یقیناً کامیاب و کامران وہی ہے کہ جوفرائض
وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے کیونکہ فلاحِ دارین
کا جو وظیفہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی
امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنّت کو مضبوطی سے
تھام لیں چنانچہ
سنت کو مضبوطی سے تھام لو:
حضرت سیّدنا عِرباض بن سارِیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے بعد تم میں سے جو زندہ
رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری
سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو ۔
(ابوداؤد،
کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ، ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا، دار احیاء التراث
العربی بیروت 1426ھ)
سو شہیدوں کا ثواب:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ''مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ
اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃِ شَہِیْدٍ "یعنی فسادِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کریگا اسے سو
شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا ۔''(کتاب الزھد الکبیرللامام البیہقی،الحدیث۲۰۷،ج۱ ، ص۱۱۸ ،مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)
اللہ
تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ سورہ اٰل عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرماتا
ہے:
اتباع و اطاعتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ
فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ
غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿ اٰل عمران۳۱﴾ترجمہ کنزالایمان: اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ
اللہ تمہیں
دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ایک اور مقام پر ارشادِ خدا وندی ہے: قُلْ
اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ
الْکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲ اٰل عمران﴾
ترجمۂ کنزالایمان: تم
فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کاپھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔
ان مذکورہ آیات میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے ۔ اور اللہ نے اپنی
اطاعت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے۔اتباع
، اطاعت سے آگے کا درجہ ہے کیوں کہ اطاعت کے معنی ہیں حکم ماننا ،حکم کی تعمیل
کرنا، اور اتباع کے معنی ہیں پیروی کرنا یعنی پیچھے چلنا۔
اطاعت میں فرائض و واجبات شامل ہوتے ہیں جبکہ
اتباع میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں بعض
حالات میں اطاعت ظاہری و رسمی بھی ہو سکتی ہے لیکن اتباع میں ظاہر و باطن دونوں
برابر ہو جاتے ہیں ۔اطاعت میں حکم دینے والے کی عظمت پیشِ نظر ہوتی ہے جبکہ اتباع
میں جس کی پیروی کی جائے اس کی عقیدت اور محبت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اتباع بھی کرتے تھے اسی
وجہ سے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کسی سنت کو ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ لہذا
اسی مناسبت سے صحابہ کرام رضی اللہ
عنہ کا سنت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کا
کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا اس بارے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیں!صحابۂ کرام میں حضور انورﷺکی سنت پر عمل کے جذبے
کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :
حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ اورحجرِ اسود کا بوسہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجرِ
اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو
ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ
دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث:
۲۵۱)
اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)
حضرت عثمانِ غنی رضی
اللہ عنہ کا بعدِ وضومسکرانا:
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ایک
بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’
کیاتم
مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے
امیرُ المؤمنین! رضی اللہ عنہ آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ایک بارحضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور
فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہ سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس
چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، کس
چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر
اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالی اس
کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے
تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی
کی ادا کو اداء کیا ہے۔)
(مسند امام احمد،
مسند عثمان بن عفان، ۱/۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک اونٹنی:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے
۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت)
نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر
رہا ہوں۔
(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل
واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)
حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ کا سنّت سے محبت :
حضرت سیّدنا اَنَس
بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھ سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے میرے بیٹے !اگر تو یہ کرسکتا
ہے کہ اس حال میں صبح و شام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی بد خواہی (کینہ) نہ ہو تو
