مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت عبد الجبار بلوچ، کراچی
الحمد
للہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت و سکون ہے۔دنیا کی جتنی
زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ پاک کے ہجر و فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے جاتے ہیں،اتنے دنیا کے کسی اور
شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے ۔مدینہ
پاک کے علمائے کرام نے کم و بیش 100 نام لکھے ہیں اور دنیا کے کسی بھی شہر کے اتنے نام نہیں جنتے مدینہ کے ہیں جیسے طابہ،طیبہ، وغیرہ ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرب کہتے تھے اس لیے کہ یہ لفظ ثرب سے مشتق ہے : بمعنی سرزنش ، مصیبت و
بلا ۔
پیاری
بہنو! آیئے! مدینہ منورہ کے فضائل پر مشتمل احادیثِ مبارکہ پڑھئے!
1)فرمانِ
نبی:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔
( فتاویٰ رضویہ جلد 21 صَفْحَہ116)
2)فرمان
ِ آخری نبی:’’تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی اِستِطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو
مدینے میں مرے گا میں اُس کی شَفاعت کروں گا اور اُس کے حق میں
گواہی دوں گا۔“
(شعب الایمان،ج3/ 497حدیث1482)
3)
فرمانِ نبی:مدینے
میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔( بُخاری ج1 ص619حدیث 1880)
4)فرمانِ
نبی: الٰہی !جو برکتیں تو نے مکہ مکرمہ
میں دی ہیں اس سے دو گنی برکتیں مدینہ میں رکھ دے۔
(مسلم، بخاری۔ مراۃ المناجیح،باب حرم
مدینہ معظمہ)
5)فرمانِ
رسولِ عربی:’’اُس ذات کی قسم !جس کے
دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس
پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں۔
( مسلم ص714 حدیث1374)
6)
فرمانِ نبی:مدینے والوں کے ساتھ جو بھی مکر کرے گا وہ یوں پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔(نزھۃ
القاری شرح صحیح بخاری،ج3،حدیث1095)
7)
فرمانِ رسولِ ہاشمی: اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! مدینے
کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول
للجزری ج9ص297حدیث6962)
8)
فرمانِ آخری نبی:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت)کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا
جائے گی (سب پر غالِب آئے گی لوگ اسے”یَثرِب“کہتے
ہیں اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و
صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(بخاری حدیث1871، ج1، ص617)
9)فرمانِ
نبی: اسلام کی بستیوں میں سے آخری بستی جو ویران ہوگی وہ مدینہ ہے۔ (ترمذی ،مراۃ المناجیح،باب حرم
مدینہ معظمہ)
شرحِ حدیث:
٭قریبِ قیامت بڑی بڑی بستیاں ویران ہوجائیں گی
مگر مدینہ پاک آباد رہے گا۔یہ
(شہر)
بالکل قیامت سے متصل ویران ہوگا۔ ٭ عالَم کی آبادی مدینہ پاک کی آبادی سے وابستہ
ہے جب یہ اجڑ گیا دنیا اجڑ جائے گی قیامت آجائے گی۔
10)حضرت
انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب
سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرمادیتے اگر
گھوڑے پر ہوتےتوسے ایڑی لگاتے اس (مدینے)
کی
محبت کی وجہ سے۔(بخاری،مراۃ
المناجیح،باب حرم مدینہ معظمہ)
یہ
آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی
مدینہ پاک سے محبت کا انداز تھا اسی محبت
کا اثر ہے کہ مسلمان مدینہ پر دل و جان سے
فدا ہیں کیونکہ یہ
(شہرِ مدینہ )محبوبصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا محبوب ہے ۔
مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت حافظ علی محمد، لاہور
الحمد للہ پاک
دنیا میں ایک ایسی بستی ہے جس کی یاد عشاق کے دل و دماغ کی فرحت کا باعث بنتی ہے۔
جس کے دیدار کے لئے عشاق مشتاق رہتے اور اس کے فراق میں بے قرار رہتے ہیں۔ اس بستی
کی فرقت و جدائی اور زیارت کی تمنا میں جس قدر قصیدے پڑھے گئے اور پڑھے جاتے ہیں اتنے
دنیا کے کسی اور خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہ ہی پڑھے جاتے ہیں۔
جی ہاں! اس
بستی سے مراد میرے اور آپ کے دلوں کا سُرور مدینہ الرسول ہے۔زمانہ جہالیت میں
مدینہ پاک کا نام یَثْرَب تھا۔سرکار صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
مدینہ رکھا جیسا کہ
حدیثِ پاک ہے:مجھے ایک بستی کی طرف (ہجرت) کا
حکم ہوا خو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب
پر غالب آئے گی)
لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے۔ (یہ
بستی)
لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لویے کے میل کو۔(صحیح البخاری
حدیث 1871،ج 1، ص 617)
فتاوی ٰرضویہ
جلد 21 صفحہ 116 پر ہے:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے
والا گنہگار۔
مدینہ پاک کے
اتنے فضائل ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ مگر برکت حاصل کرنے کے لئے مدینہ کے 10
فضائل پیشِ خدمت ہیں:
1۔حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت
ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو
میری زبان سے حرم قرار دیاگیا ہے۔
( بخاری،
کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 1 / 616، حدیث: 1869)
2۔حضرت سہل بن
حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیّد
المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
اپنے دست ِ اَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:’’ بے شک یہ حرم
ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔
( معجم
الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 / 92، حدیث: 5611)
3۔حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ پاک!جتنی
برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں ا س سے دگنی برکتیں مدینہ
میں نازل فرما۔
( بخاری،
کتاب فضائل المدینۃ، 11:باب، 1 / 620، حدیث: 1885)
4۔حضرت عبد
اللہ بن زید انصاری رضی
اللہ عنہ سے
روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے
باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
( بخاری،
کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، 1 / 402، حدیث: 1195)
5۔حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے،حضورِ اَقدس صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا:’’ جس کو مدینہ منورہ میں موت آسکے تو اسے یہاں ہی
مرنا چاہئے،کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی(خاص
طور پر)شفاعت
کروں گا۔( ترمذی،
کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)
6 ۔اللہ پاک کے آخری نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر
فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔
7 ۔اللہ پاک
کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا: اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی
ہے نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔
(مسلم ص 714 حديث 1374)
8 ۔نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
کا فرمان ہے: میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں
قیامت کے دن اس کا شفیع ہوں گا۔ (مسلم ص 716 حديث 1378)
9 ۔سرکار علیہ
الصلوۃ والسلام
نے فرمایا:جو ارادۃ میری زیارت کو آیا وہ قیامت کے دن میری محافظت میں رہے گا اور
جو مدینے میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت
کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔ (مشکوۃ
المصابیح ج 1 ص 512 حدیث 2755)
10۔پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ضرور ایسا آئے
گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چرا گاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ
خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر
آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔
(مسند
امام احمد بن حنبل ج 5 ص 106 حديث 14676)
اللہ پاک
ہمارا سینہ عشقِ مدینہ و غمِ مدینہ معمور فرمائے اور ہمیں مدینہ پاک کی بادب حاضری
نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
مدینہ
منورّہ کے القابِ مبارکہ
مدینہ منورّہ
کے القابِ مبارکہ کثرتِ اسمائے شرف و عظمت
پر دلیل ہے۔ جس طرح کثرتِ اسمائےالہٰی اور القاب حضرت محمد مصطفٰی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس پر دلیل ہیں۔سوائے
مدینہ منورّہ کے ایسا کوئی شہر نہیں ہے جس کے اتنے کثرت کے ساتھ نام ہو جتنے اس
پاک شہر کے ہیں۔
علما محققین
نے اس کے پچانوے(95) نام
بتائے ہیں ان میں سے چند نام پیش کیے جاتے ہیں جو
اس کے شرف و کرامت پر دلالت کرتے ہیں جو محبوبِ خدا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
احادیث سے ثابت ہیں:طابہ، طیبہ، طائبہ،جابرہ و
جبارہ، جزیرۃ العرب،مجبورہ،محبّہ و حبیبہ،حرم وحرم رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، حسنہ، شافیہ، دارالایمان، المسکینہ،
الدار،دارالاخیار،البلد، اُلجُنّۃ،مدینۃ الرسول،دارالسنۃ،دارالاسّلام،دارالابرار،عاصمہ،
مبارکہ، مسکیہ،المبارکہ،مرزوفہ،محفوظہ،المحبّبہ،محروسہ، قبّۃ
الاسلام،ناجیہ،الغرّاء،المدینہ۔
(سبل
الہدیٰ، جلد3ص 414 تا 426)
یثرب
سے مدینہ:
یثرب کا معنی
ہے: بیماریوں کا مرکز چونکہ یثرب بیماریوں کا مرکز تھا اس کا پانی کڑوا تھا اور
زمین بنجر تھی لیکن پیارے آقا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
تشریف آوری سے اس کا پانی میٹھا ہوگیا زمین آباد ہوگئی اور یثرب مدینہ بن گیا جو
پہلے دارالوباءتھا دارلشفا بن گیا ایسا دارلشفا جس کے گردوغبار میں بھی شفا ہے جس
میں ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔
جن
کی آمد سے یثرب مدینہ بنا ان
کے قدموں کی برکت پر لاکھوں سلام
مدینے
کو یثرب نہ کہو!
مدینہ منورّہ
کو یثرب نہ کہا جائے کہ
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
مدینے کو یثرب کہنے سے سختی سے منع فرمایا:حضرت براء بن عازب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور
اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:من
سمی المدینۃ بیثرب فلیستغفر اللہ ھی طابۃ ھی طابۃ ھی طابۃ۔(سبل
الہدیٰ جلد3، ص 427)جس نے مدینہ کو یثرب نام سے پکارا تو وہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرے کیونکہ وہ (مدینہ
وبائی
امراض سے)
پاک ہے، پاک ہے، پاک ہے۔
اس سے معلوم
ہوا!مدینے کو یثرب کہنا حرام ہے کیونکہ اس پر استغفار کا حکم فرمایا اور استغفار
گناہ سے ہی ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:من قال للمدینۃ يثرب
فكفَّارته ان يَّقول المدينۃ عشر مرَّاتیعنی جو (غیر ارادی
طور پر)
مدینہ کو یثرب کہ بیٹھے اسے کفارے کے طور پر دس(10)مرتبہ
مدینہ کہنا چاہئے۔(کنزالعمال،
کتاب الفضائل، فضائل الامکنۃ و الازمنۃ، فضائل المدینہ.....الخ الجز 6، 12/ 116،
حديث 34938)
مدينہ
منورّه كےدس(10)فضائل:
1: رسولِ اکرم
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:اَنَا
اُحَرِّمُ المَدِینَۃمیں مدینہ کو حرم بناتا ہوں۔
(الجامع
الکبیر 2ص97)
2:رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ان غبارھا شفا من کل داء (خلاصۃالوفاء)مدینے
کا غبار ہر بیماری کا علاج ہے۔
نہ
ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اٹھا
لے جائے
تھوری خاک اُن کے آستانے سے
3:رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:المدینۃ خیر من مکۃ (
الوفاء الوفاء ج 1 ص 37)مدینہ شریف مکہ شریف سے افضل ہے۔
جس
شہر کے کانٹوں میں پھولوں کا قرینہ ہے وہ
شہرِ مدینہ ہے وہ شہرِ مدینہ ہے
4:حضرت سہل بن
حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضورِ اکرم ،نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دستِ اقدس سے مدینہ منورّہ کی طرف اشارہ
کرکے فرمایا :بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔
(معجم
الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 /92، حدیث 5611)
5: حضرت سعد رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور
اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا: جو اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا
جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔
( بخاری کتاب فضائل
المدینہ، باب اثم من کا داہل المدینہ، 1 / 618،حدیث 1877)
6:صحیح مسلم و
ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے ،رسولِ
اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:
مدینے کی تکلیف وشدّت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر
کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح مسلم، کتاب الحج ، باب
الترغیب فی سکنی المدینۃ... الخ، حدیث 1378،ص 716)
7: حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا :جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ
پاک اسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور
اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔
(
مجمع الزوائد،
کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ واراد ہم بسوء، 3/ 659، حدیث5826)
8:حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ
اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
دعافرمائی:اے
اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس سے دگنی برکتیں مدینے میں نازل فرما۔
(بخاری
کتاب فضائل
مدینہ 11۔باب، 1 / 260 ، حدیث1885)
9:رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:علی انقاب المدینۃ ملائکۃ تحر سونھا لا
یدخلھا الطاعون والدجال (بخاری
ج 1 ص252)مدینہ
کے راستوں پہ فرشتے مقرر ہیں اس شہر میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتے(فرشتے
ان کو داخل ہونے نہ دیں گے)۔
سبحان اللہ!
سبحان اللہ! مدینے شریف کی عظمت و شان کی تو کیا ہی بات ہے کہ اس مبارک بستی میں
نہ تو دجال داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی طاعون جیسی مہلک بیماری کیونکہ مدینے راہوں
پر اللہ پاک کی طرف سے اس کے معصوم فرشتے مقرر ہیں جو ہرگز ہرگز شہرِ مدینہ کے
اندر طاعون اور دجال کو داخل ہونے نہ دیں گے۔
ساری
دولت خدا کی مدینے میں ہے ساری
رحمت خدا کی مدینے میں ہے
10:حضرت ابنِ
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:قال رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممن استطاع ان یّموت بالمدینۃ فلیمت بھا فانّی اشفع لمن یّموت
بھارسولِ
اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:جس کے لئے ممکن ہو کہ
مدینہ میں مرے تو اسے مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ جو
مدینہ میں وفات پائے گا
میں اس کی(خاص
طور پر) شفاعت
کروں گا۔(ترمذی،
کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث 3943)
اعلٰی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
طیبہ
میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عشقِ
مدینہ:
مدینہ منورّہ
کی بھی کیا ہی بات ہے! اس کی فضیلت کے لئے یہ ہی کافی
ہے کہ اس میں نبیوں کے سردار ،وجہِ تخلیقِ کائنات ،رحمۃ
اللعٰلمین،شفیع المذنبین،خاتم النبین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمجلوہ
فرما ہیں۔جس شہر میں محبوبِ ربِ اکبر صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف
فرما ہوں اس کی برکتوں اور رحمتوں کہ کیا ہی کہنے! مدینہ منوره مرکزِ کرم، مرکزِ
ہدایت، مرکز ِمحبت ہے۔ اس کی ایک دید کے لئے عشاق ٹرپتے
ہیں، ساری عمر بلاوے کا انتظار کرتے ہیں، دیدار کے بعد بار بار ایسی مبارک معطر مطہر
جگہ کے دیدار کی آرزو میں رو رو کر اپنے دن گزارتے ہیں۔
کہاں
کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی
ہے عاشق کو یادِ مدینہ
اور عاشقِ
مدینہ کیوں نہ تڑپے کہ اس شہر کا ذرہ ذرہ آفتابِ نبوت کے نور سے روشن ہے جس کا
گوشہ گوشہ خوشبوئے رسول
سے مہک رہا ہے یہاں گنبد خضریٰ ہے جو اہلِ ایمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا
سرور ہے جس کی محبت دراصل حضور اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
محبت ہے جس کے بغیر ایمان کامل نہیں۔
جس
خاک پہ رکھتے ہیں قدم سید ِعالم اس
خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
اللہ پاک ہم
سب کو باآدب حاضریِ مدینہ کی سعادت عطا فرمائے۔آمین
مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت مشتاق احمد، بہاولپور
مدینہ
منورہ کی فضیلت و اہمیت:
پیاری اسلامی
بہنو!مدینے شریف کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس
پیارے پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ہم بے پناہ محبت کرتی ہیں ،خود وہ
آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے
سے بہت محبت کیا کرتے ہیں،لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی نہ صرف میٹھے
مدینے کی محبت بلکہ مدینے کے کُوچہ و بازار کی محبت ،وہاں کے گلشن و کوہسار کی
محبت،اس کے در و دِیوار کی محبت،اس کے پُھول حتی کہ اس کے خار تک کی محبت اپنے
دل میں بسائے رکھیں،اس کی یاد میں تڑپیں اور اس کی باادب حاضری کی نہ
صرف آرزو کریں بلکہ اللہ پاک سے اس کی دُعائیں بھی مانگیں۔
غریب
جائے کہاں یا ربّ تڑپتی رُوح کو لے کر تجھے
محبوب کاصدقہ تُو پہنچا دے مدینے میں
صلوا علی الحبیب!
صلی اللہ علی محمد
یاد رکھئے! محبت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس سے نسبت رکھنے
والی چیزوں سے بھی محبت کی جائے اور بالخصوص جس سے محبوب کو محبت ہو،اس سے تو
انتہائی محبت و عقیدت رکھی جائے۔ حضورِ اکرم،نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینے کی سرزمین سے کس قدر محبت تھی اس
کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماگر کبھی مدینے سے باہر سفر کو جاتے تو
واپسی پر مدینے کے در و دیوار دیکھتے ہی جلد سے جلد وہاں قدم رنجا فرمانے کی
کوششیں کِیا کرتے تھے۔چنانچہ
حدیثِ
پاک میں ہے :نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب
سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینےسے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز
فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔
(بخاری ،کتاب فضائل
المدينہ،11:باب ،1
/620، حديث: 1886)
حکیم
الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس
حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:حضورِ انور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینۂ پاک اتنا پیارا تھا کہ ہر سفر سے
واپسی میں یُوں تو معمولی رفتار پر جانور چلاتے تھے مگر مدینۂ پاک کو دیکھتے ہی
وہاں جلد پہنچ جانے کے لیے سواری تیز فرمادیتے تھے،اسی محبت کا اثر ہے کہ مسلمان
مدینے پر دل و جان سے فِدا ہیں کیونکہ یہ محبوب کا محبوب ہے۔ (مرآۃ
المناجیح،4/219)
مدینہ اس لیے عطاؔر جان و دِل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے
سرور مدینے میں
(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص283)
صَلُّوْا عَلَی
الْحَبِیْب!
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
احادیثِ مبارکہ:
حضور ِانورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم مدینہ منورہ کو بے حد
محبوب رکھتے تھے۔ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے تو چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر
ہوتے اپنی چادر کو بازو سے ہٹادیتے اور چہرۂ مبارک کو صاف نہیں فرماتے۔نیز ارشاد فرماتے: ’’مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘۔
حضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا :’’مدینہ کی
تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرےگا قیامت کے دن میں اس کا شفیع
رہوں گا‘‘۔ (مسلم وترمذی)
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی خدمت میں لوگ جب شروع
شروع کے پھل لے کر حاضر ہوتے تو آپ اس کو لے کر فرماتے:’’الٰہی! تو ہمارے لئے
ہمارے کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے‘ ہمارے صاع و مد
میں برکت فرما۔ یااللہ پاک! بے شک حضر ت ابراہیم
علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں تیرا
بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعاکی اور میں مدینہ کیلئے تجھ
سے (خیر و برکت کی) دعا کرتا ہوں کہ انہیں
بھی مکہ والوں جیسی برکت (عطا) فرما اور مکہ والوں کو جہاں ایک برکت دی تو مدینہ والوں کو اس کے برابر دو
دو برکتیں عطافرما‘‘۔ (مسلم شریف)
یثرب
سے مدینہ بننے کی مختصر تحقیق:
یثرب مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا ،اس
کا مطلب ہلاکت و بیماری ہے ۔ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمنے اس کا نام بدلا تو
پہلے مدینہ پھر مدینتہ النبی اور پھر مدینہ منورہ ہوا۔مدینہ منورہ
کو یثرب کہا گیا ہے لیکن اس کے بعد اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس نام کو ناپسندفرمایا۔ اس کے بجائے طیبہ، طابہ
اور مدینہ نام رکھے گئے۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہنے حضرت جابر رضی
اللہ عنہ
سے روایت کی ہے ،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکو
فرماتے ہوئے سنا:إنَّ
اللّٰهَ تَعَالٰى سَمَّى الْمَدِيْنَۃ طَابَۃاللہ پاک نے
مدینہ کا نام طیبہ رکھا ہے۔ (صحيح مسلم، الحج، باب المدينۃ تنفي
خبثها وتسمّى طابۃ وطيبۃ، حديث: 1385)اس حدیث کو اسی سند اور متن کے
ساتھ ابنِ ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے،
دیکھیے:(
تاريخ المدينۃ: 1/164))
حضرت زید بن ثابت رضی
اللہ عنہ
کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:إِنَّهَا
طَيْبَۃ يَعْنِي الْمَدِيْنَۃ وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي
النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃمدینہ طیبہ ہے۔یہ گندگی کو(یوں)دور
کرتا ہے جیسے آگ چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے۔ ((صحيح مسلم، الحج،
باب المدينۃ تنفي خبثها وتسمى طابۃ و طيبۃ، حديث: 1384))
حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور
ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شام،فارس اور
رُوم کے خزانے مدینےپہنچ۔مزید فرماتے ہیں:مدینۂ منورہ کے نام سو (100)سے بھی زیادہ ہیں،طیبہ،طابہ، بطحٰے، مدینہ،اَبْطَح وغیرہ،ہجرت سے پہلے لوگ
اسے یثرِب کہتے تھے ،اس لیے کہ یہاں قومِ عَمَالِقَہ کا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرِب تھا۔حضرت امام احمد بن
حنبل رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو مدینۂ منورہ کو یثرب کہے وہ توبہ کرے۔حضرت امام
بخاری رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا: جو ایک بار
اسے یثرب کہے وہ بطورِ کفّارہ دس (10بار مدینہ کہے۔صُوفیا رحمۃ
اللہ علیہم
اَجْمَعِیْن فرماتے ہیں:اگر کوئی خبیث
وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی دوسری جگہ منتقل کردیتے
ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہوجائے تو اس کی نعش مدینَۂ منورہ
پہنچادیتے ہیں۔
پیاری اسلامی بہنو!بیان کردہ حدیثِ پاک اور
اس کی شرح سے معلوم ہوا! جس طرح زنگ آلود لوہا اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پھر
مقررہ وقت پر اسے نکالا جائے تو اس پر میل کچیل کا نام و نشان بھی باقی نہیں
رہتا،اسی طرح مدینۂ طیبہ بھی اپنی پُر کیف فضاؤں میں آنے والوں کو صاف سُتھرا
کردیتا ہے،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پاک پروردگار سے بار بار وہاں جانے بلکہ وہاں پر دفن ہونے کی بھیک طلب کرتے
رہیں کہ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی اور کیا سعادت کی بات ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک اسے اپنے محبوب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے محبوب شہر یعنی مدینۂ منورہ میں موت اور ہزاروں صحابۂ کرام
علیہم الرضوان کے وجودِ مسعود کے فیوض
و برکات سے مالا مال بقیعِ پاک میں دفن ہونے کی نعمت عطا فرمادے کہ وہاں پر
مرنا اور جنت البقیع میں دفن ہوجانا مقدر والوں کا ہی حصہ ہے۔
نبیِّ پاک ،رؤفٌ رَّحیم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلنشین ہے :(قیامت
میں جب سب کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا) سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و عمر (رضی
اللہ عنہما)کی
قبریں شَق ہوں گی، پھر میں جنّت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ
اکٹھے ہوں گے،پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں گا حتّٰی کہ حرمینِ شریفین کے
درمیان انہیں بھی اپنے ساتھ کر لوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب، باب (م: تابع17، ت:56)…الخ،5/388،حدیث:3712)
عاشقِ
مدینہ،امیرِ اہل ِسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدینے
پاک میں مرنے اور بقیع ِپاک میں دفن ہونے
کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نعتیہ دیوان”وسائلِ بخشش “میں لکھتے ہیں :
عطا
کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مدفن
مِری بن جائے تُربت یا شہِ کوثر مدینے میں
(وسائلِ
بخشش مرمم،ص283)
پیاری
اسلامی بہنو!حدیثِ پاک سے ہمیں یہ مدنی
پھول بھی حاصل ہوا کہ مدینے شریف کو یثرِب کہنا منع ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم یہ
لفظ بولنے اور لکھنے سے بچیں۔افسوس ! اب جہالت کا دور دورہ ہے، بعض نادان مسلمان
علمِ دین سے دُوری کی بِنا پر مدینے پاک کا ذکرِ خیر کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں
بیان کردہ ناموں کے بجائے لفظِ یثرِب لکھتے اور پڑھتے ہیں،حالانکہ لفظِ یثرِب اپنے
معنی کے اعتبار سے کسی بھی طرح مدینے شریف کے شایانِ شان نہیں،جیساکہ حکیم
الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں :یثرِب کا معنی ہے: مصیبت و آفات کی جگہ،چونکہ پہلے یہ جگہ بڑی
بیماریوں والی تھی اس لیے یثرِب کہلاتی تھی،حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی برکت سے طَیْبَہ یعنی صاف کی ہوئی زمین
ہوگئی اب وہ جگہ بجائے دارُالوَباء(یعنی مقامِ مصیبت) کے دارُالشفا بن
گئی۔(مرآۃ
المناجیح،6/294)
عاشقانِ
رسول کے لئے اس لفظ سے بچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے میٹھے میٹھے
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
اپنے پاکیزہ شہر کو یثرب کہنے سے منع فرمایاہے جیساکہ پیارے آقا،مکی
مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمنے
فرمایا:مَنْ
قَالَ لِلْمَدِيْنَۃ يَثْرِبَ فَكَفَّارَتُهُ اَنْ يَّقُوْلَ الْمَدِيْنَۃ عَشَرَ
مَرَّاتٍ یعنی
جو (غیر ارادی طور پر) مدینے کو یثرِب کہہ بیٹھے اسے کفاّرے کے
طور پر دس(10)مرتبہ
مدینہ کہنا چاہئے۔
مدینے
شریف کو یثرِب کہنا تو اس قدر بُرا ہے کہ عُلمائے کرام نے مدینَۂ طیبّہ کو یثرِب
کہنا ناجائز و گناہ قرار دِیا ہے چنانچہ
اعلیٰ
حضرت،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ
اللہ علیہ فتاویٰ
رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور
گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ہے۔نیز رسولُ اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:
جو
مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ
مُنَاوِی(حدیثِ
پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث
سے معلوم ہوا ! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے
سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)
محفوظ سدا رکھنا شہا!
بے اَدَبوں سے اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو
(وسائلِ بخشش
مُرَمَّم،ص315)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:عَلٰى أَنْقَابِ الْمَدِيْنَۃ مَلٰئِكَۃ لَّا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ
وَلَا الدَّجَّالُمدینہ کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہیں۔اس میں
نہ طاعون داخل ہوگا اور نہ دجال۔((صحيح البخاري، الفتن، باب: لايدخل الدجال
المدينۃ: 7133))
قرآن
ِکریم میں سورۂ احزاب کی آیت نمبر 13 میں
لفظ یثرب ، منافقین کے قول کے طور پر آیا ہے:وَاِذْقَالَتْ
طَّآ ءِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ(اور جب کہ ان(منافقوں)کی
ایک پارٹی(یعنی اوس بن قبطی اور اس کے ساتھیوں ) نے کہا۔اے یثرب والو!(یہاں) تمہارے قیام کا کوئی موقع نہیں۔
رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبرے
مطلب والے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے نہ صرف یثرب کا نام بدلا بلکہ اسے یثرب
کہنے سے منع بھی فرمایا ۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں:یقولون یثرب و ھی المدینۃلوگ
اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ یہ مدینہ ہے ۔
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے مدینہ کو یثرب کہنا
اس لیے پسند نہیں فرمایا کیوں کہ یثرب کا لفظ ثَرَبَہٗ ،
یَثْرِبُہاور ثَرَّ بَہٗ اور ثَرَّبَ
عَلَیْہ اور اَثَرَبَہٗ سے مشتق ہے(یعنی مادہ سب کا ایک ہے لیکن استعمال
فَعَلَ یَفْعَلُ اور تَفْعِیْل اور افعال سے ہوتا ہے)اور ثرب ہو یا اثراب یا تثریب سب کا معنی ہے ملامت
کرنا، عاردلانا، کسی جرم پر ذلیل کرنا اور مُثْرِبْ اس کو کہتے ہیں جو بخشش میں دراز دست نہ ہو۔
خوف کہتا ہے
کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل شوق
کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل
احادیثِ رسول کی روشنی میں مدینہ
نبویہ کے بے شمار فضائل ہیں چند فضائل پیش خدمت ہیں:
مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے:والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون ترجمہ:اور مدینہ ان کے
لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔ (صحيح البخاري:1875)
یہ حرم پاک ہے:إنها حرَمٌ آمِنٌترجمہ: بے شک مدینہ امن
والا حرم ہے۔ (صحیح مسلم:1375)
فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے
مدینے کی حفاظت:على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ ، لا يدخُلُها الطاعونُ، ولا الدجالترجمہ:مدینہ کے راستوں
پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتاہے۔(صحيح البخاري:7133)
مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا:إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينۃ ،
كما تأْرِزُ الحيۃ إلى جُحرِهاترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل
میں سمٹ جاتا ہے۔(صحيح البخاري:1876)
مدینہ سے محبت کرناہے:اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينۃ
كحُبِّنَا مكۃ أو أَشَدَّترجمہ:اے اللہ پاک !مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی
زیادہ محبوب بنادے۔ ( صحيح البخاري:1889)
مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت
نبوی:منِ استطاع أن يموتَ
بالمدينۃ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بهاترجمہ: جو مدینہ شریف
میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔ ( السلسلۃ الصحيحۃ:6/1034)
قابلِ صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے
میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ پاک کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد ِنبوی
ہے جسے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمنے اپنے دست ِمبارک سے
تعمیرکیا۔ اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس مسجد کی زیارت کا
حکم فرمایاہے:لا تُشَدُّ الرحالُ إلا
إلى ثلاثۃ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذاترجمہ:مسجدِ حرام،مسجدِ
نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔ (صحيح البخاري:1995) حدیث میں جو
فرمایا گیا ہے وہ نماز کے ساتھ خاص ہے کہ
زیادہ ثواب کے لیے دوسری مسجد میں نہ جاؤ سوائے ان تین مساجد کے۔البتہ جولوگ مدینے
میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجدِ نبوی کی زیارت کے
علاوہ مسجدِقبا،بقیعُ الغرقد اور شہدائےاُحد کی زیارت مشروع ہے ۔
مجھے مدینے کی دو
اجازت،
نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت
پِلاؤ بُلوا کے جامِ
الفت،
نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت
اگر نہیں میری ایسی قسمت،
سدا حُضُوری کی پاؤں لذَّت
رُلائے مجھ کو تمہاری
فُرقت، نبیِّ
رَحمت شفیعِ اُمّت
عطا ہو مجھ کو غمِ مدینہ،
تَپاں جگر چاک چاک سینہ
بڑھے محبت کی خوب
شِدّت، نبیِّ
رَحمت شفیعِ اُمّت
حُسین ابنِ علی کا
صدقہ،
ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ
عطا مدینے میں ہو
شہادت،
نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت
ہر اِک نبی ہر ولی کا
صدقہ،
تجھے تِری ہر گلی کا صدقہ
دے طیبہ میں مرنے کی
سعادت، نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت
(وسائلِ بخشش مرمم،ص207)
پیاری اسلامی بہنو!مدینے شریف کی عظمت و حرمت کی تو
کیا ہی بات ہے ! اس مبارک بستی میں نہ تو دجال داخل ہوسکتا ہے اور نہ ہی طاعون
جیسی مُہلک بیماری کیونکہ مدینے شریف کی راہوں پر اللہ پاک کی
طرف سے اس کے معصوم فرشتے مقرَّر ہیں جو ہر گز ہرگز شہرِ مدینہ کے
اندر طاعون اور دَجال کو داخل نہیں ہونے دیں گےجیساکہ
نبیِ اکرم،نورِ
مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے کے راستوں
پرفِرِشتے(پہرہ دار)ہیں،لہٰذا اس میں طاعون
اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1
/619،حدیث:1880)
طاعون ایک وبائی بیماری ہے جس میں بغل
یا ران پر پھوڑا نکلتاہے،اس کا زہر اتنا خطرناک ہوتا ہےکہ اس بیماری میں مبتلا انسان
کے بچ جانے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے،عموماً اس بیماری میں اُلٹیاں آنے، بیہوشی طاری ہونے اور دل کی
دھڑکن بڑھ جانےکا غلبہ رہتاہے،یہ مرض پہلے چوہوں میں پھیلتا ہے پھر انسانوں میں
منتقل ہوجاتاہے۔
مدینہ کے لغوی
معنی بڑی آبادی کے ہیں ۔لفظ مدینہ شہر کے
لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن یہ لفظِ عام حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی نسبت کے سبب اس طرح خاص ہوگیا کہ یہ جب بھی بولا جاتا ہے تو خیال
کسی اور شہر کی طرف جاتا ہی نہیں ہے۔یہ اتنا مبارک شہر ہے کہ اللہ پاک نے اس کا ذکر قرآنِ پاک میں فرمایا ۔اتنا عظیم ہے کہ اللہ پاک نے اس شہر کو ایمان سے
تعبیر فرمایا۔مدینہ طیبہ کا پرانا نام یثرب تھا۔یثرب حقیقت میں اس میدان کا نام ہے
جس کے ایک حصے میں مدینہ طیبہ آباد ہے ۔ابوعبیدہ بكری نے کہا:ارم بن سام علیہ
السلام
کی اولاد میں یثرب بن قانیہ کوئی گزرا ہے۔ جو سب سے پہلے یہاں آباد ہوا تھا اس کے
نام پر (اس
جگہ کا نام )ہے۔
پھر یہ قوم تباہ ہو گئی۔تبع ِاکبر کا اس سرزمین پر گزر ہوا ، اسے یہ بشارت دی گئی
کہ یہاں پہ نبی آخر الزماں صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمہجرت
کر کے تشریف لائیں گے تواس نے اس جگہ کو آباد کیا۔اس کے بعد اوس خزرج یہاں آکر
آباد ہو گئے۔ (نزھۃلقاری،ج
3،ص358 ،مخلصا)اس
مبارک شہر کے کثیر فضائل خود حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے بیان
فرمائے۔جنانچہ
1. حرم
ِمدینہ میں ایک نماز (کا ثواب ) 10 ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(قوۃالقلوب۔
مخلصا،احیاء العلوم ،ج1،ص739)
2. مدینہ
شریف کے راستوں میں فرشتے (پہرا دیتے) ہیں ۔(
مخلصا،مسلم ،کتاب الفتن۔الخ،بابقصۃ الجساسۃ،ص 1577،ح:2943)
3. مدینہ
میں دجال داخل نہ ہو سکے گا ۔(ایضا)
4. مدینہ
ایسی بستی ہے لوگوں(کفار ،منافقین، فتنہ پرورافراد)کو
ایسے دور پھینکتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو پھینکتی ہے۔(مخلصا نزھۃالقاری،باب
فضل المدینہ۔الخ،ص،265،ح:1090)
5. مدینہ
پاک کی تکلیف و شدت پر صبر کرنے والے کی
حضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمشفاعت
فرمائیں گے۔(مخلصا
، بہار شریعت،ج1،حصہ6،ص1217)
6. اہلِ
مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے کو اللہ پاک آپ میں اس طرح پگھلائے گا۔(ایضا)
7. مدینہ
شریف میں مرنے والے کی شفاعت حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
خود فرمائیں گے ۔(مخلصا
،ترمذی،ابواب المناقب، باب ماجاء فی فضل المدینہ،ح:3943، ص:483)
8. حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے مدینہ شریف ،اس کے پھل ،صاع ،مد وغیرہ
میں برکت کی دعا فرمائی۔(مخلصا ،مسلم، كتاب الحج،باب فضل المدینہ۔الخ،ح
1373،ص:713)
9. اہلِ
مدینہ کو فریب دینے والا پانی میں نمک کی طرح گھل جائے گا۔( مخلصا
،بخاری،کتاب فضائل مدینہ ۔ص،618،ح،1877)
10.اہلِ
مدینہ کو ڈرانے والے کو اللہ پاک خوف میں مبتلا فرمائے گا۔( مخلصا ،
بہار شریعت،ج1،حصہ6،ص1219)
ان فضائل کے
علاوہ مدینے شریف کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن
مَدَنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ہم
بے پناہ محبت کرتے ہیں،خود وہ مدینے سے بہت مَحَبَّت کیا کرتے ہیں، لہٰذا مَحَبَّتِ
رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی نہ صرف مدینے کی مَحَبَّت بلکہ مدینے کے کُوچہ و
بازار، گلشن و صحرا کی ، در و دِیوار ، پُھول حتّٰی کہ اس کے کانٹے تک
کی مَحَبَّت اپنے دل میں بسائے رکھیں،اس کی یاد میں تڑپیں
اور اس کی باادب حاضری کی نہ صرف آرزو کریں بلکہ اللہ کریم سے اس کی
دُعائیں بھی مانگیں۔اللہ پاک ہمیں بھی غم و محبتِ مدینہ عطا فرمائے۔آمین
اللہ پاک نے
اپنے محبوب مکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلند مقام و مرتبہ عطافرمایا ہے۔ہر وہ چیز جو
آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
نسبت رکھتی ہے وہ بارگاہِ خداوندی میں معزز و مکرم ہو جاتی ہے۔ خواہ وہ مٹی کے
ذرات ہوں یا پتھر ہو، ثمر و اشجار ہوں، مسجد و محراب ہوں یا منبر و دیوار ہو۔
رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا شہرِمدینہ الرسول، جس کی محبت اور ہجر و فرقت
میں دنیا میں کئی قصیدے لکھے گئے اور لکھے جاتے ہیں۔یہیں رسولِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر جبریلِ امین کے اترنے کی جگہ ہے۔ یہی انصار اور
مسلمانوں کی پہلی دارالسلطنت ہے۔ یہیں سے نور کی کرن پھوٹی اور یہیں سے زمین نور
ہدایت سے منور ہوئی۔ یہیں پر آپ نے اپنے آخری ایام گزارے، یہیں وفات پائی، یہیں
مدفون ہوئے، اور یہیں سے آپ اٹھائے جائیں گے۔
دورِ جاہلیت
میں مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا۔یثرب مصری زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ملامت کرنا،
فساد پھیلانا ہے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بُرے
ناموں کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔چنانچہ آپ نے یثرب کا نام تبدیل کرکے طیبہ رکھ
دیا۔جس کے معنی (عمدہ
اور بہترین)
ہیں۔
اس مبارک شہر
کو اللہ پاک نے شرف و فضیلت بخشا ہے۔اس کے کئی فضائل قرآن اور احادیث کی روشنی میں
بیان کئے گئے ہیں۔ کچھ فضائل صحیح مسلم اور بخاری سے درج ذیل ہیں:
•اس شہر میں
کسی مسلمان کے مرنے کی یہ فضیلت ہےکہ دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی
استطاعت رکھے وہ مدینے میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرےگا میں اس کی شفاعت کروں گااور
اس کے حق میں گواہی دوں گا۔
• اس مبارک
شہر کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس کا نام طیبہ اور طابہ رکھا۔ آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اس کا نام
طابہ رکھا ہے ۔(صحیح
مسلم)
• مدینہ کی یہ
بھی فضیلت ہے کہ ایمان اس کی طرف واپس لوٹ آئےگا۔ آپ کا فرمان ہے: ایمان مدینہ کی
طرف اس طرح واپس لوٹ آئےگا جس طرح سانپ بل میں واپس لوٹ آتا ہے۔ (
صحیح مسلم)اس
کے معنی ہیں کہ ایمان اس کی طرف مرکوز ہو جائےگا اور مسلمانوں کو اس کی محبت اس کی
طرف کھینچ لائےگی۔
•ایک اور حدیث
میں رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی فضیلت ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: مجھے ایک
ایسی بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا جو بستیوں کو کھا جائے گی۔ جسے لوگ
یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے۔(بخاری)اس کی تفسیر
یہ بیان کی گئی کہ اسے دیگر بستیوں پر غلبہ اور فتح حاصل ہوگا۔
•نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کی مشقت و پریشانی، رنج و غم پر صبر
کرنے کی فضیلت بیان کی ہے،چنانچہ
مدینہ
ا ن کے لئے بہتر ہے۔ کاش !وہ جانتے۔ (مسلم)
•حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں
آپ کا فرمان ہے:میری امت کا جو بھی فرد مدینہ کی پریشانی اور سختیوں پر صبر کرے گا
قیامت کے دن میں اس کا سفارشی یا گواہ ہوں گا۔(مسلم)
•مدینہ شہر کی
یہ بھی فضیلت ہے کہ نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
یہاں کا گرد و غبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہیں کرتے تھے اور فرماتے: خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جامع الاصول الجزری)
•اس شہر کو یہ
بھی فضیلت حاصل ہے کہ نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کی برکت کے لیے اللہ پاک سے یہ دیا
مانگی: اے اللہ پاک!ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر(مدینہ) میں
برکت عطا فرما، ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔(مسلم)
•اس شہر کی یہ
فضیلت ہے کہ یہاں کے باشندوں کو ایذا اور تکلیف پہنچانا حرام ہے۔
امام بخاری نے
صحیح کے اندر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی
اللہ عنہ
سے روایت کیا ،انہوں نے فرمایا:میں نے نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جو بھی اہلِ مدینہ کے ساتھ
مکروفریب کرےگا۔ وہ اس طرح پگھل کر ختم ہو جائےگا جس طرح نمک پانی میں گل ہو جاتا
ہے۔
•مدینہ کے
فضائل میں یہ بھی ہے کہ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوں گے۔ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : مدینے کے راستوں پر فرشتے مامور ہیں
اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوں گے۔(بخاری و مسلم)
مدینہ منورہ
کے بے شمار فضائل ہیں۔ یوں تو دنیا میں بے شمار شہر ہیں مگر ان دو شہر (مکہ
و مدینہ)
کو جو فضیلت حاصل ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔
مدینہ منورہ
وہ شہر جس کے ہجر میں مسلمان تڑپتے ہیں۔ کتنا بلندبخت ہے وہ انسان جس کے سینے میں
عشقِ رسول مچلتا ہے اورعاشق کو تو محبوب سے نسبت والی ہرشے سے عشق ہوتا ہے تو پھر
عاشق کو محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
شہر، درودیوار، وہاں کی خاک و عنبر سے کیوں نہ محبت ہو۔ہمارے دل میں جس طرح اللہ پاک
اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
عشق پیوست ہے۔ اسی طرح محبوب کے شہر سے بھی محبت ہو، ان گلیوں سے بھی محبت ہو جن
سے میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
گزرتے۔ ان اہلِ مدینہ سے بھی محبت ہو کیونکہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اہلِ مدینہ میرے پڑوسی ہیں انہیں عزت
کی نگاہ سے دیکھو۔اہلِ مدینہ خوش بخت ہیں کہ وہ حبیبِ کبریا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمسائے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ساتھ عطا فرمائے اور غمِ مدینہ نصیب فرمائے۔
آمین
اللہ ربّ العزت کی اس
بنائی ہوئی دنیا میں انسان بہت سے شہروں میں، بہت سے ممالک کا مشاہدہ کرتا ہے،
اللہ پاک کی قدرت کے نظارے دیکھنے کے لئے
دور دراز شہروں کا سفر کرتا ہے، سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور انسان کی فطرت
سے ہے کہ وہ تکرار سے اکتا جاتا ہے، اس طرح وہ کسی ملک و شہر میں اگر چند بار چلا
جائے تو وہ بالآخر اس شہر سے اکتا جاتا ہے اور آئندہ کچھ نیا دیکھنے کسی اور مقام پر جانے کا ارادہ
کرتا ہے، لیکن دنیا میں ایک شہر ایسا بھی ہے کہ اگر وہاں ہزار بار جانے کا موقع
ملے، تب بھی انسان بخوشی جاتا، اس سفر کا انسان مدتوں تک انتظار کرتا، اس سفر سے
کبھی بیزار نہیں ہوتا، اس سفر کے مسافروں میں شامل ہونے کی آرزو اور تمنا سے بے
چین و بے قرار اور اس کی آنکھوں کو غمناک رکھتی ہے، میری مراد میرے اور آپ کے چاند
سے بھی حسین و جمیل، بے مثل و بے مثال، دل و جان کے قرار، مدنی آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا مقدس شہر ِمدینہ ہے، اس شہر کا ادب و احترام ہر عاشقِ رسول کے دل میں
ہوتا ہے، عاشق وہاں کے کانٹے کو بھی سینے سے لگاتا ہے، خوشی سے چومتا ہے، اس راہ
میں آنے والی چوٹ پر مسکرا دیتا ہے، اس شہرِ مقدس کے، اس کی آب و ہوا کے، اس کی
خاکِ پاک کے، وہاں کی سختی پر صبر کرنے کے، وہاں کی نماز کے اور وہاں پر موت آ
جانے کے احادیثِ طیبہ میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، آپ بھی جھومتے ہوئے، تڑپتے
ہوئے، مچلتے ہوئے مدینہ طیبہ کے فضائل پڑھئے، اللہ ربّ العزت ہم سب کو اس پاک در
کی جلد از جلد حاضری کا شرف عطا فرمائے۔آمین
دنیا دیاں سفراں تو بندہ تھک وی تے جاندا اے پر سفر مدینے دا ہر
بار بڑا سوہنا
1۔ سرکارِ نامدار،مدینے
کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکا
فرمانِ عظمت نشان ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینہ منورہ
کی ہر گھاٹی اور ہر راستے پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم
شریف، صفحہ 714، حدیث 1378، عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 250)
2۔مدینہ طابہ ہے:دل و جان
کے قرار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے
ہیں:مدینہ منورہ کو یثرب کہنے والے پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ
ہے۔(فتاویٰ
رضویہ، جلد21، صفحہ 116)معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا حرام ہے اور
کہنے والا گنہ گار ہے۔
یثرب
کہنے کی ممانعت کیوں؟
مدینہ طیبہ کو یثرب کہنے
سے چند وجوہات کی بنا پر منع کیا گیا ہے:
1۔ زمانہ جاہلیت کا نام
تھا، اس لئے منع فرمایا۔
2۔یثرب ہلاکت وفساد کو
کہتے ہیں اور مدینہ منورہ تو خود مطیب و پاکیزہ، اس کی آب و ہوا پاکیزہ، اس کی مٹی
شفا، اس لئے یثرب کہنے سے منع فرمایا۔(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 119)
3۔وجہ ِتخلیق کائنات صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہوسکے وہ مدینے میں مرے،
کیوں کہ جو مدینے میں مرے ، میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شعب الایمان، جلد 3،
صفحہ497، حدیث1482)
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی
ہے
(حدائق بخشش )
کب تک میں پھروں در در، مرنے بھی دو اب سرور دہلیز پہ سر رکھ کر،
سرکار مدینے میں(
وسائل بخشش)
4۔شفاعت کی بشارت:حضور
انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:جس نے مدینہ منورہ کی سختی اور اس کی شدت پر صبر کیا،قیامت کے دن میں
اس کی شفاعت کروں گا۔
(صحیح
مسلم،کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینہ، حدیث 1378، احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ
739)
راہ جاناں کا ہر ایک کانٹا بھی گویا پھول ہے جو کوئی شکوہ کرے اس کی
یقیناً بھول ہے
(وسائل بخشش)
5۔ہزار نمازوں سے
بہتر:حضور نبیِّ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز دس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(قوت
القلوب، جلد 2، صفحہ 204)
6۔مدینہ طیبہ میں مسجدِ
نبوی کے اندر ایک حصّہ ہے جو ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں اس کی بھی
فضیلت آئی ہے، چنانچہ آقائے دو جہاں، مکے مدینے کے سلطان صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت
کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر خوض پر ہے۔
(صحیح
مسلم، کتاب الحج، حدیث 1390۔1391)
7۔دجال، طاعون سے
محفوظ:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں، اس میں نہ دجّال آئے گا،نہ طاعون۔(صحیح
مسلم، کتاب الحج، حدیث 1379،بہار شریعت،حصہ ششم، ص1220)
8۔خاتم النبیین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری
جان ہے!بے شک مدینہ پاک کے غبار میں ہر بیماری کی شفا ہے۔
(الترغیب
والترہیب، فی مکنی المدینہ، صفحہ 416، حدیث 28، اسمائے مدینہ منورہ، صفحہ23)
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اٹھا لے جائے تھوڑی خاک
ان کے آستانے سے
واقعہ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:
میں
مدینہ منورہ میں حاضر تھا، کسی بیماری کی وجہ سے میرا پاؤں سوج گیا تھا، ڈاکٹروں
نے بتایا : یہ ایک خطرناک بیماری ہے اور انہوں نے علاج سے بھی منع کردیا اور اپنے
ہاتھ روک لئے، چنانچہ میں نے حضور نبی آخر الزماں صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مقدس و مطہر و مطیب شہر مدینہ طیبہ کی خاک(مٹی)لی
اور اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، اللہ پاک کے کرم سے کچھ ہی دنوں میں سوجن ختم
ہوگئی اور اس مرض سے نجات مل گئی۔
(اسمائے
مدینہ منورہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 24)
تو خاکِ مدینہ میرے لاشے پر چھڑکنا پھر ملنا کفن پہ جو
ملے ان کا پسینہ(وسائل
بخشش)
9۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا،اللہ پاک اسے
خوف میں مبتلا فرمائے گا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،
کتاب الحج، باب فضل المدینہ، حدیث3730، بہار شریعت، حصہ اول، جلد 6، صفحہ 1219)
سنبھل کر پاؤں رکھنا زائرو شہرِ مدینہ میں کہیں ایسا نہ ہو سارا
سفر بیکار ہو جائے
10۔حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا
ہے، گویا میری حیات میں میری زیارت سے مشرف ہوا۔
(سنن
دارقطنی، کتاب الحج، باب المواقیت، حدیث 2667،جلد دوم)
مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے
دلبر مدینے میں
تو وہ شہر جس کے اس قدر
فضائل ہوں تو عاشق کیوں نہ اس کا ادب کریں، کیوں نہ وہاں جانے کے لئے تڑپیں، کیوں
نہ صبح وشام اس کے ذکر سے اپنے دل کو منور کریں، ہر عاشقِ رسول پر حق ہے کہ وہ
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،
ان کے شہر اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب کرے، اس سے محبت رکھے، اس کا
تذکرہ کرے اور اپنے دل و دماغ کو اس ذکر سے چین بخشے۔اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں مدینہ طیبہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، اخلاص سے بھرپور اور ریا سے پاک،
حاضری کا شرف عطا کرے اور ایسا جانا نصیب کرے کہ پھر واپس نہ آئیں، وہیں آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں
میں جان نکل جائے اور جنت البقیع ہماری آخری آرام گاہ بنے، ہمارا مدفن بنے۔آمین
مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و
ایماں یا رسول اللہ
1۔دوجہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عبرت نشان ہے :تم میں سے جو مدینے میں مرنے
کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت
کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 497،
حدیث1482)
زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری
مٹی بھی ٹھکانے سے(ذوق
نعت)
حدیث
کی تشریح:
اس حدیثِ پاک میں پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرما رہے ہیں کہ اگر تم سے ہوسکے کہ مدینہ میں مرو،
یعنی کوئی مرضِ وفات میں مبتلا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے آبائی وطن نہ لوٹے یا
دفن کرنے والے آبائی وطن نہ لے آئیں، بلکہ اسے مدینے میں ہی دفن کریں کہ جو مدینہ
میں مرے میرے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کی شفاعت فرمائیں گے اور ربّ کریم سے اس کے گناہ بھی بخشوائیں گے۔
مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی
مدینے میں دعا کرتی ہیں (وسائل بخشش)
2۔دجال
مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا:سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت
میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، ناراستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو
اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص 714، حدیث1274)
حدیث
کی تشریح:
امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور
تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے
زمانہ مبارک میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔
(شرح
صحیح مسلم للنووی، جلد 5، جز 9، صفحہ 148)
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ(ذوق
نعت)
3۔مدینہ لوگوں کو پاک صاف
کرے گا :رسول ِنذیر،سراج منیر، محبوبِ ربِّ قدیر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت
کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب
پر غالب آئے گی)
لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے
گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 617،
حدیث 1881)
4۔مدینہ کی سختیوں پر صبر
کرنا:شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکا
فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر
میں قیامت کے دن اس کا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔
تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت
کیجئے
تشریح
حدیث:
حکیم الامت، مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی
شفاعت خصوصی، حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری
امت کے لئے ہے کہ مدینے میں مرنے والے حضور انور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس شفاعت کے مستحق ہیں۔
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی
ہے
5۔مدینہ منورہ بہتر
ہے:نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکا
فرمانِ روح پرور ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی
تلاش میں چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر
آئیں گے اور اہلِ مدینہ کواس کشادگی کی
طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔(مسند
امام احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ 106، حدیث1468)
ان کے در کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے سے ان کے در کی بھیک اچھی
سروری اچھی نہیں
(ذوق نعت)
6۔امیر المؤمنین
حضرت فاروقِ اعظم رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں :مدینے میں چیزوں کے نرخ یعنی بھاؤ بڑھ گئے اور حالات سخت ہوگئے تو
سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کہ میں نے تمہارے صاع اور مد کو بابرکت کر دیا اور
اکٹھے ہوکر کھایا کرو، کیونکہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا کھانا چار کو اور چار
کھانا 5 اور 6 کو کفایت کرتا ہے اور بے شک برکت جماعت میں ہے تو جس نے مدینہ کی
تنگدستی اور سختی پر صبر کیا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق
میں گواہی دوں گا اور جو اس کے حالات سے منہ پھیر کر نکلا، اللہ پاک اس سے بہتر
لوگوں کو اس میں بسا دے گا اور جس نے اہلِ مدینہ سے برائی کرنے کا ارادہ کیا، اللہ
پاک اسے اس طرح پگھلا دے گا، جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔(مجمع
الزوائد، جلد 3، صفحہ 651، حدیث)
شہ ِکونین نے جب صدقہ بانٹا زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش (ذوق
نعت)
7۔ رسولِ اکرم،نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو بالقصد(ارادتاً)
میری زیارت کو آیا، وہ قیامت کے دن میری محافظت(حفاظت) میں
رہے گا اور جو مدینہ میں سکونت یعنی رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیف پر
صبر کرے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور
جو حرمین(مکہ
مدینہ)
میں سے کسی ایک میں مرے، اللہ پاک اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت
کے خوف سے امن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح، جلد 1،
صفحہ1012، حدیث2755)
غم ِمصطفٰے جس کے سینے میں ہے گو کہیں بھی رہے وہ مدینے میں
ہے
8۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،جب رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمغزوۂ
تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو تبوک میں شامل ہو جانے سے رہ جانے والے صحابہ
کرام علیہم الرضوان
ملے، انہوں نے خاک اڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا:اس ذات
کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع
الاصول للجزری، جلد 9، صفحہ297، حدیث6962)
خاک ِمدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتی ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا
9۔فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے مسجد نبوی میں متواتر چالیس نمازیں ادا کیں،
اس کے لئے جہنم اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔(مسند امام احمد، جلد 4،
صفحہ 311، حدیث12584)
عطار ہمارا ہے سرِ حشر اسے کاش! دستِ
شہِ بطحٰی سے یہی چٹھی ملی ہو
10۔فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:میری اس مسجد(مسجد نبوی)
کی ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 176،
حدیث1413)
صد غیرتِ فردوس مدینے کی زمیں ہے باعث
ہے یہی اس کا تو اس میں مکیں ہے
مدینہ
منورہ کے بارے میں مختصر تمہید، فضیلت و اہمیت:
1۔روئے زمین کا کوئی ایسا
شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت سے ہوں،جتنے مدینہ منورہ
کے نام ہیں، بعض علما نے سو تک تحریر کئے ہیں۔
2۔مدینہ منورہ ایسا شہر
ہے، جس کی محبت اور ہجر و فرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اورسب سے
زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔
3۔اللہ پاک کے حبیب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی طرف ہجرت کی اور یہیں قیام پذیر رہے۔
4۔جب کوئی مسلمان زیارت
کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے، تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب
القلوب:211)
5۔سرکار ِمدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ منورہ میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔
یثرب
سے مدینہ:
فتاویٰ رضویہ، جلد 21،
صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ
اللمعات شرح المشکوۃ میں فرماتے ہیں:حضرت احمد مختار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع
ہونے اور اس شہرسے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا
اور آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ
جاہلیت کا نام ہے، اس لئے کہ یہ ثرَبٌ سے بنا ہے۔
یثرب
کا معنی:
یثرب ثرَبٌ سے
بنا ہے، جس کے معنی ہیں :ہلاکت اور فساد اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس
وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔ امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ
اپنی تاریخ میں حدیث لائے ہیں کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے(کفارےمیں)
دس
مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔
قرآن
میں یثرب کا نام:
قرآنِ مجید میں جو یٰاَہْلَ یَثْرِبَ(یعنی
اے یثرب والو)
آیا ہے، وہ دراصل منافقین کا قول ہے کہ یثرب کہہ کر وہ مدینہ منورہ کی توہین کا
ارادہ رکھتے تھے۔ دوسری روایت میں ہے : یثرب کہنے والا اللہ پاک سے استغفار(توبہ)
کرے
اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا: جو مدینہ منورہ کویثرب کہے، اسے سزا دینی
چاہئے، حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار میں لفظ یثرب صادر ہوا
ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اور ہر طرح
سے مکمل ہے۔
زندگی کیا ہے مدینہ کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی
زندگی
غمِ
مدینہ اور محبتِ مدینہ:
بلا لو ہم غریبوں کو بلا لو یا رسول اللہ پئے شبیر و شبّر فاطمہ حیدر مدینے
میں
نہ ہو مایوس دیوانو پکارے جاؤ تم ان کو بلائیں گے تمہیں بھی
ایک دن سرور مدینے میں
ہر مسلمان کی یہی خواہش
ہوتی ہے کہ وہ سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکے
مبارک شہر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں
دفن ہو،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے
جلوؤں میں اس کا دم نکلے، قبر میں بھی سرکار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جلوؤں کا طلبگار رہتا ہے اور حشر میں بھی یہی
خواہش ہوتی ہے کہ اے کاش! آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلماپنے
دامنِ رحمت میں چھپا لیں، ایسا تب ہوگا جب ہم ساری زندگی آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سنتوں پر عمل کریں گی، نزع میں تب ہی جلوہِ حبیب
نظر آئے گا، جب ساری زندگی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمپر
درود پاک پڑھا ہوگا۔
واقعہ:
ایک بار کسی مرید نے پیر
سے کہا :حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی
زیارت کا کوئی وظیفہ بتادیں، پیر نے کہا : پہلے تم ایسا کرو کہ دو کلو مچھلی لو
اور پکا کر کھا لو، مگر پانی نہیں پینا، صبح میرے پاس آنا، مریض نے ایسے ہی کیا،
مچھلی خریدی اور کھا لی، لیکن پانی نہ پیا، رات کو سویا تو نیند کہاں آنی تھی،
لیکن جب بمشکل نیند آئی تو خود کو کبھی ندی پر پایا تو کبھی دریا پر پایا،صبح جب
پیر کے پاس گیا تو کہا :تم نے ہر جگہ پانی
پایا، لہٰذا جب تجھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکی
سخت تڑپ ہوگی تو میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمبھی
کرم فرما دیں گے، جو انسان ہر وقت غمِ مدینہ میں تڑپتا ہے، میرے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اس پر ضرور کرم فرماتے ہیں،جیسے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے کیا خوب کہا ہے:
فریاد امتی جو کرے حالِ زارمیں ممکن نہیں کہ
خیر بشر کو خبر نہ ہو
محبتِ
مدینہ:
کسی نے بھی کیا خوب کہا
ہے: مدینہ جانے کے لئے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ بات صرف عشق کی ہوتی ہے،جو
حقیقی عشقِ مدینہ سے رکھتی ہے، پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اسے ضرور مدینے بلواتے ہیں، بس بات صرف عشق کی
ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم کثرت سے درودِ پاک پڑھیں اور ہر وقت زبان پر ذکرِ
مدینہ کرتی رہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عاشقہِ خیرالوریٰ بنائے، ہمیں
ایسا دل عطا فرمائے، جو محبتِ مدینہ سے سرشار ہو، ہمیں ایسی آنکھ عطا فرمائے، جو
عشقِ مدینہ میں آنسو بہاتی رہے اور ہمیں
پیر و مرشد امیرِ اہلِ سنت بانیِ دعوتِ اسلامی کے ساتھ چل مدینہ کی سعادت عطا
فرمائے۔آمین
نا یہ بات مال وزر کی ہے، قسم خدا کی یہ ہے حقیقت جسے بلایا ہے سرکار
نے، وہی مدینے کو جا رہے ہیں
مدینہ میرا سینہ ہو میرا سینہ مدینہ ہو مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مضطر
مدینے میں
مدرس کورس (قراٰن لرننگ ٹیچر
کورس) کے طلبۂ کرام کے لئے
سیکھنے سکھانے کا حلقہ
29 جون 2022ء بروز بدھ کشمیر کے گاؤں منگلا میں دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے مدرس کورس (قراٰن لرننگ ٹیچر
کورس) کے طلبۂ کرام کے لئے سیکھنے
سکھانے کا حلقہ لگایاگیا۔
اس حلقے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد عقیل عطاری
مدنی نے”قرأت کی اہمیت اور امامت و
تدریس کے فضائل“ کے موضوع پر سنتوں
بھرا بیان کرتے ہوئے طلبۂ کرام کو دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں عملی طور پر
حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔بعدِ بیان وہاں موجود طلبۂ کرام و اساتذۂ کرام نے رکنِ شوری ٰ سے ملاقات بھی کی۔(رپورٹ:محمد عابد عطاری مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
یوں تو مدینہ طیبہ کو
دوسرے بلا دو امصار پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی
عزت اور محبت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃالرسول ہے، ہجرت گاہِ شاہ ِسرورِ کونین
ہے، اسے رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے
نسبت حاصل ہے،اسی مقدس شہر میں تاجدارِ دو عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرما ہیں، وہ خطہ ارض جو سرکارِ ابد قرار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے روضہ اطہر سے مس ہے، عرش سے بھی اعلٰی و ارفع اور
رشکِ جنت ہے۔مدینہ پاک ہی اسلام اور مسلمانانِ عالم کی عقیدت کا مرکز اور ایک
عاشقِ رسول کی تمناؤں کا محور ہے، اس کی شان ور فعت کا یہ عالم ہے کہ اس کے آگے
پشتِ فلک بھی ختم نظر آتی ہے۔تاجدارِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
ختم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے سن ہم پہ مدینہ ہے وہ
رتبہ ہے ہمارا
1۔حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں:نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
یہ ارشاد فرمایا ہے:مدینہ(میں داخل ہونے)
کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجّال داخل نہیں ہو سکتے۔
2۔حضرت ابنِ عمر رضی
اللہ عنہما
بیان کرتے ہیں،میں نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکو
یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:جو یہاں(مدینہ منورہ)
کی مشکلات پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا شاید یہ فرمایا:میں
اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(صحیح مسلم، صفحہ 700)
3۔حضرت انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:الہٰی !جو برکتیں تو نے مکہ مکرمہ کو دی ہیں، اس سے دوگنی برکتیں مدینہ
منورہ میں دے۔(صحیح
مسلم، صفحہ 701)
4۔حضرت انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے
سامنے احد پہاڑ چمکا تو فرمایا:یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے
ہیں۔ یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے مکہ معظمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں۔(بخاری،
مسلم)
5۔حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
نبیِّ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
یہ فرمان نقل کرتے ہیں: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کا ایک باغ
ہے اور قیامت کے دن میرا منبر میرے حوض کے کنارے ہو گا۔(صحیح مسلم، ص702)
6۔حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مجھے ایسی بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جائے، لوگ اسے
یثرب کہیں گے،حالانکہ وہ مدینہ ہے، لوگوں کو ایسے صاف کر دے گی، جیسے بھٹی لوہے کے
میل کو۔(صحیح
مسلم، ص701)
7۔حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:ایمان مدینہ کی طرف اس طرح سمٹ کر آ جائے گا، جس طرح سانپ اپنے سوراخ کی
طرف سمٹ کر آ جاتا ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم، ص701)
8۔حضرت ابنِ عمر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کو یہ توفیق نصیب ہو
کہ مدینہ میں اس کو موت آئے تو وہ اس کو ترجیح دے، مدینہ میں مرنے والوں کی میں
شفاعت کروں گا۔(صحیح
مسلم، ص698)
9۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو کوئی بھی اہلِ مدینہ کے ساتھ دھوکہ دہی کرے گا، وہ اسی طرح ختم ہوگا، جس
طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
10۔حضرت جابر بن سمرہ رضی
اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں، میں نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکو
یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔
اللہ ربّ العزت ہم سب کو
حجِ بیت اللہ اور بار بار روضۃ الرسول کی زیارت نصیب فرمائے، بروزِ محشر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
کی شفاعت نصیب فرمائے اور ہمیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکی
پکی سچی غلامی نصیب فرمائے۔آمین
30 جون 2022ء بروز جمعرات میرپور کشمیر کی
جامع مسجد سبحان بند خرما میں ایک تربیتی سیشن
کا انعقاد کیا گیا جس میں ائمۂ کرام سمیت دیگر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔
اس تربیتی سیشن میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن
حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ”قرأتِ نماز اور مسائلِ نماز“ کے موضوع پر
سنتوں بھرا بیان کیا اور ائمۂ مساجد کو
دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔
اس موقع پر رکنِ شوریٰ نے سنت کے مطابق نماز کی ادائیگی کے
لئے تعدیلِ ارکان کا پریکٹیکل کر کے بتاتے ہوئے ائمہ مساجد کو مسجد کی صفائی
ستھرائی کااہتمام کرنے، نمازیوں کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آنے اور انفرادی
طور پر درودِ پاک کا اہتمام کرنے کا ذہن دیا۔
بعدازاں رکنِ شوریٰ نے مسجد انتظامیہ کے ساتھ مل کر مسجد
کے اخراجات کو بتدریج خود کفیل کرنے کے حوالے سے چند اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا
اور ائمہ مساجد کو درپیش آنے والے مسائل کا حل بتایا۔(رپورٹ:محمد عابد عطاری مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت محمد ندیم عطاریہ، کراچی
الحمدللہ ذکرِ مدینہ
عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب وسینہ ہے، اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا،
روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو
پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، مدینہ ایسا شہر ہے جس کی محبت و ہجر و
فرقت کے متعلق دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے
لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ الحمدللہ
یثرب
کہنا کیوں منع ہے؟
فتاویٰ رضویہ، جلد 21 صفحہ
119 پر حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ ثَرْبٌ
سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و
سرکش بندے کا نام ہے۔
فرمایا:مجھے ایک بستی کی
طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور
وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل
کو۔(صحیح
بخاری، جلد 1، صفحہ 317،ح1871)
یوں تو مدینہ منورہ میں
بے شمار خوبیاں ہیں، مگر حصولِ برکت کے لئے دیارِ حبیب کے کچھ فضائل ملاحظہ فرما
لیجئے، تاکہ دل میں مدینے کی محبت اور لگن مزید موجزن ہو۔
1۔دو جہاں کے تاجور،
سلطانِ بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ روح پرور ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں
مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں
گا۔(
شعب الایمان، جلد 3، صفحہ497،ح1482)
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
2۔رسولِ
اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
دعا فرمائی: یا اللہ پاک!جتنی برکت تو نے
مکہ میں رکھی ہے، اس سے دوگنی مدینے میں رکھ دے۔(بخاری،ج1،ص620،ح1885)
3۔نبی اکرم، نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت
میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے
ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔( مسلم، ص714،ح1374)
امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس روایت میں مدینہ
منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلمکے
زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے تھے اور انہوں نے
تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی
عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔
(شرح
مسلم النووی،ج5،جزء9)
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب
و روز خا کِ مزارِ مدینہ
4۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کی تکلیف و شدّت پر میری امت میں سے
جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(بہارشریعت،
ج1،حصہ6،ص535)
5۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا
دے، جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے زیادہ، اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست
فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔(بہارشریعت،
ج1،حصہ6،ص536)
6۔سرکارِ والا تبار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے: مدینے میں داخل ہونے کے تمام
راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، ج1، ص619، ح1880)
7۔ حضور اکرم، نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے مکہ کو حرام قرار دیا اور میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں، ان دو
پتھریلے کناروں کے درمیان نہ کوئی درخت کاٹا جائے گا اورنہ شکار کیا جائے گا۔(مسلم،
ص566،ح3315،جزاول)
8۔ طبرانی نے معجم کبیر
میں امام مسلم کی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ فرماتے سنا :اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں
مدینہ کا نام طیبہ رکھوں، ایک روایت میں طابہ ہے۔مدینہ کو طابہ اس لئے فرمایا: یہ
شرک کی آلودگی سے پاک ہے اور اس میں زندگی پاکیزہ ہوتی ہے، اسی لئے اسے طیبہ اور طابہ
نام دیا گیا۔
9۔نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ایمان مدینہ طیبہ میں یوں سمٹ کر
داخل ہو گا، جیسے سانپ سمٹ کر اپنی بل میں داخل ہوتا ہے۔(بخاری و مسلم)
10۔میرے مدنی آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ کا گردوغبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے
اور صحابہ کرام علیہم الرضوان
کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب
القلوب، صفحہ 22)
الحمدللہ!عُشاقِ مدینہ
مدینے کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، جسے ایک بار دیدار ہو
جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا ہے اور مدینے میں گزرے لمحات کو ہمیشہ کے
لئے یادگار قرار دیتا ہے، ایک بار دیدار
ہو جائے تو تڑپ اور بڑھ جاتی ہے، کسی صورت دُور رہ کر سکون حاصل نہیں ہوتا، جو
دیدار نہ کر سکے، وہ تصاویر دیکھ کر دل بہلاتے، آنسو بہاتے ہیں کہ کاش !ہم بھی اس
دَرکو جائیں، یہاں کی برکات حاصل کریں،
زائرینِ مدینہ سے اپنا سلام کہلواتے اور اپنی حاضری کی دعائیں کرواتے ہیں، مدینے
میں مرنے کی تمنا تو ہر عاشقِ مدینہ کے دل کو تڑپا کر رکھی ہے، ہر ایک کی خواہش
ہوتی ہے کہ آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں جان نکلے اور وہیں جنت البقیع میں
مدفن بنے۔کیا خوب شعر ہے:
مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی
مدینے میں دعا کرتی ہیں
مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے
دلبر مدینے میں