قیامت کا دن انتہائی سخت ہوگا، اس دن ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی، سختی کا عالم یہ ہوگا کہ مجرمین کے مونہوں پر مہر لگا دیا جائےگا، اور اعضا سے ان کے گناہوں پر گواہی لی جائے گی۔

چنانچہ اللہ رب العزت قرآن مجید، فرقان حمید میں فرماتا ہے : اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمہ کنزالعرفان :"آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے"۔(پ: 23، یٰس: 65)

اس آیتِ کریمہ کے تحت "تفسیر روح البیان" میں حضرت علامہ شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "منہ پر مہر لگا کر اعضا سے گواہی لینے میں اشارہ ہے کہ جو انسان کے گناہ میں معین و مددگار تھے اب وہ بھی دشمن ہوکر اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں تاکہ اسے معلوم ہوکہ سوائے ذاتِ خدا کے کوئی بھی حامی و یار نہیں۔

انسان پر لازم ہے کہ ماسوی اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو اور سوائے ذات خدا کے کسی کو اپنا دوست نہ بنائے تاکہ قیامت میں رسوائی نہ ہو"۔

(تفسیر روح البیان مترجم،ج12،پ23 ،ص103، رضوی کتاب گھر دہلی)

سب سے پہلے کون سا عضو گواہی دےگا:

اس کے تعلق سے متعدد روایات ہیں، بعض روایتوں کے مطابق سب سے پہلے زبان کو جبکہ بعض روایتوں کے مطابق سب سے پہلے بائیں ران کو قوت گویائی حاصل ہوگی ۔

چنانچہ "تفسیرِ نعیمی" میں ایک حدیث شریف کے حوالے سے منقول ہے کہ سب سے پہلے زبان کو زبان ملے گی پھر داہنی ران پھر ہتھیلی بولیں گی۔(تفسیر نعیمی، ج18،پ18)

جبکہ "تفسیرِ طبری" میں مذکورہ بالا آیت کریمہ (الیوم نختم الخ) کے تحت اس حدیث شریف کو بیان کیا گیا ہے : عن عقبة بن عامر، أنه سمع النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم يقول: " أوَّلُ شَيْءٍ يَتَكَلَّمُ مِنَ الإنْسانِ، يَوْمَ يَخْتِمُ اللهُ على الأفْوَاهِ، فَخِذُهُ مِنْ رِجْلِهِ اليُسْرَى "

حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ انسانی اعضا میں سے سب سے پہلے بائیں ران بولےگی جب انسان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی۔(تفسیر طبری، ج19 ،ص 474)

اعضا کا نیکیوں کے متعلق گواہی دینا:

قیامت کے دن جس طرح نافرمانوں کے اعضا ان کے گناہوں پر گواہی دیں گے اسی طرح فرماں برداروں اور عبادت گذاروں کے اعضا بھی ان کی نیکیوں پر گواہی پیش کریں گے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے : حضرت یسیرہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :کہ تم تسبیح و تہلیل اور تقدیس کو لازم کرلو اور (انگلیوں کے) پوروں سے ان کا شمار کیا کرو کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے کلام طلب کیا جائے گا اور تم (ان کو پڑھنے سے) غافل نہ ہونا اور اللہ کی رحمت کو بھول نہ جانا ۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث 3853)

مشہور مفسر قرآن ، حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" نمازی کے چہرے کی بشاشت، حسن، وجاہت، ظاہر کی رونق، باطن کی خوشیاں، یہ بھی زبان حال کی گواہیاں ہیں۔ ہر اچھے برے کام کی گواہی آنکھوں سے مل جاتی ہے۔ اسی طرح بروزِ قیامتِ کُبریٰ زبانوں سے تلاوت کی، جسموں سے عبادت کی، ہاتھوں سے اعمال نامے کی اور دنیا میں کتبِ آیات و روایات پکڑنے، کھولنے کی، پاؤں سے سجدہ وکعبہ محراب انوار، روضہ سرکار کی طرف چلنے کی گواہی ملتی ہے، یادِ نبی اور عشقِ الٰہی کہ گواہی عاشقِ صادق کے آنسوں سے ملتی ہے۔ لغزش گناہ سے توبہ کی گواہی، ندامت کے قطروں سے ملتی ہے۔ اچھے برے کانوں کی گواہی ان کی اچھی بری سماعت سے ملتی ہے۔ ذکر و وظائف، آیات کی تلاوت یہ اچھے کانوں کی گواہی ہے ۔ ( تفسیرِ نعیمی، ج18،پ 18 ۔ص 506)

ماحصل یہ کہ قیامت کے دن ہمارے اعضا، نیکیوں اور گناہوں پر گواہی دیں گے، لہٰذا ہمیں ان کو طاعات وعبادات پر لگائے رکھنا چاہئے تاکہ بروز قیامت ہمارے نیک اعمال پر گواہی پیش کریں ۔