ایسا ہی کر۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے ! یہ میری سنّت ہے اورجو میری سنّت سے محبت
کرے گاوہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب و
السنۃ، الفصل الثانی، ۱/۵۵، حدیث: ۱۷۵ دار الکتب العلمیہ بیروت 1421ھ)
جامع الترمذی میں ہے کہ :
حضرت سیدناانس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے
فرمایا : ''مَنْ اَحَبَ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ
اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور
جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔
(جامع
الترمذی،کتاب العلم،الحدیث:۲۶۸۷،ج ۴، ص ۳۰۹ ،مطبوعہ
دارالفکربیروت)
حضرت سیّدنا ابودرداء رضی
اللہ عنہ بات کرتے وقت مسکرایا
کرتے :
حضرت
سیّدتنا اُمِّ درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : میں نے سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے عرض کی آپ رضی اللہ عنہ اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ لوگ آپ کو احمق
سمجھنے لگیں گے۔ تو حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ
عنہ نے فرمایا: ’’میں نے جب بھی رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات کرتے دیکھا یا سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تھے۔‘‘ (یعنی میں بھی اسی سنّت پر عمل کی نیت سے
ایسا کرتا ہوں )۔
(مسند احمد،مسند الانصار، ۸/۱۷۱، حدیث: ۲۱۷۹۱ دار الفکر
بیروت 1414ھ)
سرکار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسند اپنی پسند:
حضرت
سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ، (حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں :)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ میں بھی دعوت میں شریک ہو گیا،
درزی نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے روٹی ، کدّو (لوکی شریف) اور گوشت کا
سالن رکھا ۔میں نے دیکھا نبیٔ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم برتن سے کدّو شریف تلاش کر کے تناول
فرمارہے ہیں (اس کے بعدآپ رضی اللہ
عنہ اپنا عمل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں )
فَلَمْ اَزَلْ اُ حِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ یَوْمَئِذٍ یعنی
اس دن کے بعد میں کدّو شریف کو پسند کرتا ہوں۔
(بخاری، کتاب البیوع ،باب ذکر الخیاط،۲/۱۷، حدیث: ۲۰۹۲ دار
الکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)
مسلم
شریف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت سیّدنا ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سُنا:
فَمَا صُنِعَ لِیْ طَعَامٌ بَعْد اَقدِرُ عَلٰی اَنْ یُصْنَعَ فِیہِ دُبَّاءٌ اِ
لَّا صُنِعَ
اس کے بعد اگر کدّو شریف دستیاب ہوجاتا تو میرے کھانے میں وہ ضرور شامل ہوتا ۔
(مسلم، کتاب الاشربہ، باب جواز اکل المرق الخ، ص۱۱۲۹،
حدیث:۲۰۴۱ دار الغنی عرب شریف 1419ھ)
حضرت حافظ ابوشیخ عبد اللہ بن
محمد اَصبَہانی رحمۃ اللہ علیہ نے
حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ
عنہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ فَاَنَا
اُ حِبُّ القَرْعَ لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاہیعنی
میں کدّو شریف کو صرف اس لیے پسند کرتا ہوں کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پسند فرمایا ہے۔
(اخلاق
النبی و آدابہ ، ذکر اکلہ للقرع ومحبتہ لہ صلی
اللہ علیہ وسلم، ص ۱۲۵، حدیث:۶۳۱ دارالکتاب العربی بیروت
1428ھ)
ترمذی
شریف میں یہ الفاظ بھی ہیں حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کدّو
شریف تناول فرماتے ہوئے فرما رہے تھے۔ یَا لَکَ شَجَرَۃً مَا اُحِبُّکِ
اِلّا لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاکَیعنی میرا تیرے
ساتھ کیا تعلق ؟ میں تجھے صرف اس لئے محبوب رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ بھی تجھ سے محبت فرماتے ہیں۔
(ترمذی ،
کتاب الاطعمۃ عن رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما
جاء فی اکل الدباء ، ۳/۳۳۶، حدیث:۱۸۵۶ دارالمعرفہ بیروت 1414ھ)
کسی کی ادا کو ادا کررہا ہوں:
حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ مکۃ المکرمہ جاتے ہوئے ایک جھڑبیریا کی
شاخوں میں اپنا عمامہ شریف اُلجھا کر کچھ آگے بڑھ جاتے پھر واپس ہوتے اور عمامہ
شریف چھڑا کر آگے بڑھتے ۔لوگو ں نے پوچھا یہ کیا ؟ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عمامہ شریف اس بیرمیں اُلجھ گیا تھا اور
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنی دور آگے بڑھ گئے تھے اور واپس ہو کر
اپنا عمامہ شریف چھڑایا تھا۔
(نورالایمان بزیارۃآثار حبیب الرّحمٰن ،ص۱۵
برکات المدینہ باب المدینہ کراچی)
صحابۂ
کرام رضی اللہ عنہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے
اورانہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا۔
کاش ہم بھی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں کو اپنانے والے بن جائیں۔
پانی پئیں تو سنّت کے مطابق ، کھانا کھائیں تو سنّت کے مطابق ، زُلفیں بڑھائیں تو
سنّت کے مطابق، عمامہ شریف سجائیں تو سنّت کے مطابق، لبا س تبدیل کریں تو سنّت کے
مطابق، کلام کریں تو سنّت کے مطابق، سواری پر سوار ہوں تو سنّت کے مطابق،الغرض ہم
سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔
محبوب کا خوش دِلی سے ہر حکم ماننا اور ہر قسم کے ذاتی
مفادات سے بے فکر ہو کر ہر حال میں اس پر عمل کرنا مَحَبَّت کا بنیادی
تقاضا ہے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ساتھ تمام صحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم کی عملی
مَحَبَّت کا جائزہ لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اطاعت و فرمانبرداری کی
ایسی مثالیں تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتیں جن کا مظاہرہ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہمنے اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی صورت میں کیا۔ ایسی چند
مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
حضرت
سیّدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی جنہیں
میں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے مجھے ہر مہینے تین روزے رکھنے، چاشت
کی نماز پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لینے کا حکم دیا۔ (بخاری،1/397، حدیث:1178)
حضرت
سیّدنا عبدُاللہ بن عمر
رضی اللہ عنہما ایک جگہ اپنی اونٹنی
گھما رہے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا (کہ یہ بلا ضرورت مشقت کیوں؟) تو فرمایا میں
خود اس کی وجہ نہیں جانتا مگر یہ کہ رسول ُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اسی طرح
کرتے (اونٹنی گھماتے) دیکھا تھا۔ لہٰذا میں نے بھی یہ کام کیا۔(الشفاء،2/15)
حضرت
سیّدنا رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” اگر تم حضرت
سیدنا
عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
آثار (سنّتوں) کی اتّباع کرتے ہوئے دیکھتے تو تم کہہ اٹھتے کہ یہ آدمی مجنون ہے۔“ (معرفۃ
الصحابۃ،3/187،رقم:4312)
حضرت
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی (آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع میں) دو مینڈھوں کی قربانی
کرتا ہوں۔(بخاری،3/573،حدیث:5553)
صحابۂ
کرام رضی اللہ عنہمکی زندگیوں
سے ہمیں جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا وہاں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے
کہ وہ سنّتوں پر عمل پیرا ہونے میں کس قدر کوشاں تھے۔ ہمیں بھی اپنی زندگیوں کو
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہمکے طرز ِعمل کے
مطابق پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں
پر عمل کرتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ سنّتوں پر عمل کا ذہن بنانے اور بے شُمار سنتیں سیکھنے
کے لئے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ اللہ
پاک
سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری
سنّتوں پر عمل کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
سرور کائنات،
فخر موجودات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی
سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب اور لازم ہے۔
جیسا کہ
فرمان باری تعالی ہے:قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
ترجمہ کنزالعرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمرآن : 31 )
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سید المرسلین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد
بنایا ہوا تھا اور ان کے نزدیک تاجدار رسالت صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی پیروی کرنے سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ چیز اور کوئی نہ تھی۔اسی بات کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ امیر
المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی
عنہ
نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور
آپ کی وفات کس دن ہوئی؟
اس سوال کی
وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں تو میں نے اپنے
تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم
کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں
بھی مجھے آپ کی اتباع ِسنت نصیب ہو جائے۔
(
بخاری ،جلد، 1 ص 187 ،باب موت يوم الاثنين)
الله! الله! یہ شوق اتباع! کیوں نہ ہو! صدیق
اکبر تھے
2۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لیے آٹے
کی بھوسی کبھی صاف نہ کی جاتی تھی۔
ابن سعد نے
ابو اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے
فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم کو
بن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے اس لیے میرے واسطے آٹا نہ چھانا جایا کرے۔ (سیرت
رسول عربی، ص636)
3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں۔
اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا
کرتے دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی کیا۔ (سیرت رسول عربی ص636)
اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ روز مرہ کے عام معاملات میں بھی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا کیا
کرتے تھے۔
اللہ
تعالی
ہمیں ان مبارک ہستیوں کے صدقے اتباع ِسنت کا جذبہ عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
احادیث میں سنت زندہ کرنے کا حکم اور اس پر بڑے ثواب کے
وعدے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے
مجھ سے محبت ہے اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔
جس طرح سنت پر عمل کرنے کے بہت زیادہ فضائل ہیں اسی طرح
سنت سے اعراض کرنے کی وعیدیں بھی ہیں ۔
ابن عساکر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جس نے میری سنت سے منہ
پھیرا وہ مجھ سے نہیں"
ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان سنت پر دیوانہ وار عمل کیا کرتے تھے جب بھی
انہیں محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کی
خبر ملتی تو دیوانہ وار عمل کرتے۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر اچانک مسکرانے
لگے پھر فرمایا: میرے مسکرانے کی وجہ جانتے ہو پھر خود ہی ارشاد فرمایا ایک بار
سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرا کر صحابہ کرام سے فرمایا تھا
جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں ؟صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ جب وضو کرتا ہے تو
ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے، چہرہ دھونے سے چہرے کے، سر کا مسح کرنے سے سر کے اور
پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔(مسند احمد، ج1، ص135)
وضو کر کے خنداں ہوئے شاہ
عثمان
کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں
جواب سوال مخالف دیا پھر
کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
صحابہ کرام علیہم الرضوان شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سنت پر دیوانہ وار عمل کرتے تھے
۔ اللہ کریم ہم سب کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یقینا کامیابی و کامرانی یہی ہے کہ بندہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے
ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم
کی سنتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے کیونکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا وظیفہ جو
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی امت کو خاص طور پر جوعطا فرمایا وہ یہ
ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم
کو مضبوطی سے تھام لیا جائے ۔
چنانچہ حضور علیہ السَّلام
نےفرمایا:
میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات
میں تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو۔ (ابو
داود ،کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث: 4607)
قرآن مجید میں
اللہ
رب العزت نے جابجا اپنی محبت کے حصول کے لیے اپنے حبیب کی اتباع کو لازمی قرار دیا
: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ
اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل
عمران آیت: 31 )
یہی وجہ ہے
کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم
اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت کے ساتھ ساتھ اتباع سنت بھی کرتے تھے اور کسی سنت کو ترک نہیں کرتے تھے
صحابہ کرام
کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر
عمل کا جذبہ کیسا ہوا کرتا تھا اس بارے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائی
حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا :خدا کی
قسم میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا ۔(مسلم شریف ،کتاب الحج ،باب
استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف ،ص 478 ج 281)
حضرت عبد
اللہ
بن عمر رضی اللہ عنھما ایک جگہ اپنی
اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اسکی حکمت تو نہیں
جانتا مگر اس جگہ میں نے تاجدار مدینہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اسی لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔(شفا شریف
ص 15 الجزء الثانی )
حافظ ابو شیخ عبد
اللہ
بن محمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس
رضی اللہ عنہ کے الفاظ نقل فرمائے کہ: فانا احب القرع
لحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاہ یعنی میرا تجھ سے محبت کے
تعلق کی فقط یہی وجہ ہے کہ میرے مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم تجھ سے محبت فرماتے تھے ۔اخلاق
النبی وآدابہ ذکر اکلہ للقرع ومحبتہ لہ صلی اللہ علیہ وسلم ص 125 حدیث :631
دار الکتب العربی )
ان واقعات سے
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان
اللہ علیھم اجمعین سرکار صلی اللہ علیہ
وسلم
کی سنتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے اور انھیں سنت پر عمل کرنے کا کس قدر جذبہ
ہوا کرتا تھا ۔
کاش کہ ہم بھی
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی
پیاری پیاری سنتوں پر عمل کرنے والے بن جائیں پانی پئیں تو سنت کے مطابق ،کھانا
کھائیں تو سنت کے مطابق ،عمامہ شریف سجائیں، لباس تبدیل کریں ،سواری پر سوار ہو تو
سنت کے مطابق الغرض ہر ہر کام میں سنت پر عمل کرنے والے بن جائیں ۔
اللہ رب
العزت ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی
سنت مصطفی سے محبت کا ایک حصہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حفاظت حدیث کی
ذمہ داری سے صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہوگئے کے انکو محفو ظ کرکے
آرام کی نیند سوجاتے ، ان کیلئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کیلئے نہیں تھی
جن کو یاد کرکے بطور تبر ک قلوب واذہان میں محفوظ کرلیا جاتا ، بلکہ قرآنی تعلیمات
کیطرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائم تھا ۔
میں کسی ایک
فرد کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ شمع نبوت کے پروانوں کا عموماًیہ ہی حال تھا، آج
کی طرح دنیا ان پر غالب اور مسلط نہیں تھی بلکہ وہ ان تمام عوائق وموانع سے بالا
تر ہوکر صرف اور صرف اپنے محبوب کی یاد کو دل میں بسائے سفروحضر میں اپنی دنیا کو
انہیں کے ذکر سےآباد رکھتے تھے ،ان کا عشق ِرسول ہر ارشادکی تعمیل سے عبارت تھا ۔
عبادات میں
تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
اتباع کے بغیر ان کیلئے کوئی چارۂ کار ہی نہ تھا ، لیکن انکی اتباع ہر اس کام میں
مضمر ہوتی جو انکے رسول کی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا ۔
کتب احادیث
کے مطالعہ سے یہ بات واضح طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اقدس صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث پاک بیان کرتے وقت جس خاص ہیئت ووضع کو اختیار فرمایا
ہوتاتھا تو راوی بھی اسی ادا سے حدیث روایت کرتا ۔مثلا احادیث مسلسلہ میں وہ احادیث
جن کے راوی بوقت روایت مصافحہ کرتے ، تبسم فرماتے یا کسی دوسری ہیئت کا اظہار کرتے
جو حضورسے ثابت ہوتی ۔مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی اداوؤں کو اپنانا اور ان پر کاربند رہنا انکی زندگی کاجزو لاینفک بن چکا تھا، صحابہ کرام میں سنت رسول
