شہداد پور کابینہ
کے شہر ہالا میں شعبہ تعلیم ڈویژن ذمہ دار
اسلامی بہن کا دو لیڈی ڈاکٹرز سے ملاقات
دعوتِ اسلامی کے شعبہ تعلیم کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں شہداد پور کابینہ کے شہر ہالا کی شعبہ تعلیم ڈویژن
ذمہ دار اسلامی بہن نے دو لیڈی ڈاکٹرز سے
ملاقات کی اور انہیں نیکی کی دعوت دیتے
ہوئے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کی نیز دعوتِ
اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
ڈویژن ذمہ دار اسلامی بہن نے انہیں مکتبۃ
المدینہ کے رسائل بھی تحفے میں پیش کئے۔
مدرستہ المدینہ
بالغات کے زیرِ اہتمام فیصل آباد زون میں ذمہ
دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
دعوتِ اسلامی کے شعبہ
مدرستہ المدینہ بالغات کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں فیصل
آباد زون کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا
مدنی مشورہ ہوا جس میں ریجن تا ڈویژن مشاورت اور مدرسات نے شرکت کی۔
شعبہ مدرستہ المدینہ
بالغات کی پاک مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن
نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی
کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور شعبے کے نکات سمجھائے نیزمتفرق کاموں کی تکمیل پر توجہ دلاتے ہوئےہر
طالبہ کے گھر ڈونیشن بکس رکھوانے کا ہدف دیا۔
مدرستہ المدینہ
بالغات کے زیرِ اہتمام اوکاڑہ زون میں ذمہ
دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
دعوتِ اسلامی کے شعبہ
مدرستہ المدینہ بالغات کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں اوکاڑہ زون میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس
میں ریجن تا ڈویژن مشاورت اور مدرسات نے شرکت کی۔
شعبہ مدرستہ المدینہ
بالغات کی پاک مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن
نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی
کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور شعبے کے نکات سمجھائے ۔تکمیلی شیڈول مدنی
قاعدہ پر پریکٹیکل کروایا ، متفرق کاموں کی تکمیل پر توجہ دلائی نیزہر طالبہ کے
گھر ڈونیشن بکس رکھوانے اور نئے مدارس اور گھر مدرسۃ المدینہ بالغات لگانے کے اہداف
دیئے۔
مدرستہ المدینہ
بالغات کے زیرِ اہتمام ٹوبہ زون سمندری کابینہ میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
دعوتِ اسلامی کے شعبہ
مدرستہ المدینہ بالغات کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں ٹوبہ زون سمندری کابینہ میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس
میں ریجن تا ڈویژن مشاورت اور مدرسات نے شرکت کی۔
شعبہ مدرستہ المدینہ
بالغات کی پاک مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن
نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی
کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور شعبے کے نکات سمجھائے نیزمتفرق کاموں کی تکمیل پر توجہ دلاتے ہوئےہر
طالبہ کے گھر ڈونیشن بکس رکھوانے کا ہدف دیا۔
50کبیرہ گناہ
جس طرح اللہ
پاک کی اِطاعت و فرمانبرداری بالاتفاق عُمدہ وپسندیدہ عمل ہےاسی طرح اس کی نافرمانی اورگناہ کا کام بھی بالاتفاق بُرا و ناپسندیدہ فعل ہے۔ گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک گناہ صغیرہ دوسرے گناہ کبیرہ۔ اس مضمون میں کبیرہ
گناہوں کے بارے میں بتایا جائے گا، اِنْ
شَآءَ اللہ !
کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں ؟
٠جو شخص
گناہوں میں سےکسی ایسےگناہ کا ارتکاب کرے جس کا بدلہ دنیا میں حَدیعنی سزاہے مثلاًقتل، زنا
یا چوری وغیرہ
٠ ایسا گناہ کرے جس کے مُتعلق آخرت میں عذاب یا
غضَبِ الٰہی کی وعید ہو
٠ اُس گناہ کےمُرتکِب پر ہمارےنبی حضرت محمدمصطفٰے
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے لعنت کی گئی ہو
٠وہ گناہ جِس کا مُرتکِب قراٰن و سُنّت میں بیان
کی گئی کسی سخت وعید کا مُسْتحِق ہوتو
وہ کبیرہ گناہ ہے۔ (الکبائر،ص8، الزواجر ، 1/12، اشعۃ
اللمعات،77/1)
گناہِ کبیرہ کی تعداد:
گناہِ کبیرہ کتنے ہیں؟ ان
کی تعداد کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ سات ہیں دوسری
روایت میں نو کی تعداد بتائی گئی ہے جبکہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا گناہ کبیرہ سات ہیں؟
تو آپ نے فرمایا: کہ گناہِ کبیرہ کی تعداد سات
سو تک ہے۔
یہاں یہ
بات واضح رہے کہ مختلف روایتوں میں جو
گناہ کبیرہ کی تعداد بتائی گئی وہ حصرکے لیے نہیں بلکہ مثال کے طور پر ہے ورنہ اور
بھی بہت سے گناہ کبیرہ ہیں۔ (منتخب
حدیثیں،ص116،115)
50کبیرہ گناہ:
بحیثیت مسلمان چونکہ ہم پرکبیرہ گناہوں سے بچنا
لازم ہے اور بچنے کے لئے ان کا جاننا ضروری ہے، اس لئے ذیل میں پچاس کبیرہ گناہ
بیان کئے جارہے ہیں تاکہ ان کی معرفت حاصل ہو اور ان سے بچا جاسکے۔
(1) اللہ پاک
کا کسی کو شریک ٹھہرانا (2)قتلِ ناحق (3)جادو کرنا (4)نماز چھوڑنا (5)زکوٰۃ نہ
دینا (6)والدین کی نافرمانی کرنا (7)سود
کھانا (8)ظلماً یتیم کا مال کھانا (9)رَمَضان کے روزے بلا عذر چھوڑنا (10)زِنا
کرنا (11)جھوٹی قسم کھانا (12)خود کشی
کرنا (13)دَیُّوثی (14)خِیانت کرنا (15)ریاکاری (16)پیشاب سے نہ بچنا (17)مُردار کا گوشت کا کھانا (18)ناجائز ٹیکس
وُصول کرنا (19)اِحسان جتانا (20) لواطت (21)کاہِن اور نجومی کو سچا جاننا
(22)شوہر کی نافرمانی کرنا (23)قطع تَعلّقی کرنا (24)نوحہ کرنا اور چہرا پیٹنا (25)نسب
پر طعن کرنا (26)تکبر سے تہبند لٹکانا (27)مرد کا ریشمی لباس پہننا (28)مرد کا
سونا استعمال کرنا (29)سونے چاندی کے برتن
استعمال کرنا (30)بد شگونی (31)سونا چاندی کے برتن میں کھانا پینا (32)ناپ تول میں
ڈنڈی مارنا (33)اللہ
کی رحمت سے ناامید ہونا (34)جوا کھیلنا (35)نماز جمعہ ترک کرنا (36)مسلمانوں کی
جاسوسی کرنا (37)نسب بدلنا (38)اولیاء اللہ سے عداوت رکھنا
(39)چغلی کھانا (40)کپڑےیا دیوار میں تصویر بنانا (41)مردوں کا زنانی اورعورتوں کا
مردانی وضع اپنانا (42)قراٰن و سنّت کے خلاف فیصلہ کرنا (43)ڈاکہ ڈالنا (44)ظلماً
لوگوں کا مال لینا (45)پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا (46)حاکم کا اپنی رعایا
کو دھوکا دینا (47)شراب پینا (48)میدانِ جہاد سے بھاگنا (49)رسولُ اللہ پر جھوٹ
باندھنا (50) صحابہ کو برا بھلا کہنا۔ (الکبائر، الزواجر)
ابتدا ہے رب کریم کے بابرکت نام سے جس نے
اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا کروڑوں درود اور سلام ہوں ان کی ذات بابرکت پر جن کو
حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا-
اللہ کریم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا" لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ پ21 ،سورۃ احزاب) ترجمہ کنزالایمان: تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی بہتر ہے۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ ان کی اچھی طرح
پیروی کرو اور دین الہی کی مدد کرو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑو اور صبر کرو اور اس کی اصل
تفسیر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی
حیات مبارکہ ہے - صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اندر اطاعت و اتباع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامل درجہ
کی پائی جاتی تھی ۔
اب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے چند واقعات ذکر کیے جائیں گے:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا: امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل ام المؤمنین
حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس
دن ہوئی ؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ آخری تمنا تھی کہ ان کی زندگی کے ساتھ
ساتھ ان کے آخری تمام معاملات بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک سنتوں کے مطابق ادا کیے جائیں آپ کی خواہش تھی
کہ مرنے کے بعد بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہو جائے۔
(سیرت مصطفی صفحہ 828 مکتبۃالمدینہ)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ
عنہٗ اور محبت
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
کتنی محبت کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا :خدا کی قسم! حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے مال ،ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ اور سخت پیاس کے وقت پانی سے بھی بڑھ کر ہمارے
نزدیک محبوب ہیں۔
(سیرت مصطفیٰ ،ص
834 ،مکتبۃ المدینہ )
حضرت عبداللہ بن عمر کا عشق رسول: حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھے تھے خاص اس
جگہ پر اپنا ہاتھ بڑھا کراپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی روٹی :ابن اسعد بروایت ابو اسحاق روایت کیا ہے کہ حضرت عمر
فاروق
رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بن چھنے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے اس
لئے میرے لئے آٹا نہ چھانا جائے
( سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 467، کتب خانہ امام احمد رضا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی اونٹنی :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی ایک مکان کے گرد پھرا رہے
ہیں اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا
ہے اس لیے میں نے بھی کیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگی کا ہر گوشہ اتباعِ سنت میں گزرا
اسی لئے رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں سب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لئے فرمایا : وَ
كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور صحابہ کرام کی سیرت
کو پڑھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گوشت چھوڑ دیا:
صحابہ
کرام کی سنت پر عمل کا جذبہ ایسا تھا کہ سنتِ مبارکہ پر عمل کرنے کے لیے اپنی فطری
عادات کو بھی بدل دیتے تھے۔
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ
کو کسی نے دیکھا، کہ آپ کھانا کھاتے وقت سالن میں سے گوشت کی بوٹیاں ایک طرف کرتے
جا رہے ہیں اور صرف کدو شریف اُٹھا اُٹھا کر تناول فرما رہے ہیں، کسی نے پوچھا: آپ
ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا
ہی کرتے دیکھاہے۔ (مشکوۃ المصابیح)
نئی قمیض خراب کر لی :
صحابہ
کرام سُنت پر عمل کرنے کی خاطراپنا نقصان برداشت کر لیتے لیکن سنتِ مبارکہ کو نہ چھوڑتے،
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی تو دیکھا اس کی آستین لمبی ہے، آپ نے اپنے بیٹے
سے چُھری منگوائی اور فرمایا یہ لمبی آستینوں کو پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری
انگلیاں ہیں ان سے آگے سے کپڑا کاٹ دو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اِسے کاٹا تو
وہ بالکل سیدھا نہیں تھا بلکہ اوپر نیچے سے کٹا، میں نے عرض کیا:" ابّاجان !اگر
اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا، آپ نے فرمایا:بیٹا! اسے ایسا ہی رہنے دو کیوں
کہ میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو
ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔( عشق رسول)
نمازی کو مار پڑگئی:
حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ
جب کسی کو عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھتا دیکھتے تو اسے مارتے یہاں تک وہ نماز سے
باہر آ جاتا( یہ اس لئے کرتے تاکہ اللہ
پاک کی بندگی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
سنت کے مطابق ہو، یعنی جس وقت نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم نے نفل نہیں پڑھے، میں بھی نہیں پڑھنے دوں گا)۔ (شرح
معانی الآثار، ص 213، ج 1)
میری
انگلیاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
انگلیوں جیسی نہیں:
صحابہ
کرام حدیث مبارکہ بیان کرتے وقت وہی انداز و کیفیت کو بھی اپنا تے جو حدیث بیان کرتے
وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنائی ہوتی اور ادب کو خاص طورپر ملحوظِ خاطر رکھتے، حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: کن جانوروں کی
قربانی جائز نہیں؟آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ مسئلہ
بتاتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بلند کیا اور چار انگلیوں
سے اشارہ کر کے بتایا کہ ان کی قربانی جائز نہیں، کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے
ہی ہاتھ بلند کر کے چار انگلیوں سے بتایا تھا ، پھر خیال آیا کہ کہیں میری اِن
انگلیوں کو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
انگلیوں جیسا نہ سمجھ لے، فوراً فرمایا: میری انگلیاں ایسی نہیں ہیں، میری انگلیاں
سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے
بہت چھوٹی ہیں۔
(عون المعبود، شرح سنن ابی داؤد، ج7 ، ص 357)
صدائے
مدینہ لگاتے جان دے دی:
نماز فجر کے لیے اُٹھانا( صدائے مدینہ) بڑی پیاری
سنتِ مبارکہ ہے، صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا ایسا جذبہ تھا کہ اس سنت پر عمل کرتے
کرتے دو عظیم صحابہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ جامِ شہادت نوش فرمایا، حضرت سیدنا
نقیع بن حارث رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں سرکار مدینہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے
ہوئے جس شخص پر بھی گزرتے اُسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پاؤں مبار کہ سے ہلا تے، اس
سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت عمرِ فاروق رضی
اللہ عنہ جب بھی اپنے گھر سے نکلتے تو صدائے مدینہ لگاتے ہوئے
راستے میں لوگوں کو جگاتے، ایک دن ابو لؤ لوْ راستے میں چھپا بیٹھا تھا کہ اُس نے
موقع پا کر خنجر سے آپ رضی اللہ عنہ
پر قاتلانہ حملہ کر دیا، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔
اگر ہم بھی سنتِ مبارکہ کو اپنا لیں تو ہماری
مساجد آباد ہو جائیں گی۔(رسالہ صدائے مدینہ)
ان
چند واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ
کرام کس طرح دیوانہ وار سُنتوں پر عمل فرماتے اور اپنی زندگیوں کو سنت ِمبارکہ پر
قربان تک کر دیتے، کہ انہی راہوں پر چل کر ہمیں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی سنتِ مبارکہ
کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پرودگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے ہم پر کہ :"اس نےنبی
آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم
کو ہمارے لیے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا، ہدایت کے روشن چراغ بے نظیر وبے
مثال آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کہ آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ورق، ایک
ایک حرف ہماری زندگی کہ تمام اُمور میں رہنمائی کا
پیکر ہے۔
عرب
کے رہنے والے کہ جو حلال وحرام، خیر و شر میں کچھ فرق نہ جانتےتھے وہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی
کر کے اس مقام پہ جا پہنچےکہ ان کی اطاعت ہم پر لازم ٹھہری ، اہلِ عرب نے اطاعتِ
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
کےسبب پوری دنیا پہ حکمرانی کی، یہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ہی کا نتیجہ ہے کہ ان حضرات کی زندگیاں
آنے والے لوگوں کے لئے مشعلِ راہ
ہوئیں، قرانِ کریم میں ان حضرات کی تعریف اور ان کے لیے بشارتیں اُتریں، اصل
میں سنت پر عمل قران کریم حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ قران کریم کی عملی تفسیر ہے، قرآن
کریم میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- (سورة نساء،آیت 80)
ترجمہ:
جس نے رسول اللہ کی
اطاعت کی بے شک اس نے اللہ
کی اطاعت کی۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ:بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین
نمونہ ہے۔
قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوے
صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم
کی زندگیاں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم
کی حیات مبارکہ کی بے نظیر تفسیر ہیں، ان تمام ہستیوں نے اپنے آپ کو مکمل
سنت کے سانچے میں ڈھال دیا تھا، لباس، کلام، کھانا
پینا، اٹھنا بیٹھنا، عادات
ومعاملات، اخلاق و تہذیب الغرض ہر ہر چیز میں یہ دیکھتے کہ
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم
کا اس میں کیا عمل و طریقہ ہے، پھر وہ عمل اسی
انداز سے انجام دیتے تھے، یہ تو زندگی کی عادات ومعاملات کی بات ہے، یہ
بزرگ ہستیاں حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو انتہائی محبت و عقیدت سے انجام دیتے
تھے۔
امیرالمومنین
خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ فرماتےہیں:"ہرگز میں ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا جسے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے کیا ہو، میں ڈرتا ہوں کہ اگر کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔"
امیر
المؤمنین حضرت عمرِ فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نے حجرِاَسود کو مخاطب کر
کےفرمایا:" کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ
نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں
بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔(البخاری 1610)
امیرالمومنین
خلیفہ ثالث حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ
عنہ ایک بار وُضو کرنے کے بعد مسکرائے اور فرمایا:" کہ ایک
بارحضور صلی اللہ علیہ وسلم
وُضو کرنے کہ بعد مسکرائے تھے ۔"
امیرالمومنین
خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:" کہ اگر دین عقل کے تابع ہوتا توہم
موزوں کے باطن پرمسح کرتے مگر ہم نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو ظاہر پر مسح کرتے دیکھا ہے۔(مسند احمد 242)
حضرت
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ
سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنتوں پر عمل کیا کرتے تھے، سفر میں بلا ضرورت لیٹ جاتے، بغیر
ضرورت کے رفعِ حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر جواب
دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
(مسند احمد
9/191)
حضرت
ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ
کے متعلق بھی آتا ہے کے یہ سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اختیار فرماتے
تھے، حتی کہ گھر کے معاملات معلوم کرنے کے لیے اپنی
والدہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
گھر بھیجا کرتے تھے۔(الا بالہ328)
محبوبۂ محبوبِ ربِّ کائنات ام المومنین عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں: کہ میں نے چال ڈھال، شکل و صورت، اندازِ
گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں شہزادی نبی، جگر
پارہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم و رضی اللہ تعالی
عنہا سے بڑھ کر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا کسی کو نہ پایا، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا قول
مبارکہ :"جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے
محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"کے مطابق تمام
صحابہ و صحابیات جنتی ہیں کہ ان سے بڑھ کر اتباعِ سنت
صلی اللہ علیہ وسلم کرنے
والا نہ آ یا ہے نہ آئے گا، رب
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اتباع ِسنتِ صحابہ صحابیات اور حق پہ قائم رہنے کا
شرف بخشے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہوں گے جو حضور کی سنت کا نگہبان
ان لوگوں کو ہم ملک کا سردار کریں گے
جس راہ سے گزریں سنت ِنبوی کے فدائی
اس راہ کے ہر ذرّے ہم بیدار کریں گے
اللّٰه ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور
تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (
پارہ 3 سورہ آل عمران 31)
یہی وجہ ہے کہ اللّٰه
عزوجل
کی رضامندی کا مژدہ پانے والے، آسمانِ اُمت کے چمکتے ہوئے ستارے، رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے براہ
راست فیضیاب ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰه تعالٰی علیہم اجمعین سرکارِ
دو عالم صلی اللّٰه
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سنتوں
پر عمل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوا کرتے تھے. ملاحظہ فرمائیے :
(1) اِتباعِ سنت
نصیب ہو جائے: امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللّٰه عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه
علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کی وفات کس
دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللّٰه عنہ کی یہ
انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور
اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کی مبارک
سنتوں کی مکمل طور پر اِتباع کی ہے مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے
آپ کی اِتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔
( سیرتِ مصطفی صلی
اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، صفحہ 828، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
سنت پر ہی چلتا ہوا ان کے پاس پہنچوں گا:
حضرت عمر
فاروق رضی اللّٰه عنہ نے (اپنی شہزادی حضرت حفصہ رضی اللّٰه عنہا سے) فرمایا: اے بیٹی! حضور پُر نُور صلی
اللّٰه علیہ وسلم کی حیات طیبہ کیسی تھی؟ انھوں نے کہا: " خدا کی قسم! ایک
ایک ماہ گھر میں نہ دِیا جلتا اور نہ ہی ہنڈیا پکتی تھی ، سید عالم نورِ مُجَسَّم صلی اللّٰه علی وسلم کے پاس ایک جُبَّہ ہوتا تھا جسے آپ
اوڑھنا اور بچھونا بنا لیتے۔
حضرت عمر فاروق رضی
اللّٰه عنہ نے فرمایا: " یہ بتاؤ نبی کریم صلی
اللّٰه علیہ وسلم کے ساتھ خلیفۂ رسول اللّٰه
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کی زندگی کیسی
تھی؟ انھوں نے کہا: وہ بھی ویسی ہی تھی۔ تو سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰه تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: اُن تین دوستوں کے
متعلق تمھارا کیا خیال ہے، جن میں سے دو دنیا میں ایک ہی طریقے پر چلتے ہوئے دنیا
سے تشریف لے گئے اور تیسرا اُن کی مخالفت میں چلے،کیا وہ اُن سے جا ملے گا؟ انھوں
نے کہا: "ہر گز نہیں" آپ رضی اللّٰه عنہ نے
فرمایا: "وہ تیسرا ساتھی میں ہوں، میں اُن کی سنت پر ہی چلتا ہوا اُن کے پاس
پہنچوں گا" (فیضانِ فاروق اعظم، جلد 1، صفحہ 351-350، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
موضوع
بہت وسیع ہے لیکن صفحے کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں کہ اس موضوع کو احسن اور کامل
طریقے سے بیان کیا جائے ، اللّٰه عزوجل ان
نُفُوسِ قُدسیہ کے سنتوں پر عمل کرنے کے جذبے سے چند قطرے ہمیں بھی عطا فرمائے۔
مِرے
اَخلاق اچھے ہوں مِرے سب کام اچھے ہوں
بنادو
مجھ کو تم پابندِ سنت یا رسولَ اللّٰه
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صحابہ کرام علیهم الرِّضوان کے سُنَّت پر عمل کے جذبے کے تو کیا
کہنے کہ یہ تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے اتباعِ سنت کے واقعات پڑھ اور سن کر
مسلمانوں کے دل عشقِ رسول و عشقِ سنت سے لبریز ہو جاتے ہیں اور سرورِ دوعالم صلّی اللّٰه علیه و سلَّم کی سنتوں پر
عمل کا جذبہ پروان چڑھتا ہے.یہ حضرات اتباع سنت کے ایسے دیوانہ وار عاشق تھے کہ
زندگی کے ہر ایک معاملے میں ان کی کوشش یہ ہی ہوتی کہ کچھ بھی ہو جائے لیکن سنت نہ
چھوٹے۔
اپنے
دلوں میں عشقِ رسول ،عشقِ سنت اور عشقِ صحابہ کی شمع روشن کرنے کے لیےصحابہ کرام علیهم الرِّضوان کے سنت پر عمل کرنے کے چند سبق آموز واقعات پڑھ لیجیے ان شاءاللّٰه ایمان تازہ ہو جائے گا اور حضور صلی اللّٰه علیه و سلَّم کی سنتوں پر
عمل کا ذہن بھی ملے گا۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضي اللّٰه عنه کا سنت پر عمل کا جذبہ
:
حضرت صدیق اکبر نے
اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضي اللّٰه عنها سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم کے کفن میں
کتنے کپڑے تھے حضور صلی اللّٰه علیه و سلَّم کی
وفات شریف کس دن ہوئی ؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضي
اللّٰه عنه کی آرزو تھی کہ کفن و یومِ وفات میں حضور صلّي اللّٰه علیہ و سلَّم کی موافقت
ہو.
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰه عنہ کا سنت پر عمل كا
جذبہ:
حضرت سیدنا
عثمان غنی رضي اللّٰه عنه ایک بار وضو
کرتے ہوئے مسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے :میں نے ایک مرتبہ سرکار
نامدار صلي اللّٰه علیه و سلّم کو
اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔(کرامات عثمان غنی : 8)
وضو
کر کے خَنْدَاں ہوئے شاہِ عثمان
کہا!
کیوں تَبَسُّمْ بھلا کر رہا ہوں؟
جوابِ
سوالِ مخاطَب دیا پھر
کسی
کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
جنَّتی صحابی حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رضي اللّٰه عنہ کا سنت پر عمل کا
جذبہ:
حضرت سیدنا
امیرِ معاویہ رضي اللّٰه عنه جب اپنے
زمانہ خلافت میں حج یا عمرہ کے لیے تشریف لائے اور مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو آپ
بھی اتباع سنت کے جذبے سے شہدائے اُحُدْ کی قبور پر تشریف لے گئے کیوں کہ نبئ کریم
صلی اللّٰه علیه و سلَّم حضرت سیدنا
صدّیقِ اکبر, حضرت سیدنا فاروقِ اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضي اللّٰه عنهم اجمعین کا سال میں ایک مرتبہ شہدائے
اُحُد کے مزارات پر جانے کا معمول تھا۔ (فیضان امیر معاویہ : 52)
حضرت سیدنا عبداللّٰه بن عمرو رضي
اللّٰه عنه کا سنت پر عمل:
حضرت سیدنا عمرو بن شعیب رحمۃ اللّٰه
علیه
کے والد فرماتے ہیں: میں نے حضرت سیدنا عبداللّٰه بن
عمرو رضي اللّٰه عنهما کے
ساتھ بیت اللّٰه شریف کا
طواف کیا، جب ہم کعبہ مبارکہ کی پچھلی جانب آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا
:"کیا آپ تَعَوُّذْ نہیں پڑھتے؟" انہوں نے فرمایا:"میں دوزخ کی آگ
سے اللّٰه عزَّوَجَلَّ کی
پناه مانگتا ہوں. " پھر آگے چل دیے,حجرِ اسود کا بوسہ لیا پھر اس کے
اور بابِ کعبہ کے درمیان کھڑے ہو کر سینہ اور چہرہ اس پر رکھا اور کلائیاں بچھا دیں
پھر فرمایا:"میں نے رسول اللّٰه
صلَّی اللّٰه علیه و سلَّم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(اللہ والوں کی باتیں ،جلد 1 ص 507 )
صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سرکارِ خیرُالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سُنَّت کو دیوانہ
وار اپناتے تھے کیونکہ پیارے آقا علیہ الصلوة
السلام کی محبت انکے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اسی لئے وہ
نبی علیہ السلام کی سنتوں کی
اتباع میں سب سے بڑھ کر رہتے تھے اور ہر شعبہِ زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پہ چل کر اپنی زندگی بسر
کرتے تھے اور وہ وقتا فوقتاً ان پہ عمل پیرا ہو کر اپنے متعلقین کو اس بارے میں
بتاتے بھی تھے جیسا کہ
ایک مرتبہ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود
کو خطاب کر کے فرمایا ”بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی
نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔“
اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ”اور اب ہمیں رمل ( طواف کے پہلے تین چکروں
میں سینہ تان کے چلنا) کی بھی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی
قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو
تباہ کر دیا۔“ پھر فرمایا ”جو عمل رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔“ (صحیح بخاری
باب الرمل فی الحج والعمرہ ج 3 ص 422 ح 1618)
اسی طرح ایک
مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھریَکایک
مُسکرائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھرخود ہی
اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
میں نے دیکھا
سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے
فرمایا تھا :جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھر میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
خود ہی فرمایا: ’’جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چہرے کے اور ہاتھ دھونے
سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں
دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔‘‘
(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج 1 ص 474 ح 415 )
اسی طرح ایک
مرتبہ حضرت علی مولا مشکل کشا رضی اللہ عنہ کے
پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو
«بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ
گئے تو «الحمد الله» کہا، اور«سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا
لمنقلبون» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد
الله»
کہا، پھر تین مرتبہ«الله اكبر»
کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه
لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا، پھر آپ مسکرا دئیے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں
مسکرا رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر
آپ صلی الله عليه وسلم بھی
مسکرا دئیے تو میں نے پوچھا: اللہ کے
رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
نے فرمایا: میرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے:
میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے
۔
(
ابو داؤد کتاب الجہاد باب ما یقول الرجل اذا رکب جلد 5 ص 430 ح 2590 )
ان روایات سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام علیہم
الرضوان پیارے آقا صلی الله عليه
وسلم
کی سنتوں سے کتنی زیادہ محبت فرماتے تھے اسی طرح ہمیں بھی اپنی زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے
رہنا چاہیے تاکہ ہماری دینا اور آخرت دونوں سنوار جائیں ۔
یا
مصطفی گناہوں کی عادتیں نکالو
جذبہ
مجھے عطا ہو سنت کی پیروی کا
اللہ
عزوجل
ہمیں بھی پیارے آقا علیہ الصلوة والسلام کی
سنتوں کا عامل بنائے
امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
کسی کی اطاعت
و فرمانبرداری پر ابھارنے والی چیز اس شخصیت سے الفت و محبت ہوتی ہے، اور یہی چیز
(الفت و محبت) صحابہ کرام میں کامل طور پر پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اللّٰہ کے آخری نبی (صلی
اللّٰہ علیہ وسلم) کی ہر ہر سنت پر دیوانہ وار عمل کرتے، اور اتباع سنت کے جذبے
سے اس قدر سرشار رہتے تھے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
آئیں! درج ذیل روایات و واقعات میں صحابہ کرام
کے اسی سنت پر عمل کے جذبے کو ملاحظہ کرتے ہیں۔
️ حضرتِ عمر کا
اتباع ِسنت کا جذبہ: مروی ہے
حضرتِ عمر نے ذو الحلیفہ (مقام) میں دو رکعتیں پڑھیں تب فرمایا کہ میں نے ویسا ہی
کیا کہ جیسا میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو کرتے دیکھا۔ (صحیح مسلم، 2 /981)۔
حضرت عثمان کا اتباع سنت کا جذبہ:
حضرت عثمان نے ایک مقام پر پہنچ کر
پانی منگوایا اور وضو فرمایاپھر یکا یک مسکرانے اور رُفقاء سے فرمانے لگے، جانتے
ہو میں کیوں مسکرایا؟ پھر اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا: ایک بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اسی جگہ
پر وضو فرمایا تھا اور مسکرائے تھے اور صحابہ سے فرمایا تھا، جانتے ہو میں کیوں
مسکرایا؟ (لہذا میں نے بھی حضور کی ادا کو ادا کیا)۔
(ملخّصاً مسند امام احمد، ج1، ص130)
وضو
کر کے خنداں ہوئے شاہِ عثماں
کہاکیوں
تبسُّم بھلا کر رہا ہوں
جوابِ
سوالِ مخالف دیا پھر
کسی
کی ادا کو ادا کر رہا ہوں
حضرتِ علی کا اتباع سنت کا جذبہ:
مروی ہے کہ جب حضرتِ علی نے (حج کے موقع پر)
قِران کیا تو آپ سے حضرتِ عثمان
نے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ میں
لوگوں کو اس سے منع کرتا ہوں اور آپ اس کو کر رہے ہیں، تو حضرتِ علی نے جواب میں
فرمایا کہ میں یہ کس طرح کر سکتا ہوں کہ کسی کے کہنے سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سنت چھوڑ دوں۔ (صحیح بخاری، 3 /920)۔
حضرتِ عبداللہ بن عمر
کا اتباع سنت کا جذبہ:
ایک شخص نے حضرتِ
عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ ہم قرآن میں صلوٰۃِ خوف و حضر تو
پاتے ہیں مگر صلوٰۃِ سفر نہیں پاتے، تو حضرتِ عبداللہ بن
عمر نے فرمایا: (اس سے زیادہ) ہم کچھ نہیں جانتے کہ ہم وہی کرتے ہیں جیسا ہم نے
حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کرتے دیکھا۔
(سنن ابن ماجہ 1/ 339)
اللّٰہ پاک ان مقدس ہستیوں (جن کو اللّٰہ نے اپنے محبوب کی صحبت کیلئے منتخب
فرمایا) کے صدقے ہمیں بھی اتباع سنت کا جذبہ عطا فرمائے۔