مکۃ المکرمہ کے فضائل:

الحمدللہ مکہ مکرمہ نہایت بابر کت و صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے باقاعدہ بیان سے قبل اللہ کریم کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجئے،تاکہ دن میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکّہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے،چنانچہ پارہ اوّل، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 126 میں ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔

پارہ30، سورۂ بلدکی پہلی آیت میں ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی۔)(خزائن العرفان، صفحہ 1104)

مدینہ منورہ کے فضائل:

الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت ِقلب وسینہ ہے، عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر و فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہ ہی پڑھے جاتے،جسے ایک بار بھی مدینے کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا، مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن د نوں طلبی ر ہی

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے، مثلاً پارہ 28، سورۃ المنافقون، آیت نمبر 8 میں ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: وہ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نکال دے گا،اسے جو نہایت ذلت والا ہے،اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

کعبے کے بارے میں دلچسپ معلومات:

مکہ مکرمہ کی سب سے عظیم زیارت گاہ کعبہ مشرفہ ہے، ہر مسلمان اس کے دیدار وطواف کے لئے بے قرار رہتا ہے، کعبۃ اللہ کے بارے میں دلچسپ معلومات پیش کی جاتی ہیں،قرآن شریف میں کئی مقامات پر کعبہ شریف کا ذکر خیر کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ 1،سورۃ البقرہ، آیت 125 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور اَمان بنایا۔

تفسیر:

اس آیتِ کریمہ کے تحت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:(اس آیتِ مبارکہ کے لفظ)بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرمِ کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے، یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے، چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہوکر عذاب سے مامون ہو جاتا ہے،حرم کو اس لئے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، شکار حرام و ممنوع ہے۔(تفسیرات احمدیہ، صفحہ34)اگر کوئی مجرم بھی داخل ہو جائے تو وہاں اس سے تعرض (یعنی روک ٹوک) نہ کیا جائے گا۔(تفسیرنسفی، صفحہ 77)

کعبہ سارے جہاں کے لئے رہنما ہے:

اللہ رحمٰن کا پارہ 4، سورۂ ال عمران، آیت نمبر 96 میں فرمانِ عالیشان ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا، وہ ہے جو مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔

تفسیر:

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:اے مسلمانو! یا اے سارے انسانو! یقین سے جان لو کہ ساری روئے زمین پر سب سے پہلے اور سب سے افضل گھر جو لوگوں کے دینی اور دنیوی فائدے کے لئے پیدا کیا گیا اور بنایا گیا ہے،وہی ہے جو کہ مکہ شریف میں واقع ہے، نہ بیت المقدس جو درجے میں بھی کعبے کے بعد ہے اور فضیلت میں بھی۔(تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 29، مختصرا)

مدینہ منورہ کے بارے میں احادیثِ کریمہ:

1۔مصطفے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی:اللہم اجعل بالمدینۃ ضعفی ما جعلت بمکۃ من البرکۃ۔اے اللہ پاک!جتنی تو نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے،مدینہ میں اس سے دوگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، جلد 1، صفحہ 620، حدیث 1885)

مذکورہ حدیثِ پاک میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے۔

2۔چونکہ مدینہ منورہ کو پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شرفِ قیام بخشا،سرزمینِ مدینہ کو اپنے قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی، ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی، آپ کی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینہ میں مرنا شفاعتِ مصطفے کی ضمانت اور مدینہ میں رہنا عافیت کی علامت قرار پایا، یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دگنی خیروبرکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔بخاری شریف کی اس حدیث میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفے کا ذکر ہے، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔(عمدۃ القاری، 7/594)

برکاتِ مدینہ میں سے سات ملاحظہ کیجئے:

1۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب، صفحہ 211)ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یوں دعا فرمائی :اے اللہ پاک! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

2۔مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ،2/176، حدیث1413)

3۔ایمان کی پناہ گاہ مدینہ منورہ ہے۔(بخاری،1/618، حدیث1876)

4۔مدینے کی حفاظت پر فرشتے مامور ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینےمیں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ ہے، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص548، حدیث1374)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس کے بعد میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور رسول ِاکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں اس کی حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔(شرح مسلم للنوی،5/148)

5۔خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے، چنانچہ جب غزوہ ٔتبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے گرد اُڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول،9/297، حدیث6962)

6۔مدینہ کے پھل بھی بابرکت ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

7۔مدینے میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے، چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،5/483، حدیث3943)

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے:اے اللہ پاک!مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کے شہر میں موت عطا فرما۔(بخاری،1/622، حدیث1890)اللہ پاک ہمیں برکاتِ مدینہ سے مالامال فرمائے۔آمین


مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حجازِمقدس کے دو قدیم شہر ہیں، جو اسلام کا مرکز اور نہایت افضل واعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ جائے ولادت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے اور مدینہ منورہ جائے مدفن ِسرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قبرِ انور رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے اور کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، مدینہ طیبہ علاوہ قبر ِاطہر اور مکہ مکرمہ علاوہ خانہ کعبہ کی افضلیت میں اختلافِ علما ہے، جمہور کے نزدیک مکہ معظمہ افضل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 711)اور عشاق کی نگاہ میں مدینہ افضل ہے۔

ذکرِ مکہ:

قرآنِ کریم میں جابجا مکہ مکرمہ کے مقدس مقام کا تذکرہ ہے، دو جگہ ربّ کریم نے اس محترم شہر کی قسم یاد فرمائی اور ارشاد فرمایا:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ۔ترجمۂ کنز العرفان: مجھے اِس شہر کی قسم ۔(پ30،البلد:1) مزید فرمایا: وَھٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اس امن والے شہر کی قسم۔(پارہ 30، والتین:3)

امام عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے اس بابرکت مقام کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مقام پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیروبرکت واضح ہوئی۔(تفسیر مدارک، صفحہ 1360)

ربّ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت مکہ مکرمہ کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی، مکہ مکرمہ میں نہ کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے، نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہاں کی گھاس کاٹی جا سکتی ہے،نیز دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں پر بکثرت ملتے ہیں، ربّ کریم نے مکہ مکرمہ کے حرمت والا ہونے کا ایک مقام پر ذکر فرمایا :اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا۔ ترجمۂ کنزالعرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر( مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں، جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔(پارہ 20، نمل:91)اللہ پاک نے یہاں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر خازن، جلد 3، صفحہ 422)

ذکرِ مدینہ:

قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مدینہ واہلِ مدینہ کا ذکر موجود ہے، ایک مقام پر مدینہ منورہ کی مسجد کا ذکر فرمایا:لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی، وہ اس کا حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔(پارہ 11، توبہ: 108)

اس مسجد سے مراد اسلام کی پہلی مسجد، مسجدِ قبا ہے اور مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجد مدینہ مراد ہے۔(تفسیر مدارک، صفحہ 455)ایک جگہ ربّ کریم نے مسلمانانِ مدینہ، انصار صحابہ کرام علیہم الرضوان کا شہر مدینہ کو آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے ہی مسکن بنانے کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد فرمایا:وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جنہوں نے ان(مہاجرین)سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔(پارہ 28، الحشر: 9)

معلوم ہوا!جس جگہ کو ربّ کے محبوب بندوں سے نسبت ہو جائے، ربّ اس جگہ کا ذکر بھی قرآن میں فرماتا ہے، ایک مقام پر اللہ پاک نے فرمایا:یہ مقدس زمین ناپاک باطن والوں کے لائق نہیں ہے،ربّ کریم جلد منافقوں سے مدینہ طیبہ کو پاک فرمائے گا،چنانچہ فرمایا:لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا۔ترجمۂ کنز العرفان:ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے دن۔(پارہ 22، سورہ احزاب، آیت60)

معلوم ہوا!اچھی جگہوں پر بھی گمراہ لوگ ہوتے ہیں، کسی کا کسی مقدس جگہ پر رہنا اس کے اچھا ہونے کی دلیل نہیں ہے، نیز ایسے لوگ جلد یا بدیر اس جگہ سے نکال دیئے جائیں گے۔ اللہ پاک ہمیں مکہ مدینہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، مقبول حاضری عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم میں مکہ اور مدینہ کا ذکر ہوا، بلکہ اللہ پاک نے ان کی فضیلت کو  ہی قرآن میں ارشاد فرمایا، مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرمائی اور اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنایا اور مدینہ کے بارے میں فرمایا :یہاں حاضر ہونا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، درحقیقت یہ مکہ اور مدینہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والے شہر ہیں اور قرآن نعتِ مصطفے ، تو ان کا ذکر تو ہونا ہی تھا، خیر اب آیات اور ان کی کچھ تفسیر۔

مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کریم نے فرمایا:آیت:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اِس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع (اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی، وہ مکہ شریف ہے۔(اسلامی بیانات، جلد 6، صفحہ 163)

اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر چیزوں میں سے ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو لوگوں کے درمیان موجود ہیں، تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و فضیلت والی ہے۔(صراط الجنان، جلد 10، ص 679)اور مکہ میں موجود خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(سورۃ ال عمران:97) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا:وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ؕ۔ترجمۂ کنز العرفان: اور اے مسلمانوں! تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(سورہ بقرہ:125)اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ؕ۔ ترجمۂ کنزالعرفان:اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کر لو۔(البقرہ:144)(یہ تمام صراط الجنان جلد 10، صفحہ 678 سے لیا گیا ہے خلاصہ)

اس سے معلوم ہوا!مکہ مکرمہ کی فضیلت ایسی ہے کہ اس میں موجود کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا گیا، اس کا حج ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا اور تفسیر صراط الجنان جلد 2،صفحہ 191 پر ہے:کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں، البتہ حجِ مقبول پر اس کی بشارت ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کے معاف ہونے کی اور حج مکمل ذکرِ الٰہی ہے اور مدینہ کے بارے میں یوں اللہ پاک نے فرمایا:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور اے محبوب آپ کے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگیں تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(سورۃ النساء:64)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عالم حیات ظاہری میں حضور(یعنی حاضر ہونا) ظاہر تھا،اب حضور(حاضر ہونا) مزار پر انوار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 15،654)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی یہ معمول رہا ہے کہ آپ کی حیات ظاہری کے بعد آپ کے مزار پر حاضر ہو کر مشکلات کا حل چاہتے تھے، اپنی مغفرت ونجات کی التجا کرتے تھے۔(صراط الجنان سے خلاصہ، جلد 2، صفحہ 234)

مدینے کی فضیلت سمجھنے کے لئے بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آرام گاہ اور اس سے بڑھ کر کون سی فضیلت تھی جو مدینہ کو حاصل ہوتی۔

اس در کے حضوری ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر ِمعاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ(سامان بخشش)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بھی فرمایا :

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ پھر ردّ ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے


قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مکہ و مدینہ کیا گیا ہے۔ارشادِ باری ہے:

1:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ (پ،ال عمرن:69)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

2:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ۔(پ13، ابرٰھیم:35)ترجمۂ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے۔

3:اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا (پ20، النمل:91)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔

اس آیت میں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، النمل، تحت الآیۃ:91 ملتقطاً)

4:وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۙ (پ30، التین:3)ترجمۂ کنز العرفان: اور اس امن والے شہر کی(قسم)۔

5:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ (پ30، البلد:1-2)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرینِ کرام کا اس بات پر اجماع(اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی ہے وہ مکہ شریف ہے۔اسی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب میں یوں عرض گزار ہوئے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ کی فضیلت اللہ پاک کےہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کی ہی اللہ کریم نے قسم ذکر فرمائی ہے نہ کہ دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلوة و السلام کی اور آپ کا مقام و مرتبہ اس کے ہاں اتنا بلند ہے کہ اس نےلَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم ذکر فرمائی ہے۔(اسلامی بیانات، 6/163 بحوالہ شرح زرقانی علی المواہب،8/ 463- فتاویٰ رضویہ،5/ 556)

6:وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ (پ11،التوبۃ:101)ترجمۂ کنز العرفان: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی) وہ منافقت پر اڑگئے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا !کسی کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جا سکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں !اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ:101)

7:مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ۔ (پ11، التوبۃ:120)ترجمۂ کنز العرفان: اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔

8:لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا (پ22،الاحزاب:60)ترجمۂ کنز العرفان: منافق اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں اگرباز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منافق ہیں اور وہ لوگ جو فاجر و بدکار ہیں اور وہ لوگ جو مدینے میں اسلامی لشکروں کے متعلق جھوٹی خبریں اڑانے والے ہیں اور یہ مشہور کیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوگئی، وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی دل شکنی اور ان کو پریشانی میں ڈالنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ اپنے نفاق،بدکاری اور دیگر حرکتوں سے باز نہ آئے تو ضرور ہم مسلمانوں کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دیں گے اور مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس تھوڑے دن ہی رہیں گے، پھر ان سے مدینہ طیبہ خالی کرا لیا جائے گا اور وہ لوگ وہاں سے نکال دیئے جائیں گے۔ (تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:60)

9:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَل َّ ؕوَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۠(پ28،المنٰفقون:8)ترجمۂ کنز العرفان: وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

10:وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۙ (پ14،النحل:41)ترجمۂ کنز العرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان، النحل، تحت الآیۃ:41)


دعوت اسلامی کے تحت 27 جون 2022 ء کو رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران فیصل  آباد میں ایس ایس پی پٹرولنگ پولیس مرزا انجم کمال بیگ ، ڈی ایس پی پٹرولنگ پولیس ملک محمد امین، پی آر او ٹو ایس ایس پی محمد رضوان اور کرائم رپورٹر 24 نیوز محمد وقاص بیگ سے ملاقات کی اور انہیں نیکی کی دعوت پیش کی ۔

اس کے علاوہ ذمہ داران نے ایس ایس پی کے ہمراہ روڈ سیفٹی پروگرام کے تحت کینال روڈ پر ریفلکٹر راڈ ز لگانے والے ورکرز سے ملاقات کی اور وہاں کے انتظامات بھی دیکھے ۔ ( کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


پچھلے دنوں  شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ کورنگی کے ڈسٹرکٹ و ٹاؤن مشاورت کے ذمہ داران کا 12 دینی کاموں اور کارکردگی کے حوالے سے ڈسٹرکٹ نگران عرفان بابا اور نگران مجلس رابطہ برائے شخصیات سٹی ذمہ دار حاجی یعقوب عطاری نے مدنی مشورہ کیا جس میں ٹاؤن ذمہ داران نے شرکت کی۔

سٹی ذمہ دار حاجی یعقوب عطاری نے ذمہ داران کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے انکی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی اور آئندہ کے اہداف دیئے۔( کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


پچھلے دنوں دعوت اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے دینی کاموں کے سلسلے میں علاقائی دورہ کیا اور مختلف مقامات پر جدول کئے ، ان میں ڈی پی او آفس قصور ، ٹریفک پولیس آفس میں افسران سے ملاقات کی اور انہیں نیکی کی دعوت پیش کی اور انہیں مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ”ابلق گھوڑے سوار “تحفے میں پیش کئے جس پر انہوں نے ذمہ داران کو دعائیں دیں ۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ قصور ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


گزشتہ روز قصور میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے ریسکیو آفسر قصور سلطان محمود سے ملاقات کی اور انہیں دعوت اسلامی اور اس کے دیگر شعبہ جات کا تعارف کروایاساتھ ہی دعوت اسلامی کے تحت ہونیوالے کورسز کے بارے میں بھی بتایا جس پرسلطان محمود نے  ڈسٹرکٹ قصور کی تمام برانچز میں نماز جنازہ کورس کروانے کی نیت کی ۔

اس کے علاوہ سلطان محمود کو فیضان مدینہ فیصل آباد وزٹ کرنے کی دعوت بھی دی ۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ قصور ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


دعوت اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران کا تحصیل قصور  میں ڈسٹرکٹ قصور کے افسر محمد اسلم سے ملاقات ہوئی دوران ملاقات دعوت اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا اوراس کے دیگر شعبہ جات کا مختصر تعارف کروایا نیز محمد اسلم کو مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن جمعہ پڑھنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے شرکت کرنے کی نیت کی ۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ قصور ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


دعوت اسلامی کے تحت 27 جون 2022 ء کو ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے ایڈمنسٹریٹر ڈسٹرکٹ کونگی جاوید الرحمان ، ڈائریکٹر آئی ٹی واسق ظفر ، ڈائریکٹر ایڈمن سلمان حیدر  اور ڈائریکٹر چارچ پارکنگ نیئر حسین سے ملاقات کی۔

اس کے علاوہ 28 جون 2022 ء کو ڈپٹی کمشنر آفس کورنگی سید محمد علی زیدی ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اعجاز جاکھرانی ، اسسٹنٹ کمشنر کورنگی فاروق سومرو و دیگر افسران سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع اور مدنی مذاکرہ میں شرکت کرنے کی دعوت پیش کی جس پر شخصیات نے شرکت کرنے کی نیت کی اور ذمہ داران کا شکریہ اداکیا ۔(رپورٹ: رابطہ برائے شخصیات ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


پچھلے دنوں سیالکوٹ میں مرکزی مجلس شوری کے رکن ابو البیان حاجی اظہر عطاری نے اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ محمد مرتضیٰ ، اسسٹنٹ کمشنر ملک کاشف سے ملاقات کی ۔

رکن شوری نے اسسٹنٹ کمشنر کو دعوت اسلامی اور اس کے شعبہ جات کا تعارف کرایا نیز دینی کاموں میں تعاون کرنے ، ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع اور مدنی مذاکرہ میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھے تأثرات دیئے اس کے علاوہ فیضان مدینہ سیالکوٹ وزٹ کرنے کی دعوت دی ۔(رپورٹ: رابطہ برائے شخصیات گوجرانولہ ڈویژن ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس ) 


پچھلے دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے قصور، واپڈا آفس میں سردار فصیح الرحمان وائس چیئرمین سرکل قصور سے ملاقات   کی دوران ملاقات دعوت اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں بریف کیا اور انہیں مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہرٹاؤن وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی جس پر انہوں نے آئندہ جمعہ وزٹ کرنے اور نماز جمعہ ادا کرنے کی نیت کی ۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ قصور ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس )