جب بندہ گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو دنیا ہی میں اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں وہ اس طرح کہ اس کے چہرے سے نور سلب کرلیا جاتا ہےاور اس کو گمراہی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے تو اسی طرح کل قیامت کے دن بندے کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔

الله پاک قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے :

﴿اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمۂ کنزالایمان: آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔ (پ: 23، یٰس: 65)

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کریں گے۔

جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہےگا : اے میرے رب ! میں تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا ، میں نے نماز پڑھی ، روزہ رکھا اور صدقہ دیا ، وہ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرےگا اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ابھی پتہ چل جائےگا پھر اس سے کہا جائےگا : ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتیں ہیں ۔ وہ بندہ اپنے دل میں سوچےگا : میرے خلاف کون گواہی دےگا ؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران ، اور اس کے گوشت اور اس کے ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو ۔ پھر اس کی ران ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لیے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا ۔ ( صراط الجنان ج 8 ص۔273- 274 )

پیارے اسلامی بھائیو! فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جن میں نفاق کی کچھ علامات پائی جاتی ہیں جیسے جھوٹ ،اور امانت میں خیانت کرنا وغیرہ جیسا کہ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہتے ہیں : الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس میں چار چیزیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی خصلت ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہے حتی کہ وہ اس کو چھوڑ دے :جب اس کو امانت دی جائے تو خیانت کرے ، اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو توڑدے اور جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔

( مشکاۃ المصابیح باب الکبائر و العلامات النفاق )

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! غور کرنے کا مقام ہے کہ کل میدان حشر میں بندے کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور ہمارے وہ اعضاء جن سے آج دنیا کو کمانے کےچکر میں طرح طرح کے گناہوں کو ایجاد کیا زبان چلائی تو جھوٹ یا گالی نکلی آنکھ اٹھائی تو بد نگاہی کرلی ، ہاتھ اٹھایا تو کسی کا مال ناحق غصب کر لیا اور قدم اٹھایا تو گناہوں کو عام کردیا۔

ایک جگہ اور اللہ پاک فرماتا ہے :﴿ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)﴾ ترجمۂ کنز الایمان : جس دن ان کے خلاف ان کے زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ ( النور : 24 )

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قیامت کا دن انتہائی سخت ہوگا، اس دن ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی، سختی کا عالم یہ ہوگا کہ مجرمین کے مونہوں پر مہر لگا دیا جائےگا، اور اعضا سے ان کے گناہوں پر گواہی لی جائے گی۔

چنانچہ اللہ رب العزت قرآن مجید، فرقان حمید میں فرماتا ہے : اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمہ کنزالعرفان :"آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے"۔(پ: 23، یٰس: 65)

اس آیتِ کریمہ کے تحت "تفسیر روح البیان" میں حضرت علامہ شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "منہ پر مہر لگا کر اعضا سے گواہی لینے میں اشارہ ہے کہ جو انسان کے گناہ میں معین و مددگار تھے اب وہ بھی دشمن ہوکر اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں تاکہ اسے معلوم ہوکہ سوائے ذاتِ خدا کے کوئی بھی حامی و یار نہیں۔

انسان پر لازم ہے کہ ماسوی اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو اور سوائے ذات خدا کے کسی کو اپنا دوست نہ بنائے تاکہ قیامت میں رسوائی نہ ہو"۔

(تفسیر روح البیان مترجم،ج12،پ23 ،ص103، رضوی کتاب گھر دہلی)

سب سے پہلے کون سا عضو گواہی دےگا:

اس کے تعلق سے متعدد روایات ہیں، بعض روایتوں کے مطابق سب سے پہلے زبان کو جبکہ بعض روایتوں کے مطابق سب سے پہلے بائیں ران کو قوت گویائی حاصل ہوگی ۔

چنانچہ "تفسیرِ نعیمی" میں ایک حدیث شریف کے حوالے سے منقول ہے کہ سب سے پہلے زبان کو زبان ملے گی پھر داہنی ران پھر ہتھیلی بولیں گی۔(تفسیر نعیمی، ج18،پ18)

