.jpg)
خوف کی تعریف
:حضراتِ عُلمائےکرام فرماتے ہیں :نا پسندیدہ خَیال آنے پر دِل میں پیدا ہونے والے
لرزے کو خوف کہتے ہیں۔ خشیّت بھی اِسی کی مِثل ہے۔ لیکن خشیت ایک طرح کی ہیبت اور
عَظَمت کا تقاضا کرتی ہے۔خوف کی ضِد جُرأت ہے(لیکن کبھی یہ امن کے مُقابلے میں بھی بولا جاتاہے) کیونکہ بے خوف ہی اللہ پاک پر جُرأت کرتاہے اور حقیقت یہ ہے کہ جُرأت
ہی خوف کی ضِد ہے۔(مِنہاجُ العابدین ،ص315314،) خوفِ خُدا کے فضائل: جب خوف میں شِدّت
پیدا ہو جائےتو آنکھوں سے آنسُو کا جاری ہونا ایک فِطری امر ہے۔ خوفِ خُدا میں
رونا مؤمن کا اِنتہائی عُمدہ و اعلیٰ وصف ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم
السلام، صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان اور اولیائے عظام
کی مُبارک زندگیوں کا ایک نُمایاں پہلو خوفِ خُدا میں رونا ہے۔ یہ مُتّقین کی
علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ قُرآن کریم میں بہت سے مقامات پر خوفِ خُدا کی ترغیب
دِلائی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خوفِ خُدا کے فضائل کا بھی تذکرہ ہے۔ جیسا کہ
اِرشادِ باری ہے:وَ
لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتٰنِترجمہ
:اور جو اپنے ربّ کے حُضُور کھڑے ہونے سے ڈرے اُس کے لیے دو جنّتیں ہیں۔(پ 27،رحمن: 46)اِس آیت
کا ایک معنی یہ ہے کہ جِسے دُنیا میں قِیامت کے دِن اپنے ربّ کریم کے حُضُور حِساب
کی جگہ میں حِساب کے لیے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گُنا ہوں کو چھوڑ دے اور فرائض
کی بجا آوری کرے تو اُس کے لیے آخِرت میں دو جنّتیں ہیں۔یہاں دو جنّتوں سے مُراد :
(1)جنّتِ عَدْن(2)جنّتِ نعیم ہے۔اور دو جنّتیں مِلنے کی وُجوہات مُفسّرین نے مُختلف
بیان فرمائی ہیں:(1)ایک جنّت اللہ پاک سے ڈرنے کا صِلہ ہے اور ایک نفسانی خواہِشات
ترک کرنے کا صِلہ ہے۔ (2)ایک جنّت اُس کے دُرُست عقیدہ رکھنے کا صِلہ ہے اور ایک
جنّت اُس کے نیک اعمال کا صِلہ ہے۔ (3)ایک جنّت اُس کے فرمانبرداری کرنے کا صِلہ
ہے اور ایک جنّت گُناہ چھوڑ دینے کا صِلہ ہے۔ (4)ایک جنّت ثواب کے طور پر ملے گی
اور ایک جنّت اللہ پاک کے فضل کے طور پر مِلے گی۔(5)ایک جنّت اُس کی رِہائش کے لیے
ہو گی اور دوسری جنّت اُس کی بیویوں کی رہائش کےلیے ہو گی۔ (تفسیر صِراطُ الجِنان،جِلد نمبر:9،ص653652،) (1)فرمانِ مُصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ
وَسَلَّم :جِس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسُو
نِکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو اُس کے چہرے کے ظاہری حِصّے
کو پہنچیں تو اللہ پاک اُسے جہنّم پر حرام کر دیتا ہے۔ (نیکی کی دعوت،ص273 (2)فرمانِ مصطفے صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: جو شخص اللہ پاک
کے خوف سے روئے، اللہ پاک اُس کی بخشش فرما دے گا۔ (نیکی کی دعوت،ص277 بُزرگانِ دین کے اقوال :(1)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی
اللہُ عنہما نے فرمایا :اللہ پاک کے خوف سے آنسُو کا ایک قطرہ بہنا
میرے نزدیک ایک ہزار دینار صَدَقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (نیکی کی دعوت،ص284 (2)حضرت کعبُ الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :خوفِ
خدا سے آنسُو بہانا مُجھے اپنے وزْن کے برابر سونا صَدَقہ کرنے سے بھی زِیادہ
پسندیدہ ہے کیونکہ جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئےاور اُس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ
بھی زمین پر گِر جائے تو آگ اُس(رونے والے) کو نہ چھُوئےگی۔ (نیکی کی
دعوت،ص284 مندرجہ بالا تمام مواد سے خوفِ خُدا میں آنسُو بہانے کے
فضائل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یقیناً یہ ایک عظیمُ الشان نیکی ہے۔ اللہ پاک
ہمیں بھی خوفِ خُدا و عِشقِ مُصطفیٰ میں رونا نصیب کرے۔ آمین بجاہ خاتم النَّبِيِّين صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
رونے والی آنکھیں مانگو، رونا سب کاکام
نہیں ذکرِ مَحبت عام ہے لیکن سوزِمحبّت
عام نہیں

دعوتِ اسلامی کےزیرِاہتمام پچھلےدنوں ڈہرکی کے
علاقے گلاب شاہ کالونی میں قائم بسم اللہ مسجد میں نیک اعمال اجتماع
کاانعقادکیاگیاجس میں مقامی اسلامی بھائیوں نےشرکت کی۔
اس موقع پر شعبہ اصلاح اعمال پاکستان سطح کے ذمہ دارسہیل رضاعطاری مدنی نےاسلامی بھائیوں کی تربیت
ورہنمائی کرتےہوئےانہیں امیرِ اہلِ سنت دامت براکاتہم العالیہ کی طرف سےعطاکردہ رسالہ
72نیک اعمال کےذریعےروزانہ اپناجائزہ لینےکی ترغیب دلائی۔
بعدازاں شرکانےذمہ داران
کےہمراہ اپنےنیک اعمال کاجائزہ لیتےہوئے72نیک اعمال کارسالہ پُرکیا۔ (رپورٹ:محمد حسین عطاری،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
.jpg)
خوف خدا سے رونے کی برکت:جس شخص کی آنکھوں میں خوف خدا کے سبب آنسو جاری ہو
جائیں اور اس کے قطرے زمین پر گریں تو جہنم کی آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔(ارشاد حضرت کعب
الاحبار رحمۃُ
اللہِ علیہ)حضرت علی بن بکار بصری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث اور زہد و تقویٰ سے متصف بزرگ تھے، آپ کے دل پر خوفِ خدا کا اتنا غلبہ تھا کہ دن
رات روتے رہتے، حتٰی کہ آنکھوں کی بینائی
جاتی رہی۔خوف خدا میں رونے کے فضائل:امیر اہلسنت دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ کی مایہ
ناز تصنیف نیکی دعوت سے رونے کے چند فضائل پیشِ خدمت ہیں:1۔فرمانِ مصطفی ہے:وہ شخص
جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک
کے ڈر سے رویا۔2۔حضرت عبداللہ
بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا
میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔3۔فرمانِ مصطفی ہے:جس مؤمن کی
آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک
اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔4۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی
اللہُ عنہُ فرماتے ہیں:جب
تم میں سے کسی کو خوفِ خدا سے رونا آئے تو وہ آنسو کو کپڑے سے صاف نہ کرے، بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت
میں ربِّ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔5۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر ہوتے
کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی
دیتی۔6۔حضرت یحییٰ علیہ
السلام نے اپنے والد
گرامی کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے، جسے وہی طے کرسکتا ہے، جو بہت رونے والا ہے۔
جی چاہتا ہے
پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے اللہ!
مگر دل سے قساوت نہیں جاتی
اللہ پاک ہمیں اپنے خوف میں رونا نصیب فرمائے۔آمین
.jpg)
حضرت علامہ ابواللیث رحمۃُ اللہِ
علیہ کہتے ہیں:
ساتویں آسمان پر اللہ کے ایسے فرشتے ہیں کہ انہیں اللہ پاک نے جب سے پیدا کیا
ہے، برابر سجدے میں ہیں اور اللہ پاک
کے عذاب سے انتہائی خوفزدہ ہیں، قیامت کے
دن جب وہ سجدہ سے سر اٹھائیں گے تو کہیں
گے: سُبْحٰنَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ
عِبَادَتِکَ۔اے اللہ تو
پاک ہے، ہم تیری کماحقہٗ عبادت نہیں کرسکے۔فرمانِ الٰہی ہے:یَخَافُوْنَ
رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۔ترجمہ کنزالایمان:اپنے اوپر اپنے ربّ کا خوف کرتے ہیں اور
وہی کرتے ہیں، جو انہیں حکم ہو۔(پ 14، :50)وہ فرشتے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا ہے، وہی کرتے ہیں اور ایک لمحہ بھی میری نافرمانی
میں نہیں گزارتے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جب کوئی بندہ خوفِ الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے ایسے
جھڑجاتے ہیں، جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے
پتے جھڑ جاتے ہیں۔(شعب
الایمان،1/491، حدیث: 803 بتغیر)حکایت: ایک نوجوان عورت کی محبت میں مبتلا ہوگیا، وہ رات کے قافلے کے ساتھ باہر کے سفر پر روانہ
ہو گئی، جو ان کو جب معلوم ہوا تو وہ بھی
قافلے کے ساتھ چل پڑا، جب قافلہ جنگل میں
پہنچا تو رات ہو گئی، رات کو انہوں نے
وہیں پڑاؤ کیا، جب سب لوگ سو گئے تو وہ
نوجوان چپکے سے اس عورت کے پاس پہنچا اور کہنے لگا :میں تجھ سے بے انتہا محبت کرتا
ہوں اور اسی لئے میں قافلے کے ساتھ ساتھ آ رہا ہوں، عورت بولی:جا کر دیکھو کوئی جاگ تو نہیں رہا
؟جوان نے فرطِ مسرت سے سارے قافلے کا چکر لگایا اور واپس آکر کہنے لگا : سب لوگ
غافل پڑے سو رہے ہیں، عورت نے پوچھا:اللہ پاک
کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ وہ بھی سو رہا ہے؟جوان بولا:اللہ پاک
تو نہ کبھی سوتا ہے، نہ ہی اسے کبھی
اُونگھ آتی ہے، تب عورت بولی: لوگ سو گئے
تو کیا ہوا، اللہ پاک تو جاگ رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے، اس سے ڈرنا ہم پر فرض ہے، جوان نے جونہی یہ بات سُنی، خوف خدا سے لرز گیا اور بُرے ارادے سے تائب ہو
کر گھر واپس چلا گیا، کہتے ہیں کہ جب وہ
نوجوان مرا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: سناؤ کیا گزری؟جوان نے جواب
دیا: میں نے اللہ پاک کے خوف سے ایک گناہ کو چھوڑا تھا، اللہ پاک نے اس کی سبب سے میرے تمام گناہوں کو
بخش دیا۔حضرت عمر رضی اللہُ عنہ جب قرآن مجید کی کوئی آیت سنتے تو خوف سے بے ہوش ہو
جاتے، ایک دن ایک تنکا ہاتھ میں لے کر
کہا: کاش! میں تنکا ہوتا، کوئی قابلِ ذکر
چیز نہ ہوتا، کاش! مجھے میری ماں نہ جنتی
اور خوفِ خدا سے آپ اتنا رویا کرتے تھے کہ آپ کے چہرے پر آنسو ؤں کے بہنے کی وجہ
سے دو سیاہ نشان پڑ گئے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو شخص خوف خدا سے روتا ہے، وہ
جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا، اسی طرح
جیسے کہ دودھ دوبارہ اپنے تھنوں میں نہیں جاتا۔(ترمذی،3/236، حدیث: 1639)حدیث: شریف میں ہے:کوئی ایسا بندہ مؤمن نہیں، جس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر آنسو بہے
اور اس کی گرمی اس کے چہرے پر پہنچے اور اسے کبھی جہنم کی آگ چھوئے۔حضرت محمد بن
المنذر رحمۃُ اللہِ علیہ جب خوف خدا سے روتے تو اپنی داڑھی اور چہرے پر آنسو ملا
کرتے اور کہتے: میں نے سنا ہے کہ وجود کے جس حصّے پر آنسو لگ جائیں گے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
دقائق
الاخبار میں ہے: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا
پلڑا بھاری ہو جائے گا، چنانچہ اسے جہنم
میں ڈالنے کا حکم ملے گا، اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض
کرے گا : اے ربّ کریم! تیرے رسول صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا تھا: جو اللہ پاک کے خوف سے روتا
ہے، اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ
حرام کر دیتا ہے اور میں تیرے خوف سے رویا تھا، اللہ پاک کا دریائے رحمت جوش
میں آئے گا اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچا لیا جائے گا، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ
السلام پکاریں گے، فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا۔
.jpg)
انسان کے دنیا
میں آنے کا مقصد اللہ پاک کی عبادت ہے اور اللہ پاک کی عبادت سے غفلت وہی کرے گا جیسے اللہ پاک
کا خوف نہ ہو ۔ خوف بہت بڑی نعمت ہے ۔کہ انسان اس کے ذریعے اپنے مقصد حیات کو پانے
میں کامیاب ہتا ہے وہی گناہوں سے بچنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ۔ مثلا جب کسی کا
بچہ گم ہوجائے تو اس کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ایسے ہی جب کسی ماں کا بیٹا فوت
ہوجاتا ہے ۔ تو اس ماں کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ تو حزن کھانا چھڑوادیتا ہے ۔
ایسے ہی اللہ
پاک کاخوف گناہ چھڑوا دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : اے ایمان والوں اللہ سے
ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تو بندہ جب اس حکم پر عمل کرتا ہے ۔ اپنے دل میں
خوف خدا پیدا کرتا ہے تو خود بخود گناہوں سے بچتا چلا جاتا ہے ۔ اور جو اس کےحضور
کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے ۔اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔ سورۂ رحمن ۔ اور اس کے برخلاف جو خوف خدا سے بے خوف ہو تو وہ اپنی زندگی
بے کار فصول کاموں میں لگا دیتا ہے ۔ اپنی دنیا بھی اور آخرت بھی برباد کرتا ہے ۔
تو جب تک خوف خدا نہی ہوگا تو نیکیوں پر چلنا مشکل ہے ۔ امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: عبادت کے راستے پر چلنا اس وقت تک
ممکن نہی جب تک تم اپنے اندر خوف خدا اور امید رحمت کی صفات پیدا نہ کرلو ۔ امام
غزالی رحمۃ
اللہ علیہ نے مزید فرمایا:نفس امارہ برائی کا دلدادہ ہے ۔
یہ اس وقت تک گناہوں سے باز نہی آسکتا جب تک زبردست خوف خدا حاصل نہ ہوجائے۔ (منھاج العابیدین)خوف خدا
ہی وہ صفت ہے جس سے نیکیاں کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ خوف خدا میں
رونا بڑی سعادت ہے ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک نے فرمایا: ان لوگوں کو جہنم سے نکال
دو جو ایک دفعہ مجھ سے ڈرے ہیں ۔ ترمذی شریف ص
2594خوف خدا میں رونے والا ہر گز جہنم میں نہی جائے گایہاں تک
کہ دودھ تھن میں واپس چلاجائے۔ ترمذی ،فصائل
الجھاد،ص 415 حدیث: 1633مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے تھن سے نکلا دودھ تھن میں واپس نہی جاتا ایسے ہی خوف خدا سے
رونے والے کاجہنم میں جانا ممکن نہی ۔خوف
خدا میں رونا انبیاء کی سنت اور نیک لوگوں کی علامات ہے ۔ حضرت یحٰی علیہ
السلام ۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی
کے ڈھیلے ساتھ روتے ۔ آپ اللہ پاک کے خوف سے مسلسل روتے یہاں تک کہ رخسار پر
زخم ہوگئے۔ نیکی کی دعوت ص 274 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رونے کی گڑگڑاھٹ 1 میل کے فاصلے سے سنائی دیتی ۔تو جب انبیاء کرام کے خوف
خدا کا یہ عالم ہے تو ہمیں کس قدر اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے ۔ البتہ جہاں اللہ پاک کاخوف بندہ کی آخرت
سنوارتا ہے وہی اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے کہ اللہ پاک کا خوف رکھنے والا
حرام سے بچتا ہے ۔ اللہ پاک کاخوف رکھنے والا سود سے بچتا اور دین کے احکام کو سینے سے
لگاتا ہے ۔ تو خوف خدا میں رونے کی عادت پیدا کیجیے ۔ اور رب کی رضا حاصل کر کے
آخرت کو بہتر بنانے کی کوشش کیجیے ۔خوفِ خدا کہتے کسے ہیں؟امِیراہلسنّت دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کی خفیہ تدبیراس کی طرف سے دیئے
جانے والے عذابوں اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ
رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔کفریہ کلمات کے
بارے میں سوال جواب، ص26قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ
کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمادی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے
اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ پارہ5سورۂ نِساء آیت نمبر131۔سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت
سنائی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے
ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہے۔خوفِ خدا، ص26سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہے:ایک رات رسولصلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور
فرمانے لگے: مجھے رخصت دوکہ میں رب کریم کی عبادت کرلوں ۔تو میں نے عرض کی: مجھے
آپ کا رب کریم سے قریب ہونا اپنی خواہش سے زیادہ عزیز ہے۔تو آپصلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر کے ایک کونے میں کھڑے
ہوگئے اور رونے لگے ،پھر وضو کرکے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو دوبارہ رونا شروع
کردیا یہاں تک کے آپ چشمان مبارک سے نکلنے والے آنسو زمین تک جاپہنچے۔اتنے میں
حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے تو آپ کو روتے دیکھ کر عرض کی :یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میری جان آپ پر قربان! آپ
کیوں رورہے ہیں حالانکہ آپ کے سبب تو اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں؟ تو ارشاد
فرمایا:کیا میں شکر کزار بندا نہ بنوں؟(پھر
فرمایا:) اے بلال!جہنم کی آگ کو آنکھ کے آنسو ہی بجھا سکتے ہیں۔ خوفِ خدا،ص424344قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا
جائےگا۔اُسے اُس کا اعمال نامہ دیاجائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔پھر عرض
کرے گا:یا اِلٰہی!میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں؟اللہ پاک ارشاد فرمائےگا:میرے
پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔پھر اللہ پاک کے حکم سے اس کے اعضا گواہی دیں گے ۔ہاں!ہم(حرام کی طرف)بڑھے تھے۔وہ بندہ
یہ سُن کر حیران رہ جائےگا۔پھر جب اللہ پاک اس کے لئے جہنم میں جانے کا حکم
فرمادے گا۔تواس شخص کی سیدھی آنکھ کا ایک بال ربّ کریم سے کچھ عرض کرنے کی اجازت
طلب کرےگا اور اجازت ملنے پر عرض کرےگا:یااِلٰہی!کیا تونے نہیں فرمایاتھا کہ میرا
جوبندہ اپنی آنکھ کے کسی بال کو میرے خوف میں بہائے جانے والے آنسوؤں میں ترکرے گا
میں اس کی بخشش فرمادوں گا؟ اللہ پاک اِرشاد فرمائے گا! کیوں نہیں!تو وہ بال عرض
کرےگا:میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گنہگار بندہ تیرے خوف سے رویا تھاجس سے میں
بھیگ گیا تھا۔یہ سُن کر اللہ پاک اس بندے کو جنّت میں جانے کا حکم فرمادےگا۔خوفِ خدا،ص142دو احادیثِ طیبہ: (1) قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوگی
مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوفِ خدا سے روئی ہوگی۔(2)
اے لوگو!رویا کرو اور اگر نہ ہو سکے تو رونے کی کوشش کیا کرو کیونکہ جہنّم میں
جہنمی روئیں گےیہاں تک کہ اُن کے آنسو ان کے چہروں پر ایسے بہیں گے گویا وہ نالیاں
ہیں جب آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنے لگے گا اور آنکھیں زخمی ہوجائیں گی۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص1011حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے
نزدیک ایک ہزار دِینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔حضرت کعب الاحبار رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اُس ذات کی قسم! جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان
ہے۔ اگر میں اللہ پاک کے خوف سے روؤں حتٰی کہ میرے آنسو میرے رخساروں پر جاری ہوں
تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں سونے کا ایک پہاڑ صدقہ کروں۔ خوفِ خدا میں رونے کی اہمیت،ص11
.jpg)
خوفِ خدا کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں
کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(ماخوز من احیاء العلوم،ج40)آیت مبارکہ:وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ
تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ۔ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف
اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان
گئے،کہتے ہیں اے ربّ ہمارے،ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔(پ7،المائدہ:83)حدیث: مبارکہ: حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے:آخری
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں خوفِ
خدا سے بہنا شروع کر دیں،یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پر جا گریں تو اس کو بروزِ قیامت
عذاب نہیں دیا جائے گا۔حدیث: مبارکہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے:تمام
نبیوں کے سرور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کے خوف سے روئے گا وہ جہنم میں داخل
نہیں ہوگا،یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے اور راہِ خدا کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہ ہوں گے۔حدیث:
مبارکہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!نجات کیا
ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطاؤں پر رؤ و۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابنِ مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:سرکار
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک
کے خوف سے آنسو بہہ جائیں، اگرچہ مکھی کے سر
کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کی رخسار پر
پہنچ جائے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام فرما دے گا۔حدیث: مبارکہ:حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے :سیّد
المبلغین، رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین
آنکھوں کے علاوہ بروزِ قیامت ہر آنکھ رو رہی ہوگی:1۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی
حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہے۔2۔وہ آنکھ جو اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے۔ 3۔وہ
آنکھ جس سے خوفِ خدا کے سبب مکھی کے سَر کے برابر آنسو نکل آئے۔(جنت میں لے جانے والے اعمال)خوفِ خدا میں رونے پر صحابی کا قولِ مبارک:حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کا وقتِ وفات قریب آیا تو کسی نے عرض کی:مجھے کچھ وصیت
ارشاد فرمائیے۔ارشاد فرمایا:میں تمہیں اللہ پاک سے ڈر نے، اپنے گھر کو لازم پکڑنے،اپنی
زبان کی حفاظت کرنے اور اپنی خطاؤں پر رونے کی وصیت کرتا ہوں۔
یا ربّ میں تیرے
خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی
شہنشاہِ مدینہ کی بنا دے
انبیائے کرام علیہم
السلام کے خوفِ خدا سے رونے کے واقعات:حضرت ابو درداء رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر گریہ
و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گرگڑاہٹ کی آواز
سنائی دیتی۔حضرت داؤد علیہ السلام کا خوفِ خدا :ایک دن حضرت داؤد علیہ
السلام لوگوں کو نصیحت
کرنے اور ان میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان
میں اس وقت چالیس ہزار لوگ موجود تھے، جن پر آپ کے پُراثر بیان کی وجہ سے ایسی رقّت
طاری ہوئی کہ تیس ہزار لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت عمر
کا خوفِ خدا سے رونا:حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے پیچھے نماز
پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔ایک حبشی کا خوف ِخدا
:ایک حبشی نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی
بارگاہ میں عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم!میرے
گناہ بے شمار ہیں، کیا میری توبہ بارگاہِ الہٰی میں قبول ہوسکتی ہے؟آپ نے ارشاد
فرمایا:کیوں نہیں،اس نے عرض کی:کیا وہ مجھے گناہ کرتے ہوئے دیکھتا بھی رہا ہے؟ارشاد
فرمایا:ہاں!وہ سب کچھ دیکھتا رہا ہے! یہ سُن کر حبشی نے چیخ ماری اور زمین پر گرتے
ہی جاں بحق ہوگیا۔پیاری اسلامی بہنو!ہم نےخوفِ خدا میں رونے کے فضائل ، واقعات و
فرامین پڑھے، اب ہم کچھ دیر غور کریں اوراپنا جائزہ لیں کہ ہمارے اندر کتنا خوفِ
خدا ہے ؟ ہم خوفِ خدا میں کتنا روتی ہیں؟ اب تک ہم اپنی زندگی کی کتنی سانسیں غفلت میں گزار چکی؟ حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! نجات کیا
ہے؟ ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے(یعنی بلاضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔(شعب الایمان، ، ج1،ص492،
حدیث:805)
.jpg)
خوف خدا میں رونا بھی بڑی نعمت ہے، ۔خوفِ خدا کسے کہتے ہیں؟یہ عظیم نعمت ہوتی
کیا ہے؟ امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی
حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ اپنی
مایہ ناز تالیف کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب صفحہ26 پر فرماتے ہیں:اللہ پاک
کی خفیہ تدبیر، اس کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت (پکڑ) اس کی طرف سے دئیے جانے والے عذابوں، اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے
خوفزدہ رہنے کا نام ہے خوفِ خدا ہے، خوفِ خدا میں رونے کے فضائل :ایک ہزار دینار
صدقہ کرنے سے زیادہ پسند:حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہُ عنہمافرماتے ہیں:اللہ
پاک کے خوف سے ایک
آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(شعب الایمان، ص502/1) دو جنتوں
کی بشارت: سورۂ رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی
گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ
لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے
ڈرے ،اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن: 46)جہنم سے
رہائی: سرورِعالم، شفیعِ معظم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک
پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔( شعب الایمان، باب الخوف من اللہ پاک، جلد 1، صفحہ 490، حدیث: 802)جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح
جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے
ہیں۔(خوف خدا، شعب الایمان، باب الخوف من اللہ ، جلد 1، صفحہ 491، حدیث: 803)بھلائی کی طرف راہ نمائی:حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی
طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔سبز موتیوں کا محل:حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے: اللہ پاک نے سبز موتی کا ایک محل پیدا فرمایا
ہے، جس میں ستر ہزار گھر ہیں اور ہر گھر
میں ستر ہزار کمرے ہیں، اس میں وہ داخل
ہوگا، جس کے سامنے حرام پیش کیا جائے اور
وہ محض اللہ
پاک کے خوف سے چھوڑ دے۔( خوف خدا، احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 199)کامل عقل
والا:مدنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے بڑھ کر کامل عقل والا وہ
ہے، جو ربِّ کریم سے زیادہ ڈرنے والا ہے
اور جو تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اللہ پاک
کے اَوامر و نواہی یعنی احکام میں زیادہ غور کرتا ہے۔( خوف خدا، احیاء
العلوم، جلد 4، صفحہ 199) جنت میں داخلہ:حضرت یحی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہ کمزور انسان اگر جہنم سے اسی طرح ڈرے، جس طرح محتاجی سے ڈرتا ہے تو جنت میں داخل ہو۔( خوف خدا، احیاء
العلوم، جلد 4، صفحہ 199)اللہ
پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں حقیقی معنوں میں خوفِ خدا میں رونے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین
.jpg)
خوف خدا میں رونے کے بہت سے فضائل کتابوں میں ملتے ہیں۔خوفِ خدا کسے کہتے
ہیں؟خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے آنے والی سزاؤں کا
سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔فطری طور پر انسان ہر اس چیز سے کی
طرف مائل ہوتا ہے، جس سے اسے فائدہ نظر آئے، اسی تقاضے کے پیشِ نظر ہمیں چاہئے کہ فضائلِ
خوفِ خدا قرآن کریم سے مطالعہ کریں، تاکہ
رونے کی اہمیت ہم پر واضح ہو جائے، سورۂ
رحمٰن میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی، اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے
ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ سورۃ البقرہ میں آیا ہے:اِنَّ
اللہ مَعَ المُتَّقِیْن۔اللہ
ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے اللہ پاک کا پسندیدہ بندہ بننے
کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری ہے:اِنَّ
اللہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْن۔بے شک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔حدیث: مبارکہ میں بھی خوفِ خدا کے
متعلق بہت سے فضائل وارد ہوتے ہیں، جیسا
کہ منقول ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔اس کے علاوہ اُمُّ
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کی روایت میں ہے، فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا آپ
کی اُمّت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟ تو فرمایا:ہاں، وہ جواپنے
گناہوں کو یاد کر کے روئے۔شعب الایمان کی روایت کا جز ہے: آقا علیہ
السلام نے ارشاد
فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک
کے ڈر سے روئے۔ کعب احبار رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: خوفِ
خدا سے آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے مطابق سونا
صدقہ کروں، اس لئے جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسو کا ایک قطرہ
بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے
گی۔
میرے اشک بہتے
رہیں کاش ہر دم تیرے
خوف سے یا خدا یا الٰہی
ایک حکایت میں ہے: حضرت فتح موصلی رحمۃ
اللہ علیہ جو نہایت متقی و پرہیزگار تھے، ایک دن رات کو مصلے پر بیٹھے خوفِ خدا کے سبب
آنسو بہا رہے تھے کہ آپ نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا رکھا اور آپ کی اُنگلیاں سرخ
آنسو سے تَر ہیں، ایک شاگرد حاضر
ہوا، اس نے عرض کی: میں آپ کو ربّ کا
واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ بتائیں،آپ کب سے خون کے آنسو رو رہے ہیں؟ تو انہوں نے
فرمایا:اگر تو ربّ کا واسطہ نہ دیتا تو میں نہ بتاتا اور فرمایا:میں 60 سال سے
خوفِ خدا سے خون کے آنسو سے رو رہا ہوں۔مرنے کے بعد ان کو کسی نے خواب میں دیکھ کر
پوچھا تو فرمایا:اللہ پاک نے اپنی شان کے لائق مجھ سے سلوک فرمایا ہے۔(حکایات الصالحین)
.jpg)
خوف خدا کا مطلب اللہ پاک کی ناراضی سے ڈرنا اور گناہوں پر ملنے والی
سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل خوفِ خدا سے گھبرا جائے ، ہمارے پیارے آ قا صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:خوفِ خدا سے رونے والا
ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا حتی
کہ دودھ (جانور کے )تھن
میں واپس آجائے ۔خوفِ خدا
میں رونا سنت ہے، خوفِ خدا میں رونے کے بے
شمار فضائل ہیں:1۔خوفِ خدا میں رونے سے گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن
ملتا ہے۔ 2۔خوف ِخدا سے دل کی سیاہی دور ہوتی ہے اور دل کی سختی دور ہوتی ہے۔
3۔انسان کو دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور آ خرت میں بھی۔ 4۔خوفِ خدا سے اللہ پاک
اور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ
وَسَلَّم کی محبت دل میں
اور مضبوطی پکڑ لیتی ہے۔
تیرے خوف سے
تیرے ڈر سے ہمیشہ میں
تھر تھر رہوں کانپتی یا الٰہی
خوفِ خدا
سے جہنم کا عذاب ہٹا دیا جائے گا، بندہ
اپنے ربّ کریم کے اور بھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ آج ہم خوفِ خدا میں رونا تو دور
کی بات ہے، گناہوں کی ایسی لَت میں مبتلا
ہیں کہ ان پر شرمسار بھی نہیں ہوتے اور گناہوں پر گناہ ہر روز کا معمول بن چکا ہے،
آ ج کے اس پرفتن دور میں بھی ایک ہستی ایسی ہے، جس نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر خوفِ خدا میں رونے والا بنادیا، وہ ہستی
ہے امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامَتْ
بَرَکاتُہمُ العالِیَہ ۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت
فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الآمین صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
.jpg)
مطلقاً خوف سے
مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ
امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے
زخمی ہوجانے کا ڈر/خوف خدا میں بہنے والا آنسو، بلا شبہ خوف خدا ہماری اُخروی نجات
کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ عبادات کی بجا آوری اور منہیات سے باز رہنے
کا عظیم ذریعہ خوف خدا ہے، اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مختصر
سی زندگی کے ایام گزرنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوکر
تمام اعمال کا حساب دینا ہے، لہٰذا اس دنیاوی زندگی کی رونقوں،مسرتوں میں کھو کر
حسابِ آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجانا یقیناً نادانی ہے۔یاد رکھئے! ہماری
نجات اسی میں ہے کہ ہم ربّ کائنات اور اس کے پیارے حبیب صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے
اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں، اس
مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوف خدا کا ہونا بھی بے حد ضروری
ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔ربّ العالمین نے خود
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خوف خدا کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،
چند آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تمہیں
ایک جان سے پیدا کیا ہے۔(پ 4، النساء:1)2۔ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔)پ3،ال عمران:(28خوف خدا میں رونے کے فضائل کے بارے چند فرآمین مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ فرمائیے:1۔حضرت انس رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک
کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے
گا۔(کنزالعمال، ج3، ص63، حدیث: 5909)2۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند
نہیں جو آنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا
ہے۔ (احیاء العلوم،ج4، ص 200)خوف خدا میں رونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے، اللہ پاک کو وہ آنسو بہت پسند
ہے، جو اس کی یاد میں بہا ہو، ہمارے بزرگانِ دین پر خوف خدا کا ایسا غلبہ طاری
ہوتا تھا کہ ساری ساری رات عبادت میں گزر جاتی اور اللہ کی یاد میں آنسو
بہتے۔غوثِ اعظم رضی اللہُ عنہ کا خوفِ خدا:حضرت شیخ سعدی شیرازی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مسجد الحرام میں کچھ لوگ کعبۃ اللہ شریف
کے قریب عبادت میں مصروف تھے، اچانک انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دیوارِ کعبہ سے
لپٹ کر زارو قطار رو رہا ہے اور اس کے لبوں پر جاری ہے:اے اللہ پاک! اگر میرے
اعمال تیری بارگاہ کے لائق نہیں ہیں تو بروزِ قیامت مجھے اندھا اٹھانا، لوگوں کو
یہ عجیب و غریب دعا سن کر بڑا تعجب ہوا، چنانچہ انہوں نے دعا مانگنے والے سے
استفسار کیا:اے شیخ! ہم تو قیامت میں عافیت کے طلب گار ہیں اور آپ اندھا اٹھائے
جانے کی دعا فرما رہے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ اس شخص نے روتے ہوئے جواب دیا:میرا
مطلب یہ ہے کہ اگر میرے اعمال اللہ پاک کی بارگاہ کے لائق نہیں تو میں قیامت کے دن
اس لئے اندھا اٹھایا جانا پسند کرتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا
پڑے۔وہ سب لوگ اس عارفانہ جواب کو سن کر بے حد متاثر ہوئے، لیکن اپنے مخاطب کو پہچانتے نہ تھے، اس لئے
پوچھا:اے شیخ آپ کون ہیں؟اس نے جواب دیا:میں عبدالقادر جیلانی ہوں۔(فیضان سنت بحوالہ گلستان سعدی، 733) اللہ پاک ہمیں اپنی یاد میں رونا اور آنسو بہانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
آہ!کثرتِ عصیاں،
ہائے خوف دوزخ کا کاش! اس
جہان کا میں نہ بشر بنا ہوتا
.jpg)
قرب الٰہی کا
ذریعہ:تقویٰ و خوف ِالٰہی کی خوبی انسان کو اللہ پاک کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہےجیسا کہ سورۂ
الِ عمران میں اللہ پاک فرماتا ہے: اے ایمان والو!اللہ پاک سے ڈروجیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور
ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔اور سورۂ نسا ء میں فرمایا : ہم تم میں سے پہلےاہل کتاب کو بھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کرتے ہیں
کہ اللہ
پاک سے ڈرو ،ایک اور مقام پر فرمایا :اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بصیرت
عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ پاک
بڑا فضل والا ہے (مفہوم قرآن )۔ان کے علاوہ اللہ پاک نے
اور بھی بہت سی آیتوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف ِالٰہی میں رونے کی تاکید فرمائی
ہے۔رونے والی آنکھ آگ سے محفوظ ہے:حدیث: شریف : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے میرے آقائے کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :دو
آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی (1)وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی (2) وہ آنکھ جس نےاللہ پاک
کی راہ میں پہرہ داری کرکے رات گزاری (ترمذی ج4ص/92) بلا شبہ خوف خدا وہ نیک اور مقبول عمل ہے کہ جس دل میں پیدا
ہوجاتا ہے وہ دل نیکی اور تقویٰ کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کے گناہ و
برائی سے دور اور محفوظ نظر آنے لگتا ہے، اور یہ خوف خدا کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جسم
کے تمام اعضا یعنی آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ ،پیر اور دل و دماغ سب کے سب نیک اور اچھے
کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں۔یہ خوف خدا کی برکات و حسنات ہوتی ہیں کہ آنکھ برائی
نہیں خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے ،دل و دماغ برا اور خراب نہیں بلکہ بھلا اور اچھا
سوچتے دیکھائی دیتے ہیں ،ہاتھ اور پیر گنا ہ و ظلم کے راستے پر چلنے کے بجائے نیک
اور حق و سچ کے راستے پر چلتے نظر آتے ہیں ،حاصل کلام یہ ہے کہ جب آدمی اپنے دل میں
خوف خدا پیدا کرلیتا ہے اور اللہ پاک سے ڈرنے لگتا ہے تو ہر قسم کے گناہ اور برائی
سے محفوظ ہو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں محبوب و مقبول بن جاتا ہے۔خوف خدا کا انعام و
اکرام بڑا عظیم ہوتا ہے، ہر نیک کام کا بڑا بہتر اجر اور بدلہ ہے دنیا میں خیرو
برکت، آخرت میں عزت و عظمت اور نجات و بخشش اور پھر جنت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔شہنشاہِ
مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ،فیض گنجینہصَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مغفرت
نشان ہے:اللہ
پاک کو کوئی شئے دو قطروں سے زیادہ پسندنہیں: (1) خوف ِالٰہی پاک سے بہنے
والا آنسوؤں کا قطرہ اور (2) اللہ پاک کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ۔(جامع الترمذی،حدیث: 1669،ص1823)حضور نبی کریم، ر ء ُوف رحیم صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ دعا فرمایا
کرتے : اے اللہ پاک!مجھے رونے والی آنکھیں عطا فرما جو تیرے خوف سے آنسو بہاتی
رہیں اس سے پہلے کہ خون کے آنسو رونا پڑے اور داڑھیں پتھرہوجائیں۔ (الزھد للامام احمد بن حنبل،حدیث:48،ص34)
رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام
نہیں ذکرِ محبت عام ہے
لیکن سوزِ محبت عام نہیں
.jpg)
دعوتِ
اسلامی کےتحت8دسمبر2021ءبروزبدھ
مدنی مرکزفیضانِ مدینہ فیصل آبادمیں جامعۃالمدینہ(بوائزوگرلز)،
مدرسۃ المدینہ (بوائزوگرلز) اور فیضان مدینہ رینوویشن کےذمہ داران کامدنی مشورہ منعقدہوا۔
اس موقع پرمرکزی مجلسِ شوریٰ کےرکن ونگرانِ
پاکستان مشاورت حاجی محمدشاہدعطاری نےذمہ داراسلامی بھائیوں کی دینی،اخلاقی
اورتنظیمی اعتبارسےتربیت فرمائی۔
اس دوران رکنِ شوریٰ حاجی محمد اسدعطاری مدنی
نےبھی اسلامی بھائیوں کی رہنمائی کرتےہوئےشعبوں کےدینی کاموں کا جائزہ لیا۔
نگرانِ پاکستان نےجامعۃالمدینہ،مدرسۃالمدینہ
اورمدنی مراکزفیضانِ مدینہ کی تعمیرات کےحوالےسےمدنی پھولوں سےنوازا۔