کی پیروی کا جذبہ اس حدتک موجود تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور نے کیا تھا صحابہ
کرام بھی اس مقام پر وہی کام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں مشہور ہے کہ:
جن جن مقامات
پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
حالت سفر وحضر میں نماز یں پڑھیں تھیں حضرت
عبداللہ بن عمر ان مقامات کوتلاش کرکے نمازیں پڑھتے ،اور جہاں حضورنے
اپنی سواری کا رخ پھیرا ہوتا وہاں قصدا ًآپ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔
اگر کسی وقت یہ
حضور کی خدمت میں حاضر نہ رہتے تو ان اقوال وافعال کے بارے میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پوچھتے
اوراس پر عمل پیرارہتے ۔
امام مالک سے
ایک دن انکے شاگرد یحی بن یحى نے پوچھا: کیا آپ نے مشائخ کرام کویہ فرماتے سنا ہے
کہ جس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی
پیروی کی اس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی اتباع میں کوئی کوتاہی نہیں کی؟ بولے : ہاں۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ
کے نمونے چلتے پھرتے صحابہ کرام میں دیکھے جاتے اوران کو دیکھ کر صحابہ کرام حضور
کی یاد تازہ کرتے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں عبدالرحمن بن زید نخعی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت
حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
پاس حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا:
مجھے ایسے
شخص کی نشاندھی کیجئے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم سے طور طریقوں میں زیادہ قریب ہو ،تاکہ میں ان سے ملاقات کرکے
علم حاصل کروں اور احادیث کی سماعت کروں۔
فرمایا: حضور
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے
چال ڈھال میں اوروضع قطع میں
حضرت ابن
مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب
سے زیادہ قریب تھے ۔
بہر حال
صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا اوران کا دستور عام یہ ہی تھا کہ زندگی کے
ہرشعبہ میں حضور کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ۔انہوں نے اپنی عادات ، اپنے اخلاق
اوراپنے طرز حیات کو حضور سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کے رنگ میں رنگنے کیلئے ہرممکن کوشش کی ،وہ صرف خود ہی اپنی
زندگیوں کو حضور کے اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک
دوسرے کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
نمونۂ عمل کواپنا نے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔
امیرالمومنین
حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب
زخمی ہوئے تو آپ سے عرض کیاگیا کہ آپ کسی کواپنا خلیفہ نامزد فرمادیں ،توآپ نے
فرمایا:اگر میں اس معاملہ کو ویسے ہی چھوڑدوں ،تو ایسا انہوں نے کیا ہے جو مجھ سے
بہتر ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اوراگر
خلیفہ مقرر کردوں تویہ بھی اس کی پیروی ہوگی جو مجھ سے بہتر ہے یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
فتح مکہ کے
موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
مشرکین مکہ پر مسلمانوں کی قوت وشوکت ظاہر کرنے کیلئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ
اپنے کاندھوں کو کھلا رکھیں اور طواف میں رمل کریں ۔جب اللہ
تعالی
نے اسلام کو قوت وشوکت عطافرمائی تو کند ھے کھولنے اوررمل کرنے کا سبب تو ختم ہوگیا
لیکن حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ
عنہ
نے فرمایا :
اب رمل اور
کندھے کھولنے کی ضرورت کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے
اسلام کو غلبہ عطافرمادیا ہے اورکفر اور اہل کفر کو ختم کردیاہے ۔لیکن اسکے باوجود
ہم اس کام کو ترک نہیں کرینگے جو ہم حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد میں کیا کرتے تھے۔
سرورِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
سیرتِ مُبارَکہ اور سنّتِ مُقَدَّسہ کی
پَیروی ہر مسلمان پر واجِب و لازِم ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:
ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرما دو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤاللہ تمہیں دوست رکھے گا
اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان
ہے۔
(پ 3،سورہ آل عمران: ۳۱)
اسی لیے
آسمانِ اُمَّت کے چمکتے ہوئے سِتارے، ہِدَایَت کے چاند تارے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول کے پیارے صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہم و صَحابیات طیباترَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُنَّ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر سنّتِ کریمہ
کی پَیروی کو لازِم و ضَروری جانتے اور
بال برابر بھی کسی مُعَامَلہ میں اپنے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں سے
اِنحراف یا تَرْک گوارا نہیں کرتے
تھے۔صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم جس طوع و رضاکے ساتھ رسول ا للہ عزو جل وصلی ا للہ علیہ و سلم کی ا طا عت
کرتے تھے ا س کے متعلق احادیث
میں نہایت کثرت سےو ا قعات مذکور ہیں۔چند و ا قعات
سے ا س کا ا ندا زہ
ہوسکے گا۔
امیر المؤمنین حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات
کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر
ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پراتباع کی ہے۔ مرنے
کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔
(بخاری جلد1 ،ص۱۸۶ باب موت یوم
الاثنین)
ر سول ا للہ عزو جل و صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم نے شوہرکے علاو ہ د یگر ا عزہ کے سوگ کے لئےتین د ن
مقررفر مائے تھے، صحابیات نے ا سکی ا س شدت
سے پا بندی کی جب
حضرت زینب بنت جحش ر ضی ا للہ تعالیٰ عنہاکےبھائی کا ا نتقال ہوگیاتو غالباً چوتھےدن ا نھوں نےخوشبولگائی، اور کہا کہ مجھ
کو خوشبو کی ضرورت
نہ تھی لیکن میں نےآپ
صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم سے کسی مسلمان عورت کو شوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ،اس لیے یہ اسی حکم کی
تعمیل تھی۔
)سنن ابی داود،کتاب الطلاق ،باب احداد المتوفی
عنہا زوجہا،الحدیث:۲۲۹۹
،ج:۲ص۴۲۲ )
یہ تھے سچے عاشقوں کے انداز کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہر ہر سنت کو دل و جان سےاپناتے تھے۔آج ہماری اکثریت
سنتوں سے کوسوں دورہے اور اگربعض لوگوں کو مدنی ماحول کی برکت سے سنتیں اپنانے کا
جذبہ ملتا بھی ہے توعموماً نفس پر گراں گزرنے والی سنتیں، جیسے کم اور سادہ کھانا،
سادہ لباس پہننا وغیرہ سے وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اے کاش! ہمیں پیارے آقاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں سے والہانہ محبت ہوجائے اور بس یہی زباں پرجاری
ہوجائے:
شہا ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تری سنّتیں سکھانا مدنی مدینے والے
تری سنتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر
چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر ہماری جان قربان! سنت پر عمل کرنے کا
بہترین جذبہ رکھتے تھے صحابہ کا سنت پر عمل کا بے مثال جذبہ ہے قربان جاؤں کہ
صحابہ نے نماز پڑھی تو نماز والے کو دیکھا، درود پڑھا تو درود والے کو دیکھا، قرآن
پڑھا تو قرآن والے کو دیکھا ،دعا مانگی تو والضحی چہرے کو دیکھا ۔
کمال ِ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا
جمالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے قرارِصحابہ
خلوت ہو یا جلوت، جنگ ہو یا امن، دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا برسات، ہر ہر
ساعت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
پرجان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے۔
غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشورہ فرمایا تو حضرت
ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر
فاروق رضی
اللہ تعالی عنہ سمیت تمام
مہاجرین نے دین اسلام کے لئے تمام جان و
مال قربان کرنے کا اعلان کیا ۔
انصار مدینہ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں چھلانگ
لگا دیں گے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور عرض
کیا : آقا صلی
اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے دائیں
لڑیں گے، بائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے ، پیچھے لڑیں گے،( یعنی ہم آپ کی حفاظت کے
لیے اپنی جان قربان کر دیں گے) ۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اپنا مال راہ خدا میں جہاد کے
لیے صدقہ کرو۔
اس
فرمان عالی شان کی تعمیل میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے حسب توفیق اپنا مال جہاد کے لیے تصدق کیا،
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
نے دس ہزار مجاہدین کا سازوسامان دس ہزاردینار، نو سو اونٹ اور سو گھوڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے پیش کیے ۔
حضرت
عمر فاروق رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :کہ
میرے پاس بھی مال تھا میں نے سوچا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ ایسے معاملات میں مجھ سے سبقت لے جاتے
ہیں اس مرتبہ میں اپنا مال پیش کرکے سبقت لے جاؤں گا چنانچہ وہ گھر گئے اور گھر کا
سارا مال اکٹھا کرکے اس کے دو حصے کیے ، ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئےلے آئے اور دوسرا حصہ گھر والوں کے لئے رکھا ہے ۔
آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے عمر! گھر والوں کے لیے
کیا چھوڑ کر آئے ہو عرض کی آقا! آدھا مال گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں
عاشق اکبر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
اٹھے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا؟ اے ابوبکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کر
آئے ہو تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! گھر کا سارا مال لے آیا ہوں، گھر والوں کے
لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں ۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی انہیں حیران رہ گئے اور فرمانے لگے کہ میں
ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالی عنہ سے کبھی بھی آگے
نہیں بڑھ سکتا۔
کیا پیش کروں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ
سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک
صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اتار کر پھینک دیا - پھر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص آگ کی
چنگاری لے کر اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد ان صحابی سے کہا گیا
کہ اپنی انگوٹھی اٹھا لیجئے اس سے کوئی اور نفع اٹھا لیں تو وہ فرمانے لگے اللہ کی
قسم! میں اسے ہرگز نہ لوں گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا۔
غرض یہ کہ صحابہ
کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنی
زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کو مقدم رکھتے۔
اے کاش! اللہ عزوجل ان عظیم ہستیوں کے سنت پر عمل کرنے کے جذبے کے صدقے ہمیں
بھی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
- اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پیروی سنت رسول کرتے ہوئے عشقِ رسول کے جو گلشن مہکائے
کہ ان کی خوشبو آج تک باقی ہے ۔
سنت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر ہے ۔
صحابہ کرام کی
شان تو بلند ہے ہی ساتھ ہی ان کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ بھی قابل ذکر ہے ۔صحابہ
کرام علیہم الرضوان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے اقوال و افعال سے بہت محبت تھی وہ ہر حال میں سنت پر عمل کرنے کے لیے کوشاں
رہتے ہر ایک صحابی رسول کا سنت پر عمل
کرنے کا جذبہ اپنی مثال آپ ہے ۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے ان کی نظر جب حجر اسود پر پڑی تو فرمایا کہ اے
حجر اسود! تو ایک ایسا پتھر ہے جوخود سے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے تجھے بوسہ نہ دیا
ہوتا تومیں تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا اس کہ بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نےاسے بوسہ دیا۔(صیح بُخاری ٣/١٦٧) (محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے سبب اس کو بوسہ دیا ) ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرائے ان سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہاں
بیٹھ کر وضو فرمایا اور اس کے بعد مسکرائے اسی لیے میں نےبھی ایسے کیا۔(مسند احمد،
ص 415،ملخصاً)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو چھری لانے کا کہا اور جو حصہ انگلیوں کے پوروں سے زیادہ تھا اس کو
کاٹ ڈالا تو آستینیں چھوٹی بڑی ہو گئیں حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی نے عرض کی :ابا جان! اس کو قینچی سے برابر
کر دوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی رہنے دو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی دیکھا ہے (اللہ والوں کی باتیں، ج1، ص313)
بے شک صحابہ کرام کا جذبہ سنت عمل بے مثال ہے اللہ کریم ان کے صدقے ہمیں بھی سنت پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سنت کا لغوی معنی طریقہ
اور راستہ کے ہیں، علماء اصول کے ہاں ہاں سنت کا اطلاق ہر اُس قول
یا تقریر پر کیا جاتا ہےجو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کےطریقوں یعنی سنت سے ظاہر و باطن کو سجایا جائے! اس کی عملی تصویر ہمارے
صحابہ کرام کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
اللہ پاک نے قرآن ِپاک میں ارشاد
فرمایا:ترجمہ: "اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:
دوران طعام حضرت حذیفہ ابن یمان
رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا، آپ رضی
اللہ عنہ نے
سنت کے مطابق اٹھا کر صاف کیا اور تناول فرما لیا، ایک خادم نے عرض کی کہ آپ ایسا نہ کیجئے، عجمیوں کے ہاں یہ طریقہ معیوب سمجھا جاتا ہے، وہ ایسا کرنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: کیا کہا؟ میں محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں ؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سنت پر
عمل کا جذبہ:
حضرت
عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردِ خاص حضرت نافع رضی اللہ
عنہ بیان
فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے، ایک دن مجھے فرماتے کہ مجھے بازار لے چلو، میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار میں لے آیا، تھوڑی
دُور تک چلے اور فرمایا: کہ مجھے واپس لے چلو، میں نے عرض کی حضرت! آپ نے کوئی کام تو کیا نہیں، آپ نے فرمایا آتے ہوئے چند دوستوں سے سلام جواب ہوا، میں اسی کام کے لئے آیا تھا، کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام جواب دینے کی
سنت پر عمل ہوجائے جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے ہوئے عمل نہیں ہورہا تھا۔
یہ صحابہ کرام کا آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا جذبہ تھا، وہ اس
صاف شفاف آئینے میں اپنے چہرے دیکھتے تھے اور اپنے کردار اور اعمال کی اصلاح
فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام
کا صدقہ عطا فرمائے اور ہم سنتوں کو عام کرنے والے بن جائیں والے بن جائیں۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم امتِ
مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ
پاک نے ان کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی محبت،اور اعانت کے لئے منتخب فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پرلبیک فرماتے،
عمل کرتے، یہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے محبت کی عظیم نشانی ہے کیوں کہ جس سے محبت ہو
اس کی ہر کام میں اطاعت کی جاتی ہے۔
اللہ
کریم نے بھی یہی حکم فرمایا:" اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
"
تم فرما دو اگر تم اللہ
سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ
تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کومعاف فرما دے گا۔"
انبیائے
کرام علیہم السلام
کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب
سے زیادہ تعظیم و تو قیر کے لائق ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے قرآن و
حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کیا۔
آج
کے دور میں ان سب قربانیوں کا تصور بھی بہت مشکل ہے، لیکن
صحابہ کرام کو یہ سعادت حاصل تھی رضی اللہ عنہم کہ
وہ آقا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کے رخِ زیبا کی زیارت کرتے، دنیا جہاں کی کوئی نعمت بھی اس کے برابر نہیں
ہوسکتی وہ آپ کی صحبتِ فیض سے ہر وقت مستفیض ہوتے رہےاور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان پہ عمل کیا
اور آپ کی پسند کو اپنی پسند رکھا۔
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہکو
کسی نے دیکھا کہ وہ شوربے میں کدو شریف نکال کر کھا رہے ہیں، کہا گیا:
کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟( اس پر فرمایا) کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔
طبیعت
کا اختلاف یہ ایک فطرتی عمل ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میں کو ترک کرتے ہوئے
حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی اطاعت کرتے ہوئے خود کو آپ کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، اس چیز
کا انتظار نہیں کیا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے اور نہ کبھی سوال کیا، علاوہ
لبّیک کہنے کے کچھ نہ بولے، گویا کہ سنت سے محبت صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کا
وصف ہے جو ہر مسلمان ، ان سے محبت رکھنے والے میں ہونا چاہیے ۔
صحابی
رسول حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لمحہ پیشِ نظر
رکھتے تھے اور بات بات میں فرماتے تھے:میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ لیا ، میں
نے اپنے دوست صلی اللہ
علیہ وسلم کو یہ کہتےسنا۔"ان کی خدمت میں کسی نے دو چادریں پیش
کیں، انہوں نے ایک کا ازار بنایا
اور ایک کی چھوٹی کملی اوڑھ لی اور دوسری غلام کو دے دی، گھر
سے نکلے تو لوگوں نے کہا: آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو بہتر ہوتا، فرمایا:
یہ صحیح ہے لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو وہی
تم اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔
اسی
طرح حضرت جریر بن عبداللہ رضی
اللہ عنہ کہ وہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ارشاد کو اپنا دستورُ العمل رکھتے،ایک مرتبہ چند اعراب نے آ کر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے شکایت کی کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
آپ کے بعض صدقہ وُصول کرنے والے ہم پر ظلم کرتے ہیں، فرمایا: "کہ ان کو راضی
رکھو، اعراب نے کہا: اگر وہ ظلم کریں، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی رکھو ، اس ارشاد کے بعد سے کسی صدقہ وصول کرنے
والے کو جریر رضی
اللہ عنہ نے ناخوش نہیں کیا ۔
( شرح سنن ابن ماجہ ، ج اول)
صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم تکالیف
برداشت کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے فرمان کو عام کرتے، اس پر عمل کرتے، یہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سے محبت کی عظیم علامت ہے، صحابہ کرام نے آپ کے ہر فرمان پر عمل کیا خواہ اِس
کو ان کی عقل تسلیم کرے یا نہ کرے، جیسا کہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر ِاسود کو بوسہ دینے کے بعد
فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع دیتا ہے نہ نقصان اور اگر
میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ا س قول سے مراد یہ تھی
کہ لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی اقتدا ء پر بر انگیختہ کیا جائے۔
کیوں
کہ آپ کا بوسہ دینے کی وجہ صرف رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی اتباع تھی، ہر مسلمان میں ایسا ہی اطاعت کا جذبہ ہونا چاہیے، عشقِ
رسول میں اضافے کا نسخہ، اگرچہ ہر مسلمان کے دل میں فطری طور پر رحمت
عالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی محبت موجودہوتی ہے لیکن کوشش کرکے اس محبت میں اضافہ کرنا بہت بڑی سعادت مندی
ہے، اس میں اضافہ کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، صحابہ کرام کا
سنت پر عمل کرنا اور آپ سے محبت کے واقعات کی معرفت حاصل کرنے سے ہوگا۔
اللہ کریم ہمیں دل و
جان ، زبان و قلم سے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی
تعظیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کا جذبہ عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور جنت میں ان کے
قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین
حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنّتِ مقدّسہ کی پیروی ہر مسلمان کے لئے وجہِ اعزاز و اکرام ہے، اللہ
کریم کا فرمان ہے:(تَرجَمۂ کنزُ الایمان:) اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے۔(پ 3، اٰل عمران:31)
آسمانِ
ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنّتِ کریمہ کی اتّباع کو اپنی زندگی کا
لازمی حصّہ بنائے ہوئے تھے۔
حضرت
ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس امر پر آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر
نہیں چھوڑتا، اگر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو
مجھے ڈر ہے کہ میں سنّت سے مُنحرف ہو جاؤں گا۔
(بخاری،2/338،حدیث:3093)
اللہ اللہ یہ شوقِ
اتباع اور پیروی !
کیوں نہ ہو! صدّیقِ اکبر تھے
حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بِن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے، اس لئے میرے واسطے آٹانہ چھانا جایا کرے ۔
( طبقات ابن سعد، 1/301)
مسلمان
کو سلام کرنا بھی بڑی عظیم سنّت ہے اور
صحابۂ کرام اس پر عمل کا بھی بڑا عظیم جذبہ رکھتے تھے چنانچہ حضرت سیِّدُنا طُفَیل
بن ابی کَعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ
عنہماکے پاس جاتا تو وہ مجھے ساتھ لے کربازارکی طرف چل پڑتے۔ جب
ہم بازار پہنچ جاتے تو حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ رضی اللہ عنہ جس
ردی فروش، دُکاندار اور مسکین یاکسی شخص
کے پاس سے گزرتے تو سب کو سلام کرتے۔حضرت سیِّدُناطُفَیْل رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں (ایک دن جب
بازارجانے لگے تو): ’’میں نے
پوچھا: ’’آپ بازار جا کر کیا کریں
گے؟وہاں نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں۔نہ سامان کے متعلق کچھ پوچھتے ہیں۔ نہ
بھاؤ کرتے ہیں اورنہ بازارکی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔میری تو گزارش یہ ہے کہ
یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں۔ ہم باتیں کریں گے۔فرمایا: ’’ہم
صرف سلام کی غرض سے جاتے ہیں ۔ہم جس سے ملتے ہیں اُسے سلام کہتے ہیں۔“ (موطا امام
مالک،2/444،حدیث:1844)
اللہ کریم ہمیں بھی صحابۂ کرام کےجذبۂ
اتباعِ سُنّت سے حصّہ عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم