صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا سنت پر عمل کا جذبہ بہت ہی منفرد اور نرالہ ہوا کرتا تھا آئیے ہم صحابہ کرام کے سنت پر عمل کے جذبے کے چند واقعات ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔

(مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص ۶۶۲ ،الحدیث: ۲۵۱)

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تواللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے )

(مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان ،الحدیث: ۴۱۵)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔ لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔

(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ما ورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵ ، الجزء الثانی )

ان واقعات کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہمارے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں ۔آئیے سنت پر عمل کرنے والوں کے لیے خوشخبری مالاحظہ فرمائیے۔

حضرت سیّدنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِی فَلَہُ اَجرُ مِائَۃِ شَہِیْدٍ ترجمہ : جو فسادِ امّت کے وقت میری سنّت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔

(مشکاۃ المصابیح،1،ص55، حدیث: 176)

تِری سنتوں پہ چل کرمِری روح جب نکل کر

چلے تو گلے لگانامدنی مدینے والے


 صحابہ کرام علیہم الرضوان سرکار خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلمکی ہر سنت کو دیوانہ وار اپنایا کرتے اور آپ کی ہر ہر ادا کو ادا کرنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے اور اتباع سنت کی ترکیب بناتے ہیں ۔

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر اچانک مسکرانے لگے پھر! فرمایا میرے مسکرانے کی وجہ جانتے ہو؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا ایک بار سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرا کر صحابہ کرام سے اچھا فرمایا تھا جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ جب وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے ،چہرہ دھونے سے چہرے کے ،سر کا مسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔

حضرت عبیدہ بن جریج رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہسے عرض کیا :کہ میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت کیے ہوئے چمڑے کابے بال جوتا پہنتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہ ہو ں اسی لیے میں بھی ایسا جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری، کتاب الوضوء. باب غسل الرجلین،حدیث: 166،ج1،ص40)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک کیاہوانمکین گوشت تھا ۔ کھانے کے دوران میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ( تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں اسی لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔

(صحیح بخاری، کتاب الاطعمہ، باب الدباء،حدیث 5433،ج3،ص534)

سبحان اللہ! ہمارے صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا جذبہ شاندار تھا اللہ عزوجل ہمیں بھی پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے سنتوں کا عامل بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محبت کا ایک اصول ہے کہ آدمی اگر اپنی محبت میں کامل اور سچا ہو تو وہ محبت اسے محبوب کی اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، اور نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم سے محبت و اطاعت شریعت کو مطلوب بھی ہے، اور یہ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے اور اللہ عزوجل سے محبت کا اظہار بھی کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے ۔قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

شرطِ ایمان مصطفی سے پیار ہے، پیار پیروی ہے اور پیروی دشوار ہے... ایک مقام پر مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اطاعت اور دین سے محبت کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں: لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لماجئت بہ ،تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک اسکی نفسانی خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں لایا ہوں ۔ (مشکوة المصابیح باب الاعتصام بالکتاب والسنة )

صحابہ کرام علییھم الرضوان نبی پاک کے سچے جانثار اور آقا علیہ الصلوة والسلام کے مکمل تابعدار تھے، انھوں نے نہ صرف اپنے افعال کو حضور کے افعال کی اتباع میں کیا بلکہ اپنی طبیعتوں کو ہی آقا کریم کے طریقے کے مطابق ڈھال لیا، اور اپنی خواہشات تک کو مرضی محبوب میں فنا کردیا تھا۔

صحابہ کرام کے ادب رسول کو دیکھا جائے تو وہ کمال نظر آتا ہے انھوں نے اپنی آوازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے پست کر دیا، اپنی نظریں جھکا کے رکھتے، حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے جب آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پچھنے لگوائے تو خون مصطفی کو زمین پر نہ گرنے دیا، أم المؤمنین حضرت ام احبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد جب تک ایمان نہیں لائے تب تک انکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بستر مبارک پر نہیں بیٹھنے دیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے نماز پڑھنے کو بے ادبی سمجھتے تھے، حضور کے قرابت داروں کا خیال رکھتے تھے۔

اور اگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعمیل حکم مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کوشش ہوتی کہ انکا ایک ایک عمل تمنائے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،خدمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہو، لہذا اس سلسلہ میں ان بے مثال ہستیوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں

جیسے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف آ رہے تھے، آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے سامنے کھڑے کسی آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اجلسوہ، اسکو بٹھادو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم اگرچہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں تھا مگر جونہی انکے کان میں یہ آواز پڑی مسجد کے باہر ہی صحابہ کے راستے میں بیٹھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو انکے جذبہ اطاعت کو دیکھتے ہوئے دعا دی : زادک اللہ حرصا علی طواعتیہ اللہ وطواعتیہ رسولہاللہ کریم تمہاری اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری میں مزید اضافہ فرمائے ۔ (الاصابہ، ابن حجر، 66/4)

شراب کی حرمت سے پہلے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان دنوں فضیح نامی شراب کا بہت رواج تھا، پھر شراب کی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک منادی کو اس بات کا اعلان کرنے کا حکم ہوا کہ شراب حرام ہوگئ ،

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابو طلحہ نے کہا باہر جاکر اس شراب کو بہا دو، چنانچہ میں نے نکل کر شراب بہا دی، پس اعلان ہونے کے بعد شراب مدینے کی گلیوں میں بہنے لگی،( حب رسول اور صحابہ کرام، مظا ہر محبت، ص 199)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ نے دو رکعت نماز عید پڑھی، آپ نے نماز عید سے پہلے نہ کوئی نفل نماز پڑھی نہ فوراً بعد ، پھر آپ خواتین کی طرف تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپ نے انھیں وعظ و نصیحت فرمائی، اور پھر انھیں حکم دیا کہ راہ خدا میں کچھ حسب توفیق صدقہ دیں ۔زبان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے سننے کی دیر تھی کہ خواتین اپنے کنگن اور بالیاں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔

( بخاری شریف کتاب الزکوة)

ایک مرتبہ نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کبھی کسی سے سوال نہ کرنا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اسقدر پاس کیا کہ عمر بھر کسی سے دست سوال دراز نہ کیا حتی کہ اگر سواری پر بیٹھے چابک ہاتھ سے گر جاتا تو خود اتر کر اٹھا لیتے، مگر کسی کو پکڑنے کے لئے نہ کہتے۔( مسند احمد بن حنبل . 277/5)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی گھما رہے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا کہ بلا ضرورت یہ مشقت کیوں اٹھائی، تو انھوں نے فرمایا میں خود اسکی وجہ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح اونٹنی گھماتے دیکھا تھا، لہذا میں نے بھی یہ کام کیا۔( قاضی عیاض شفاء شریف 15/2)

یقیناً چشم فلک اور تاریخ انسانیت نے ایسا اتباع سنت کا جذبہ کہیں نہ دیکھا ہوگا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف رخ پھیرا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اپنا منہ نماز کی حالت میں ہی پھیر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں جوتے اتارے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اتار دیے۔(

( ابو داؤد کتاب الصلوة)

آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انگوٹھی اتاری تو صحابہ کرام نے بھی اتار دی، اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں کسی صحابی نے بھی کسر نہیں چھوڑی مگر جو جذبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ملا قابل رشک ہے کہ انکے بارے میں معروف تابعی انکے آزاد کردہ غلام حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لو رأیت ابن عمر یتبع آثار رسول اللہ لقلت ھذا مجنون ،اگر تم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اتباع سنت کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہ مجنون ہے۔(حاکم للمستدرک، باب معرفة اصحابہ،561/3)

اللہ کریم ہمیں اصحاب رسول کی کامل اتباع کا صدقہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے بہت زیادہ دلدادہ اور شوقین تھے جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کو بھی جاری رکھتے۔

قرآن کریم کی روشنی میں: فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠ تَرجَمۂ کنز الایمان: آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں۔ (سورۃ النجم:32 )

احادیث کی روشنی میں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے کسی کا دامن پکڑ لو کامیاب ہو جاؤ گے ۔

قرہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے دست اقدس پر بیعت کی اس حالت میں کہ آپ کی قمیض کا ایک بٹن کھلا ہوا تھا، قرہ نے کہا کہ میں نے معاویہ بن قرہ اور ان کے بیٹے کو دیکھا کہ ان کی قمیض کا بٹن سردی گرمی میں ہمیشہ کھلا ہوا رہتا تھا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں اس قدر اتباع رسول کا جذبہ تھا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قمیض کا بٹن کھلا ہوا ہے تو انہوں نے سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر ہمیشہ اس عمل کو اختیار کیا۔

عشق رسول اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو اتباع رسول کا ہونا ناگزیر بن جاتا ہے احکام الہی کی تعمیل اور سیرت کی پیروی عاشق رسول کی رگ رگ میں سما جاتی ہے،دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب وسنت کی حکومت قائم ہو جاتی ہے ،مسلمان کے معاشرت سنور جاتی ہے اور آخرت نکھر جاتی ہے تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی اورجہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اس عشقِ کامل کے طفیل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا یہ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف گوارا نہ تھا۔

آیئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اتباع رسول پڑھتے ہیں:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہاتباع رسول میں اپنی مثال آپ تھے سردی گرمی کی پرواہ کئے بغیر اپنے اقوال و افعال میں محبوب رب ذوالجلال صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں اور ادائیں خوب اپناتے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہنے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوایا اور کھایا اور بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور یہی کیا تھا ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرائے ان سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہاں بیٹھ کر وضو فرمایا اور اس کے بعد مسکرائے اسی لیے میں نےبھی ایسے کیا۔


ہمارے پیارے رب عزوجل نے اپنے محبوب کی پیروی کا حکم ارشاد فرمایا اور پیروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی برکت سے ہی ہوسکتی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ کنزالایمان :بے شک تمہیں رسول کی پیروی بہتر ہے۔(سورہ احزاب 21)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کے متعلق لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کامیاب زندگی وہی ہے جو ان کے نقش قدم پر ہو، ہمارا جینا مرنا سونا جاگنا سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے قدم پر ہو، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں پر عمل پیرا ہو تے ہوے زندگی بسر کرنی چاہیےصحابہ کرام ایسی مبارک ہستیاں تھیں جن کی ہر ہر ادا سنت مصطفی کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی ہر مال میں سنتوں پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے تمام تر معاملات میں حضور کی سنتوں کو اپناتے تھے ۔ آئیے سنتے ہیں کہ صحابہ کرام کس طرح سنتوں پر عمل پیرا ہوتے تھے ۔

حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک خَیّاط (درزی۔ Tailor) نے سرکار نامدار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مَدعُو کیا تو میں بھی ساتھ چلاگیا، اُس نے جَوشریف کی روٹی اورشوربہ پیش کیا جس میں کدُّوشریف اورخُشک گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ میں نے دیکھاکہ سرکارِدوعالم،نورِ مُجسَّم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیالے کے کِناروں سے کَدّو شریف ڈھونڈکر تَناوُل فرما رہے تھے۔ اس دِن کے بعد میں ہمیشہ کدّو شریف پسند کرنے لگا۔ (صَحِیْح مسلِم ص۱۱۲۹حدیث ۲۰۴۱ دارابن حزم بیروت )

ماشاءاللہ! بہت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ کے اپنے محبوب کی ادا کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہر ہر وقت سنت پر عمل کی کوشش میں لگے رہتے۔

حضرت حضرت علی بن حصیر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت رھبہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا "ما فعل اللہ بک" فرمایا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرماحضرت رھبة رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اللہ نے میری مغفرت فرما دی، میں نے پوچھا کس بات سے ؟فرمایا سنت پر عمل کی برکت سے ۔

سنا آپ نے سنا سنت مصطفی پر عمل کی برکت سے مغفرت بھی ہو جاتی ہے حقیقی عشقِ رسول بھی نصیب ہوتا ہےاللہ کریم کی نعمتیں چھما چھم برستی ہیں اور رب کی رضا نصیب ہوتی ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔

حضرت نافع سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر جب نبینا ہو گئے کہا کہ آپ مجھے بازار لے چلو میں نے ہاتھ پکڑا اور باہر لے کر آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس لے چلو میں نے عرض کی حضور کام تو آپ نے کچھ بھی نہ کیا؟ فرمایا آئے ہوئے چند لوگوں کے ساتھ سلام و جواب ہوا ہے ۔

فرمایا: بس میں یہی کام کے لئے آیا تھا تاکہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ سلام اور اس کا جواب دینے کی سنت پر عمل ہو صحابہ کرام کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عملی تعلق تھا وہ اب وہ ایسا صاف و شفاآئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے اس کی روشنی میں اپنے اعمال و کردار اصلاح کرتے تھے اور سنت کے ذریعے اپنے لوگوں کو جگاتے تھے

اللہ کریم ہمیں پیارے آقا کی سنتوں سے محبت اور ان ان پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ملتان پریس کلب میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے تحت 01 جنوری 2021ء بروز جمعہ محفل نعت کا انعقاد کیا گیا جس میں میڈیا سے وابستہ افراد جرنلسٹ، عہدیداران اور  رکن مجلس ریاض عطاری سمیت مختلف ذمہ داران نے شرکت کی ۔

محفل نعت میں مبلغ دعوت اسلامی نے حاضرین کے درمیان نیکی کی دعوت کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے دعوت اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات سے آگاہ کیا۔( رپورٹ:اسرار عطاری پاک آفس ذمہ دار میڈیا ڈیپارٹمنٹ آف دعوت اسلامی) 


  اسلام اللہ کریم کا بھیجا ہوا آخری دین ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اسی طرح روز ِقیامت تک کوئی دوسرا دین نہیں آئے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہ دین جن محفوظ ہاتھوں میں گیا اور وہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت ہے یہ اصحاب جب چند افراد تھے تو بدر کے مقام میں دین کا دفاع کیا تھا اور جب یہ ہزاروں میں پہنچے تو پوری دنیا میں کفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔

دین اسلام کی بنیاد اور اساس صحابہ کرام علیہم الرضوان ثابت ہوئے قرآن و حدیث صحابہ کرام نے ہم تک پہنچایا ہے اور پوری دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ پہنچایا ۔ دین کے راستے میں جتنی بھی تکلیف اور پریشانی آئی ان کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا اس دین کو عام کرنے کے لیے اپنے گھر بار اور خاندان تک چھوڑ دیئے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مثالی ہے ان کی پوری زندگی حیات نبوی اور سنت نبوی کا صاف وشفاف آئینہ تھی یہ وہ مثالی جماعت ہے جس نے سنت رسول پر عمل کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے ان کی زندگی کا کوئی بھی شعبہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی نہیں تھا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنے کے جذبے کا ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک دن حجر اسود کے قریب آئے اور بوسہ دے کر فرمایا خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار پانی منگوایا وضو کیا اور مسکرانے لگے پھر ساتھیوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں مسکرایا؟ساتھیوں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے مسکرائے تو فرمایا :ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ کے قریب وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تو میں نے بھی انہیں کی اداکو ادا کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک جگہ پراپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں اس کی وجہ نہیں جانتا مگر میں نے اس جگہ رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اس لئے میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں

(تفسیر صراط الجنان ،جلد، اول ،صفحہ:461)

ہر حال میں اور ہر عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے جس کی مثال نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں ملتی ہے حالات کیسے بھی ہوں صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی ادائیگی میں کبھی بھی تاخیر اور کسی بھی طرح کی ٹال مٹول نہ کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور سنت پر عمل کرنے کا جذبہ تھا کہ یہ مقدس جماعت نہ کسی مصیبت پر گھبراتی، نہ نعمت پر اتراتی، فقر ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا اور دولت سرکشی پیدا نہ کر سکی اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے کا خیال بھی نہ تھا۔

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کا جذبہ ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو وہ مقام عطا فرمائے جو دنیا میں نہ کسی کو اس سے پہلے حاصل ہوا نہ ہو سکتا ہے ۔ اس مقدس جماعت کو اللہ عزوجل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے منتخب فرمایا تھا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ "میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جو ان کی راہ کو اپنائے گا، کامیاب ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج امت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، صحابہ کرام کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر خود کو بھی محبوب بارگاہ الہی بنائے۔


مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے محبت کی جائے ۔محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں ہر وقت یہ جستجو رہے کہ میری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ کامل کے مطابق ہو۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عظیم درس زمانے کو دیا تاریخ عالم اس کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے ۔اتباع رسول سے مراد یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہو ۔ہمارا ہر قول احادیث مقدسہ کی تکمیل اور ہر فعل سنت مطہرہ کا مظہر ہو،ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا ،رونا ہنسنا غرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اسلامی ضابطۂ حیات کی ترجمانی کرے۔ ہمارا اخلاق لسانی اور غیرت اسلامی بے مثال ہو ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایمان تھا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں باعث رحمت ہے اس لیے وہ ہر مقام پر سنت کو ترجیح دیتے تھے ۔

(مشکوٰۃ جلد۱،ص۴۴۶ ،باب فضل الفقراء)

ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھونی ہوئی مسلّم بکری رکھی ہوئی تھی لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئے بلایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کر دیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی میں بھلا لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کیونکر گوارا کر سکتا ہوں ۔

(بخاری جلد ۱،ص۱۸۶ ،باب موت یوم الاثنین)

امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفنِ مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سنت نصیب ہو جائے۔

ابن ماجہ نے حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ کھانا کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا انہوں نے اٹھا لیا اور صاف کر کے کھا لیا ۔یہ دیکھ کر گنواروں نے آنکھوں سے اشارہ کیا (کہ یہ کتنی حقیر اور ذلیل بات ہے کہ گرے ہوئے لقمے کو انھوں نے کھا لیا )کسی نے ان سے کہا خدا امیر کا بھلا کرے (معقل بن یسار وہاں امیر اور سردار کی حیثیت سے تھے)یہ گنوار کن اکھیوں سے اشارہ کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے گرا ہوا لقمہ کھا لیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے یہ کھانا موجود ہے انہوں نے فرمایا : ان عجمیوں کی وجہ سے میں اس چیز کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ عزوجل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہم کو حکم تھا کہ جب لقمہ گر جائے اسے صاف کر کے کھا لیا جائے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان پر اللہ عزوجل کی خصوصی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو جنہوں نے سنت رسول صلی اللہ وآلہٖ وسلم کا ایسا درس اس امت کو بتا دیا کہ

اللہ کی سر تابہ قدم شان ہیں یہ

ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ


3 جنوری2021ء بروز اتوار  سیالکوٹ مرے کالج روڈ میں واقع جامع مسجد ابو حنیفہ میں سیالکوٹ کابینہ کے شعبہ اوراد عطاریہ کے بستہ ذمہ داران کا مدنی مشورہ اسلام آباد ریجن کے ریجن ذمہ دار مشرف علی نے کیا ۔

مدنی مشورے میں مبلغ دعوت اسلامی نے ذمہ داران کو صبر کے متعلق مدنی پھول دیتے ہوئے بستوں پر پابندی سے وقت دینے ،مستقل مزاجی کے ساتھ بستے لگانے،مریضوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کروانے،مدنی قافلوں کا مسافر بنانے،مدنی مذاکرہ دیکھنے کی ترغیب دلانے اور مدنی بہاریں جمع کروانے اور مدنی مرکز کو اپنی کارکردگی سے بر وقت اپڈیٹ کرنے کے حوالے سے اہم نکات دیئے ۔

واضح رہے! کہ جامع مسجد ابو حنیفہ مرے کالج روڈ سیالکوٹ میں روزانہ عصر تا مغرب ہاتھوں ہاتھ استخارہ کیا جاتا ہے اور فی سبیل اللہ تعویذات عطاریہ بھی دئیے جاتے ہیں۔


 صحابہ کرام علیہم الرضوان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی اور جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ،اس کی رفتار سے محبت، اس کی گفتار سے محبت، اس کے لباس سے محبت غرض اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے۔اسی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنت پر عمل کا بے مثال جذبہ تھا اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

حضرت جریج بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت کئے ہوئے چمڑے کا بے بال جوتا پہنتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا میں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہ ہو اسی لیے میں بھی ایسا ہی جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب الوضوء، حدیث: 144، ج1، ص80)

حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ایک بار میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ ایک راستے میں تھا آپ نے باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اس راستے سے دور ہٹ گئے اور دور جانے کے بعد مجھ سے فرمایا: اے نافع! کیا تم کچھ سن رہے ہو میں نے عرض کیا: نہیں تب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے ہٹائیں اور فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بانسری کی آواز سنی تو ایسے ہی کیا جو میں نے کیا حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں اس وقت چھوٹا تھا-(مشکوٰۃ، ص318، ابو داؤد، احمد)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ :

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے سنت پر عمل کے جذبے کے بھی کیا کہنے! کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہاپنی وفات سے چند گھنٹے قبل اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کس دن ہوئی؟

اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آرزو تھی کہ کفن اور یومِ وفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت ہو یعنی حیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ممات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع چاہتے تھے۔

(صحیح بخاری، حدیث 1387،ج1،ص468)

اللہ اللہ یہ شوق اتباع

کیوں نہ ہو صدیق اکبر تھے

اسلام کا تاریخی واقعہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنت پر عمل کا جذبہ:

تحویلِ قبلہ اسلام کی تاریخ میں سب سے اہم واقعہ ہے نصف شعبان پیر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز ظہر پڑھ رہے تھے تیسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ وحی الہی سے آپ نے نماز میں کعبہ کی طرف رخ کر لیا اور تمام صحابہ کرام نے بھی آپ کی اتباع کی ۔ اس مسجد کوآج تک" مسجد قبلتین" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

(المواھب لدنیہ وشرح زرقانی ،ج2،ص242)

سبحان اللہ! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی محبت اور سنت کے عمل کے جذبے کی وجہ سے اس وقت فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی یہ سوال نہ کیا کہ ایسا کیوں کہا بلکہ جیسے ان کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ویسے ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کیا جبھی تو مدینے کے سلطان رحمت، عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے"۔

(مشکوٰۃ المصابیح، باب مناقب صحابہ، حدیث: 6018)

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی


عشق کی ایک علامت'' اطاعتِ محبوب''بھی ہے،انسان کو جس سے عشق ہوتا ہے وہ اس کی اداؤں کو وہ بالقصد و بلا قصد اختیار کرتا ہے اور جب انسان کی محبوب ہستی وہ ذات ہو جو خالق ِکائنات کو بھی محبوب ہے اور وہ شخصیت ہو جس کی پیروی کے لیے '' سُنت'' جیسا میٹھا لفظ استعمال ہوتا ہے،تو ایسے محبوب کی اداؤں کو اپنانے کی لذت وچاشنی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اصحابی کاالنجوم فبا یھم اقتدیتم اھتدیتم

چونکہ صحابہ کرام علیھم الرضوان ہمارے مقتدا ہیں، لہذا ان کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا کیسا جذبہ تھا ، اس ضمن میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:

1 ۔سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے، عرض کی گئی:"آپ اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے" فرمایا: میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے دیکھا یا سناتو آپ کو مسکراتے ہی دیکھا۔

(مسند احمد، مسند الا نصار 171/8 حدیث: 21791)

2۔ سیدنا نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں مزمار( باجا) بجانے کی آواز آنے لگی ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال دیں اور راستے سے دوسری طرف ہٹ گئے اور دور جانے کے بعد پوچھا:نافع آواز آرہی ہے؟ میں نے عرض کی: اب نہیں آ رہی، تو کانوں سے اُنگلیاں نکالیں اور ارشاد فرمایا: ایک بار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا جو میں نے کیا۔(ابو داؤد ج 4، ص 307، حدیث: 4924)

3۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کہ ایک درزی نے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ شریک تھا، کھانے میں روٹی کے ساتھ کدو ملا گوشت کا سالن پیش کیا گیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو شریف تلاش کر کے تناول فرماتے دیکھا اُس دن کے بعد سے میں کدو شریف کو بہت پسند کرتا ہوں۔

(بخاری،2/17 ، حدیث:2592)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

فنا اتنا تو ہو جاؤں میں تیری ذاتِ عالی میں

جو مجھ کو دیکھ لے اُس کو تیرا دیدار ہو جائے


دعوت اسلامی  کی مجلس کفن دفن کے تحت3جنوری 2021 بروز اتوار عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی حلقے کا سلسلہ ہوا جس میں پاکستان کے مختلف علا قوں سے ڈاکٹر مجلس کے تین روزہ تربیتی اجتماع میں آئے عاشقان رسول نے شرکت کی۔

مبلغ دعوت اسلامی عزیر عطاری رکن مجلس فیضان مدینہ نے حاضرین کے درمیان مسلمان جنازے کو غسل دینے کے فضائل اور اہمیت کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے مجلس کفن دفن کا تعارف پیش کیااور مسلمان میت کو غسل دینے کا عملی طریقہ سکھایا جبکہ کفن ،دفن اور قبر کے شرعی مسائل سے آگاہ کیا ۔

اس موقع پر عزیر عطاری نے ڈاکٹر مجلس کے تین روزہ تربیتی اجتماع میں آئے عاشقان رسول کو تجہیزوتکفین کا طریقہ کتاب پڑھنے کا ذہن دیا جبکہ مسلم فینرل ایپلیکیشن کا تعارف کرواتے ہوئے عاشقان رسول کو ترغیب دلاکر ایپ ڈاؤنلوڈ کر کے اس سہولت سے فائدہ اٹھانے اور روح قبض ہونے کے بعد ڈاکٹر کا کیا کردار ہونا چاہیئے کے متعلق مدنی پھول دیئے ۔