محمد عمیر ( درجہ خامسہ موقوف علیہ، جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ، ملتان )
منافق شخص بہت برا شخص ہے، جب کفار منافقین پر
عذاب شروع ہوگا تو اس دن خود ان کے اعضاء ان
کے خلاف گواہی دیں گے۔ قیامت کے دن یہ تمام اعضاء بولیں گے۔ یہ اعضاء کہے گے کہ یہ
کافر ومنافقین بدبخت مجھے شرک کفر بلوایا کرتے تھے۔ یہ تمام اعضاء ان کے خلاف گواہی
دیں گے ۔چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ
اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)
(پ:18،نور:24)
ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی
زبانیں،ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ:18،النور : 24)
حضرت علامہ سید
محمود آلو سی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ
اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کریم اپنی
قدرت کاملہ سےانہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا۔ پھر ان میں سے ہر ایک شخص کے بارے
میں گواہی دے گا۔ کہ یہ ان سے کیا کیا کام کرتا رہا ہے۔(تفسیر روح المعانی ص 442 )
سورہ بنی اسرائیل میں
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ
السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجَمۂ
کنزُالایمان:: بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ:15،سورہ بنی
اسرائیل: 36)
اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے کہ" یعنی ان میں سے
ہر ایک سے اس کے استعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ چنانچہ دل سے پوچھا جائے گا کہ اس
کے ذریعے کیا سوچا اور آنکھ سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے ذریعے کیا دیکھا گیا ۔
جبکہ علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیر روح المعانی میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں
کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کے دل کے افعال پر بھی اس کی پکڑ ہو گی، مثلا
کسی گناہ کا پختہ ارادہ کر لیا یا دل کا مختلف بیماریوں مثلا کینہ ،حسد اور خود
پسندی وغیرہ میں مبتلا ہو جانا۔۔۔۔ ہاں علماء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ دل
میں کسی گناہ کے بارے میں محض سوچنے پر پکڑنہ ہوگی، جب کہ اس کے کرنے کا پختہ
ارادہ نہ رکھتا ہو۔
( تفسیر روح
المعانی ص 97)
مزید درۃ الناصحین میں ہے کہ" قیامت کے دن ایک شخص کو
بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں
کثیر گناہ پائے گا۔ وہ عرض کرے گا :"یا الہی عز و جل میں نے تو یہ گناہ کیا ہی
نہیں ۔اللہ پاک فرمائے گا :میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا اور کہے
گا: یا رب گواہ کہاں ہے؟ تو اللہ کریم اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ وہ
کان کہیں گے ہاں تم نے حرام سنا،اورہم اس پر گواہ ہیں۔ آنکھیں کہیں گی: ہاں ہم نے
حرام دیکھا۔ زبان کہے گی: ہاں ہم نے حرام بولا تھا۔ اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے:
ہاں ہم نے حرام کی طرف بڑھے تھے۔ شرمگاہ پکارے گی: ہاں میں نے زنا کیا تھا۔ اور وہ
بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا۔(ملخّصا،المجلس الخامس ،ص 294)
ہمارے جسم کے تمام
گواہ تمام اعضاء ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کو درست استعمال کریں ۔ان کو تمام حرام
کاموں سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں گزارے۔ اللہ کریم غفور الرحیم ہے لیکن جبّارو ستّار
بھی ہے۔ ہمیں اللہ پاک کی رحمت کی طرف نظر بھی کرنی ہے اور اس کے خوف سے ڈرنا بھی
چاہیے ۔