گزشتہ دنوں اسپیشل پرسنزڈیپارٹمنٹ کےتحت اسپیشل ایجوکیشن ملتان ریجن کے ذمہ دار   محمد آصف عطاری نےدیگر ذمہ داران کےہمراہ APS اسپیشل ایجوکیشن اسکول و کالج ملتان کینٹ کا دورہ کیاجہاں انہوں نے پرنسپل و اسٹاف سےملاقات کی۔

اس دوران ذمہ دارن نےپرنسپل سمیت اسٹاف کےہمراہ ایک میٹنگ کی جس میں انہیں اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوت اسلامی کے دینی کاموں کا تعارف پیش کیا۔

بعدازاں ذمہ داراسلامی بھائیوں نےانہیں مکتبۃالمدینہ کے رسائل تحفے میں دیئےجس پرنسپل وا سٹاف نےاظہارِمسرت کرتےہوئے دعوت اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


روزے اور اعتکاف  کے اہم مسائل پر مشتمل ایک بہترین رسالہ

فَتَاویٰ اہْلسُنَّت

احکام روزہ و اعتکاف

از: مفتی فضیل رضا قادری عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی

پیشکش : مَجْلِس اِفتاء ، دعوتِ اسلامی

اِس رسالے کی چندخصوصیات:

٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے ’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو، عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کےلئے پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔

36 صفحات پر مشتمل یہ رسالہ2016 ء میں تقریباً50 ہزارکی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔

اس رسالے کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now


دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےحکیم کےتحت 8دسمبر2021ءبروزبدھ پاکستان مشاورت اور ریجن ذمہ دارنےدیگرذمہ داراسلامی بھائیوں کےہمراہ ہمدردیونیورسٹی کادورہ کیاجہاں انہوں نے نیشنل کونسل ممبر  سےملاقات کی۔

اس کےعلاوہ ذمہ داران نے نیشنل کونسل طیب کے ممبر سے میٹنگ کی جس میں انہیں دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پرہونےوالی دینی وفلاحی سرگرمیوں کےبارےمیں بتایا۔

مزید حکیم سراج چانڈو اوررکن ایسٹ زون حکیم ندیم عطاری کےمطب پراُن سے ملاقات کاسلسلہ رہا،اس دوران نگران شعبہ رابطہ برائے حکیم حسان عطاری اور ریجن و شعبہ کارکردگی ذمہ داران بھی موجود تھے۔(رپورٹ: محمد اشیتاق عطاری زون ذمہ دار سینٹر ساؤتھ زون،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

