چونکہ انسان کے اعضاء اس کے تابع(پیروی کرنے والا) ہوتے ہیں
اس لیے وہ انہیں جس کام میں بھی استعمال کرے یہ اچھے کام پر بغیر حوصلہ افضائی کیے
اور برے کام پر بغیر ملامت کیے اس کی پیروی کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن انسان ناتواں
کو وہ دن یاد کرنا چاہیے جس دن اللہ تعالی انہی اعضاء کو قوت گویائی عطا فرمائے گا
اور انہی اعضاء کو انسان کے دنیا میں کیے ہوئے تمام افعال پر گواہ بنائے گا اور
انہی اعضاء سے انسان کے سابقہ تمام اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔
اللّٰه تعالی کا ارشاد عبرت نشان ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان::
بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)
اس آیت کے تحت امام ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:" لِمَا کَانَتْ مَسْؤُلَةً عَنْ
اَحْوَالِھَا شَاھِدَۃً عَلَی صَاحِبِھَا کہ جب ان اعضاء سے ان کی حالتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو وہ انسان پر
گواہی دیں گے" (تفسیر بیضاوی، جلد 03، صفحہ نمبر: 445)
پھر اعضاء کی گواہی بھی دو طریقے کی ہوگی:
(1) بعض اعضاء تو اس بات کی گواہی دیں گے کہ انسان نے ہم سے
فلاں فلاں اچھا کام کیا، آنکھ بولے گی مجھ سے اس نے قرآن کریم کی آیات کریمہ کو
دیکھا وغیرہ ۔
(2) بعض اعضاء وہ ہونگے جو اس بات کی گواہی دیں کہ انسان نے
ہم سے فلاں فلاں گناہ کا کام کیا، کان بولیں گے کہ اس نے ہم سے گانے سنے وغیرہ۔
اس حوالے سے ایک حکایت سنئیے اور عبرت حاصل کیجئے، چناچہ:
ایک شخص کو بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اسکا اعمال نامہ دیا جائے گا
تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا. وہ عرض کرے گا: "یا الٰہی عزوجل! میں نے تو
یہ گناہ کیے ہی نہیں؟" اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا:"میرے پاس اس کے
مضبوط گواہ ہیں۔" وہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود
نہ پائے گا اور کہی گا:"یا رب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں؟" تو اللہ تعالی
اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ کان کہیں گے،" ہاں! ہم نے(حرام) سنا
اور ہم اس پر گواہ ہیں۔ " آنکھیں کہیں گی،"ہاں! ہم نے (حرام)
دیکھا" اسی طرح دیگر اعضاء بھی گواہی دیں گے اور وہ بندہ یہ سب سن کر حیران
رہ جائے گا۔ (رسالہ فکر مدینہ، صفحہ نمبر: 18-19 ،ملخصاً)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:" جس آنکھ سے اللہ کی آیات نہ دیکھی جائیں، وہ اندھی ہیں۔ جن کانوں سے رب
کا کلام نہ سنا جائے وہ بہرے ہیں۔ جس زبان سے حمدِ الٰہی، نعتِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم ادا نہ ہو وہ گونگی ہے۔ کیونکہ ان اعضاء نے اپنا حق پیدائش ادا نہ
کیا۔(تفسیر نور العرفان، سور بقرہ تحت الآیت 18 صفحہ نمبر: 5،مطبوعہ: پیر بھائی
کمپنی لاہور)