جبکہ "تفسیرِ طبری" میں مذکورہ بالا آیت کریمہ (الیوم نختم الخ) کے تحت اس حدیث شریف کو بیان کیا گیا ہے : عن عقبة بن عامر، أنه سمع النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم يقول: " أوَّلُ شَيْءٍ يَتَكَلَّمُ مِنَ الإنْسانِ، يَوْمَ يَخْتِمُ اللهُ على الأفْوَاهِ، فَخِذُهُ مِنْ رِجْلِهِ اليُسْرَى "

حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ انسانی اعضا میں سے سب سے پہلے بائیں ران بولےگی جب انسان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی۔(تفسیر طبری، ج19 ،ص 474)

اعضا کا نیکیوں کے متعلق گواہی دینا:

قیامت کے دن جس طرح نافرمانوں کے اعضا ان کے گناہوں پر گواہی دیں گے اسی طرح فرماں برداروں اور عبادت گذاروں کے اعضا بھی ان کی نیکیوں پر گواہی پیش کریں گے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے : حضرت یسیرہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :کہ تم تسبیح و تہلیل اور تقدیس کو لازم کرلو اور (انگلیوں کے) پوروں سے ان کا شمار کیا کرو کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے کلام طلب کیا جائے گا اور تم (ان کو پڑھنے سے) غافل نہ ہونا اور اللہ کی رحمت کو بھول نہ جانا ۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث 3853)

مشہور مفسر قرآن ، حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" نمازی کے چہرے کی بشاشت، حسن، وجاہت، ظاہر کی رونق، باطن کی خوشیاں، یہ بھی زبان حال کی گواہیاں ہیں۔ ہر اچھے برے کام کی گواہی آنکھوں سے مل جاتی ہے۔ اسی طرح بروزِ قیامتِ کُبریٰ زبانوں سے تلاوت کی، جسموں سے عبادت کی، ہاتھوں سے اعمال نامے کی اور دنیا میں کتبِ آیات و روایات پکڑنے، کھولنے کی، پاؤں سے سجدہ وکعبہ محراب انوار، روضہ سرکار کی طرف چلنے کی گواہی ملتی ہے، یادِ نبی اور عشقِ الٰہی کہ گواہی عاشقِ صادق کے آنسوں سے ملتی ہے۔ لغزش گناہ سے توبہ کی گواہی، ندامت کے قطروں سے ملتی ہے۔ اچھے برے کانوں کی گواہی ان کی اچھی بری سماعت سے ملتی ہے۔ ذکر و وظائف، آیات کی تلاوت یہ اچھے کانوں کی گواہی ہے ۔ ( تفسیرِ نعیمی، ج18،پ 18 ۔ص 506)

ماحصل یہ کہ قیامت کے دن ہمارے اعضا، نیکیوں اور گناہوں پر گواہی دیں گے، لہٰذا ہمیں ان کو طاعات وعبادات پر لگائے رکھنا چاہئے تاکہ بروز قیامت ہمارے نیک اعمال پر گواہی پیش کریں ۔


جسم اللہ پاک کی امانت ہے، ہر بندے کو چاہیے کہ اسکا درست اور صحیح استعمال کرے اور جو اس کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے، یہ کل قیامت کے دن اس کے حق میں گواہ ہوگا اور یوں ہی جو اس کے حقوق کی پامالی کرتا ہے، اس کے خلاف بھی گواہ ہوگا؛ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعضا کا صحیح استعمال کریں، ورنہ یہ بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

چنانچہ اعضا کے گواہی کے متعلق ارشاد رب العباد ہے :

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمہ کنزالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے (پ 22، یٰسٓ 65)

اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن کفار سے اُس وقت جب جہنم بھڑکتی ہوئی، شعلے مارتی ہوئی، چیختی ہوئی سامنے ہو گی کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے اور ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو۔

قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے اعضا ان کے اعمال کی گواہی دینا شروع کر دیں گے۔ (ابن کثیر جلد 5 صفحہ 320،321)

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر ارشاد فرمایا : تم جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ ہم نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے مخاطب ہو گا تو کہے گا اے میرے رب کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ رب تعالی فرمائے گا کیوں نہیں، بندہ عرض کرے گا میں تو اس وقت مانوں گا جب مجھ ہی میں سے کوئی گواہ ہو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے اور اعمال نامہ لکھنے والے معزز فرشتے حاضر ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور اس کے اعضا سے کہا جائے گا بولو چنانچہ ہر عضو اس کے اعمال کی خبر دے گا، اس کے منہ سے مہر ہٹائی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا تمارے لیے دوری اور بربادی ہو میں تمہاری طرف سے ہی تو دفاع کرتا تھا ۔

