صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے مُحبّ اور اقوال و افعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے تھے بے شک سُنت پر عمل ایمان کے کامل ہونے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب پانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ وہ حضرات ہیں جن کا ایمان کامل ہی نہیں بلکہ اَکمل ہے اور ان سے زیادہ قُرب بھلا کس کو حاصل ہے، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا تو آئیے چند واقعات ملاحظہ فرمائیے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کی طرف نظر کر کے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو ہرگز میں تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الجز ء الثانی(فصل ماورد عن السلف فی اتباعہ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹنی کو ایک جگہ چکر دیا، اس بارے میں آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا، تو فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا ، پس میں نے بھی ایسا ہی کیا۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الجز ء الثانی(فصل واماورد عن السلف فی اتباعہ)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پانی منگوایا اور وُضو کیا پھر مسکرائے اور ساتھیوں سے فرمایا :کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کس چیز نے مجھے مُسکرایا؟اُنہوں نے عرض کی یا امیرالمومنین! آپ کس چیز کے سبب مسکرائے؟ تو فرمایا: ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ کے قریب وُضو فرمایا تھا پھر مسکرائے تھے اور اَصحاب سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ اَصحاب رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"بندہ جب پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اسی طرح کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے اور سر کا مسح کرے تو سر کے اور قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے،( تو میں نے انہی کی ادا کو ادا کیا)۔(مسند عثمان بن عفان، ح415)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی دعوت میں شریک ہو گیا، درزی نے آپ کے سامنے روٹی، کدو( لوکی) اور گوشت کا سالن رکھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے کدو تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں پس اُس دن کے بعد میں کدو کو بہت پسند کرتا ہوں۔(صحیح مسلم کتاب الاشربہ، باب جواز اکل المرق، ح 2041)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی عمل کرتا دیکھتے تو اس کی پیروی اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی سنتوں کا پابند بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کی اطاعت بھی کی جائے کیونکہ محبت اطاعت کروا تی ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی ہر ہر ادا سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تصویر نظر آتی ہے جن کی مبارک سیرت ہمیں یہ سکھا تی ہے کہ محبت کیسے کی جاتی ہے؟ اطاعت کیسے کی جاتی ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے زندگی کے ہر ہر قدم پر اتباع سنت کو اپنائے رکھا ۔

صحابہ کرام کےجذبہ اتباع سنت کا عالم تو یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے میں اس کوکئے بغیر نہیں چھوڑتا اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں سنت سے منحرف ہو جاؤں گا۔

(نسیم الریاض، فیما یجب علی الانام من حقوقہ، الباب الاول فی غرض الایمان )

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سنتوں پر عمل کے جذبے کا عالم یہ تھا کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا قصد انجام دیا اس کی پیروی کرنا بھی اپنے لیے باعث برکت سمجھتے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی کو ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں پوچھا گیا ؟ تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی کیا ہے

(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، القسم الثانی، الباب الاول فصل ما ورد عن السلف جلد 2 صفحہ 15)

حضرت حمران بن آبان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے آپ نےوضو کیا جب وضو کر کے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا :جس طرح میں نے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی وضو کیا تھا اور اس کے بعد مسکرائے تھے۔

(مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ، 134/1،الحدیث: 435)

وضو کر کے خنداں ہوئے شاہ عثمان

پھر کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں؟؟

جواب ِسوالِ مخاطب دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

اللہ اللہ کیا جذبہ تھا اتباع سنت کا جبھی توبارگاہ رسالت سے ” اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم ، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔“ کا خوبصورت تحفہ عطا ہوا (مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب 414 حدیث: 2018)

ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی

اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد کسی نے اس سے کہا کہ اپنی انگوٹھی اٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ حاصل کر اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں لے سکتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پھینک دیا تو میں اسے کیسے لے سکتا ہوں؟

(مشکوۃ، کتاب اللباس،باب الخاتم ،الفصل الاول ،الحدیث 4285)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا:

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ آخری تمنا تھی کہ ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے آخری تمام معاملات بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک سنتوں کے مطابق ادا کیے جائیں آپ کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہو جائے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، الحدیث 387،ج1، ص 468)


ہم جس سے محبت کرتے ہیں ان کی ہر ادا کو ادا کرتے ہیں ان سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کے ہر حکم کی پیروی کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان عشق رسول سے سرشار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے ان کی کسی ادا کو دیکھتے تو فوراً اسے خود ادا کرنے کی کوشش کرتے صحابہ کرام اور ان کے اتباعِ رسول کے کچھ واقعات پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے گزرا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی انداز سنتے یا دیکھتے تو فوراً اس پر عمل کرتے تھے ۔

بڑھی ہوئی آستینوں کو چھری سے کاٹ ڈالا:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے نئی قمیض پہنی تو چھری منگوائی اور فرمایا اے بیٹے! اس کی لمبی آستینوں کو سرے سے پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری انگلیاں ہیں ان کے آگے سے کپڑا کاٹ دو۔

سیدناعبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس سے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں بلکہ اوپر نیچے سے کٹا میں نے عرض کیا بابا جان! اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا بیٹا اسے ایسے ہی رہنے دو کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا تھا اس لیے میں نے بھی چھری سے آستینیں کاٹ دیں ۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آستین کاٹنے کے بعد کُرتے کی یہ حالت تھی کہ بعض دھاگے باہر نکل گئے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں کو چوم رہے تھے۔

(مستدرک حاکم، کتاب اللباس ج5،ص275)

سبحان اللہ! حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا عشق رسول مرحبا!!! کہ اتباع رسول میں آپ رضی اللہ عنہ نے نئے لباس کی آستینیں کاٹ دیں اور غلط کٹنے کی وجہ سے اسے پہننے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہ کی۔ واہ سبحان اللہ مرحبا!کہ سنت رسول پر عمل کا جذبہ آپ رضی اللہ عنہ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اللہ کریم ہمیں بھی سنتوں کا پیکر بنائے اور ہر کام اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

سنتیں مصطفیٰ کی تو اپنائے جا

دین کو خوب محنت سے پھیلائے جا

یہ وصیت تو عطار پہنچائے جا

اس کو جو ان کے غم کا طلبگار ہے


صحابہ کرام رضی اللہ عنھمآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لئے بہت زیادہ دلدادہ اور شوقین تھے، جو عمل حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کیا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عمل کو بھی جاری رکھتے تھے۔

قرآن کی روشنی میں:

فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠(۳۲) ۔ )سورۃ النجم آیت نمبر 32(

احادیث کی روشنی میں:

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرے صحابہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں تم ان میں سے کسی ایک کا بھی دامن پکڑ لو تو تم لوگ کامیاب ہو جاؤ گے۔" قرہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی، اس حال میں کہ آپ کی قمیض مبارک کا ایک بٹن کھلا ہوا تھا، قرہ نے کہا میں معاویہ بن قرہ اور ان کے بیٹے کو دیکھا وہ گرمی و سردی میں ہمیشہ قمیض کا بٹن کھلا رکھتے تھے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں اتباع ِسنت کا جذبہ تھا، انہوں نے جب دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیض کا بٹن کھلا تھا تو انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اس عمل کو اختیار کیا، چاہے سردی کا موسم ہوتا یا گرمی کا انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا اور آپ اپنے غلام کے ساتھ گزر رہے تھے، تو ایک ایسی جگہ سے گزرے کہ وہاں سے آپ رضی اللہ عنہ سر جھکا کر گزرے تو غلام نے عرض کی حضور سر کیوں جھکایا ہے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں سے گزرا تھا، یہاں پر ایک درخت تھا اس کی ٹہنیاں جھکی ہوئی تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب گزرے تو تھوڑا نیچے ہو کر گزرے تاکہ یہ درخت کی ٹہنی میرے عمامہ کو بوسہ نہ لینا شروع کر دے، تو آپ کے غلام نے عرض کی حضور! اب تو یہاں درخت بھی نہیں ہے اور نہ ہی ٹہنیاں جن سے آپ بچ کر گزرے ہیں تو آپ نے فرمایا:" بے شک یہاں درخت نہیں ہے، یہاں ٹہنیاں نہیں ہیں لیکن میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح گزرے تھے میں نے بھی اسی طرح گزرنا ہے۔ صحابہ کرام نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو زندہ رکھا، جس طرح آپ نے زندگی گزاری اسی طرح انہوں نے زندگی گزاری، پھر وہ لوگ کامیاب ہو گئے، فلاح پا گئے اور وہ ہی لوگ کامیاب ہیں۔


ہر نبی اور رسول کے جان نثاروں اور حواریوں نے اپنی محبت وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسولِ محترم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے سرشار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ سے محبت کا اظہار کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔

جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے، اس کی رفتار سے محبت، اس کی گفتار سے محبت ،اس کے کردار سے محبت، غرض یہ کہ اس کی ہر شے سے محبت ہوتی ہے۔

حضرت عبیدہ بن جریج رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت کیے ہوئے چمڑے کابے بال جوتا پہنتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہ ہو ں اسی لیے میں بھی ایسا جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الرجلین،حدیث: 166،ج1،ص40)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک کیاہوانمکین گوشت تھا کھانے کے دوران میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ) تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں اسی لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔

(صحیح بخاری، کتاب الاطعمہ، باب الدباء،حدیث: 5433،ج3،ص534)

حضرت امام ابو یوسف( شاگرد امام اعظم) کے سامنے اس روایت کو ذکر کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا اس مجلس میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا لیکن مجھے نہیں پسند تو حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی تلوار کھینچی اور فرمایا تجدید ایمان کرو ورنہ تجھے قتل کر دیا جائے گا۔

(الشفاء للقاضی، باب الثانی ،فصل فی علامۃ محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج2،ص51)

اسی طرح کتب احادیث صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سنت پر عمل کے جذبہ سے مالا مال ہیں اور یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو پسند اس لئے کرتے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو اتباع رسول کا ظہور ناگزیرہوجاتا ہے۔احکام الہی کی تعمیل اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عاشق کی رگ و ریت میں سما جاتی ہے اگر امت محمدیہ بھی ا سے اختیار کر لے تو ان کی معاشرت سنور جائے اور آخرت نکھر جائے اور بے مایہ انسان میں ایسی قوت پیدا ہوجائے جس سے کئی جوہر کھل جائیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں


صحیح بخاری میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے واسطے تشریف لے گئے، جب نماز کا وقت ہوا مؤذن نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ تاکہ میں اِقامت کہوں، فرمایا: ہاں!اور انہوں نے امامت کی اس عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور صف میں قیام فرمایا، جب نمازیوں نے حضور کو دیکھا تو تصفیق ( بائیں ہاتھ کی پُشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح مارنا شروع کی کہ آواز پیدا ہو) کی، اس غرض سے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خبردار ہوجائیں، کیونکہ ان کی عادت تھی کہ نماز میں کسی طرف توجہ نہ کرتے تھے، جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تصفیق کی آواز سُنی تو گوشہ چشم سے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، لہذا پیچھے ہٹنے کا قصد کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس نواز ش پرکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے امامت کا حکم فرمایا، اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یَا اَبَا بَکْرِمَا مَنَعَکَ اَن َتَثْبُتَ اِ ذّ اَمَرّتُکَ

ترجمہ:ابوبکر !جب میں خود تمہیں حکم کر چکا تھا تو تمہیں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے سے کون سی چیز مانع تھی؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو قحافہ کا بیٹا اس لائق نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھ کر نماز پڑھائے، میں کیسے یہ کر سکتا ہوں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں ڈالے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس شخص سے کہا، تو اپنی انگوٹھی اُٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا، اس نے جواب دیا: نہیں، اللہ پاک کی قسم میں اسے کبھی نہیں لوں گا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے تو میں اسے کیسے لے سکتا ہوں،وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

(المائدہ:92 )

احادیث مبارکہ :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیروی کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ، جس مسجد میں نماز ادا کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی وہیں پر نماز ادا کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ بیٹھ کر ذکر و دُرود کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی وہیں پر ذکر و درود اور عبادت کرتے تھے، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد محبت کرتے اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بچوں سے بے حد محبت کرتے اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وُضو کیا اور اَچانک مُسکرانے لگے، آپ نے لوگوں سے اِرشاد فرمایا: پتہ ہے میں کیوں مُسکرایا؟ تو پھر خود ہی جواب اِرشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نا مدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ وُضو فرمایا اور بعدِ فراغت مُسکرائے تھےاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی، واللہ ورسولہ اعلم یعنی اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : جب آدمی وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے ، چہرہ دھونے سے چہرے کے اور سر کا مسح کرنے سے سر کے اورپاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جڑھ جاتے ہیں۔

وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثُماں

کہا کیوں تبسّم بھلا کر رہا ہوں

جواب ِ سُوالِ مُخالف دیا پھر

کسی کی اَدا کو اَدا کر رہا ہوں

سرکار کی پسند اپنی پسند:

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ شریک ہو گیا، کھانے میں روٹی کے ساتھ کدو ملا گوشت کا سالن پیش کیا گیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو شریف تلاش کر کے تناول فرماتے دیکھا، اُس دن کے بعد سے میں کدو شریف کو بہت پسند کرتا ہوں۔

سُبحان اللہ!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا کیا جذبہ تھا کہ جس کام کا حکم ارشاد نہیں فرمایا، پھر بھی یہ لوگ آپ کی ہر ادا اپنانے کا شوق رکھتے تھے۔

پتلی پتلی گُلِ قدس کی پتیاں

اُن لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے

اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام


 محبت کی اولین علامت محبوب کی اتباع وپیروی ہے اس لیے ہر امتی پر حق ہے کہ محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا اس پر عمل پیرا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

(مشکاۃ المصابیح جلد، 1 صفحہ 5 ،حدیث: 175)

صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سنتوں پر عمل کی کامل علامت موجود تھی صحابہ کرام علیہم الرضوان ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل :حضرت سیدتنا ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی بات فرماتے تو مسکراتے میں نے عرض کی آپ اپنی اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ آپ کو لوگ احمق کہنے لگیں گے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے کہ میں نے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے سنا آپ مسکراتے تھے (لہذا اس سنت پر عمل کو ترک نہیں کر سکتا)

( مسند احمد، سنن ابی داؤد، حدیث: 21791)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی آپ کے ساتھ موجود تھا اس نے روٹی اور شوربہ پیش کیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے تھے میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کدو شریف تلاش کر کے تناول فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد میں بھی کدو شریف کو پسند کرتا ہوں ۔

(بخاری شریف، کتاب البیوع، باب الخیاط ،حدیث: 2092)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل :

ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوایا اور پھر بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی پھر فرمایا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا۔

(مسند احمد، مسند عثمان بن عفان 37/1،حدیث :441)


اتباع سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)تَرجَمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورہ آل عمران:31)

اسی لیے ہدایت کے چاند تارے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے لازم ایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور سنت مبارکہ کے معاملہ میں کسی بھی عمل میں سنت کے تر ک کو بالکل ناگوار سمجھتے تھے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا: امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی اور یہ سب پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر لمحے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا ہے اور مرنے کے بعد بھی میرا کفن اور وفات کے دن کی مطابقت میں بھی آپ کی سنت کی اتباع مجھے نصیب ہو جائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور بھنی ہوئی بکری : ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گزرایک ایسی جماعت پر ہوا جن کے سامنے کھانے کے لئے مسلّم بکری بھنی پڑی تھی ۔ ان لوگوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیسے گوارا کروں گا۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کاپرنالہ:

منقول ہے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا مکان مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا اس مکان کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں کے اوپر گرا کرتا تھا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالے کو اکھاڑ دیا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس پرنالے کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میری گردن پر سوار ہوکر اپنے مقدس ہاتھوں سے لگایا تھا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا :اےعباس! مجھے اس بات کا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اس پرنالے کو اپنے ہاتھوں سے اسی جگہ لگا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ہر امتی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ امتی ہر حال میں ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

اور ایک دوسری جگہ پر قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ترجمہ :اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اس کو ان کا ساتھ ملے گا جن پر انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیق اور شہید ،یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(سورۃ النساء:69)

قرآن پاک کی یہ مقدس آیات یہ واضح بیان کر رہی ہیں کہ اطاعت رسول کے بغیر اسلام کا تصورہی نہیں کیا جاسکتا- صحابہ کرام نے اس سے لازم و ملزوم جذبے کو اختیار کیا ۔

کدو سے محبت :حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی آپ کے ساتھ موجود تھا انہوں نے روٹی اور شوربہ پیش کیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے پڑے تھے میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے تناول فرماتے تھے اسی لئے میں اس دن سے ہمیشہ کدو کو بہت محبوب رکھتا ہوں ۔

منقول ہے حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا تو اس مجلس میں ایک شخص نے کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا تو آپ علیہ الرحمۃ نے تلوار کھینچ لی اورفرمایا اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔

اللہ کریم ہمیں بھی ایسے جذبۂ اطاعت سے مالا مال فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے اتّباع ِ سنّتِ مصطفےٰ سے بہت عظیم مقام پایا۔ ان کی اتباع کا جذبہ ایسا تھا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایسی کوئی ادا نہیں چھوڑی جس کو اپنی زندگی میں اپنایا نہ ہو، آسمانِ ہدایت کے ان دَرَخْشَنْدہ ستاروں کی زندگی سنّتوں پر عمل کی خوشبو سے معطّر ہے۔

خاتم ُالنّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو اپنانا، ان کے لئے کاربند رہنا ان کی زندگی کا”جُزْءِ لَایَنْفَک“ بن چکا تھا، صحابۂ کرام میں سنّت کی پیروی کا جذبہ اس قدر تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا تھا صحابۂ کرام وہی کام اسی مقام پر کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

ایک دن امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگواکر کھایا اور تازہ وضو کئے بغیر نماز ادا کی پھر فرمایا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اسی جگہ یہی کھایا تھا پھر اسی طرح کیا تھا۔

(مسند احمد ،1/137، حدیث:441)

اسی طرح ایک مرتبہ سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے میں نے ایک مرتبہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔سبحٰن اللہ!

وضو کر کے خَنداں ہوئے شاہِ عثماں

کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں

جوابِ سوالِ مخاطب دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

بہرحال اس اتّباع کی برکت سے صحابۂ کرام نے سب کچھ حاصل کیا اور ان کا دستورِ عام یہی تھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت سے رہنمائی حاصل کرتے، انہوں نے اپنی عادات اپنے اخلاق اور اپنے طرزِحیات کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

امیر المؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے ؟حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی آرزو تھی کہ کفن اور یوم ِوفات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی موافقت ہو۔

حیات میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع میں تھے ہی ممات میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع چاہتے تھے۔(بخاری،1/468، حدیث:1387،صحابہ کرام کا عشق رسول ،ص 67)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع

کیوں نہ ہو صدیقِ اکبر تھے

اے کاش صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے قدموں کی دھول کے صدقے ہم بھی سچےّ عاشق ِرسول بن جائیں۔ کاش ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،چلنا پھرنا،کھانا پینا، سونا جاگنا، لینا دینا،جینا مرنا میٹھے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت کے مطابق ہوجائے۔

(فیضان صدیق اکبر ،ص 475، 476 ماخوذاً)


محبت رسول یقیناً ایک مسلمان کے لیے بڑی کامیابی کی دلیل ہے اور محبت رسول کا ثبوت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے سے ملتا ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔ (جامع ترمذی، حصہ 5،ص 46)

یہ حقیقت ہے کہ جس سے جتنی زیادہ محبت ہوتی ہے اس کی اتباع کا جذبہ بھی اسی قدر ہوتا ہے ۔ میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتے اور آپ کی ہر ہر ادا کو اپنانے کا جذبہ رکھتے تھے ۔ ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو محبت رسول اور سنت رسول کی پابندی سے ان کی زندگی کا ہر ہر گوشہ جگمگاتا نظر آئے گا ۔

اتباع سنت اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق خاص ہونے کا شرف حاصل ہے انہوں نے زندگی کے اکثر شب و روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزارے ، آپ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو روز روشن کی طرح واضح تھا اس لیے آپ نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اسوہ حسنہ کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی اسی طرح آپ نے بھی عبادت کی یہاں تک کہ سونے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے، پینے، کلام کرنے وغیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے ۔ (برکات رسول، ص83)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کس دن ہوا اور آپ کے کفن کے کتنے کپڑے تھے ؟

اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے رہے اب وصال کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نصیب ہو جائے ۔ قربان جائیے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر! کہ زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے رہے اور مرنے کے بعد بھی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو جائے ۔(برکات سنت رسول، ص86)

اتباع سنت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے اور ہر عمل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے کھانے ،پینے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے غرض کہ ہر چیز میں اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی ہمیشہ فقر و فاقہ میں گزاری اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی روم و ایران کی شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر و فاقہ کی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا حجر اسود کو بوسہ دیتے اور فرماتے تھے مجھے معلوم ہے تو ایک پتھرہے اگر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہر گز بوسہ نہ دیتا ۔

پیاری اسلامی بہنوں! عشق رسول تو دیکھیے حجر اسود کو بوسہ دینا عبادت ہے اس کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر عاشقوں کا مزاج تو دیکھیں کہ جو محبوب نے کیا وہ کریں گے ۔

(برکات سنت رسول، ص 88)

صحابہ کرام علیہم الرضوان سنتوں کے اس قدر پابند تھے کہ ان کی ہر ہر ادا سے محبت رسول اور عشقِ مصطفیٰ دکھائی دیتا ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی خود کو سنتوں کا پابند بنائیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے اللہ کریم ہمیں بھی سنتوں پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابہ کرام علیھم الرضوان سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور ہر معاملے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اتباع کرتے تھے چاہے ان کا تعلق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت عادیہ سے ہی کیوں نہ ہو۔

صحابہ کرام علیھم الرضوان کی سنتوں سے محبت اور ان پر عمل کرنے کا اندازہ ان مندرجہ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

حضرت سیدتنا ام درداء رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکرا دیتے ۔آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ اس عادت کو ترک فرما دیجیئے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے جب بھی رسول اللّٰہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو بات کرتے دیکھا یا سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تھے۔(یعنی میں بھی اس سنت پر عمل کی نیت سے ایسا کرتا ہوں)۔(مسند احمد،مسند الانصار، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اللہ عنہ 171/8, حدیث 21791)

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ:

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ متبع سنت تھے آپ رضی اللہ عنہ کو جب بھی کوئی سنت معلوم ہوجاتی تو اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی پس و پیش کا مظاہرہ نہ فرماتے۔ چنانچہ

ایک بار کسی مقام پر آپ رضی اللہ عنہ اونٹنی کے ساتھ پھیرے لگا رہے تھے یہ دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ایک بار میں نے مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہاں اسی طرح کرتے دیکھا تھا لہذا آج میں اس مقام پر اسی ادائے مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ادا کررہا ہوں۔(شرح شفاء، القسم الثانی الباب الاول، فصل واما ورد عن السلف والائمة، من اتباع سنة ٣٠/٢)

بتاتا ہوں تم کو میں کیا کر رہا ہوں

میں پھیرے جو ناقے کو لگوارہا ہوں

مجھے شادمانی اسی بات کی ہے

میں سنت کا ان کی مزہ لے رہا ہوں

اللّٰہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام علیھم الرضوان کے سنت پر عمل کرنے کے جذبے کے صدقے متبع سنت بنائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم