غیر حق میں خرچ کرنا فضول خرچی یعنی اسراف کہلاتا ہے، یعنی جس جگہ ضرورت نہ ہو وہاں بے جا خرچ کرنا۔

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

قیامت کے دن انسان کے قدم نہیں بڑھیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اس کی عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں بسر کی۔ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری اس کے مال کے حوالے سے کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔

اسراف کے متعلق مختلف احکام: اسراف شرع میں مذموم ہے۔ دو صورتوں میں اسراف نا جائز و گناہ ہے: ایک یہ کہ کسی گناہ کے کام میں خرچ و استعمال کریں، دوسرے بے کار میں مال ضائع کریں۔ (3) واضح رہے کہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا مثلاً عید میلاد النبی کے موقع پر گھروں، گلیوں اور محلوں کو سجانا، چراغاں کرنا فضول خرچی نہیں۔ علماء فرماتے ہیں: اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 174)

فضول خرچی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب یہ ہیں: غرور متکبر ( ایسا شخص دوسروں پر اپنی برتری جتانے کے لئے بےجا دولت خرچ کرتا ہے۔ علم دین سے دوری اپنی واہ واہ کی خواہش غفلت و لا پرواہی و شہرت کی خواہش وغیرہ۔

فضول خرچی سے بچنے کے لیے: اسراف کے انجام پر غور کریں کہ نعمت کی بے قدری کرنے کی وجہ سے اگر وہ نعمت ہم سے چھین لی گئی تو کیسی مشکل پیش آئے گی۔

علمِ دین حاصل کریں تاکہ جہالت کے سبب ہونے والے اسراف سے محفوظ رہیں۔

عاجزی اختیار کیجئے۔

موت کو کثرت سے یاد کیجئے ان شا اللہ دل سے دنیا کی محبت دور ہوگی اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔


اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً عادتاً یا مروتا خرچ کرنا منع ہو،مثلا فسق و فجور گناہ والی چیزوں پر خرچ کر نا اجنبی لوگوں پر ایسے خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بےیار و مددگار چھوڑ دینا اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص301 تا 302)

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھاؤ اور پیو صدقہ و خیرات کرو اور پہنو ہر وہ لباس جس میں فضول خرچی اور تکبر نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے فضول خرچی، عیش و عشرت، اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کے شدید مذمت کرتا ہے۔ فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔

اسلام مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے کے لیے سونے یا چاندی کے برتنوں کا استعمال مردوں کے لیے ریشمی کپڑے شادی وغیرہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعا حرام ہے اور جن کی مذمت ہمیں نبی پاک ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔

اسراف کی مختلف صورتیں: شیخ طریقت امیر اہل سنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تصنیف فیضان سنت پر ہے مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں : اسراف کی بہت تفسیریں ہیں: حلال چیزوں کو حرام جاننا۔ حرام چیزوں کو استعمال کرنا۔ ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا پہننا۔ جو دل چاہے وہ کھا پی لینا۔ دن رات میں بار بار کھاتے پیتے رہنا جس سے معدہ خراب ہو جائے بیمار پڑ جائیں۔ ہر وقت کھانے پینے کے خیال میں رہنا کہ اب کیا کھاؤں گا آئندہ کیا پیوں گا۔ غفلت کے لیے کھانا۔ گناہ کرنے کے لیے کھانا۔ اچھا کھانے پینے پہننے کا عادی بن جانا کبھی معمولی چیز کھا پی نہ سکے۔ غرض یہ کہ اس لفظ میں بہت سے کام داخل ہیں۔ (تفسیر نعیمی، 8/390)

اسراف اور فضول خرچی اگر شریعت کے خلاف ہو تو حرام حرام ہے اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

اللہ کریم ہمیں اسراف سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


غیر حق میں صرف (خرچ) کرنا اسراف ہے، اسے تبزیر بھی کہتے ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:   وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا : (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں بسر کی۔ (2) اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری۔ (3) اس کے مال کے حوالے سے کہ کہاں سے کمایا۔ (4) اور کہاں خرچ کیا۔ (5)اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔

اسراف کے متعلق احکام: اسراف شرع میں مذموم (برا) ہی ہو کر آیا ہے۔ دو صورتوں میں اسراف ناجائز و گناہ ہے ایک یہ کہ کسی گناہ کے کام میں خرچ و استعمال کریں، دوسرے بےکار محض مال ضائع کریں۔ واضح رہے کہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا مثلاً عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گھروں، گلیوں اور محلوں کو سجانا، چراغاں کرنا اسراف نہیں۔ علما فرماتے ہیں: اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔

اسراف کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:

غرور و تکبر (ایسا شخص دوسروں پر برتری چاہنے کیلئے بے جا دولت خرچ کرتا ہے)۔

علم دین سے دوری (مختلف کاموں میں اسراف کے مختلف پہلو ہوتے ہیں لہذا جب آدمی کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کام کے متعلق شرعی احکام کا علم نہ ہونے کے صورت میں اس کا اسراف اور اس کے علاؤہ دوسرے گناہوں میں پڑنے کا قوی احتمال ہوتا ہے)۔

اپنی واہ واہ کی خواہش (دوسروں سے داد وصول کرنے کیلئے پیسے کا بےجا استعمال ہمارے معاشرے میں عام ہے)۔

غفلت و لاپرواہی (کئی بار آدمی محض اپنی غفلت و لاپرواہی کے سبب اسراف میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔

شہرت کی خواہش (بے حیائی پر مشتمل فنکشن اور اس طرح کی دیگر خرافات میں خرچ کی جانے والی رقم کا اصل سبب شہرت کی طلب ہی ہوتا ہے)۔

اسراف سے بچنے کیلئے: اسراف کے انجام پر غور کیجئے کہ نعمت کی بے قدری کرنے کی وجہ سے اگر وہ نعمت ہم سے چھین لی گئی تو کیسی مشکل پیش آئے گی۔ علم دین حاصل کیجئے تاکہ جہالت کے سبب ہونے والے اسراف سے محفوظ رہیں۔ عاجزی اختیار کیجئے۔ موت کو کثرت سے یاد کیجئے، ان شاءاللہ! دل سے دنیا کی محبت دور ہوگی اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔


فضول خرچی الله کی نعمت کی ایک طرح سے ناشکری ہے کہ الله تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے اور اس کو ضروری کاموں کی بجائے لا یعنی اور غیر ضروری کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔

قرآن کریم میں بھی فضول خرچی کے متعلق وعید آئی ہیں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضرت مترجم قدّس سرّہ یعنی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اسراف کا ترجمہ بےجا خرچ کرنا فرمایا، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے۔ اگر کُل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو سدی کا قول ہے کہ یہ خرچ بےجا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بےجا اور داخلِ اسراف ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔(ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 306،307)

ارشاد فرمایا: کھاؤ، پیؤ، صدقہ کرو اور اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

یہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو!

اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔ نیز اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور معیشت دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے، کیونکہ یہ عموماً جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔

اسراف کاحکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

اللہ کریم ہمیں اسراف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


شاپنگ سے واپسی کے بعد اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے بہتر انداز سے شاپنگ نہیں کی، جہاں خرچ کرنا تھا وہاں نہیں کیا گیا یا کم کیا گیا، اور جہاں پر بالکل بھی ضرورت نہ تھی وہاں آپ نے خاصی رقم ضائع کردی، در اصل یہ سب آپ کی اپنی ہی غلطیوں سے ہوتا ہے خصوصی طور پر خواتین ایسی غلطیاں زیادہ کرتی ہیں۔ انہیں مارکیٹ میں پہنچ کر یہ یاد ہی نہیں رہتا ہے کہ انہیں کیا ضروری خریدنا ہے اور کیا ہے جو ضرور نہیں لیکن اس وقت انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ ساری رقم ضائع کرنے کے بعد گھر آکر پچھتاتی ہیں یہاں چند ہدایات پیشِ خدمت ہیں کہ جن پر عمل کر کے اس قسم کے مسائل سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے:

ضروریات کی پہچان دراصل ضروریات اور خواہشات میں خاصہ فرق ہوتا ہے اور جس دن آپ کی ضروریات اور خواہشات میں فرق پتہ چل گیا تو اس دن سے آپ ایک اچھی اور سمجھ دار شاپر بن جائیں گی، دراصل مارکیٹ میں پہنچ کر ضروریات کا خیال نہ آنے کی وجہ مارکیٹ میں دستیاب نت نئی چیزیں فیشن اور میک اپ کے جدید انداز ہیں اگر سمجھ داری سے غور کیا جائے تو یہ آپ کی ضرورت نہیں بلکہ خواہش ہے لہذا اسے ضروریات کے بعد پورا کریں تا کہ آپ کو کسی قسم کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ سنتی مصنوعات سے آپ کا وقار کم ہو جائے گا تو ایسا خیال اپنے دل سے نکال دیں، کیوں کہ معیار کوالٹی سے بنتا ہے، قیمت سے نہیں، مارکیٹ میں کئی جگہ سیل کا بورڈ آویزاں ہوتا ہے، اس قسم کی رعایتی مصنوعات خریدنے میں اگرچہ آپ کو اچھی چیزیں تلاش کرنے میں تھوڑ از یاد ہوقت لگ جاتا ہے لیکن اس کے فوائد آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

قرآن میں اللہ پاک فرماتا ہے: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) (پ 8، الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

فضول خرچی سے گریز کریں کچھ لوگوں کو فضول خرچی کی عادت ہوتی ہے جب ہمارے اخراجات آمدنی سے بڑھ جائیں تو یہ ہمارے لئے خطرے کا اشارہ ہوتے ہیں کہ اب ہمارے اخراجات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کرنا ہوگی کہ رخنہ کہاں پیدا ہو رہا ہے۔ خریداری کرتے وقت ہمیں ہمیشہ اپنی ذہانت اور عقل سلیم سے کام لینا چاہئے۔ صرف وہ اشیاء خریدیں جن کی آپ کو حقیقت میں ضرورت ہے۔ صرف اس بناء پر کہ فلاں نے کوئی شے خریدی ہے تو اس سے مقابلہ کرنے کی خاطر آپ وہی شے خریدنے سے اجتناب کریں۔ ایک اور وجہ جس کی بناء پر ہماری محنت کی کمائی غیر ضروری طور پر خرچ ہو جاتی ہے وہ لاپرواہی ہے جس سے رقم ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر ہم احتیاط برتیں تو یقینی طور پر اپنے اخراجات گھٹا سکتے ہیں۔

آخر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں فضول خرچی جیسے برے فعل سے ہمیشہ محفوظ فرمائے۔


اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجا ئز ہے اور علماء کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں، ان میں  سے11تعریفات درج ذیل ہیں : {1} غیرحق میں صرف کرنا {2} اللہ تعالٰی کے حکم کی حد سے بڑھنا {3} ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرع مطہر یا مروت کے خلاف ہو، اوّل(یعنی خلاف شریعت خرچ کرنا) حرام ہے اور ثانی(یعنی خلاف مروت خرچ کرنا) مکروہ تنزیہی۔ {4} طاعت الٰہی کے غیر میں صرف کرنا {5} شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا {6} غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا {7} دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا {8} ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا {9} حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا {10} لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا {11} بے فائدہ خرچ کر نا۔

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔

یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، 3 / 172)

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 27)ترجمہ: بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (مدارک، ص 621 ملخصاً)

حکم : اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 1/254، حدیث: 425)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

الله کریم ہمیں اسراف و فضول خرچی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


اسراف یعنی فضول خرچی کا لغوی معنی ہے کہ بے موقع بے جا خرچ کرنا، بر باد کرنا، خرچ کرنے میں حد سے گزر جاتا ہے۔

جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد کسی ایسے بے مقصد یا ناجائز کام میں خرچ کرنا، جس میں شرعا یا عادتا یا مروتا خرچ کرنا منع ہو۔ فضول خرچی اور اسراف خلاف شریعت امور میں ہو تو حرام، اور خلاف مروت کاموں میں ہوتو مکردہ تنریہی ہے۔

اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

حدیث مبارکہ کی رو سے :حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سےروایت ہے کہ حضور کریم ﷺ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا : کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں! اگر چہ تم بہتی نہر پر ہو۔(ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے : وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

آیات مذکورہ میں اسراف یعنی فضول خرچی کا مفہوم بتانے کیلئے اللہ پاک نے دو قسم کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔ ایک اسراف دوسر ا تبذیر۔ بعض علماء کے نزدیک دونوں الفاظ کا مفہوم ایک ہے۔ یعنی فضول خرچی، البتہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک اس میں فرق ہے: اسراف کا مفہوم یہ ہے کہ جائز اور مباح کاموں میں ضرورت سے بڑھ کرنا مناسب اور غلط طریقے سے خرچ کرنا اور تبذیر کا مفہوم یہ ہے کہ ناجائز اور گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنا۔

نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں: کھاؤ پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبرسے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

اسراف کی مختلف صورتیں: شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تصنیف فیضان سنت صفحہ 25 پر ہے کہ مفتی احمدیار خان تفسیر نعیمی جلد 7 صفحہ 390 پر فرماتے ہیں: اسراف کی بہت سی قسمیں ہیں: حلال چیزوں کو حرام جاننا، حرام چیزوں کو استعمال کرنا ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا پہننا، غفلت کے لیے کھانا، گناہ کرنے کے لیے کھانا، دن رات میں کھاتے پیتے رہنا، مضر اور نقصان دہ چیزیں کھانا پینا، جو دل چاہے وہ کھا پی لینا یا پہن لینا، حرام و ناجائز کاموں میں مال کا استعمال حلال جاننا وغیرہ وغیرہ۔

یہ اسراف کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں اب اسراف کے اسباب و علاج کی طرف روشنی ڈالی جاتی ہے۔

اسباب و علاج: فضول خرچی کا پہلا سبب لا علمی اور جہالت ہے۔ بندہ شرعی معلومات کے بغیر جب کسی کام میں مال خرچ کرتا ہے تو اس میں فضول خرچی کے کئی پہلو ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی جہالت کی وجہ سے احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ کسی بھی کام میں مال خرچ کرنے سے پہلے علمائے کرام اور مفتیان کرام سے شرعی رہنمائی حاصل کرے، اس سلسلے میں دارالافتاء اہل سنت سے رابطہ کرنا بھی بہت مفید ہے۔

اسراف کا دوسرا سبب غرور و تکبر ہے۔ بسا اوقات دو دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بے جا دولت خرچ کی جاتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غرور و تکبر کے نقصانات پر غور و فکر کرے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے، متکبر شخص الله کو سخت نا پسند ہے۔

خود رسول اللہ ﷺ نے متکبر شخص کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، احادیث میں متکبر کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے، متکبر کو کل بروز قیامت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے دل میں تھوڑا سا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔

اخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں فضول خرچی سے بچائیں اور نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین یا رب العالمین

الله کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:  وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ الله علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضرت مترجم قدّس سرّه یعنی اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ الله علیہ نے اسراف کا ترجمہ بے جا خرچ کرنا فرمایا۔

اسراف و فضول خرچی کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا 302 )

اسراف کاحکم :اسراف اور فضول خرچی خلاف ِشرع ہو تو حرام اورخلافِ مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 302)

روایت ہے حضرت سفیان ثوری سے فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانہ میں مال نا پسند تھا لیکن آج مال مؤمن کی ڈھال ہے اور فرمایا اگر یہ اشرفیاں نہ ہوتیں تو یہ بادشاہ ہم کو رومال بنا لیتے اور فرمایا کہ جس کے پاس کچھ دولت ہو تو وہ اسے سنبھالے کیونکہ یہ زمانہ وہ ہے کہ اگر کوئی محتاج ہو جاوے تو پہلی جو چیز خرچ کرتا وہ اس کا دین ہے فرمایا کہ حلال مال میں فضول خرچی کی گنجائش نہیں۔

روایت ہے حضرت عمر و ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت فرماتے ہیں فرما یا رسول اللہ ﷺ نے کہ کھاؤ پیو اور خیرات کرو اور پہنو کہ جب تک فضول خرچی اور تکبر نہ ملے۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)اس کا مطلب بھی وہ ہی ہے کہ ہر طیب و حلال چیز کھاؤ پہنو بشر طیکہ تکلف اور تکبر سے خالی ہو، دل ٹھیک رکھو۔

نبی ﷺ حضرت سعد پر گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو فرمایا اے سعد یہ اسراف کیسا؟ (فضول خرچی) عرض کیا کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا ہاں۔ اگر چہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

حضرت سعد یا تو ضرورت سے زیادہ پانی بہا رہے تھے، یا بجائے تین کے چار پانچ بار اعضاء دھو رہے تھے، یا اعضاء کی حدود میں زیادتی کر رہے تھے ان سب سے منع فرما دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وضو میں یہ تمام باتیں منع ہیں اور ان کا کرنا جرم۔ (مراۃ المناجیح، 1/427)

فضول خرچی کے کئی نقصانات ہو سکتے ہیں، چند درج ذیل ہیں:

1۔ مالی نقصانات: فضول خرچی سے پیسے کی بدسرفرازی ہوتی ہے، جس سے آپ کے مالی حالات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ پیسے کو بے معنی چیزوں پر خرچ کریں تو اس سے آپ کی سرمایہ کاری اور بچت بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔

2۔ وقت کا ضائع ہونا: فضول خرچی کرنے سے آپ کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، جو کہ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں لگا سکتے تھے۔

3۔ تناؤ: بعض اوقات، فضول خرچی آپ کو دباؤ اور تناؤ میں ڈال سکتی ہے، کیونکہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے بے فائدہ میں وقت یا پیسے خرچ کیے ہیں۔

4۔ ترقی میں رکاوٹ: فضول خرچی کرنے سے آپ کی ترقی پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ آپ کے پاس ان وقت یا پیسے کا ضیاع ہوتا ہے جو آپ اپنے خود کے ترقی اور پیشہ ورانہ پرفارمنس میں لگا سکتے تھے۔

5۔ معاشرتی اثرات: فضول خرچی سے آپ کے دوسروں کے ساتھ معاشرتی رشتے بھی متاثر ہوسکتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے ساتھ وقت یا پیسے کی غرض سے بے فائدہ میں خرچ کرنے سے ان کے نظر میں آپ کی قدر کم ہوسکتی ہے۔

6۔ معاشرتی زخم: اگر فضول خرچی آپ کی اپنے ذاتی ضمیر پر بھی برا اثر ڈالے، تو یہ آپ کے لئے معاشرتی زخم بھی بن سکتی ہے۔ اس سے آپ کا احترام اور ذاتی اعتماد بھی کم ہوسکتا ہے۔


آج کل اس کا عام رواج پڑتا جا رہا ہے  اگر ہم اردگرد ماحول پر نظر دہرائے تو ہمیں معلوم ہو کہ یہ کس قدر بڑھتا جا رہا ہے شادی کے معاملات میں غور کریں تو حد درجہ کا اسراف ہوتا ہے، عام دعوتوں پر بھی اتنا کھانے کا اسراف ہوتا ہے کہ الامان و الحفیظ، پھر اسی طرح اگر ہم غور کریں تو اس کی عام مثالیں ہمیں نظر آئیں گی۔

قرآن پاک میں بھی اسراف سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی یہاں تک کہ اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا جیسے کہ اللہ پاک کا فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، 3/ 172)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی گئی ہے کہ

حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ306، 307)

اسراف کاحکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلافِ مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ307)

اسراف ایک سبب معاشرے میں اپنی واہ واہ کروانا بھی ہوتا ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ بندہ لوگوں سے تعریفی کلمات سننے کی خواہش کو اپنی ذات سے ختم کرے اور یہ مدنی ذہن بنائے کہ لوگوں میں معزز ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے۔ نیز بندہ حب جاہ کے اسباب و علاج کامطالعہ کرے۔

اسی طرح اسراف کے دیگر اسباب پر غور کر کے اسکا علاج کیا جائے اگر ہر کوئی اپنی اصلاح کرنے والا بن جائے تو معاشرے میں اسراف کے ساتھ ساتھ دیگر گناہوں کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ الکریم

اللہ پاک ہمیں اسراف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


دین اسلام افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہر شعبہ ہائے زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا اور فضول خرچی کی مذمّت فرماتا ہے، چنانچہ اللہ فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق و فجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص301 تا 302)

اسراف کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

متعدد احادیث مبارکہ میں بھی فضول خرچی کی ممانعت آئی ہے:

1) نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا: کھاؤ پیو اور خیرات کرو اور پہنو کہ جب تک فضول خرچی اور تکبر نہ ملے۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

2) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھا لینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (ابن ماجۃ، 4/ 49، حدیث: 3352)

اسراف کے معنیٰ: علماء کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں،ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں:

(1)غیر حق میں صرف کرنا۔ (2) اللہ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرع مطہّر یا مروّت کے خلاف ہو، اول حرام ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی۔ (4) طاعت الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5)شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا۔ (11) بے فائدہ خرچ کرنا۔ (تفسیر صراط الجنان، 5/ 447)

اسراف کی مختلف صورتیں: مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: اسراف کی بہت تفسیریں ہیں : (1)حلال چیزوں کو حرام جاننا (2)حرام چیزوں کو استعمال کرنا(3) ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا پہننا (4)جو دل چاہے وہ کھا پی لینا پہن لینا (5)دن رات میں بار بار کھاتے پیتے رہنا جس سے معدہ خراب ہو جائے، بیمار پڑ جائے(6) مضر اور نقصان دہ چیزیں کھانا پینا (7) ہر وقت کھانے پینے پہننے کے خیال میں رہنا کہ اب کیا کھاؤں گا؟ آئندہ کیا پیوں گا؟ (8)غفلت کیلئے کھانا(9)گناہ کرنے کیلئے کھانا (10)اچھے کھانے پینے، اعلیٰ پہننے کاعادی بن جانا کہ کبھی معمولی چیز کھا پی نہ سکے (11)اعلیٰ غذاؤں کو اپنے کمال کانتیجہ جاننا۔ غرضیکہ اس ایک لفظ میں بہت سے احکام داخل ہیں۔ (تفسیر نعیمی، 8/390)

اللہ ہمیں فضول خرچی سے بچنے اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