خوف
سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا
ہومثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔جبکہ خوفِ
خدا کامطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی ، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے
دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔سورۂ رحمن
میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد
ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚتر جمۂ کنز الایمان : اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو نے سے ڈرے اس کے لیے
دو جنتیں ہیں۔(پ27،رحمٰن:46) معلوم ہوا!اللہ کریم
کا خوف رکھنے والی کس قدر خوش نصیب ہے۔جو اللہ
کریم کہ خوف سے گناہوں سے بچتی ہے اور اللہ کریم کے خوف سے
زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کے لئے اللہ پاک نے دو جنتیں تیار کر
رکھی ہیں ۔ایک اور جگہ اللہ کریم
نے اپنے خوف سے ڈرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :وَ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللہَ وَ
یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَتر جمۂ کنزالایمان : اور
جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا
اوراللہ سے ڈرے اور پرہیز گا
ری کرے تو یہی لوگ کا میاب ہیں ۔(پ18،النور:
52 )ہر کوئی کامیابی کا
خواہشمند ہوتا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی field میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔۔حقیقی کا میاب تو
وہ ہی ہوتا ہے جو اللہ
پاک اور اس کے رسول کو
راضی کر لےتو اللہ
کریم نہ آخرت میں کامیاب
ہونے کے لیے بتا دیا کہ خوف خدا کو ہمیشہ اپنے
دلوں میں بسا لو ۔ فرشتہ جو کہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور دن رات اللہ کریم کی حمد کرتے ہیں وہ بھی اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے
ڈرتے چنانچہ نبی محترم، شفیع
معظم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ایک مرتبہ حضرت جبرائیل کو دیکھا کہ وہ
رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا: اے جبرائیل!تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم
بلندترین مقام پر فائز ہو؟انہوں نے عرض کی، میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا
زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہ پاک کے
علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ
کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر ابتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا ۔یہ سن
کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی
رونے لگے۔یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ ندا دی گئی:اے جبرائیل!اور اے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!اللہ پاک نے
تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرمادیا ہے ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلامچلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم باہر تشریف لے آئے ۔(مکاشفۃ القلوب،ص317)سبحان اللہ!اللہ کریم اپنا ڈر رکھنے والوں کو کیسے نوازتا ہے!یہ مبارک ہستیاں تو
پہلے ہی بخشی ہوئی ہیں۔مگر ان کا خوف خدا کا عالم کیسا تھا!ذریعۂ نجات:رب کریم کا خوف ذریعہ
ٔنجات ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:وَ مَنْ
یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(2) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا
یَحْتَسِبُؕتر جمۂ کنزالایمان: اور جواللہ سے ڈرےاللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکا ل دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے
گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2،3) خوفِ
خدا سے رونے والا: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ
هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ(59) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ ترجمہ کنزالایمان :تو کیا اس بات سے
تم تعجب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔( پ27، النجم:59، 60) تو
اصحابِ صُفَّہ رَضیَ اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ
ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے
۔آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بہتے ہوئے
آنسو دیکھ کر وہ اور بھی
زیادہ رونے لگے۔پھر آپ نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا
جو اللہ
پاک کے ڈر سے رویا ہو ۔ (شعب الایمان،،ج1، ص489، حدیث: 798)سبحان اللہ!اللہ کریم کا خوف رکھنے والااور اس کے خوف سے رونے والے کے لیے کیسے
فضائل ہیں! وہ جہنم میں داخل ہی نہیں ہوگا۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھ نصیب فرماے۔آمین۔