اللہ
پاک نے انسان کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا،نیک اعمال پر جنت کا وعدہ
فرمایا،اور معصیت پر جہنم کی وعید سنائی،بروز قیامت ہر مجرم پر اتمام حجت کیلئے
تمام ثبوت و گواہ پیش کیے جائیں گے کراما کاتبین اور مجرم کے اپنے ہی اعضاء اس کے
خلاف گواہی دیں گے۔
قرآن
و حدیث میں کئی مقامات پر اعضاء کے گواہی دینے کا بیان موجود ہے۔ چنانچہ سورہ نور
آیت نمبر 24 میں فرمان الٰہی ہے:
یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ
بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)(پ:18،نور:24)
ترجمہ کنز العرفان:جس دن ان کے خلاف ان کی
زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان
کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
روح
المعانی میں ہے:’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی
قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ
ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18،
ص442)
اسی
طرح سورۃ یٰس آیت 65 میں ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ
تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)
ترجمہ
کنز العرفان: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام
کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
صراط
الجنان میں ہے : آج ہم ان کے مونہوں پر مہر
لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ
ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے
کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے
مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ
سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول
اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب
بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن
گئے۔
( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)
ایک
طویل حدیث پاک کا مضمون ہے کہ بندہ کہے گا ۔ اے میرے رب!کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟تو رب فرمائے گا ۔ کیوں
نہیں !تو بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی(کی گواہی) نہ
مانوں گا۔ تو وہ فرمائے گا: آج تم اپنے
خلاف بطور گواہ خود کافی ہو اور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر
مہرلگادی جائے گی ۔ اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا ۔ بولو ،تو وہ اس کے اعمال کے
بارے میں بتائیں گے ، پھر اسے اور(اس کے اعضاء کے)بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے
گا۔تو(ان کی گواہی سن کر ) وہ کہے گا دورہوجاؤ،میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ)
لڑا کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم، حدیث :7439)
ان
نصوص پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جن اعضاء سے رب کی نافرمانی کرتے رہے کل وہی ہمارے
خلاف بارگاہ الٰہی میں شکایت پیش کریں گے تب کیا بنے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں فکر آخرت
نصیب فرمائے ۔اٰمین
چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
سورۂ
نور میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :
یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ
وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)
ترجمۂ
کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں
جو کچھ کرتے تھے ۔(پ18،النور : 24)
حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ
الرحمۃ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ
اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں
بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے
گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)
نیز
درۃ الناصحین میں ہے ، ’’قیامت کے
دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا
جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں
؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے
پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی
گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم
نے (حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم
نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے (حرام) بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور
پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں !
میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ،
المجلس الخامس والستون ص294)
جہنم
بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار
سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ
ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس
میں کود پڑو، چنانچہ اور آیت میں ہے :
یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ
دَعًّاؕ(۱۳) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا
تُكَذِّبُوْنَ(۱۴) اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا
تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵) (پ:27، الطور: 13 - 15 )
ترجمہ
کنز العرفان :جس دن انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا ۔ یہ وہ آگ ہے جسے
تم جھٹلاتے تھے۔ تو کیا یہ جادو ہے یا تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔
قیامت
والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا
لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی
گواہی دینا شروع کر دیں گے۔
سیدنا
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ
یکایک مسکرائے اور اس قدر مسکرائے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ
جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ ہم نے عرض '' اللہ پاک اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں" فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا
کرے گا اس پر کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا؟ اللہ پاک
فرمائے گا ہاں، تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں
کروں گا۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں۔ اللہ پاک فرمائے گا
اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی۔ چنانچہ اسی وقت
زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی
دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لیے؟ وہ صاف کھول کر سچ سچ بات بتا دیں گے پھر اس
کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو
جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور
تمہارے ہی فائدے کے لیے حجت بازی کر رہا تھا۔(صحیح مسلم:2969)
نسائی
شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ
زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔
(نسائی فی السنن الکبرٰی:11479)
قیامت
کے متعلق ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے کہ بندے سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے؟ یہ
کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر
ایمان لایا تھا روزے ، نماز ، زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی
نیکیاں بیان کر جائے گا اس وقت اس سے کہا جائے گا، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں
یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی
جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے، اب ران اور ہڈیاں اور گوشت
بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے
گا۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے۔
چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لیے اس سے سختی سے بازپرس ہوئی۔
[صحیح مسلم:2968]
ایک
حدیث میں ہے منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی۔ سیدنا
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن کو بلا
کر اس کے گناہ اس کے سامنے کر کے فرمائے گا، کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ کہے گا ہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سرزد ہوئی
ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں، لیکن یہ گفتگو
اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق
میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا۔ اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول
کر ساری مخلوق کے سامنے جتا جتا کر رکھی جائیں گی ۔
اور
کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس
سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں
کھانے لگے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے(معاذ اللہ)
میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے، فرشتہ کہے گا کیا کہہ رہا ہے؟ کیا فلاں دن فلاں جگہ
تو نے فلاں کام نہیں کیا؟ یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز
نہیں کیا؟( معاذ اللہ) اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا، سب سے پہلے اس کی
دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی ۔
پھر
فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر
سکتے۔ اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے۔ ادھر
ادھر راستے ٹٹولتے۔ حق کو نہ دیکھ سکتے، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے اور اگر ہم
چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک
کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے
یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے،
آگے پیچھے نہ ہو سکتے ۔ (تفسیر ابن کثیر ملخصاً )
اللہ
پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ گناہوں سے بچائے تاکہ بروز قیامت ہمارے اعضاء نیک اعمال کی گواہی
دیں سکیں ۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم
قیامت کے دن کان اور آنکھ اور دل اعمال کی گواہی دیں
گے:
ہمارے جسم کے اعضاء مثلاً آنکھ ، کان ، زبان ، دل اور
پاؤں وغیرہ، جو آج ہر اچھے اور برے کام میں ہمارے معاون ہیں ، کسی بھی نیکی کے
کام پر حوصلہ افزائی یا گناہ کے ارتکاب پرملامت کرنے کی بجائے بالکل خاموش رہتے
ہوئے ہمیں اپنے تأثرات سے مکمل طور پر’’ محروم‘‘رکھتے ہیں ۔ لیکن بروزِ قیامت یہی
اعضاء ہمارے اعمال پرگواہ ہوں گے کہ ہم انہیں کن کاموں میں استعمال کرتے رہے ہیں ،
جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے : اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمہ کنز لایمان : بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے
سوال ہونا ہے۔‘‘(پ:15،بنی اسرائیل : 36)
قیامت
کے دن زبانیں ، ہاٹھ اور پاؤں اعمال کی گواہی دیں گے:
قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان
کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے
مونہوں پر مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے بعد
مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔
( خازن، النور،
تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)
چنانچہ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے: یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ
اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)ترجمہ کنز
الایمان: جس دن ان پر گواہی دیں گی اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور ان کے پاؤں
جو کچھ کرتے تھے۔(پ:18،نور:24)
قیامت کے دن گواہی کون
دیگا:
’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا
اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض
کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں
بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم
نے(حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم
نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے(حرام)بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور
پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں !
میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ،
المجلس الخامس والستون ، ص294)
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں،ان کے ہاتھ اور ان
کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ:18،النور : 24)
حضرت علامہ
سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ
اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی
قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ
ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)
جسم کے وہ اعضا بھی گواہی دیں گے جن سے وہ عمل کیا گیا۔
سب سے پہلے وہ نامۂ اعمال جس میں ہر وقت انسان کے ساتھ لگے
ہوئے کرامًاکاتبین اس کے ایک ایک عمل کا کھاتا مرتب کر رہے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ
فرماتا ہے کہ تمہارے اوپر انتہائی معتبر اور عزت دار کاتب مقرر ہیں۔ جو لمحہ لمحہ
تمہاری حرکات و سکنات سپردِ قلم کر رہے ہیں (الانفطار: 11-12) پھر قیامت والے دن
یہ نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا
اعمال نامہ۔ تو خود ہی اپنا حساب کرنے کے لیے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل: 14) جسے پڑھ
کر انسان حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ایسی نہیں جو اس میں ٹھیک
ٹھیک درج نہ ہو۔ (الکہف: 49)
اس نامۂ اعمال کے مطالعے کے بعد اگر انسان اپنی صفائی میں
کچھ کہنا چاہے کہ فلاں کام میں نے نہیں کیا۔ یا فلاں جگہ میں نہیں گیا۔ یا اس
خوبرو کو میں نے نہیں دیکھا یا فلاں کاروائی میں نے نہیں کی تو علی الترتیب اس کے
ہاتھ پاؤں، آنکھیں، زبان غرض کہ جسم کا ہر حصہ اِس بات کی شہادت دے گا کہ نامۂ
اعمال کا ہر لفظ درست ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے
وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے۔ اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا
کیا کام کیے۔ (النور 24) اس کی آنکھیں شہادت دیں گی۔ اس کے کان گواہی دیں گے کہ
ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی کہ
وہ کس نے ساتھ مس ہوئی۔ وہ حیران ہو کر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف
گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضاء جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی
ہے اس کے حکم سے ہم بھی بول رہے ہیں۔ (حٰم سجدہ: 20-22 ) مزید برآں یہ کہ جب زمین
سے دریافت کیا جائے گا تو زمین اس بات کی گواہی دے گی کہ نامۂ اعمال میں تحریر
شدہ فلاں عمل اس شخص نے میرے اوپر فلاں فلاں جگہ کیا اور انسان خود دیکھ لے گا کہ
اس کے دل میں جو خیالات، ارادے، مقاصد، وسوسے چھپے ہوئے تھے اور جن کے ساتھ اس نے
اعمال کیے وہ سب نکال کر زمین نے سامنے رکھ دیے۔ ان تمام قطعی اور ناقابل تردید
شواہد فراہم ہونے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے پاس بولنے کے لیے
کوئی موقع نہیں ہوگا۔
درۃ الناصحین میں ہے :
’’قیامت کے
دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا
جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل
ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ
بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے
گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے
گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم نے (حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں
گی، ’’ہاں !ہم نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے (حرام) بولاتھا۔‘‘اسی
طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی
، ’’ہاں ! میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا
۔(ملخَّصًا ، المجلس الخامس والستون ، ص294)
اللہ تعالی نے انسان کو افضل مخلوق بنایا اسے قالب انسانی
(سانچہ ) میں ڈھلتے ہوئے مختلف اعضاء عطا کر کے اختیار دیا کہ ان کا استعمال کرے پھر
اسکے کانوں کو اس پیغام نے بھی کھٹکھٹایا کہ
"البر لا يبلى، والذنب لا يُنسى، والديان لا يموت، ابن آدم اصنع ما شئت
فكما تدين تدان" رواه عبد الرزاق والبيهقي ، ترجمہ !؟نیکی پارینہ (پرانی) نہ ہوگی اور گناہ
بھلایا نہ جائے گا اور حساب لینے والے کو موت نہیں آئے گی (ہمیشہ زندہ رہے گا ) ۔ اے ابن آدم کر لے جو کرنا ہے سو جو کرے گا وہ
بھرے گا ۔
اس زندگی کے سفر
میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جہاں شریعت مطہرہ نےحذر (خبردار) کے سائن بورڈز
لگائےخبردار زبان کا غلط استعمال نہ کرنا آنکھ کا غلط استعمال نہ کرنا دل کو امراض
باطنیہ سے پاک رکھنا ہاتھ کو حرام میں استعمال نہ کرنا تمہارے پاؤں ناجائز کام کی
طرف نہ اٹھیں مگر مجال ہے یہ حضرت انسان اصلاح کی طرف آئے اپنی موج مستیوں میں ہر
موڑ کو بغیر نصیحت قبول کیےبجلی کی طرح تہہ کرتا جارہا ہے عجب بات ہے کہ یہاں اگر
کوئی ہمارا عیب کسی پہ ظاہر کردے تو
انتہاء درجے کا برا لگتا ہے اسے منہ لگانا پسند نہیں کیا جاتا یا مقدمہ چل رہا ہو
اور گواہ سر پہ کھڑا ہوتو جان چھڑانا انتہائی مشکل امر ہے جبکہ اللہ تعالٰی نے
پیشگی اطلاع دے دی کہ
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے
بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(پ:15،سورہ بنی
اسرائیل: 36)
مگر!! ہم تو
بھولے بیٹھے ہیں کہ کل کو ان اعضاء سے سوال ہونا ہے یہ ہاتھ اگر ناجائز کام میں
استعمال ہوا تو بتائے گا اس کان سے اگر حرام سنا تو بلاٹوک اور نڈر ہوکہ بتائے گا
چلیں مان لیتے ہیں کے دنیاوی عدالت میں غدر(دھوکے) سےہم نکل گئے کل روز قیامت غدر
کیسےچلے گا جب خود کرنے والا ہی گواہی دے گا بغیر اٹکے فر فر بولے گا جب کسی پر
ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا جب انصاف کو صحیح عزت ملے گی ۔
محترم
قارئین ! ہمیں پتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ جڑے ساتھیوں نے بے
وفائی کرنی ہے روز قیامت اپنا ہر ہر استعمال بتاناہے جنہوں نے کل قیامت کو ہمارا
ہی پردہ چاک کرنا ہے ،افسوس صد کروڑ افسوس!! ہمیں دنیاوی مخبروں کی فکر تو ہے مگر
اپنے ساتھ لگے مخبروں جو اس قدر خطرناک ہیں کہ فنا ہوجانے کے بعد بھی دوبارہ زندہ
کیے جائیں گے کی کوئی خبر نہیں ۔
رب تعالیٰ قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے :
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ
وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَكْسِبُوْنَ(۶۵) آج ہم ان
کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان
کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے :آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو
اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے
گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر
اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے
صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ
انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو
گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف
ہی گواہ بن گئے۔
( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)
اس دن کوئی دروغ
گوئی (جھوٹ) نہ چلے گا سب کچھ روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا اس دن انسان کی
اپنی ذات ہی اسکے خلاف حجت ہوگی اس دن سب تنہائیاں فشاں (ظاہر) ہونگی آنکھوں کی بد
نگاہی واضح ہوگی موبائل کا غلط استعمال واضح ہوگا الغرض ہر برا استعمال جو ان
اعضاء بدنیہ سے ہوا کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا ۔
اسی وجہ سے صاحب
لولاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی
کا ہاتھ پکڑ کر یہ دعا سکھائی :
اللَّهمَّ إنِّي أعوذُ بِكَ مِن
شرِّ سمعي، ومِن شرِّ بصَري، ومِن شرِّ لِساني، ومِن شرِّ قلبي، ومن شرِّ مَنيِّي
يَعني فرجَهُ
اے اللہ میں تجھ
سے کان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اپنی آنکھ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اپنی
زباں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اپنے دل کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور شرمگاہ کے شر
سے پناہ مانگتا ہوں ۔( اخرجہ ابو داود
(1551)، والترمذي (3492)، والنسائي (5444)
سو عقلمند وہی
ہے جو ان اعضاء کا کما حقہ استعمال کرے شیطانی بہکاوے میں نہ آئے نفس کی ریشہ
دوانیوں (شرارت ) سے بچے وگرنہ ساری خلق خدا کے سامنے رسوائی کا باعث ہوگا ۔
یہ ہاتھ یہ پاؤں یہ دل بھی تمہارا
سب چھ یہ بتائیں گے نہ بے خبر رہ
عطار ہو یا رومی ہو غزالی سب نے
اچھا ہی کیا استعمال نہ بے خبر رہ
قیامت میں سب سے پہلا سوال بدن کے کس حصے سے
ہوگا ؟ ؟
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن جب اللہ انسانوں کے مونہوں
پر مہر لگائے تو سب سے پہلے بائیں پاؤں کی ران گواہی دے گی ۔( تفسیر طبری تحت
الآیہ الیوم نختم )
اللہ تعالی ہمیں اپنی رضا میں اپنے اعضاء کو استعمال کرنے
کی توفیق عطا فرمائے اے کاش ہماری آنکھیں عشق مصطفیٰ میں بہیں ہمارے اذہان مدینہ
پاک کی سیر کرتے رہیں ہاتھوں سے کتاب الہی اور احادیث مبارکہ کو پکڑتے رہیں زبان
خاموش رکھ کر اسرار الہی میں مگن رہیں۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی
اللہ علیہ وسلم
آیت مبارکہ:
اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا
تَسْعٰى(۱۵)
ترجمہ:بیشک قیامت آنے والی ہے ۔ قریب ہے کہ میں اسے
چھپارکھوں تاکہ ہر جان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے۔(پ:16،طہ آیت15)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت لازمی طور پر آنے
والی ہے اور قریب تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے
سب سے چھپا کر رکھتا لیکن اس کے برعکس انہیں قیامت آنے کی خبر دی گئی ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو
جائے کہ ہر جان کو اس کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیاجائے گا۔
احادیث میں قیامت کی کئی علامات بیان کی گئی ہیں ان میں سے
کچھ علامات موجودہ دور میں بھی پائی جاتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔جہالت
کی کثرت:عن أنس رضي اللہ عنہ قال: سمعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إنّ من أشراط الساعۃ أن یرفع العلم ویکثر الجھل(بخاری،5231)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کی نشانیاں میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے
گا اور جہالت کی کثرت ہوگی۔
یہ علامت ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ علم دین کی کمی
ہے اور جہالت کی کثرت ہے جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے علماء ربانی اٹھتے جا رہے
ہیں اور دین سے دوری بڑھ رہی ہے۔
2۔مالک
کو جنم دینا:حدیث جبریل کے ایک حصے میں فرمایا گیا ان تلد الامة ربتها
ترجمہ؛لونڈی اپنے مالک کو جنے گی۔
علمائے کرام نے اس فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی
مختلف وضاحتیں بیان کی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے ماحول کے مطابق جو وضاحت ہے وہ یہ ہے
کہ لوگ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ لونڈیوں جیسا سلوک کریں گے۔آج اگر ہم اپنے اردگرد
نظر دوڑائیں تو یہ قیامت کی علامت پوری
ہوتی نظرآئے گی کہ ہمارے معاشرےمیں ایک تعداد ہے جو والدین بالخصوص ماں کے ساتھ
بہت بُرا سلوک کرتی ہے۔
3۔نمازوں کو قضا
کرنا:نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نےقیامت کی ایک
نشانی یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ لوگ
نمازیں قضا کریں گے۔
(التذکرة باحوال
الموتی وامورالاخرة، ص597)
آج یہ علامت قیامت بھی پائی جاتی ہے کہ ہمارے مُعاشرے میں
صرف سُستی اور کاہلی کی وجہ سے آئے دِن نمازیں قضا کردی جاتی ہیں ۔ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو نمازیں قضا کر
دیتی ہے اور انہیں اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی۔
4۔قطع رحمی:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُربِِ قِیامَت کی علامات میں سے ایک یہ علامت بیان فرمائی کہ لوگ قطع رحمی
کریں گے۔(حلیۃ الاولیاء، 3/410،رقم :4448)
آج گھروں اور خاندانوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے
ہوتے ہیں اور پھریہی جھگڑے بڑھ کر قطعِ رحمی کی صُورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اور
خاندان کے افراد کئی کئی سالوں تک ایک دوسرے کا منہ بھی نہیں دیکھتے۔
5۔کثرت گناہ:ایک حدیث میں ایک علامت قیامت یہ بیان فرمائی گئی کہ گناہوں
کی کثرت ہوگی۔(حلیۃ الاولیاء، 3/410،رقم :4448)
آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ کون سا گناہ ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں
پایا جارہا۔تنہائی ہو یا محفل، گھر ہو یا بازار، شہر میں ہوں یا گاؤں میں ہر جگہ گناہوں کی بھرمار ہے۔
ہمارے اَعضاء جن سے ہم گناہ کرتے ہیں ،یہ بھی ہمارے اَعضاء
جن سے ہم گناہ کرتے ہیں ،یہ بھی ہمارے اَعمال پر گواہ ہیں اور قیامت کے دن یہ وہ سب اعمال بیان کر
دیں گے جو ان سے کئے گئے ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)
اور ارشاد فرمایا:یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ
اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان
کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔(پ 18،نور:24)
تفسیر صراط الجنان
: یَّوْمَ
تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ: جس دن ان کے خلاف گواہی
دیں گے۔]ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان
کے خلاف ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں پر
مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے
بعد مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔
( خازن، النور،
تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جب مشرکین
دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازیوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ
ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے۔ اسی وقت ان کے منہ پر
مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ
سکیں گے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب
ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان
کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے
ہیں۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے
کے لوگ موجود ہیں۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں
کھاؤ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں
ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔
[تفسیر ابن جریر
الطبری:25888:ضعیف]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے،
جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ
کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس
آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ
گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ
رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں
گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو
میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ [صحیح مسلم:2969]
حضرت قتادہ رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے تھے ”اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے،
تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور
ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی
کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت
میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے
کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ
صفت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں «يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ
کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے “۔ ہمارے اَعمال پر
گواہ ہیں اور قیامت کے دن یہ وہ سب اعمال
بیان کر دیں گے جو ان سے کئے گئے ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے
بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(پ:15،سورہ بنی
اسرائیل: 36)
اور
ارشاد فرمایا: یَّوْمَ تَشْهَدُ
عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۲۴)(پ:18،نور:24)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے
پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
تفسیر صراط الجنان
:{ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ: جس دن ان کے خلاف گواہی دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے خلاف
ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں پر
مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے
بعد مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔
( خازن، النور،
تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جب مشرکین
دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازیوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ
ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے۔ اسی وقت ان کے منہ پر
مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ
سکیں گے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب
ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان
کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے
ہیں۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے
کے لوگ موجود ہیں۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں
کھاؤ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں
ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔
[تفسیر ابن جریر الطبری:25888:ضعیف]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے،
جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ
کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس
آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ
گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ
رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں
گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو
میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔
[صحیح مسلم:2969]
قتادہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے تھے ”اے ابن آدم تو
خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا
خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ
نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔
اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔“
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے
کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمۃُ اللہِ
علیہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ صفت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں
«يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ
الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے
پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل
والا ہے ظلم سے دور ہے ۔
چونکہ انسان کے اعضاء اس کے تابع(پیروی کرنے والا) ہوتے ہیں
اس لیے وہ انہیں جس کام میں بھی استعمال کرے یہ اچھے کام پر بغیر حوصلہ افضائی کیے
اور برے کام پر بغیر ملامت کیے اس کی پیروی کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن انسان ناتواں
کو وہ دن یاد کرنا چاہیے جس دن اللہ تعالی انہی اعضاء کو قوت گویائی عطا فرمائے گا
اور انہی اعضاء کو انسان کے دنیا میں کیے ہوئے تمام افعال پر گواہ بنائے گا اور
انہی اعضاء سے انسان کے سابقہ تمام اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔
اللّٰه تعالی کا ارشاد عبرت نشان ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان::
بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)
اس آیت کے تحت امام ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:" لِمَا کَانَتْ مَسْؤُلَةً عَنْ
اَحْوَالِھَا شَاھِدَۃً عَلَی صَاحِبِھَا کہ جب ان اعضاء سے ان کی حالتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو وہ انسان پر
گواہی دیں گے" (تفسیر بیضاوی، جلد 03، صفحہ نمبر: 445)
پھر اعضاء کی گواہی بھی دو طریقے کی ہوگی:
(1) بعض اعضاء تو اس بات کی گواہی دیں گے کہ انسان نے ہم سے
فلاں فلاں اچھا کام کیا، آنکھ بولے گی مجھ سے اس نے قرآن کریم کی آیات کریمہ کو
دیکھا وغیرہ ۔
(2) بعض اعضاء وہ ہونگے جو اس بات کی گواہی دیں کہ انسان نے
ہم سے فلاں فلاں گناہ کا کام کیا، کان بولیں گے کہ اس نے ہم سے گانے سنے وغیرہ۔
اس حوالے سے ایک حکایت سنئیے اور عبرت حاصل کیجئے، چناچہ:
ایک شخص کو بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اسکا اعمال نامہ دیا جائے گا
تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا. وہ عرض کرے گا: "یا الٰہی عزوجل! میں نے تو
یہ گناہ کیے ہی نہیں؟" اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا:"میرے پاس اس کے
مضبوط گواہ ہیں۔" وہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود
نہ پائے گا اور کہی گا:"یا رب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں؟" تو اللہ تعالی
اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ کان کہیں گے،" ہاں! ہم نے(حرام) سنا
اور ہم اس پر گواہ ہیں۔ " آنکھیں کہیں گی،"ہاں! ہم نے (حرام)
دیکھا" اسی طرح دیگر اعضاء بھی گواہی دیں گے اور وہ بندہ یہ سب سن کر حیران
رہ جائے گا۔ (رسالہ فکر مدینہ، صفحہ نمبر: 18-19 ،ملخصاً)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:" جس آنکھ سے اللہ کی آیات نہ دیکھی جائیں، وہ اندھی ہیں۔ جن کانوں سے رب
کا کلام نہ سنا جائے وہ بہرے ہیں۔ جس زبان سے حمدِ الٰہی، نعتِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم ادا نہ ہو وہ گونگی ہے۔ کیونکہ ان اعضاء نے اپنا حق پیدائش ادا نہ
کیا۔(تفسیر نور العرفان، سور بقرہ تحت الآیت 18 صفحہ نمبر: 5،مطبوعہ: پیر بھائی
کمپنی لاہور)
نصر اللہ (درجہ سابعہ الف ،جامعۃالمدینہ فیضان مہر علی
شاہ ،اسلام آباد)
قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے قرآن پاک
کی روشنی میں:
حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ
عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۲۰)ترجَمۂ
کنزُالایمان:یہاں تک کہ پچھلے آملیں یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی
آنکھیں اور اُن کے چمڑے سب اُن پر ان کے کئے کی گواہی دیں گے ۔
(پ 24،سجدہ :20)
تفسیر
: یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گےکہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ
تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کےاعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ
فلاں فلاں کامکرتے رہے۔
وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ
شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَاؕ-قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْطَقَ كُلَّ
شَیْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۱) (پ
24،سجدہ :21)
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہم پر کیوں گواہی
دی وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے تمہیں
پہلی بار بنایا اور اُسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے۔
یعنی
جب مشرکین اور کفار دیکھیں گےکہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں،
تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔بعض کے نزدیک وَّ هُوَ سے اللہ کا
کلام مرادہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کےنزدیک جلود انسانی ہی کا۔ اس
اعتبار سے یہ انہی کےکلام کا تمہ ہے قیامت والے دن انسانی اعضاء کےگواہی دینے کا
ذکر اس سے قبل (وَ لِلّٰهِ مُلْكُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(۴۲)) (پ
18 ، النور : 42)(اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ
تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵))(
پ 23،یٰس 65) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث
میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلا جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا ءبول کر بتلائیں
گےتو بندہ کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل(
صحیح مسلم، کتاب الزہد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ
رہا اورمدافعت کر رہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں
اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں کا اللہ تعالی فرمائے گاکیا میں اور میرے
فرشتے کراما کاتبین گواہی کےلیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جاۓگی
اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا۔( حوالہ مذکورہ)
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ
بَصِیْرَةٌۙ(۱۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان:بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے۔(پ:29،القیامۃ :14)
تفسیر
:یعنی اس کے اپنے ہاتھ ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے
کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔
قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے حدیث کی
روشنی میں:
ابوبکر
بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم بن قاسم، عبیداللہ، سفیان ثوری، عبیدالمکتب،
فضیل، شعبی، حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے
روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے
ہو کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض
کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا :میں
بندے کی اس بات سے ہنسا ہوں کہ جو وہ اپنے رب سے کرے گا وہ بندہ عرض کرے گا اے
پروردگار کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :اللہ فرمائے گا ہاں آپ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر بندہ عرض کرے گا میں اپنے اوپر اپنی ذات کے
علاوہ کسی کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
پھر اللہ فرمائے گا کہ آج کے دن تیرے اوپر تیری ہی ذات کی گواہی اور کراما کا تبین
کی گواہی کفایت کر جائے گی آپ نے فرمایا پھر اس بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی
اور اس کے دیگر اعضاء کو کہا جائے گا کہ بولیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
فرمایا اس کے اعضاء اس کے سارے اعمال بیان کریں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا پھر بندہ اپنے اعضاء سے کہے گا دور ہوجاؤ چلو دور ہوجاؤ میں تمہاری طرف
سے ہی تو جھگڑا کررہا تھا۔ (صحیح
مسلم، جلد 3، حدیث: 2938)
محمد اسماعیل عطاری ( درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
بخاری ، موسیٰ لین لیاری کراچی)
ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین! اللہ پاک قرآن پاک میں
فرماتا ہے:
ترجمۂ کنز العرفان
:آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان
کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔(پ 23،یٰس 65)
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی
یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور
رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے
مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ
سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول
اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب
بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن
گئے۔
( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)
قیامت کے دن انسان کی
اپنی ذات اس کے خلاف گواہ ہو گی:
معلوم
ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے
خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال
بیان کر دیں گے اور اس کی ایک حکمت یہ ہے
کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ بندہ
اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان
کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س سے کہا جائے
گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا
:میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،
اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے
گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا
جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر
اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔
( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص1587، الحدیث: 16(2968))
یاد رہے
کہ مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ
کے لئے نہ ہو گی بلکہ اعضا کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ
میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔
فطرتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ اگر اُس کا کوئی قریبی شخص یا
اس کا تعلق دار اس کے خلاف گواہی دے تو اس پر اعتراض کرنا، اس کے خلاف بولنا یا
ناراضی مول لینا عام ہے، انسان دنیا میں تو اس کے خلاف اقدام کرسکتا ہےلیکن بروزِ
قیامت اس کے پاس کوئی جواز نہ ہوگا خصوصاً جب اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے
اور اس کے منہ پر مہر کردی جائے گی، اس مضمون کو قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے کچھ
اس طرح بیان فرمایا ہے:﴿ اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ
تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: آج ہم ان کے مونھوں پر مُہر کردیں
گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے۔(پ23،یٰسٓ:65)
اس آیت کے تحت صدرُ الافاضل حضرت سید مفتی محمد نعیم الدین
مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: یہ مُہر کرنا ان کے یہ
کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا نیز ان کے اعضاء
بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے ۔
تفسیرِ خازن میں ہے کہ کفار اپنے کفر اور رسولوں کو جھٹلانے
کا انکار کریں گے اورکہیں گے کہ ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ
تھے،تو اللہ پاک ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں، پھران کے دیگر
اَعضاء بول اٹھیں گے۔
(خازن،یٰسٓ، تحت
الاٰیۃ:65، 4/10)
شیخُ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطّاری مُدَّ ظِلُّہُ
العالی لکھتے ہیں کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت
کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں گے، اس کی ایک
حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں
تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا
اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا“ پھر ا س سے کہا جائے گا: ہم ابھی تیرے خلاف
اپنے گواہ بھیجتے ہیں۔ وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا: میرے خلاف کون گواہی دے
گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں
سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں ا س کے
اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو
اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔(مسلم،ص1214،حدیث:7438،
صراط الجنان،8/274)
اے عاشقانِ رسول! ہمیں چاہئے کہ اپنے اعضاء کو گناہوں سے
بچاکر نیکیوں میں لگائیں، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے: تسبیح، تہلیل اورتَقْدیس کو خودپر لازم کر لو اس سے کبھی غفلت نہ
برتنا اور اُنگلیوں پر شمار کیا کرو کیونکہ انہیں بولنے کی قوت عطا کی جائے گی۔ یعنی
وہ بروزِ قیامت گواہی دیں گی۔(ابو داؤد،2/115،حدیث:1501)
(نوٹ: تسبیح یعنی سُبْحٰنَ اللّٰہ، تہلیل یعنی
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اور تقدیس یعنی سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَّ بُّنَا
وَرَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْح یا سُبْحٰنَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس)
اللہ کریم ہمیں اپنے اعضاء کو گناہوں سے باز رکھنے کی توفیق
عطا فرمائے۔امین