق یہ حدیث پاک بھی ہے: پیارے آقا ﷺ نے حضرت عمر سے
فرمایا: اے عمر! تم جنت میں میرے ساتھ تین میں سے تیسرے نمبر پر ہو گے۔ (معجم کبیر،
5/220، حدیث: 5146)
قارئین اس
حدیث پاک سے بھی شانِ فاروق اعظم ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کو جنت میں بھی مصطفی ﷺ کی
رفاقت نصیب ہوگی اور جس کو حضور کی رفاقت ملے اس کی شان کا بھلا ہم کیسے بیان
کرسکتے ہیں۔
رہے
گا نام ان کا تا ابد کونین میں روشن
سپہر
دیں پہ رخشاں حضرت فاروق اعظم ہیں
اسی طرح پیارے
حبیب ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: اپنی مجلسوں کو مجھ پر درود پاک
پڑھ کر اور عمر کا ذکر کر کے آراستہ کرو۔ (کنز العمال، 12/596، حدیث: 35855)
قارئین محترم
اس حدیث پاک میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، ہمیں چاہیے کہ کثرت سے
ذکر صحابہ کرام کیا کریں اور جب بھی ذکرِ صحابہ و ذکر خلفائے راشدین کریں تو خیر
ہی کے ساتھ کریں کہ تمام صحابہ کرام عالی شان، عالی مرتبے والے ہیں، کوئی بھی ولی
خواہ کتنے ہی بڑے مرتبے پر ہو کسی بھی صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ آئیے
حدیث پاک کے حکم پر ہم بھی عمل کرتے ہوئے ذکر فاروق اعظم کرتے ہیں:
بہارِ
باغِ ایماں حضرت فاروق اعظم ہیں
چراغ
بزم عرفاں حضرت فاروق اعظم ہیں
نہ
کیوں وہ ذات چمکے جس نے دین پاک چمکایا
جہاں
کے مہرتاباں حضرت فاروق اعظم ہیں
اسی طرح ایک
اور محبت بھرا فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس
نے عمر سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (الشفا، 2/120)
پیاری اسلامی
بہنو! اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ شخص جھوٹا ہے جو محبت رسول کا دعویٰ کرے لیکن
ساتھ معاذ اللہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے بغض رکھے کیونکہ اصل میں دعویٰ محبت
اسی کا سچا ہے جس کے دل میں محبت مصطفی ﷺ کے ساتھ محبتِ فاروق اعظم بھی ہو۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت محمد یونس، جامعۃ المدینہ بھنڈر ٹاؤن فروکہ

حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ جنہیں ہم حضرت فاروق اعظم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ
عنہ خلافت راشدہ کے دوسرے خلیفہ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
آپ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کی زندگی
اسلام،عدل، تقویٰ اور محبت رسول ﷺ سے بھرپور تھی۔
آج کے موضوع
میں حضور نبی پاک ﷺ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت، آپ کے مقام و مرتبہ اور
حضور ﷺ کی جانب سے ان کے لیے دعاؤں اور ارشادات کا ذکر کریں گے۔
قبولِ
اسلام اور دعائے رسول: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا اسلام کی
فتح کا ایک بڑا دن تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے اسلام لانے سے قبل دعا کی تھی: اے
اللہ! اسلام کو ان دو میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہو:ابوجہل یا عمر بن خطاب، اس کے
ذریعے عزت عطا فرما۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
اللہ پاک نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا اور ان کے ذریعے اسلام کو قوت و عزت عطا
فرمائی۔
رسول
اللہ کا فخر اور محبت بھرا انداز: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے
کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کئی موقع پر ان کی عظمت کا ذکر فرمایا۔ ایک موقع پر فرمایا:
بے شک اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3702)
یہ عظیم الفاظ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم، حکمت اور رائے کی سچائی کی دلیل ہیں، جو کہ رسول
اللہ ﷺ کی ان سے محبت اور اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت محمد سلیم،جامعۃ المدینہ معراج
کے سیالکوٹ

حضور ﷺ کی
فاروق اعظم سے محبت بے پناہ تھی اس بات کا ثبوت احادیث مبارکہ سے ملتا ہے اور
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی حضور ﷺ سے بہت محبت کرتے تھے۔
روایت ہے حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تم سے پہلی امتوں
میں الہام والے لوگ تھے تو اگر میری امت میں کوئی ہوا تو وہ عمر ہیں۔
روایت ہے حضرت
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اللہ نے جناب عمر کی
زبان اور دل پر حق جاری فرمایا۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3702)
روایت ہے حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریم ﷺ سے راوی کہ حضور ﷺ نے فرمایا: الٰہی اسلام
کو عزت دے یا ابو جہل ابن ہشام سے یا عمر ابن خطاب کے ذریعے۔ (ترمذی، 5/383، حدیث:
3701)تو جناب عمر نے سویرا کیا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں صبح ہی حاضر ہوئے، اسلام
قبول کرلیا۔ پھر مسجد میں ظاہر ظہور نماز پڑھی گئی۔
روایت ہے حضرت
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ایک شخص میری امت
میں جنت کے بڑے درجہ والا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم ہم یہ
شخص حضرت عمر ابن خطاب ہی کو سمجھتے رہے حتیٰ کہ وہ اپنی راہ چلے گئے۔
حضرت عبداللہ
بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے اور آپ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔
حضرت ابو سعید
خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے لئے دو وزیر
اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر
جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ (ترمذی،
5/382، حدیث: 3700)
میری امت میں
اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔ اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی
راستہ کاٹ جاتا ہے۔
حضرت عبد اﷲ
ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ!
عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ (مستدرک، 4/34، حدیث: 4541)
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت محمد نواز،فیضان عائشہ صدیقہ مظفرپورہ سیالکوٹ

حضور ﷺ تمام
صحابہ کرام سے محبت فرماتے تھے سب صحابہ کرام سے محبت کا انداز نرالا تھا ان میں
سے ایک صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی پیارے آقا جان ﷺ بہت محبت فرمایا کرتے
تھے۔ ایک موقع پر پیارے نبی، رسول ہاشمی ﷺ نے فرمایا: جس نے عمر سے بغض رکھا، اس
نے مجھ سے بغض رکھا، جس نے عمر سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔ بےشک اللہ پاک
عرفہ کی رات کو مسلمانوں پر عمومی فخر فرماتا ہے اور عمر پر خصوصی فخر فرماتا ہے،
بے شک پہلے انبیائے کرام علیہم السّلام کی امّت میں محدّث ہوتے تھے، اگر میری امّت
میں کوئی محدّث ہے تو وہ عمر ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرّضوان نے پوچھا: یارسول اللہ
ﷺ! کیسے محدّث؟ فرمایا: وہ جس کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔ (معجم اوسط، 5/102، حدیث:
6726)
ایک حدیث پاک
میں ہے: بےشک اللہ پاک نے عمر کی زبان اور دل پر حق رکھ دیا ہے۔ (ترمذی، 5/383،
حدیث: 3702)
طبرانی شریف
کی حدیث پاک میں ہے، مکی مدنی آقا، دو جہاں کے داتا ﷺ نے فرمایا: عمر میرے ساتھ ہے،
میں عمر کے ساتھ ہوں، میرے بعد عمر جہاں بھی ہو، حق اس کے ساتھ ہوگا۔ (تاریخ ابن
عساکر، 48/324)
نبی کریم ﷺ نے
عرض کی: اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں جو بندہ تجھے زیادہ محبوب
ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو عزت بخش۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
رسول
اللہ نے فاروق کو اللہ سے مانگا
عطائے
ربّ سبحاں حضرت فاروق اعظم ہیں
چنا
اس پاک نے دیں کے لئے اس پاک ستھرے کو
حبیب
دین داراں حضرت فاروق اعظم ہیں
حضرت ابن عمر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے قبر سے میں
اٹھوں گا پھر ابو بکر پھر حضرت عمر۔ (ترمذی، 5/388، حدیث: 3712)
حضور کی فاروق اعظم سے محبت از بنت ریاض فاطمہ،فیضان ام عطار گلبہار
سیالکوٹ

امیر المومنین
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ آپ ہی وہ شخصیت ہیں
جن کے سائے سے شیطان بھی بھاگتا ہے، جن کے نام سے آج بھی کفر و باطل کے ایوانوں
میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں اللہ پاک نے فاروق کا لقب
عطا فرمایا۔ آپ نے اسلام کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دیں اور اسلام کے لیے بے
شمار قربانیاں دیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو طاقت بخشی اور
کفار کے مظالم کا سامنا کیا اور ان کی شخصیت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ ان سے بے حد
محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ
پیارے نبی
رسول ہاشمی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عمر سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس
نے عمر سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔ بے شک اللہ پاک عرفہ کی رات کو مسلمانوں
پر عمومی فخر فرماتا ہے اور عمر پر خصوصی فخر فرماتا ہے۔ بےشک پہلے انبیاء کرام
علیہم السلام کی امت میں محدث ہوتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر
ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیسے محدث؟ فرمایا: وہ جس
کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔ (معجم اوسط، 5/102، حدیث: 6726)
طبرانی شریف
کی حدیث پاک میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے فرمایا: عمر میرے ساتھ ہے، میں عمر کے ساتھ
ہوں، میرے بعد عمر جہاں بھی ہو، حق اس کے ساتھ ہوگا۔ (تاریخ ابن عساکر، 48/324)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ آپ ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کس قدر محبت
فرماتے تھے کہ آپ کو اپنا ساتھی قرار دیا کہ عمر میرے ساتھ ہے اور میں عمر کے ساتھ
اور جسے جان عالم ﷺ کا ساتھ نصیب ہو اس کے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
اے کاش ہمیں
بھی بروز قیامت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صدقے جانِ عالم ﷺ کا ساتھ نصیب ہو
جائے۔ آمین
حضور ﷺ کی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے میں
اپنی قبر سے باہر نکلوں گا اس کے بعد ابوبکر اور پھر عمر۔ (ترمذی، 5/ 388، حدیث:
3712)
جب حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کا جنازہ پلنگ پر رکھ دیا گیا تو لوگوں نے چاروں طرف سے جنازے کو
گھیر لیا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنے لگے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں کھڑا تھا کہ یکا یک ایک شخص میرے پیچھے ا کر کھڑا
ہو گیا اور اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ کر کہنے لگا اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے
تم نے اپنے بعد کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا کہ اس کے مثل عمل کرے مجھے اللہ سے
ملنا تمہارے جیسے عمل کر کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے امید تھی
کہ اللہ تمہیں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ جمع کر دے گا اس لیے کہ میں اکثر رسول
اللہ ﷺ کو اس طرح فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر و عمر تھے، میں اور
ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر نکلے۔ حضرت ابن عباس کہتے
ہیں: میں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص جناب علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ (بخاری،
2/524، حدیث: 3677)
رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کئی مواقع پر اپنی محبت اور اعتماد کا اظہار فرمایا۔ ایک
مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385،
حدیث:3706) یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت
کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے دو دو وزیر ہیں،دو آسمان
میں اور دو زمین میں۔ آسمان میں میرے دو وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور زمین میں
میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ (ترمذی، 5/382، حدیث: 3700)
ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے امیر المومنین حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ! خصوصاً عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام کو عزت عطا فرما۔ (ابن ماجہ، 1/77،
حدیث: 105)
معلوم ہوا کہ
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ ہیں۔ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے
مانگ کر لیا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ مراد رسول ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکار مدینہ قرار قلب و سینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عمر سے محبت کی اس کا دل
ایمان سے معمور کر دیا جائے گا۔ (ریاض النضرہ، 1/319)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلی امتوں
میں کچھ لوگ ہوتے تھے جو نبی نہ ہونے کے باوجود کلام کرتے تھے۔ میری امت میں اگر
کوئی ہے تو عمر ہے۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3689)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! قربان جائیے محبت مصطفی ﷺ پر کہ آپ ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
کس قدر محبت فرماتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت سے بے
شمار ایسے فضائل عطا ہوئے جس میں آپ منفرد ہیں یعنی وہ فضائل خاص آپ ہی کو عطا
ہوئے کوئی دوسرا اس میں شریک نہ تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ ایسے ہی فضائل
ملاحظہ کیجئے۔ چنانچہ
رسول اللہ ﷺ نے آپ کے جنتی محل کا ذکر فرمایا۔ (بخاری،
2/390،
حدیث: 3242) رسول اللہ ﷺ نے آپ کو خود علم عطا
فرمایا۔ (بخاری، 2/525،
حدیث: 3681) رسول اللہ ﷺ نے آپ کی دین میں پختگی کو
بیان فرمایا۔ (بخاری، 2/528، حدیث: 3691)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! حضور ﷺ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کا بیان بہت طویل ہے۔
جو اس تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حضور ﷺ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
محبت کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبہ المدینہ کی کتاب فیضان فاروق
اعظم کا مطالعہ کیجئے۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت ذوالفقار علی،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

حقیقت میں
کمال اور خوبی والا شخص وہ ہے۔ جو دوسروں کو بھی کمال خوبی والا بنا دے تو ہمارے
پیارے آقا ﷺ حقیقت میں کمال خوبی والے ہیں۔ جنہوں نے بےشمار لوگوں کو کمال خوبی
والا بنا دیا اور ان کا فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے جن کو کمال
خوبی والا بنا دیا ان میں سے ایک حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ ہیں جو کہ افضل
البشر بعد الانبیا حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے بعد تمام صحابہ کرام میں سب
سے افضل ہیں۔
ترمذی شریف کی
حدیث میں ہے: حضور ﷺ نے دعا فرمائی: یا الله! خاص طور سے عمر بن خطاب کو مسلمان
بنا کر اسلام کو عزت و قوت عطا فرما! تو الله کے محبوب ﷺ کی یہ دعا بارگاہِ الٰہی
میں مقبول ہو گئی اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ اسلام سے مشرف ہوگئے۔
سرکار اقدس ﷺ
نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/ 385، حدیث: 3706)
حضور ﷺ نے
فرمایا: عمر مجھ سے ہے اور میں عمر سے ہوں اور عمر جس جگہ بھی ہوتے ہیں حق ان کے
ساتھ ہوتا ہے۔ (مدارج النبوۃ، 2/436)
ایک اور حدیث پاک
میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے زمانے میں محدث ہوئے ہیں۔ اگر میری امت
میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر رضی الله عنہ ہیں۔ (بخاری، 2/ 527، حدیث: 3689)
حضرت
عمر کے مشورے کی اہمیت: حضرت عمر رضی الله عنہ کے مشورے کئی مواقع پر وحی
الہٰی کے موافق نکلے۔ مثال کے طور پر: پردے کے احکام، بدر کے قیدیوں سے متعلق
فیصلہ اور مقام ابرہیم کو مصلیٰ بنانے کے بارے میں ان کی رائے بعد میں وحی کی صورت
میں نازل ہوئی۔
حضور
کی عمر سے ذاتی طور پر محبت: حضور ﷺ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو نہ
صرف دنیاوی بلکہ اخروی فضیلتوں کی بھی بشارتیں دیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: عمر
جنت میں جائے گا ایک اور موقع پر فرمایا: میں ابو بکر اور عمر جنت میں ایک ساتھ
ہوں گے۔

حضرت محمد ﷺ کو
حضرت فاروق اعظم سے بےحد محبت تھی اور یہ محبت کئی احادیث اور واقعات سے ثابت ہے،
چند ایک احادیث بطور مثال پیش کی جارہی ہیں، چنانچہ
دعائے
مصطفیٰ: حضور
ﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: اے اللہ! عمربن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت ہے۔
(مستدرک، 4/34، حدیث: 4541) یہ دعا اس وقت کی گئی جب حضرت عمر ایمان نہیں لائے تھے
لیکن رسول اللہ ﷺ کو ان کی قوت اور صلاحیتوں سے محبت تھی اور آپ چاہتے تھے کہ وہ
اسلام کے لیے وقف ہوں۔
اگر
میرے بعد نبی ہوتا!!! سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد نبی ہوتا تو
عمر ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)
جنت
کی بشارت: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں دیکھا کہ ایک محل ہے میں نے پوچھا
یہ کس کا ہے؟ کہا گیا عمر بن خطاب کا۔ (ترمذی، 5/386، حدیث: 3709)
حق
اور باطل کی تمیز: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ نے حق کو
عمر کی زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔(ترمذی، 5/383، حدیث: 3702)
شیاطین
بھاگ جاتے ہیں: حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں بلاشبہ نگاہِ
نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان بھی انسان کے شیطان بھی دونوں میرے عمر کے
خوف سے بھاگتے ہیں۔ (ترمذی، 5/387، حدیث: 3711)
حق
عمر کے ساتھ: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر مجھ سے ہیں میں عمر سے ہوں اور عمر جس جگہ بھی ہوتے
ہیں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ (خلفائے راشدین، ص 116)

حضور ﷺ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو
بھی رسول اللہ سے بے پناہ محبت تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام کے لیے خدمات
اور ان کی شخصیت کی وجہ سے آپ ﷺ ان سے خاص محبت رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں
فاروق کا لقب دیا،جس کا مطلب ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔
محبتِ
فاروقی کے مظاہر: کچھ
اہم باتیں جو اس محبت کو ظاہر کرتی ہیں درج ذیل ہیں:
دعائے
مصطفیٰ: رسول
اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ایمان لانے سے قبل دعا فرمائی: اے اللہ!
ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما:
ابو جہل یا عمر بن خطاب۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
فاروق
کا لقب: نبی
کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا،جو کہ آپ کی شخصیت
اور کردار کی عظمت کا مظہر ہے۔
احادیث میں ذکر: بہت سی احادیث
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور نبی کریم ﷺ کی محبت کا ذکر ملتا ہے۔
مشاورت: نبی کریم ﷺ اکثر اہم معاملات
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرماتے تھے، جو کہ آپ کی رائے پر اعتماد کا
اظہار تھا۔
حضور ﷺ کی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت پر احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کئی مواقع پر اپنی محبت اور اعتماد کا اظہار فرمایا۔ ایک
مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385،
حدیث:3706) یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت
کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے
ہیں:میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے تم مجھ سے باتیں کرتے ہو اورمیں تم سے اور میری
وفات بھی تمہارے لیے بہتر، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے، جب میں کوئی بھلائی
دیکھوں گا توحمد الٰہی بجالاؤں گا اور جب برائی دیکھوں گا تمہاری بخشش کی دعاکروں
گا۔ (البحر الذخار، 5/308، 309، حدیث: 1925)
حکیم الامّت
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ اپنے ہر امّتی اور
اس کے ہرعمل سے خبردارہیں۔حضور انور ﷺکی نگاہیں اندھیرے، اجالے، کھلی، چھپی، موجود
ومعدوم ہرچیزکو دیکھ لیتی ہے۔جس کی آنکھ میں مازاغ کا سرمہ ہو، اس کی نگاہ ہمارے
خواب و خیال سے زیادہ تیز ہے، ہم خواب وخیال میں ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں، حضور ﷺ نگاہ
سے ہر چیز کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ صوفیا فرماتے ہیں کہ یہاں اعمال میں دل کے اعمال
بھی داخل ہیں، لہٰذا حضورﷺ ہمارے دلوں کی ہر کیفیت سے خبردار ہیں۔ (مراۃ، 1/439)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! معلوم ہوا آپ ﷺ اپنے امتیوں کے تمام احوال سے باخبر ہیں تو ہمارے نیک
اعمال دیکھ کر خوش اور برے اعمال سے غمگین بھی ہوتے ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ
اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال
کریں، آپ ﷺ کی ذات بابرکت پر کثرت سے درودوسلام کے گجرے نچھاور کریں، آپ ﷺ کی
سنّتوں پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی سکھائیں تاکہ حضور ﷺ خوش ہوکر روز محشر اپنے
گنہگار امتیوں کی شفاعت فرماکر جنت میں ہمیں بھی اپنے ساتھ لیتے جائیں۔ آمین
یا
الٰہی جب پڑے محشر میں شور دارو گیر
امن
دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385، حدیث:
3706)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں
میں محدث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3689)
حضور نبی اکرم
ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن
کے ساتھ اﷲ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر
کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ (بخاری، 2/528، حدیث: 3689)
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے دو دو وزیر ہیں، دو
آسمان میں اور دو زمین میں۔ آسمان میں میرے دو وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور
زمین میں میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ (ترمذی، 5/382، حدیث: 3700)
رسول اللہ ﷺ بھی
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا لحاظ کرتے تھے، جیسا کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حریرہ (آٹے سے بنایا جانے
والا کھانا) پکا کر لائی۔ (ام المومنین
حضرت سیدتنا) سودہ رضی اللہ عنہا میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔میں
نے ان سے کہا: تم بھی کھاؤ! انہوں نے انکار کیا تو میں نے خوش طبی کرتے ہوئے کہا: کھا
لو ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مل دوں گی، انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے
حریرہ سے ہاتھ بھرا اور ان کے چہرے پر مل دیا انہوں نے بھی اپنا ہاتھ حریرہ سے
بھرا اور میرے چہرے پر مل دیا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ مسکرا دیئے (ام المومنین
حضرت سیدتنا) سودا رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اس کے (سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا کے) چہرے پر اور ملو۔انہوں نے میرے چہرے پر اور مل دیا۔حضور ﷺ یہ منظر دیکھ
کر بہت خوش ہوئے۔اتنے میں گھر کے باہر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے
کو) آواز دی: عبداللہ عبداللہ! رسول اللہ ﷺ نےمحسوس کیا کہ غالباً حضرت عمر فاروق
اندر آنے والے ہیں،آپ ﷺ نے ہمیں ارشاد فرمایا: یعنی جلدی جلدی اٹھو اور اپنا منہ
دھو لو! حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کا لحاظ
کرتے ہوئے دیکھا تب سے میرے دل میں بھی حضرت عمر کی ہیبت بیٹھ گئی۔ (سنن کبری
للنسائی، 5/291، حدیث: 8917)
آخر میں اللہ پاک
سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عشق رسول کا کچھ عطا
فرمائے۔ ہمارے دلوں کو عشق رسول کی شمع سے روشن فرمائے اور ہمارا سینہ حضور جان
جانان کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنائے۔