خوف خدا  میں رونا گناہوں کی آگ کو بجھاتا ہے، دلوں کی کھیتی کو زندہ کرتا اور مطلوب تک پہنچاتا ہے، اللہ پاک نے کسی آسمانی کتاب میں ارشاد فرمایا:میرے عزت و جلال کی قسم!جو بندہ میرے خوف سے روئے گا، میں اس کے بدلے نور سے اُسے خوشی عطا کروں گا، میرے خوف سے رونے والوں کو بشارت ہو کہ جب رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے انہی پر نازل ہوتی ہے اور میرے گناہ گار بندوں سے کہہ دو کہ وہ میرے خوف سے رونے والوں کی محفل اختیار کریں، تاکہ جب رونے والوں پر رحمت نازل ہو تو ان کو بھی رحمت پہنچے۔حدیث: مبارکہ میں ہے:حضرت نضر بن سعد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کی آنکھ سے خشیتِ الٰہی پاک سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ پاک اس کے چہرے کو جہنم پر حرام فرما دیتا ہے، اگر اس کے رخسار پر بہہ جائے تو قیامت کے دن نہ وہ ذلیل ہوگا۔ اگر کوئی غمگین شخص اللہ پاک کے خوف سے کچھ لوگوں میں روئے تو اللہ پاک اس کے رونے کے سبب ان لوگوں پر بھی رحم فرماتا ہے، آنسو کے علاوہ ہر عمل کا وزن کیا جائے گا اور آنسو کا ایک قطرہ آگ کے سمندر کو بجھا دیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر خوف خدا کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ گریں تو اللہ پاک اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔ حضرت احمد بن ابی حواری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:میں نے اپنی لونڈی کو خواب میں دیکھا کہ اس سے زیادہ حسین کوئی عورت نہ دیکھی، اس کا چہرہ حسن و جمال سے دمک رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا:تیرا چہرہ اتنا روشن کیوں ہے؟تو وہ کہنے لگی:آپ کو وہ رات یاد ہے، جب آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اللہ پاک کے خوف سے روئے تھے؟میں نے کہا:جی، اس نے کہا:آپ کے آنسو کا ایک قطرہ میں نے اٹھا کر اپنے چہرے پر مل لیا تو چہرہ ایسا ہو گیا، جیسا آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔قیامت کے دن تمام اعضاء گواہی دیں گے اور اعضاء گواہی دیں گے، مولا! اس نے حرام کام کئے تھے اور اس کے لئے جہنم کا حکم دے دیا جائے گا، جب اس کے لئے جہنم کا حکم دیا جائے گا تو اس شخص کی سیدھی آنکھ کا بال ربّ کریم سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کرے گا، اجازت ملنے پر سیدھی آنکھ کا ایک بال عرض کرے گا:الٰہی! کیا تو نے نہیں فرمایا تھا کہ میرا جو بندہ اپنی آنکھ سے کسی بال کو میرا خوف سے بہائے جانے والے آنسوؤں سے تر کرے گا، میں اس کی بخشش فرما دوں گا؟ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا:کیوں نہیں، تو وہ بال عرض کرے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گنہگار بندہ تیرے خوف سے رویا تھا، جس سے میں بھیگ گیا تھا، یہ سن کر اللہ پاک اس بندے کو جنت میں جانے کا حکم فرما دے گا۔ایک منادی پکار کر کہے گا:سنو! فلاں بن فلاں اپنی آنکھ کے ایک بال کی وجہ سے جہنم سے نجات پا گیا۔(کتاب الرقۃ والبکاء، ابن ماجہ، طبرانی، خوف خدا)

