اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲۴)

ترجمۂ کنزالایمان : جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں،ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے ۔(پ:18،النور : 24)

حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ مذکورہ اعضاء کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی اپنی قدرت ِکاملہ سے انہیں بولنے کی قوت عطا فرمائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ وہ ان سے کیا کام لیتا رہا ہے ۔‘‘ (تفسیر روح المعانی ، ج18، ص442)

جسم کے وہ اعضا بھی گواہی دیں گے جن سے وہ عمل کیا گیا۔

سب سے پہلے وہ نامۂ اعمال جس میں ہر وقت انسان کے ساتھ لگے ہوئے کرامًاکاتبین اس کے ایک ایک عمل کا کھاتا مرتب کر رہے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے اوپر انتہائی معتبر اور عزت دار کاتب مقرر ہیں۔ جو لمحہ لمحہ تمہاری حرکات و سکنات سپردِ قلم کر رہے ہیں (الانفطار: 11-12) پھر قیامت والے دن یہ نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا اعمال نامہ۔ تو خود ہی اپنا حساب کرنے کے لیے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل: 14) جسے پڑھ کر انسان حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ایسی نہیں جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو۔ (الکہف: 49)

اس نامۂ اعمال کے مطالعے کے بعد اگر انسان اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہے کہ فلاں کام میں نے نہیں کیا۔ یا فلاں جگہ میں نہیں گیا۔ یا اس خوبرو کو میں نے نہیں دیکھا یا فلاں کاروائی میں نے نہیں کی تو علی الترتیب اس کے ہاتھ پاؤں، آنکھیں، زبان غرض کہ جسم کا ہر حصہ اِس بات کی شہادت دے گا کہ نامۂ اعمال کا ہر لفظ درست ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے۔ اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کیا کام کیے۔ (النور 24) اس کی آنکھیں شہادت دیں گی۔ اس کے کان گواہی دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی کہ وہ کس نے ساتھ مس ہوئی۔ وہ حیران ہو کر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضاء جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اس کے حکم سے ہم بھی بول رہے ہیں۔ (حٰم سجدہ: 20-22 ) مزید برآں یہ کہ جب زمین سے دریافت کیا جائے گا تو زمین اس بات کی گواہی دے گی کہ نامۂ اعمال میں تحریر شدہ فلاں عمل اس شخص نے میرے اوپر فلاں فلاں جگہ کیا اور انسان خود دیکھ لے گا کہ اس کے دل میں جو خیالات، ارادے، مقاصد، وسوسے چھپے ہوئے تھے اور جن کے ساتھ اس نے اعمال کیے وہ سب نکال کر زمین نے سامنے رکھ دیے۔ ان تمام قطعی اور ناقابل تردید شواہد فراہم ہونے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے پاس بولنے کے لیے کوئی موقع نہیں ہوگا۔

درۃ الناصحین میں ہے :

’’قیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا ۔ وہ عرض کرے گا، ’’یاالٰہی عزوجل! میں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں ؟‘‘اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا ، ’’میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں ۔‘‘ وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا ، ’’یارب عزوجل! وہ گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ تو اللہ تَعَالٰی اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے، ’’ہاں ! ہم نے (حرام)سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں ۔‘‘ آنکھیں کہیں گی، ’’ہاں !ہم نے(حرام)دیکھا۔‘‘ زبان کہے گی، ’’ہاں ! میں نے (حرام) بولاتھا۔‘‘اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے، ’’ہاں ! ہم (حرام کی طرف)بڑھے تھے۔‘‘شرم گاہ پکارے گی ، ’’ہاں ! میں نے زنا کیا تھا۔‘‘ اوروہ بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا ۔(ملخَّصًا ، المجلس الخامس والستون ، ص294)