فطرتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ اگر اُس کا کوئی قریبی شخص یا
اس کا تعلق دار اس کے خلاف گواہی دے تو اس پر اعتراض کرنا، اس کے خلاف بولنا یا
ناراضی مول لینا عام ہے، انسان دنیا میں تو اس کے خلاف اقدام کرسکتا ہےلیکن بروزِ
قیامت اس کے پاس کوئی جواز نہ ہوگا خصوصاً جب اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے
اور اس کے منہ پر مہر کردی جائے گی، اس مضمون کو قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے کچھ
اس طرح بیان فرمایا ہے:﴿ اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ
تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: آج ہم ان کے مونھوں پر مُہر کردیں
گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے۔(پ23،یٰسٓ:65)
اس آیت کے تحت صدرُ الافاضل حضرت سید مفتی محمد نعیم الدین
مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: یہ مُہر کرنا ان کے یہ
کہنے کے سبب ہو گا کہ ہم مشرک نہ تھے نہ ہم نے رسولوں کو جھٹلایا نیز ان کے اعضاء
بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے ۔
تفسیرِ خازن میں ہے کہ کفار اپنے کفر اور رسولوں کو جھٹلانے
کا انکار کریں گے اورکہیں گے کہ ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ
تھے،تو اللہ پاک ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں، پھران کے دیگر
اَعضاء بول اٹھیں گے۔
(خازن،یٰسٓ، تحت
الاٰیۃ:65، 4/10)
شیخُ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطّاری مُدَّ ظِلُّہُ
العالی لکھتے ہیں کہ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا ہے وہی اَعضاء قیامت
کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں گے، اس کی ایک
حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہو، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا: اے میرے رب!میں
تجھ پر،تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا
اور صدقہ دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا“ پھر ا س سے کہا جائے گا: ہم ابھی تیرے خلاف
اپنے گواہ بھیجتے ہیں۔ وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا: میرے خلاف کون گواہی دے
گا؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران،اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں
سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران،اس کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں ا س کے
اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حجت ہو
اور یہ بندہ وہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔(مسلم،ص1214،حدیث:7438،
صراط الجنان،8/274)
اے عاشقانِ رسول! ہمیں چاہئے کہ اپنے اعضاء کو گناہوں سے
بچاکر نیکیوں میں لگائیں، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے: تسبیح، تہلیل اورتَقْدیس کو خودپر لازم کر لو اس سے کبھی غفلت نہ
برتنا اور اُنگلیوں پر شمار کیا کرو کیونکہ انہیں بولنے کی قوت عطا کی جائے گی۔ یعنی
وہ بروزِ قیامت گواہی دیں گی۔(ابو داؤد،2/115،حدیث:1501)
(نوٹ: تسبیح یعنی سُبْحٰنَ اللّٰہ، تہلیل یعنی
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اور تقدیس یعنی سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَّ بُّنَا
وَرَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْح یا سُبْحٰنَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس)
اللہ کریم ہمیں اپنے اعضاء کو گناہوں سے باز رکھنے کی توفیق
عطا فرمائے۔امین