سورۂ نور میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)

ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ18،النور : 24)

حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمۃ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)

نیز درۃ الناصحین میں ہے ، ’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم نے (حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے (حرام) بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں ! میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ، المجلس الخامس والستون ص294)

جہنم بھڑکتی ہوئی اور شعلے مارتی ہوئی چیختی ہوئی اور چلاتی ہوئی سامنے ہو گی اور کفار سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے جس سے وہ ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو اٹھو اس میں کود پڑو، چنانچہ اور آیت میں ہے :

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّاؕ(۱۳) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ(۱۴) اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵) (پ:27، الطور: 13 - 15 )

ترجمہ کنز العرفان :جس دن انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا ۔ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔ تو کیا یہ جادو ہے یا تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے بدن کے اعضاء سچی سچی گواہی دینا شروع کر دیں گے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ یکایک مسکرائے اور اس قدر مسکرائے کہ مسوڑھے کھل گئے پھر ہم سے دریافت کرنے لگے کہ جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ ہم نے عرض '' اللہ پاک اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں" فرمایا بندہ جو اپنے رب سے قیامت کے دن جھگڑا کرے گا اس پر کہے گا کہ باری تعالیٰ کیا تو نے مجھے ظلم سے بچایا نہ تھا؟ اللہ پاک فرمائے گا ہاں، تو یہ کہے گا بس پھر میں کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا۔ بس میرا اپنا بدن تو میرا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں۔ اللہ پاک فرمائے گا اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ سہی اور میرے بزرگ فرشتے گواہ سہی۔ چنانچہ اسی وقت زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضائے بدن سے فرمایا جائے گا بولو تم خود گواہی دو کہ تم سے اس نے کیا کیا کام لیے؟ وہ صاف کھول کر سچ سچ بات بتا دیں گے پھر اس کی زبان کھول دی جائے گی تو یہ اپنے بدن کے جوڑوں سے کہے گا تمہارا ستیاناس ہو جائے تم ہی میرے دشمن بن بیٹھے میں تو تمہارے ہی بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا اور تمہارے ہی فائدے کے لیے حجت بازی کر رہا تھا۔(صحیح مسلم:2969)

نسائی شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔

(نسائی فی السنن الکبرٰی:11479)

قیامت کے متعلق ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے کہ بندے سے کہا جائے گا کہ تو کیا ہے؟ یہ کہے گا تیرا بندہ ہوں تجھ پر تیری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیری کتاب پر ایمان لایا تھا روزے ، نماز ، زکوٰۃ وغیرہ کا پابند تھا اور بھی بہت سی اپنی نیکیاں بیان کر جائے گا اس وقت اس سے کہا جائے گا، اچھا ٹھہر جا ہم گواہ لاتے ہیں یہ سوچتا ہی ہو گا کہ گواہی میں کون پیش کیا جائے گا؟ یکایک اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ تو گواہی دے، اب ران اور ہڈیاں اور گوشت بول پڑے گا اور اس منافق کے سارے نفاق کو اور تمام پوشیدہ اعمال کو کھول کر رکھ دے گا۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ پھر اس کی حجت باقی نہ رہے اور اس کا عذر ٹوٹ جائے۔ چونکہ رب اس پر ناراض تھا اس لیے اس سے سختی سے بازپرس ہوئی۔

[صحیح مسلم:2968] ‏‏‏‏

ایک حدیث میں ہے منہ پر مہر لگنے کے بعد سب سے پہلے انسان کی بائیں ران بولے گی۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن کو بلا کر اس کے گناہ اس کے سامنے کر کے فرمائے گا، کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ کہے گا ہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب درست ہے بیشک مجھ سے یہ خطائیں سرزد ہوئی ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرمائے گا اچھا ہم نے سب بخش دیں، لیکن یہ گفتگو اس طرح ہو گی کہ کسی ایک کو بھی اس کا مطلق علم نہ ہو گا اس کا ایک گناہ بھی مخلوق میں سے کسی پر ظاہر نہ ہو گا۔ اب اس کی نیکیاں لائی جائیں گی اور انہیں کھول کھول کر ساری مخلوق کے سامنے جتا جتا کر رکھی جائیں گی ۔

اور کافر و منافق کو بلایا جائے گا اس کے بد اعمال اس کے سامنے رکھے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہو یہ ٹھیک ہے؟ یہ صاف انکار کر جائے گا اور کڑکڑاتی ہوئی قسمیں کھانے لگے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ تیرے ان فرشتوں نے جھوٹی تحریر لکھی ہے(معاذ اللہ) میں نے ہرگز یہ گناہ نہیں کئے، فرشتہ کہے گا کیا کہہ رہا ہے؟ کیا فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں کام نہیں کیا؟ یہ کہے گا اللہ تیری عزت کی قسم محض جھوٹ ہے میں نے ہرگز نہیں کیا؟( معاذ اللہ) اب اللہ تعالیٰ اس کی زبان بندی کر دے گا، سب سے پہلے اس کی دائیں ران اس کے خلاف شہادت دے گی ۔

پھر فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو انہیں گمراہ کر دیتے اور پھر یہ کبھی ہدایت نہ حاصل کر سکتے۔ اگر ہم چاہتے ان کی آنکھیں اندھی کر دیتے تو یہ یونہی بھٹکتے پھرتے۔ ادھر ادھر راستے ٹٹولتے۔ حق کو نہ دیکھ سکتے، نہ صحیح راستے پر پہنچ سکتے اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کے مکانوں میں ہی مسخ کر دیتے ان کی صورتیں بدل دیتے انہیں ہلاک کر دیتے انہیں پتھر کے بنا دیتے، ان کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ پھر تو نہ وہ چل سکتے یعنی آگے کو نہ وہ لوٹ سکتے یعنی پیچھے کو بلکہ بت کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے، آگے پیچھے نہ ہو سکتے ۔ (تفسیر ابن کثیر ملخصاً )

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ گناہوں سے بچائے تاکہ بروز قیامت ہمارے اعضاء نیک اعمال کی گواہی دیں سکیں ۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم