غلام رسول عطاری (درجہ دورۃ الحدیث شریف، مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی)
جیسا کہ اللہ رب العزت اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ
وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَكْسِبُوْنَ(۶۵)
ترجَمۂ کنزُالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں
گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے
۔(پ 23،سورہ یٰس 65)
خلاصہ : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قیامت میں کفار اپنے کفر
اور رسولوں علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کو
جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم ہم ہرگز مشرک
نہ تھے۔ تو اللہ تعالی ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا تا کہ وہ بول نہ سکے، پھر ان
کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کر دیں گے تاکہ
انہیں معلوم ہو جائے کہ جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ ان کے خلاف ہی گواہ بن
گئے۔
معلوم ہوا کہ بندہ اپنے جسم کے جن اعضاء سے گناہ
کرتا ہے وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے۔
حدیث
شریف:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ
بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھ پر،تیری
کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان
لایا،میں نے نماز پڑھی،روزہ رکھا اور صدقہ
دیا، وہ بندہ اپنی اِستطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا’’ابھی پتا چل جائے گا ،پھر ا س
سے کہا جائے گا :ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ۔وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا :میرے خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے
منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور ا س کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : تم بولو۔ پھر اس کی ران، اس
کا گوشت اور ا س کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان
کریں گے۔
یاد رہےکہ مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لیے نہ
ہوگی بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی، اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور
مچائیں گے۔
( ماخوذ صراط
الجنان جلد:8،ص:274،273)
اے عاشقان رسول ہمیں پتا چلا کہ یہ اعضاء قیامت کے دن ہمارے خلاف گواہی دینگے ۔
یہ زندگی سفر کی مانند ہے جوں جوں منزل قریب آئے گا سفر پورا ہو جائے گا۔
اللہ پاک ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