(صحیح مسلم، كتاب: الزهد والرقائق ،باب: الدنیا سجن المومن وجنت الکافر ،صفحہ 1588 ،حدیث 2969)

اس کے علاوہ سنن نسائی کی ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی، سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔

(نسائی فی السنن الکبرٰی حدیث:11469)

ان باتوں سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے اعضا کو گناہوں سے بچانا چاہیے، اور نیکیوں میں لگائے رکھنا چاہیے؛ تاکہ یہ کل قیامت میں ہمارے خلاف نہ ہوں؛ بلکہ ہمارے حق میں گواہ ثابت ہو۔


   قیامت کے دن جب مجرمین کے برے اعمال ظاہر کیے جائیں گے تو وہ اپنے جرم کا اقرار کرنے کے بجائے انکار کردیں گے کہ ہم نے تو کوئی جرم ہی نہیں کیا ہے ۔ بلکہ وہ پیش کردہ گواہوں اور اپنے نامۂ اعمال کو بھی جھٹلائیں گے اور اپنی بے گناہی کی قسمیں کھائیں گے تو اس وقت ان کے مونھوں پر مہر لگادی جائے گی اور ان کے جسمانی اعضا کو خود ان کے خلاف بطور گواہ پیش کیا جائے گا تو ان کے کان، آنکھ، جِلد (کھال)، ہاتھ، پاؤں، زبان، ران، گوشت اور ہڈی ان کے خلاف گواہی دیں گے، پھر انھیں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔

ہاتھ اور پاؤں کی گواہی: اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمۂ کنزالایمان: آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔ (پ: 23، یٰس: 65)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے: ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں، پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے، تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔ (تفسیر صراط الجنان، 8/273، المدینۃ العلمیہ)

کان، آنکھ اور کھال کی گواہی: دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے: وَ یَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(۱۹) حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۰)

ترجمۂ کنزالایمان: اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے۔ یہاں تک کہ پچھلے آملیں ۔ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور اُن کے چمڑے سب اُن پر ان کے کیے کی گواہی دیں گے۔

(پ: 24، حٰمٓ السجدۃ: 20،19)

ران، گوشت اور ہڈیوں کی گواہی: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس کا آخری حصہ پیش ہے: اے میرے رب!میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا کہ میں نے یہ یہ کیا ۔ اللہ پاک فرمائے گا: ابھی ظاہر ہوجائے گا ،پھر اس سے کہا جائے گا: ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں۔ وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھراس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی، اس کی ران، گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا: تم بتاؤ ۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کردیں گی اور یہ اس لیے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہوگا جس سے اللہ پاک ناراض ہو گا۔

(مسلم، کتاب الزہد، ج:2/409، ناشر: مجلس برکات ،جامعہ اشرفيہ مبارک پور)

انسانی اعضاء کا نیک عمل کی گواہی دینا: یونہی اگر کوئی بندہ نیک عمل کرے تو قیامت میں اس کے اعضا اس کے حق میں شہادت دیں گے ۔ حضرت حُمیضہ بنت یاسر اپنی دادی حضرت یسیرہ رضی الله عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تمہارے لیے لازم ہے کہ تسبیح وتہلیل اور تقدیس کیا کرو اور انگلیوں پر (تسبیحات وغیرہ کو) گنا کرو، کیونکہ ان سے (قیامت میں) پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کر دی جائے گی اور تم لوگ غفلت نہ برتنا کہ (اللہ کی) رحمت کو بھول بیٹھو۔ (جامع ترمذی، 2/199،کتاب الدعوات، باب فی فضل التسبیح والتہلیل، مجلس برکات )

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ اور اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے اور اس کے تمام اعمال ظاہر کر دیں گے، تاکہ اس کی ذات خود اس کے خلاف دلیل ہوجائے اور کوئی نیک عمل کرے تو اس کے حق میں گواہی دیں گے ۔

اللہ پاک ہمیں برے اعمال سے بچنے اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم)


