اللہ تعالی نے انسان کو افضل مخلوق بنایا اسے قالب انسانی (سانچہ ) میں ڈھلتے ہوئے مختلف اعضاء عطا کر کے اختیار دیا کہ ان کا استعمال کرے پھر اسکے کانوں کو اس پیغام نے بھی کھٹکھٹایا کہ

"البر لا يبلى، والذنب لا يُنسى، والديان لا يموت، ابن آدم اصنع ما شئت فكما تدين تدان" رواه عبد الرزاق والبيهقي ، ترجمہ !؟نیکی پارینہ (پرانی) نہ ہوگی اور گناہ بھلایا نہ جائے گا اور حساب لینے والے کو موت نہیں آئے گی (ہمیشہ زندہ رہے گا ) ۔ اے ابن آدم کر لے جو کرنا ہے سو جو کرے گا وہ بھرے گا ۔

اس زندگی کے سفر میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جہاں شریعت مطہرہ نےحذر (خبردار) کے سائن بورڈز لگائےخبردار زبان کا غلط استعمال نہ کرنا آنکھ کا غلط استعمال نہ کرنا دل کو امراض باطنیہ سے پاک رکھنا ہاتھ کو حرام میں استعمال نہ کرنا تمہارے پاؤں ناجائز کام کی طرف نہ اٹھیں مگر مجال ہے یہ حضرت انسان اصلاح کی طرف آئے اپنی موج مستیوں میں ہر موڑ کو بغیر نصیحت قبول کیےبجلی کی طرح تہہ کرتا جارہا ہے عجب بات ہے کہ یہاں اگر کوئی ہمارا عیب کسی پہ ظاہر کردے تو انتہاء درجے کا برا لگتا ہے اسے منہ لگانا پسند نہیں کیا جاتا یا مقدمہ چل رہا ہو اور گواہ سر پہ کھڑا ہوتو جان چھڑانا انتہائی مشکل امر ہے جبکہ اللہ تعالٰی نے پیشگی اطلاع دے دی کہ

اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)

مگر!! ہم تو بھولے بیٹھے ہیں کہ کل کو ان اعضاء سے سوال ہونا ہے یہ ہاتھ اگر ناجائز کام میں استعمال ہوا تو بتائے گا اس کان سے اگر حرام سنا تو بلاٹوک اور نڈر ہوکہ بتائے گا چلیں مان لیتے ہیں کے دنیاوی عدالت میں غدر(دھوکے) سےہم نکل گئے کل روز قیامت غدر کیسےچلے گا جب خود کرنے والا ہی گواہی دے گا بغیر اٹکے فر فر بولے گا جب کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا جب انصاف کو صحیح عزت ملے گی ۔

محترم قارئین ! ہمیں پتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ جڑے ساتھیوں نے بے وفائی کرنی ہے روز قیامت اپنا ہر ہر استعمال بتاناہے جنہوں نے کل قیامت کو ہمارا ہی پردہ چاک کرنا ہے ،افسوس صد کروڑ افسوس!! ہمیں دنیاوی مخبروں کی فکر تو ہے مگر اپنے ساتھ لگے مخبروں جو اس قدر خطرناک ہیں کہ فنا ہوجانے کے بعد بھی دوبارہ زندہ کیے جائیں گے کی کوئی خبر نہیں ۔

رب تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵) آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے :آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ابتداء میں کفار اپنے کفر اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کا انکار کریں گے اورکہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے،تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے۔

( خازن ، یس ، تحت الآیۃ : 65، 4 / 10، مدارک ، یس ، تحت الآیۃ : 65 ، ص992، جلالین ، یس ، تحت الآیۃ : 65، ص372، ملتقطاً)

اس دن کوئی دروغ گوئی (جھوٹ) نہ چلے گا سب کچھ روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا اس دن انسان کی اپنی ذات ہی اسکے خلاف حجت ہوگی اس دن سب تنہائیاں فشاں (ظاہر) ہونگی آنکھوں کی بد نگاہی واضح ہوگی موبائل کا غلط استعمال واضح ہوگا الغرض ہر برا استعمال جو ان اعضاء بدنیہ سے ہوا کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا ۔

اسی وجہ سے صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی کا ہاتھ پکڑ کر یہ دعا سکھائی :

اللَّهمَّ إنِّي أعوذُ بِكَ مِن شرِّ سمعي، ومِن شرِّ بصَري، ومِن شرِّ لِساني، ومِن شرِّ قلبي، ومن شرِّ مَنيِّي يَعني فرجَهُ

اے اللہ میں تجھ سے کان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اپنی آنکھ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اپنی زباں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اپنے دل کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور شرمگاہ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔( اخرجہ ابو داود (1551)، والترمذي (3492)، والنسائي (5444)

سو عقلمند وہی ہے جو ان اعضاء کا کما حقہ استعمال کرے شیطانی بہکاوے میں نہ آئے نفس کی ریشہ دوانیوں (شرارت ) سے بچے وگرنہ ساری خلق خدا کے سامنے رسوائی کا باعث ہوگا ۔

یہ ہاتھ یہ پاؤں یہ دل بھی تمہارا

سب چھ یہ بتائیں گے نہ بے خبر رہ

عطار ہو یا رومی ہو غزالی سب نے

اچھا ہی کیا استعمال نہ بے خبر رہ

قیامت میں سب سے پہلا سوال بدن کے کس حصے سے ہوگا ؟ ؟

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن جب اللہ انسانوں کے مونہوں پر مہر لگائے تو سب سے پہلے بائیں پاؤں کی ران گواہی دے گی ۔( تفسیر طبری تحت الآیہ الیوم نختم )

اللہ تعالی ہمیں اپنی رضا میں اپنے اعضاء کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اے کاش ہماری آنکھیں عشق مصطفیٰ میں بہیں ہمارے اذہان مدینہ پاک کی سیر کرتے رہیں ہاتھوں سے کتاب الہی اور احادیث مبارکہ کو پکڑتے رہیں زبان خاموش رکھ کر اسرار الہی میں مگن رہیں۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم