خوف سے مراد وہ
قلبی کیفیت ہے، جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے
پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً
پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر۔جب کہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے
کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل
گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء علوم
الدین، باب بیان حقیقۃ الخوف4/190
ماخوذا، خوف خدا، صفحہ14)ربّ
العالمین نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا
ہے، جسے درج ذیل آیات میں ملاحظہ کیا
جاسکتا ہے:وَ
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕوَ لَقَدْ وَصَّیْنَا
الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمائی ہے ہم نے ان
سے، جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور تم
کو کہ اللہ
سے ڈرتے رہو۔(پ 5، النساء:131) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(پ22،الاحزاب:70)فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۔ترجمۂ کنزالایمان:تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔(پ6،المائدہ:3) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو!اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں
ایک جان سے پیدا کیا۔(پ4، النساء:1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِهٖ
وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے
ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا،مگر مسلمان۔(پ4،ال عمران:102) وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4، ال عمران:175)وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۔ترجمہ
کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔(پ1، البقرہ:40)وَ یُحَذِّرُكُمُ اللہ
نَفْسَهٗؕ۔ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔(پ3، ال عمران:28)وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللہ۔ترجمہ کنزالایمان:اور ڈرو اس دن سے، جس میں اللہ کی طرف پھرو گے۔(پ3، البقرہ:281)خوف خدا کے متعلق احادیث
مبارکہ:عَنِ ابْنِ عباس رضی اللہُ عنہما قَالَ:سَمِعْتُ رسول اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم
یَقُوْلُ:عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ،
وَعْیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ۔(ترمذی فی السنن،4/92، الرقم 1439)حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما روایت کرتے ہیں،میں نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو
آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک
کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔عَنْ
مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَةَ رضی
اللّٰہُ عنہ قَالَ:قَالَ رسول
اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ثَلَاثَۃٌ
لَاتَرَی اَعْیُنُہُمُ النَّارَعَیْنٌ حَرَسَتْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، وَعَیْنٌ
غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ۔ (طبرانی فی المعجم الکبیر19/416، رقم1003، والسیوطی فی
الدارالمنثور1/593)حضرت معاویہ بن حیدہ رضی
اللہُ عنہ کا بیان ہے ،رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین افراد کی
آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی، ایک آنکھ وہ
ہے جس نے اللہ
پاک کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ
آنکھ جو اللہ
پاک کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں
سے باز رہی۔عَنْ اَنَسٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ
واٰلہٖ وسلم: یَقُوْلُ اللّٰہ
تعالی: اَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِی یَوْمًا اَوْ خَافَنِی فِی
مَقَامٍ۔( ترمذی فی السنن، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء ان
للنار نفسین4/712، رقم2594)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ، حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک
فرمائے گا:دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو، جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کہیں بھی مجھ سے ڈرا۔عَنْ اَبِی ہُرَیْرَةَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ
واٰلہٖ وسلم: لَا یَلِجُ
النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ حَتَّی یَعُوْدَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ، وَلَا
یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ۔(ترمذی فی السنن،4/171،
رقم1633)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک
کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ پاک
کی راہ میں پہنچنے والی گردوغبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔عَنْ عَبْدِاللّٰہ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ
واٰلہٖ وسلم: مَا مِنْ
عَبْدٍ مُؤمِنٍ یَخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْہِ دُمُوْعٌ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ رَاْسِ الذُّبَابِ مِنْ
خَشْیَۃِ اللّٰہ ثُمَّ تُصِیْبُ شَیْئًا مِنْ حُرِّ وَجْھِہِ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہ
عَلَی النَّارِ۔(ابن ماجہ فی السنن، 2/1404، الرقم4197)حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سَر کے
برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آگریں گے تو اللہ پاک
اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔عَنِ الٰہیثَمِ
بْنِ مَالِکٍ رضی
اللّٰہُ عنہ قَالَ: خَطَبَ رسولُ
اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: النَّاسَ
فَبَکَی رَجُلٌ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: لَوْ شَہِدَکُمْ الْیَوْمَ کُلُّ
مُؤْمِنٍ عَلَیْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَاَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِی لَغُفِرَھُمْ بِبُکَاءِ ھَذَا الرَّجُلِ وَ
ذَلِکَ اَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَبْکِی وَ تَدْعُوْلَہُ وَتَقُوْلُ: اَللَّھُمَّ
شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَمْ یَبْکِ ۔( بہیقی فی شعب الایمان1/494، رقم 810)حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں سے خطاب
فرمایا، تو خطاب کے دوران آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص
رو پڑا، اس پر حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مؤمن
موجود ہوتے، جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر
ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ
فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے:اے اللہ پاک!نہ رونے والوں کے حق
میں، رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔عَنْ مُطَرِّفٍ
عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: رَاَیْتُ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: یُصَلِّی وَفِی صَدْرِہِ اَزِیْزٌِ
کَاَزِیْزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُکَاءِ۔ (ابن حبان فی الصحیح3/30، رقم 753)حضرت مطرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،میں بارگاہِ نبوی میں
حاضر ہوا، آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور
آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینہ اَقدس اور اَندروں جسد میں رونے کی وجہ سے ایسا جوش اور اُبال
محسوس ہوتا تھا، جیسے کہ دیگِ جوشاں چولہے
پر چڑھی ہو۔عَنْ زَیْدِ
ابْنِ اَرْقَمَ رضی
اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ
رَجُلٌ: یَارسول اللّٰہ، بِمَ اَتَّقِی النَّارَ؟ قَالَ: بِدُمُوْعِ عَیْنَیْکَ
فَاِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہ لَا تَمَسُّھَا النَّارُ اَبَدًا۔ (ابن رجب الحنبلی فی التخفیف
من النار1/42، والمنذری فی الترغیب
والترھیب4/114، رقم 5030)حضرت زید بن ارقم
رضی اللہُ عنہ نے بیان کیا ہے :ایک آدمی نے عرض کی:یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں دوزخ سے
کیسے بچ سکتا ہوں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اپنی آنکھوں کے ذریعے، جو آنکھ اللہ پاک کے خوف سے رو
پڑی، اسے کبھی(دوزخ کی) آگ نہیں چھوئے گی۔
خوف کے تین درجات ہیں:1۔ضعیف(یعنی کمزور):یہ وہ خوف ہے جو
انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا
ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سُن کر محض جُھرجُھری لے کر رہ جانا اور پھر سے
غفلت و معصیت(گناہ) میں گرفتار ہو
جانا۔2۔معتدل(یعنی متوسط):یہ وہ خوف ہےجو
انسان کو نیکی کے اَپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو،
مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لئے عملی کوشش کرنا اور اس کے
ساتھ ساتھ ربّ کریم سے اُمیدِ رحمت بھی رکھنا۔3۔قوی(یعنی مضبوط):یہ وہ خوف ہے، جو انسان کو نا اُمیدی، بے ہوشی اور بیماری
وغیرہ میں مبتلا کر دے، مثلاً اللہ پاک کے عذاب وغیرہ کا سُن کر اپنی مغفرت سے
نااُمید ہو جانا، یہ بھی یاد رہے کہ ان سب میں بہتر درجہ معتدل ہے، کیونکہ خوف ایک
ایسے تازیانے(کوڑے) کی مثل ہے، جو
کسی جانور کو تیز چلانے کے لئے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب(چوٹ) اتنی ضعیف(کمزور) ہو کہ جانور کی
رفتار میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اتنی قوی
ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاس کے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لئے چلنا ہی ممکن
نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی
خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔(احیاء العلوم4/457، خوف خدا ،صفحہ 18) خوفِ خدا کی علامات:حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک
کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ 1۔انسان کی زبان میں:وہ اس طرح کہ
ربّ کریم کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اُسے ربّ
کریم کے ذکر، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔2۔اس کے شکم میں: وہ
اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت
کھائے گا۔3۔اس کی آنکھ میں:وہ اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا
کی طرف رغبت سے نہیں، بلکہ حصولِ عبرت کے لئے دیکھے گا۔4۔اس کے ہاتھ میں:وہ اس طرح
کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا، بلکہ ہمیشہ اطاعتِ الٰہی میں استعمال کرے
گا۔5۔اس کے قدموں میں:وہ اس طرح کہ وہ انہیں ربّ کریم کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے
گا، بلکہ اس کے حکم کی اطاعت کے لئے اٹھائے گا۔6۔اس کے دل میں:وہ اس طرح کہ وہ
اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حَسد کرنے کو دور کر دے اور اس میں
خیر خواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔7۔اس کی اطاعت و
فرمانبرداری میں:اس طرح کے وہ فقط ربِّ کریم کی رضا کے لئے عبادت کرے اور ریاو
نفاق سے خائف رہے۔8۔اس کی سماعت میں:اس طرح کے وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔(تنبیہ الغافلین)