پیارے اسلامی بھائیو! قیامت کے دن جب رب کی بارگاہ میں حاضری ہوگی رب تعالیٰ جب سوال کرے گا تو انسان جھوٹ بولے گا تو اس وقت اللہ پاک اس کے منہ کو قفل کے ذریعے بند کرے گا اور اس کے اعضاء کو حکم دے گا کہ اس کے خلاف گواہی دیں۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)ترجَمۂ کنزُ الایمان: آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے۔(پ23،یٰسٓ:65)

﴿ اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ :آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے﴾ اس کے تحت تفسیر صراطُ الجنان میں ہے:

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں علیہمُ الصلوٰۃ والسّلامکو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضاء جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

قیامت کے دن انسان کی اپنی ذات ا س کے خلاف گواہ ہو گی:

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں گے اور ا س کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ابھی پتا چل جائے گا، پھر ا س سے کہا جائے گا: ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں۔ وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا: میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سےکہا جائےگا: تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ پاک ناراض ہوگا۔

(مسلم،ص1214،حدیث:7438)

یاد رہے کہ مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لئے نہ ہو گی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔

(صراط الجنان،8/274،273)

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔(پ18، النور:24)


 منافق شخص بہت برا شخص ہے، جب کفار منافقین پر عذاب شروع ہوگا تو اس دن خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ قیامت کے دن یہ تمام اعضاء بولیں گے۔ یہ اعضاء کہے گے کہ یہ کافر ومنافقین بدبخت مجھے شرک کفر بلوایا کرتے تھے۔ یہ تمام اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)

(پ:18،نور:24)

ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں،ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ:18،النور : 24)

حضرت علامہ سید محمود آلو سی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کریم اپنی قدرت کاملہ سےانہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا۔ پھر ان میں سے ہر ایک شخص کے بارے میں گواہی دے گا۔ کہ یہ ان سے کیا کیا کام کرتا رہا ہے۔(تفسیر روح المعانی ص 442 )

سورہ بنی اسرائیل میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان:: بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)

اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے کہ" یعنی ان میں سے ہر ایک سے اس کے استعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ چنانچہ دل سے پوچھا جائے گا کہ اس کے ذریعے کیا سوچا اور آنکھ سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے ذریعے کیا دیکھا گیا ۔

جبکہ علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیر روح المعانی میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کے دل کے افعال پر بھی اس کی پکڑ ہو گی، مثلا کسی گناہ کا پختہ ارادہ کر لیا یا دل کا مختلف بیماریوں مثلا کینہ ،حسد اور خود پسندی وغیرہ میں مبتلا ہو جانا۔۔۔۔ ہاں علماء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ دل میں کسی گناہ کے بارے میں محض سوچنے پر پکڑنہ ہوگی، جب کہ اس کے کرنے کا پختہ ارادہ نہ رکھتا ہو۔

( تفسیر روح المعانی ص 97)

مزید درۃ الناصحین میں ہے کہ" قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔ وہ عرض کرے گا :"یا الہی عز و جل میں نے تو یہ گناہ کیا ہی نہیں ۔اللہ پاک فرمائے گا :میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا: یا رب گواہ کہاں ہے؟ تو اللہ کریم اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ وہ کان کہیں گے ہاں تم نے حرام سنا،اورہم اس پر گواہ ہیں۔ آنکھیں کہیں گی: ہاں ہم نے حرام دیکھا۔ زبان کہے گی: ہاں ہم نے حرام بولا تھا۔ اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے: ہاں ہم نے حرام کی طرف بڑھے تھے۔ شرمگاہ پکارے گی: ہاں میں نے زنا کیا تھا۔ اور وہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا۔(ملخّصا،المجلس الخامس ،ص 294)

ہمارے جسم کے تمام گواہ تمام اعضاء ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کو درست استعمال کریں ۔ان کو تمام حرام کاموں سے بچاتے ہوئے نیکیوں میں گزارے۔ اللہ کریم غفور الرحیم ہے لیکن جبّارو ستّار بھی ہے۔ ہمیں اللہ پاک کی رحمت کی طرف نظر بھی کرنی ہے اور اس کے خوف سے ڈرنا بھی چاہیے ۔


 فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کا کوئی قریبی شخص یا اس کا تعلق دار اس کے خلاف گواہی دے تو اس پر اعتراض کرنا ،اس کے خلاف بولنا ،ناراضگی مان لینا وغیرہ وغیرہ وغیرہ عام ہے۔ انسان دنیا میں تو اس کے خلاف اقدام کر سکتا ہے لیکن بروز قیامت اس کے پاس کوئی جواز نہ ہوگا۔ خصوصا جب اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی۔ اس مضمون کو رب تعالی قرآن مجید میں اس انداز سے بیان فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

اس آیت کے تحت سورہ الافاضل حضرت سید مفتی نعیم الدین رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں یعنی کفار بول نہ سکیں اور یہ مُہر کرنا ان کے یہ کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا ۔ ان کے اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے ۔(کنزالایمان مع خزائن العرفان ص 832)

حضرت علامہ ابوبکر عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ہم نے منہ پر مہر کر دیں گےیعنی ہم ان کو گفتگو سے روک دیں گے، مروی ہے کہ لوگ انکار کریں گے جھگڑا کریں گے تو ان کے خلاف ان پڑوسی،اہل و عیال ،خاندان والے گواہی دیں گے۔ اسی وجہ سے ان کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور ان کے ہاتھ اور پاوٗں کلام کریں گے۔ (تفسیر نسفی 3/159)

مروی ہے کہ یہ ان سے اس وقت کیا جائے گا کہ جب وہ دنیا میں کیے گئے کا انکار کریں گے اور جھگڑیں گے، پھر ان کے خلاف ان کے پڑوسیوں۔ اہل وعیال، خاندان والوں کو گواہ بنایا جائے گا ۔پھر وہ کہ وہ مشرک تھے۔( حاشیۃ الصاوی 5/1724)

تفسیر صراط الجنان میں ہے مسلم شریف کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں ا س کے اعمال بیان کریں گی۔

( صراط الجنان فی تفسیر القرآن 8/274)


بروز قیامت نفسا  نفسی کا عالم ہوگا ،لوگوں کے سامنے ان کے اعمال نامے کھول دیے جائیں گے اور اسے پڑھنے کو کہا جائے گا۔ اس کو پڑھ کر وہ موجود اعمال کا اعتراف نہیں کرے گا اور انکار کرے گا اور جھگڑا کرے گا تو اس کے اعضاء اس کے خلاف اس کی برائیوں کی گواہی دیں گے اور اگر نیک اعمال ہوں تو اس کی اچھائی کی گواہی دیں گے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

صراط الجنان میں ہے : آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

حضرت سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بروز قیامت تم اس حال میں آؤ گے کہ تمہارے مونہوں پر مہر ہوگی۔ اور آدمی کے اعضاء میں سے سب سے پہلے اس کی ران اور ہتھیلی کلام کرے گی۔( مسند احمد)

دیکھا قارئین حضرات آپ نے کہ قیامت کے دن ران اور ہتھیلی سب اعضاء سے پہلے گواہی دیں گے۔

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن کافروں کو ان کے اعمال پر عار دلائی جائے گی ، وہ انکار کرے گا اور جھگڑے گا ۔اس سے کہا جائے گا: تیرے پڑوسی، گھر والے اور کنبے والے تیرے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ تو کہے گا :وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر اس کو خاموش کر دیا جائے گا اور اس کی زبان اس کے خلاف گواہی دے گی اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

(البدور السافرة في احوال الآخرة ،ص :331)

اسی طرح جب انسان کے اعضاء نیکی کی ہو تو وہ اس کے حق میں گواہ اور جواب دیں گے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم عورتوں پر تسبیح و تہلیل لازم ہے اور انگلیوں کے پوروں سے انہیں شمار کرو ۔کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور یہ جواب دیں گے ۔ (ترمذی)


جیسا کہ اللہ رب العزت اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

خلاصہ : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قیامت میں کفار اپنے کفر اور رسولوں علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔ تو اللہ تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تا کہ وہ بول نہ سکے، پھر ان کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے۔

حدیث شریف:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گے۔

یاد رہےکہ مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لیے نہ ہوگی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔

( ماخوذ صراط الجنان جلد:8،ص:274،273)

اے عاشقان رسول ہمیں پتا چلا کہ یہ اعضاء قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی دینگے ۔ یہ زندگی سفر کی مانند ہے جوں جوں منزل قریب آئے گا سفر پورا ہو جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ تعالی کا فرمان ہے: اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

آیت کا معنی:ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسول علیہم الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے تو اللہ تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تا کہ وہ بول نہ سکے، پھر ان کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

حدیث :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص1587، الحدیث: 16(2968))

یاد رہے: مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لیے نہ ہوگی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔

(صراط الجنان جلد:8،ص:274،273)


 اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں  کفار اپنے کفر اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں  گے اورکہیں  گے ،ہمیں  اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں  پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں  ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں  گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں  گے تاکہ انہیں  معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں  پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں  گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں  گے اور ا س کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں  ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں  تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں  پر ایمان لایا،میں  نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں  بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں  ۔وہ بندہ اپنے دل میں  سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں  سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں  ا س کے اعمال بیان کریں  گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔

( تفسیر صراط الجنان 8/274)


مخلوق کو قبروں سے نکالنے کے بعد ،میدان محشر کی جانب لایا جائے گا۔ سورج کی گرمی کی وجہ سے غم بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ خوف ،ذلت، رسوائی دامن گیر ہوگا اور اس کی طوالت  پچاس ہزار سال ہوگی اور اس حالت میں بغیر ترجمان بالمشافہ سوال ہوگا ۔معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں سوالات ہوں گے۔ بندہ اپنے رب سے ان پر گواہ طلب کرے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:

بندہ اپنے رب سے مخاطب ہوگاقیامت کے دن اور کہے گا :اے میرے رب کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ رب تعالی فرمائے گا :کیوں نہیں۔ بندہ عرض کرے گا:" میں تو اس وقت مانوں گا جب مجھ ہی میں سے کوئی گواہ ہو۔ تو وہ فرمائے گا: آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہو اور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی ۔ اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا ۔ بولو ،تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے ، پھر اسے اور(اس کے اعضاء کے)بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا۔تو(ان کی گواہی سن کر ) وہ کہے گا دورہوجاؤ،میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ) لڑا کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم حدیث 7439)

قرآن میں بھی قیامت کے دن اعضاء کی گواہی دینے کا ثبوت ہے۔ ارشاد ربانی ہیں :

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔(پ 23،سورہ یٰس 65)

تفسیر صراط الجنان میں ہے :آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

پارہ 24 سورہ حٰم السجدۃ آیت نمبر 21 اور 22 میں ہے: اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہم پر کیوں گواہی دی وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے تمہیں پہلی بار بنایا اور اُسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے۔ اور تم اس سے کہاں چھپ کر جاتے کہ تم پر گواہی دیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں

حدیث میں ہے کہ" اللہ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوگا اور فرمائے گا: کیا تجھے مجھ سے ملاقات کا یقین تھا؟ بندہ کہے گا: نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے ۔ وہ کہے گا ۔اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔

( مسلم، ص1213، الحدیث: 7438)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بروز قیامت تم اس حال میں آؤ گے تمہارے مونہوں پر مہر ہوگی اور آدمی کے اعضاء میں سے پہلے اس کی ران اور ہتھیلی کلام کرے گی۔( مسند احمد)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن جب اللہ انسانوں کے مونہوں پر مہر لگائے تو سب سے پہلے بائیں پاؤں کی ران گواہی دے گی۔

حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں میرے خیال میں(اس روز)انسان کے جسم کی دائیں ران کلام کرے گی۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کافروں کو ان کے اعمال پر عار دلائی جائے گی ، وہ انکار کرے گا اور جھگڑے گا ۔اس سے کہا جائے گا: تیرے پڑوسی، گھر والے اور کنبے والے تیرے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ تو کہے گا :وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر اس کو خاموش کر دیا جائے گا اور اس کی زبان اس کے خلاف گواہی دے گی اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم عورتوں پر تسبیح و تہلیل لازم ہے اور انگلیوں کے پوروں سے انہیں شمار کرو ۔کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور یہ جواب دیں گے۔ (ترمذی)

معزز قارئین قیامت کا ہولناک دن ،معمولی چیزوں کا حساب و کتاب اور نہ چھپنے کی جگہ اور نہ ہی جھٹلانے کی صورت۔ کیونکہ ہمارے اعضاء ہی ہمارے خلاف گواہی دیں گے،تو ہمیں اس دن میں سرخرو ہونے کے لیے تیاری شروع کر دینی چاہیے تاکہ کامیاب ہو جائیں۔