ہمارے اَعضاء جن سے ہم گناہ کرتے ہیں ،یہ بھی ہمارے اَعضاء
جن سے ہم گناہ کرتے ہیں ،یہ بھی ہمارے اَعمال پر گواہ ہیں اور قیامت کے دن یہ وہ سب اعمال بیان کر
دیں گے جو ان سے کئے گئے ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(پ:15،سورہ بنی اسرائیل: 36)
اور ارشاد فرمایا:یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ
اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۴)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان
کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔(پ 18،نور:24)
تفسیر صراط الجنان
: یَّوْمَ
تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ: جس دن ان کے خلاف گواہی
دیں گے۔]ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان
کے خلاف ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں پر
مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے
بعد مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔
( خازن، النور،
تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جب مشرکین
دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازیوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ
ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے۔ اسی وقت ان کے منہ پر
مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ
سکیں گے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب
ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان
کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے
ہیں۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے
کے لوگ موجود ہیں۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں
کھاؤ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں
ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔
[تفسیر ابن جریر
الطبری:25888:ضعیف]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے،
جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ
کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس
آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ
گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ
رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں
گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو
میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ [صحیح مسلم:2969]
حضرت قتادہ رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے تھے ”اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے،
تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور
ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی
کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت
میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے
کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ
صفت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں «يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ
کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے “۔ ہمارے اَعمال پر
گواہ ہیں اور قیامت کے دن یہ وہ سب اعمال
بیان کر دیں گے جو ان سے کئے گئے ہوں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے
بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(پ:15،سورہ بنی
اسرائیل: 36)
اور
ارشاد فرمایا: یَّوْمَ تَشْهَدُ
عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۲۴)(پ:18،نور:24)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے
پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
تفسیر صراط الجنان
:{ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ: جس دن ان کے خلاف گواہی دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے خلاف
ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔زبانوں کا گواہی دینا تو اُن کے مونہوں پر
مُہریں لگائے جانے سے پہلے ہوگا اور اس کے
بعد مونہوں پر مُہریں لگادی جائیں گی جس سے زبانیں بند ہوجائیں گے اور اعضاء بولنے لگیں گے اور دنیا میں جو عمل کئے تھے وہ ان کی خبر دیں گے۔
( خازن، النور،
تحت الآیۃ: 24، 3 / 345)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جب مشرکین
دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازیوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ
ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے۔ اسی وقت ان کے منہ پر
مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ
سکیں گے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب
ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان
کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے
ہیں۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے
کے لوگ موجود ہیں۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں
کھاؤ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں
ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔
[تفسیر ابن جریر الطبری:25888:ضعیف]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے،
جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ
کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس
آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ
گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ
رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں
گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو
میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔
[صحیح مسلم:2969]
قتادہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے تھے ”اے ابن آدم تو
خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا
خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ
نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔
اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔“
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے
کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمۃُ اللہِ
علیہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ صفت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں
«يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ
الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے
پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل
والا ہے ظلم سے دور ہے ۔