نصر اللہ (درجہ سابعہ الف ،جامعۃالمدینہ فیضان مہر علی
شاہ ،اسلام آباد)
قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے قرآن پاک
کی روشنی میں:
حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ
عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۲۰)ترجَمۂ
کنزُالایمان:یہاں تک کہ پچھلے آملیں یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی
آنکھیں اور اُن کے چمڑے سب اُن پر ان کے کئے کی گواہی دیں گے ۔
(پ 24،سجدہ :20)
تفسیر
: یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گےکہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ
تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کےاعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ
فلاں فلاں کامکرتے رہے۔
وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ
شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَاؕ-قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْطَقَ كُلَّ
شَیْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۱) (پ
24،سجدہ :21)
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہم پر کیوں گواہی
دی وہ کہیں گی ہمیں اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی اور اس نے تمہیں
پہلی بار بنایا اور اُسی کی طرف تمہیں پھرنا ہے۔
یعنی
جب مشرکین اور کفار دیکھیں گےکہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں،
تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔بعض کے نزدیک وَّ هُوَ سے اللہ کا
کلام مرادہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کےنزدیک جلود انسانی ہی کا۔ اس
اعتبار سے یہ انہی کےکلام کا تمہ ہے قیامت والے دن انسانی اعضاء کےگواہی دینے کا
ذکر اس سے قبل (وَ لِلّٰهِ مُلْكُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(۴۲)) (پ
18 ، النور : 42)(اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ
تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵))(
پ 23،یٰس 65) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث
میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلا جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا ءبول کر بتلائیں
گےتو بندہ کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل(
صحیح مسلم، کتاب الزہد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ
رہا اورمدافعت کر رہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں
اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں کا اللہ تعالی فرمائے گاکیا میں اور میرے
فرشتے کراما کاتبین گواہی کےلیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جاۓگی
اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا۔( حوالہ مذکورہ)
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ
بَصِیْرَةٌۙ(۱۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان:بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے۔(پ:29،القیامۃ :14)
تفسیر
:یعنی اس کے اپنے ہاتھ ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے
کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔
قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے حدیث کی
روشنی میں:
ابوبکر
بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم بن قاسم، عبیداللہ، سفیان ثوری، عبیدالمکتب،
فضیل، شعبی، حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے
روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے
ہو کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض
کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا :میں
بندے کی اس بات سے ہنسا ہوں کہ جو وہ اپنے رب سے کرے گا وہ بندہ عرض کرے گا اے
پروردگار کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :اللہ فرمائے گا ہاں آپ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر بندہ عرض کرے گا میں اپنے اوپر اپنی ذات کے
علاوہ کسی کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
پھر اللہ فرمائے گا کہ آج کے دن تیرے اوپر تیری ہی ذات کی گواہی اور کراما کا تبین
کی گواہی کفایت کر جائے گی آپ نے فرمایا پھر اس بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی
اور اس کے دیگر اعضاء کو کہا جائے گا کہ بولیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
فرمایا اس کے اعضاء اس کے سارے اعمال بیان کریں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا پھر بندہ اپنے اعضاء سے کہے گا دور ہوجاؤ چلو دور ہوجاؤ میں تمہاری طرف
سے ہی تو جھگڑا کررہا تھا۔ (صحیح
مسلم، جلد 3، حدیث: 2938)