جسم اللہ پاک کی امانت ہے، ہر بندے کو چاہیے کہ اسکا درست اور صحیح استعمال کرے اور جو اس کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے، یہ کل قیامت کے دن اس کے حق میں گواہ ہوگا اور یوں ہی جو اس کے حقوق کی پامالی کرتا ہے، اس کے خلاف بھی گواہ ہوگا؛ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعضا کا صحیح استعمال کریں، ورنہ یہ بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

چنانچہ اعضا کے گواہی کے متعلق ارشاد رب العباد ہے :

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)

ترجمہ کنزالایمان:آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے (پ 22، یٰسٓ 65)

اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن کفار سے اُس وقت جب جہنم بھڑکتی ہوئی، شعلے مارتی ہوئی، چیختی ہوئی سامنے ہو گی کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا ذکر میرے رسول کیا کرتے تھے اور ڈرایا کرتے تھے اور تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ لو اب اپنے اس کفر کا مزہ چکھو۔

قیامت والے دن جب یہ کفار اور منافقین اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور اس پر قسمیں کھا لیں گے تو اللہ ان کی زبانوں کو بند کر دے گا اور ان کے اعضا ان کے اعمال کی گواہی دینا شروع کر دیں گے۔ (ابن کثیر جلد 5 صفحہ 320،321)

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر ارشاد فرمایا : تم جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ ہم نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے مخاطب ہو گا تو کہے گا اے میرے رب کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ رب تعالی فرمائے گا کیوں نہیں، بندہ عرض کرے گا میں تو اس وقت مانوں گا جب مجھ ہی میں سے کوئی گواہ ہو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے اور اعمال نامہ لکھنے والے معزز فرشتے حاضر ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی اور اس کے اعضا سے کہا جائے گا بولو چنانچہ ہر عضو اس کے اعمال کی خبر دے گا، اس کے منہ سے مہر ہٹائی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا تمارے لیے دوری اور بربادی ہو میں تمہاری طرف سے ہی تو دفاع کرتا تھا ۔

(صحیح مسلم، كتاب: الزهد والرقائق ،باب: الدنیا سجن المومن وجنت الکافر ،صفحہ 1588 ،حدیث 2969)

اس کے علاوہ سنن نسائی کی ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں اللہ کے سامنے بلایا جائے گا جبکہ زبان بند ہو گی، سب سے پہلے رانوں اور ہتھیلیوں سے سوال ہو گا۔

(نسائی فی السنن الکبرٰی حدیث:11469)

ان باتوں سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے اعضا کو گناہوں سے بچانا چاہیے، اور نیکیوں میں لگائے رکھنا چاہیے؛ تاکہ یہ کل قیامت میں ہمارے خلاف نہ ہوں؛ بلکہ ہمارے حق میں گواہ ثابت ہو۔