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں


خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر۔جب کہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء علوم الدین، باب بیان حقیقۃ الخوف4/190 ماخوذا، خوف خدا، صفحہ14)ربّ العالمین نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، جسے درج ذیل آیات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕوَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمائی ہے ہم نے ان سے، جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔(پ 5، النساء:131) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(پ22،الاحزاب:70)فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۔ترجمۂ کنزالایمان:تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔(پ6،المائدہ:3) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو!اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔(پ4، النساء:1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا،مگر مسلمان۔(پ4،ال عمران:102) وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4، ال عمران:175)وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۔ترجمہ کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔(پ1، البقرہ:40)وَ یُحَذِّرُكُمُ اللہ نَفْسَهٗؕ۔ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔(پ3، ال عمران:28)وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللہ۔ترجمہ کنزالایمان:اور ڈرو اس دن سے، جس میں اللہ کی طرف پھرو گے۔(پ3، البقرہ:281)خوف خدا کے متعلق احادیث مبارکہ:عَنِ ابْنِ عباس رضی اللہُ عنہما قَالَ:سَمِعْتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم یَقُوْلُ:عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ، وَعْیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ۔(ترمذی فی السنن،4/92، الرقم 1439)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کرتے ہیں،میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَةَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ:قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ثَلَاثَۃٌ لَاتَرَی اَعْیُنُہُمُ النَّارَعَیْنٌ حَرَسَتْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، وَعَیْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ۔ (طبرانی فی المعجم الکبیر19/416، رقم1003، والسیوطی فی الدارالمنثور1/593)حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی، ایک آنکھ وہ ہے جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ آنکھ جو اللہ پاک کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے باز رہی۔عَنْ اَنَسٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: یَقُوْلُ اللّٰہ تعالی: اَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِی یَوْمًا اَوْ خَافَنِی فِی مَقَامٍ۔( ترمذی فی السنن، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء ان للنار نفسین4/712، رقم2594)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا:دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو، جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کہیں بھی مجھ سے ڈرا۔عَنْ اَبِی ہُرَیْرَةَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ حَتَّی یَعُوْدَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ۔(ترمذی فی السنن،4/171، رقم1633)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ پاک کی راہ میں پہنچنے والی گردوغبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔عَنْ عَبْدِاللّٰہ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤمِنٍ یَخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْہِ دُمُوْعٌ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ رَاْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ ثُمَّ تُصِیْبُ شَیْئًا مِنْ حُرِّ وَجْھِہِ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہ عَلَی النَّارِ۔(ابن ماجہ فی السنن، 2/1404، الرقم4197)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سَر کے برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آگریں گے تو اللہ پاک اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔عَنِ الٰہیثَمِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: خَطَبَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: النَّاسَ فَبَکَی رَجُلٌ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: لَوْ شَہِدَکُمْ الْیَوْمَ کُلُّ مُؤْمِنٍ عَلَیْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَاَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِی لَغُفِرَھُمْ بِبُکَاءِ ھَذَا الرَّجُلِ وَ ذَلِکَ اَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَبْکِی وَ تَدْعُوْلَہُ وَتَقُوْلُ: اَللَّھُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَمْ یَبْکِ ۔( بہیقی فی شعب الایمان1/494، رقم 810)حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، تو خطاب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص رو پڑا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مؤمن موجود ہوتے، جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے:اے اللہ پاک!نہ رونے والوں کے حق میں، رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: رَاَیْتُ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: یُصَلِّی وَفِی صَدْرِہِ اَزِیْزٌِ کَاَزِیْزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُکَاءِ۔ (ابن حبان فی الصحیح3/30، رقم 753)حضرت مطرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،میں بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینہ اَقدس اور اَندروں جسد میں رونے کی وجہ سے ایسا جوش اور اُبال محسوس ہوتا تھا، جیسے کہ دیگِ جوشاں چولہے پر چڑھی ہو۔عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَارسول اللّٰہ، بِمَ اَتَّقِی النَّارَ؟ قَالَ: بِدُمُوْعِ عَیْنَیْکَ فَاِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہ لَا تَمَسُّھَا النَّارُ اَبَدًا۔ (ابن رجب الحنبلی فی التخفیف من النار1/42، والمنذری فی الترغیب والترھیب4/114، رقم 5030)حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ نے بیان کیا ہے :ایک آدمی نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں دوزخ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اپنی آنکھوں کے ذریعے، جو آنکھ اللہ پاک کے خوف سے رو پڑی، اسے کبھی(دوزخ کی) آگ نہیں چھوئے گی۔

خوف کے تین درجات ہیں:1۔ضعیف(یعنی کمزور):یہ وہ خوف ہے جو انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سُن کر محض جُھرجُھری لے کر رہ جانا اور پھر سے غفلت و معصیت(گناہ) میں گرفتار ہو جانا۔2۔معتدل(یعنی متوسط):یہ وہ خوف ہےجو انسان کو نیکی کے اَپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو، مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لئے عملی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ربّ کریم سے اُمیدِ رحمت بھی رکھنا۔3۔قوی(یعنی مضبوط):یہ وہ خوف ہے، جو انسان کو نا اُمیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کر دے، مثلاً اللہ پاک کے عذاب وغیرہ کا سُن کر اپنی مغفرت سے نااُمید ہو جانا، یہ بھی یاد رہے کہ ان سب میں بہتر درجہ معتدل ہے، کیونکہ خوف ایک ایسے تازیانے(کوڑے) کی مثل ہے، جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لئے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب(چوٹ) اتنی ضعیف(کمزور) ہو کہ جانور کی رفتار میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اتنی قوی ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاس کے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لئے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔(احیاء العلوم4/457، خوف خدا ،صفحہ 18) خوفِ خدا کی علامات:حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ 1۔انسان کی زبان میں:وہ اس طرح کہ ربّ کریم کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اُسے ربّ کریم کے ذکر، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔2۔اس کے شکم میں: وہ اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔3۔اس کی آنکھ میں:وہ اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں، بلکہ حصولِ عبرت کے لئے دیکھے گا۔4۔اس کے ہاتھ میں:وہ اس طرح کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا، بلکہ ہمیشہ اطاعتِ الٰہی میں استعمال کرے گا۔5۔اس کے قدموں میں:وہ اس طرح کہ وہ انہیں ربّ کریم کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا، بلکہ اس کے حکم کی اطاعت کے لئے اٹھائے گا۔6۔اس کے دل میں:وہ اس طرح کہ وہ اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حَسد کرنے کو دور کر دے اور اس میں خیر خواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔7۔اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں:اس طرح کے وہ فقط ربِّ کریم کی رضا کے لئے عبادت کرے اور ریاو نفاق سے خائف رہے۔8۔اس کی سماعت میں:اس طرح کے وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔(تنبیہ الغافلین)


خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہومثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔جبکہ خوفِ خدا کامطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی ، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔سورۂ رحمن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚتر جمۂ کنز الایمان :  اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو نے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔(پ27،رحمٰن:46) معلوم ہوا!اللہ کریم کا خوف رکھنے والی کس قدر خوش نصیب ہے۔جو اللہ کریم کہ خوف سے گناہوں سے بچتی ہے اور اللہ کریم کے خوف سے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کے لئے اللہ پاک نے دو جنتیں تیار کر رکھی ہیں ۔ایک اور جگہ اللہ کریم نے اپنے خوف سے ڈرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :وَ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللہَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَتر جمۂ کنزالایمان : اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اوراللہ سے ڈرے اور پرہیز گا ری کرے تو یہی لوگ کا میاب ہیں ۔(پ18،النور: 52 )ہر کوئی کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی field میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔۔حقیقی کا میاب تو وہ ہی ہوتا ہے جو اللہ پاک اور اس کے رسول کو راضی کر لےتو اللہ کریم نہ آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے بتا دیا کہ خوف خدا کو ہمیشہ اپنے دلوں میں بسا لو ۔ فرشتہ جو کہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور دن رات اللہ کریم کی حمد کرتے ہیں وہ بھی اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے چنانچہ نبی محترم، شفیع معظم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا: اے جبرائیل!تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم بلندترین مقام پر فائز ہو؟انہوں نے عرض کی، میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہ پاک کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر ابتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا ۔یہ سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے۔یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ ندا دی گئی:اے جبرائیل!اور اے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!اللہ پاک نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرمادیا ہے ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلامچلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم باہر تشریف لے آئے ۔(مکاشفۃ القلوب،ص317)سبحان اللہ!اللہ کریم اپنا ڈر رکھنے والوں کو کیسے نوازتا ہے!یہ مبارک ہستیاں تو پہلے ہی بخشی ہوئی ہیں۔مگر ان کا خوف خدا کا عالم کیسا تھا!ذریعۂ نجات:رب کریم کا خوف ذریعہ ٔنجات ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:وَ مَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(2) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕتر جمۂ کنزالایمان: اور جواللہ سے ڈرےاللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکا ل دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2،3) خوفِ خدا سے رونے والا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ(59) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ ترجمہ کنزالایمان :تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔( پ27، النجم:59، 60) تو اصحابِ صُفَّہ رَضیَ اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے۔پھر آپ  نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو ۔ (شعب الایمان،،ج1، ص489، حدیث: 798)سبحان اللہ!اللہ کریم کا خوف رکھنے والااور اس کے خوف سے رونے والے کے لیے کیسے فضائل ہیں! وہ جہنم میں داخل ہی نہیں ہوگا۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھ نصیب فرماے۔آمین۔


شعبہ ڈونیشن بکس دعوتِ اسلامی کے زیر ِاہتمام8دسمبر2021ءبروزبدھ مدنی مرکز فیضانِ مدینہ گوجرانوالہ پنجاب پاکستان میں ذمہ داران کی تربیت کےلئےایک نشست کاانعقادکیاگیاجس میں شعبہ ذمہ داران نےشرکت کی۔

اس دوران مبلغِ دعوتِ اسلامی حاجی محمد فیضان عطاری مدنی نے شرکاکی دینی و اخلاقی اعتبارسےتربیت کرتےہوئےشعبےکےدینی کاموں کےحوالےسےگفتگوکی۔

ذمہ دارنےڈیلی روٹین کوتبدیل کرنےکےسلسلےمیں اہم نکات پرتبادلۂ خیال کیاجس پرشرکانےشعبےاوردعوتِ اسلامی کی ترقی کے لئےاچھی اچھی نیتوں کااظہارکیا۔ (رپورٹ: ابو حبان محمد فیضان ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

خوفِ خدا میں رونے کے کثیر فضائل ہیں۔یاد رکھئے!مطلقاً خوف  سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جیسے پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر۔جب کہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے،۔(خوفِ خدا، ص14)آیت قرآنیہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(خوف خدا، صفحہ 11)خوفِ خدا میں رونے کے فضائل:سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے سوا کسی سے ڈرتا ہے تو اللہ پاک اسے ہر شے سے خوف زدہ کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 30)سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 30) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(خوف خدا، صفحہ 31)رحمتِ کونین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا :اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے یاد کیا ہو یا کسی مقام میں میرا خوف کیا ہو۔(خوف خدا، صفحہ 31) مدنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے بڑھ کر کامل عقل والا وہ ہے، جو ربِّ کریم سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور جو تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اللہ پاک کے احکام میں زیادہ غور کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 32)

حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 33)خوف خدا کا فائدہ:حضرت ابراہیم بن شیبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب دل میں خوفِ خدا پیدا ہو جائے تو اس کی شہوات کو توڑ دیتا ہے، دنیا سے بے رغبت کر دیتا ہے اور زبان کو ذکرِ دنیا سے روک دیتا ہے۔(خوف خدا، صفحہ 33،34)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خوفِ خدا میں رونے والی آنکھیں نصیب فرمائے اور ہمیں اپنا عشق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


خوفِ خدا کا مطلب ہے: اللہ پاک کے خوف سے رونا، اس کی بڑی فضیلتیں ہیں۔اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ترجمہ:بے شک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔اس سے معلوم ہوا! اللہ پاک سے ڈرنے والوں کو باغ اور چشمے عطا کئے جائیں گے، ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک پہنچے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان)معلوم ہوا!جو خوفِ خدا میں روئے، ربّ کریم اسے دوزخ پر حرام فرما دیتا ہے، ہم دنیا کے لئے بہت روتے ہیں، اللہ پاک ہمیں اپنے خوف میں رونا نصیب فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔(شعب الایمان) بزرگانِ دین کے اقوال:حضرت شبلی رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:میں جس دن اللہ پاک سے ڈرتا ہوں، اسی دن حکمت و عبرت کا ایسا دروازہ دیکھتا ہوں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ کمزور انسان اگر جہنم سے اسی طرح ڈرے، جس طرح محتاجی سے ڈرتا ہے تو جنت میں داخل ہو۔ (احیاء العلوم) اللہ پاک خوفِ خدا والوں کو بے حد اجر دیتا ہے، خوفِ خدا ہونا بندے میں بہت ضروری ہے، اسی سے بندے کو نیکی کی توفیق اور گناہ سے بچنے کا ذہن ملتا ہے اور انسان کا دل نیکیوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنا خوف نصیب فرمائے۔آمین


اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایّام گزارنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب دینا ہے،  جس کے بعد رحمتِ الٰہی ہماری طرف متوجّہ ہونے کی صورت میں جنت کی اعلی نعمتیں ہمارا مقدر بنیں گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم کی ہولناک سزائیں ہمارا نصیب ہوں گی، اس مقصدِ عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل میں خوفِ خدا کا ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ نعمتیں حاصل نہ ہوں، گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریباً ناممکن ہے۔سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا دوزخ میں نہیں جائے گا، یہاں تک کہ دودھ دوبارہ تھن میں چلا جائے، یعنی جس طرح دوھا ہوا دودھ دوبارہ تھن میں جانا ممکن نہیں، اسی طرح خوفِ خدا سے رونے والے کا جہنم میں جانا دشوار ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی کوئی بندہ مؤمن نہیں، جس کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلیں، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے کو پہنچیں، مگر اسے اللہ پاک آگ پر حرام فرما دے گا۔


خوفِ خدا ایسی نعمت ہے کہ جس کے سبب انسان گناہوں کی دَلدل سے محفوظ رہ سکتا ہے،  جب ارتکابِ گناہ کی ساری رکاوٹیں دور ہو جائیں تو خوفِ خدا ہی انسان کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روک سکتا ہے۔گھر بھر میں ایک بھی خوفِ خدا رکھنے والا فرد موجود ہو تو اس کا مَثبت اثر دوسرے افراد پر بھی پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں سارا گھرا نہ خوفِ خدا کی برکتوں سے مالامال ہو جاتا ہے، لیکن اگر سبھی بے خوفی کا شکار ہو جائیں تو اس کے منفی اثرات سب کے لئے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں اور پھر تباہی و بربادی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ پاک کے علاوہ دوسروں سے ڈرتا ہے، اللہ پاک اُسے ہر چیز سے خوفزدہ کردیتا ہے۔(کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 151، حدیث:5915)خوفِ خدا سے دل نرم ہو جاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور خوف خدا سے نکلے ہوئے آنسو ایسے انمول ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ! نبی اکرم، تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان معظم ہے: جس مومن بندے کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کی وجہ سے آنسو نکلیں اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ جائیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، الزہد، باب الحزن والبکاء ،4/ 467، حدیث:4197)سرکار دو عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہو گا، حتٰی کہ دودھ تھن میں واپس چلا جائے۔(الترغیب والترھیب، جلد 2، کتاب الجہاد، صفحہ 271)حضرت معمر بن المنذر رحمۃُ اللہِ علیہ جب خوفِ خدا سے روتے تو اپنی داڑھی اور چہرے پر آنسو مَلا کرتے اور کہتے:میں نے سنا ہے کہ جسم کے جس حصّے پر آنسوؤں کا پانی لگ جائے، اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔(مکاشفۃ القلوب مترجم، ص48، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جو اس کے خوف سے بہتا ہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اللہ پاک کے راستے میں بہایا جاتا ہے۔(المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 13، صفحہ 201)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 502، حدیث: 842) زندگی برف کی طرح پگھلتی جارہی ہے، ہمیں بھی غور کر لینا چاہئے کہ کیا کبھی ہم پر بھی خوفِ خدا کا غلبہ ہوا؟ ہماری بھی آنکھیں کبھی اشکبار ہوئیں؟ ہمیں بھی کبھی اپنے گناہوں پر رونا آیا؟ افسوس! ہمارا لمحہ لمحہ غفلت میں بسر ہوتا جا رہا ہے، گناہون کی کثرت کے باعث دل سخت ہو گئے اور اب ہمیں رونا بھی نہیں آتا۔اللہ پاک ہم سب کو خوفِ خدا سے سرشار فرمائے، خوفِ خدا کی بدولت نیکیوں کی رغبت اور اعمالِ صالحہ پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


مطلقاً خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے، جو کہ ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔ربّ کریم نے خود قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس صفتِ عظیمہ کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ پارہ4، سورۂ نساء کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا:ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔

اللہ پاک کا خوف رکھنا، اس کی واجب کردہ اشیاء پر عمل کرنا، اس کی منہیات سے منع ہونا اور اس کے خوف سے رونا، ہر بھلائی کی اصل ہے کہ خوفِ خدا کے سبب رونا بخشش کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا نجات کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا بلا حساب جنت میں داخلے کا سبب ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا جہنم سے آزادی کا ذریعہ ہے، خوفِ خدا کے سبب رونا اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، غرض یہ کہ خوفِ خدا کے سبب رونے کے بے شمار فضائل ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی پسندیدہ نہیں، جو آنکھ سے اس کے خوف کی وجہ سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے۔اور حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوفِ خدا سے آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کروں، اس لئے کہ جو اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسو کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔

میرے اشک بہتے رہیں کاش ٹپ ٹپ تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی