اللہ عزوجل نے ہم پر بے شمار انعامات کئے ہیں، ان میں سے ایک عظیم الشان انعام نماز بھی ہے، اور اگر یہی نماز باجماعت ہو تو پھر تو وارے ہی نیارے ہیں، اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ1، البقرہ:43)ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو کہ یہ زیادہ افضل ہے۔

نماز باجماعت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام احمد بن حنبل اور آپ کے ساتھ دیگر آئمہ کرام رحمھم اللہ تعالیٰ جماعت کو فرضِ عین قرار دیتے ہیں اور اگر فرضِ عین نہ بھی مانا جائے تو اس کے واجب اور ضروری ہونے میں تو کسی قسم کا کوئی شبہ ہی نہیں ہے، البتہ علمائے احناف کے نزدیک ہر عاقل، بالغ، آزاد اور قادر مسلمان مرد پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلاعذر شرعی چھوڑنے والا گنہگار اور اگر کئی بار ترک کی تھی تو پھر فاسق ہے۔

باجماعت نماز پڑھنے کے متعلق حدیث مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل ذکر کئے گئے ہیں، چنانچہ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ ہوں۔

1۔اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والے کو محبوب رکھتا ہے۔(مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5612)

2۔نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث 645) 3۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(صحیح بخاری، جلد اول، حدیث 646)

4۔جس نے باجماعت نماز پڑھی، بے شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔(احیاء العلوم، جلد اول، صفحہ 462)

5۔جس نے چالیس دن باجماعت نماز اس طرح پڑھی کہ اس کی تکبیر تحریمہ بھی فوت نہ ہوئی تو اللہ عزوجل اس کے لئے دو پروانے لکھے گا اور ایک پروانہ نفاق سے آزادی کا اور دوسرا پروانہ آگ سے آزادی کا۔۔(احیاء العلوم، جلد اول، صفحہ 464)

یاد رکھئے! جہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں، وہیں بلا عذرِ شرعی جماعت کو ترک کرنے والوں کے لئے بھی سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ہیں۔

1۔ اگر جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ رہ جانے والے کے لئے کیا ہے تو گھسٹتے ہوئے حاضر ہوتا۔(معجم کبیر، ج8، ح7886)

2۔ کسی گاؤں یا بادیہ میں تین شخص ہوں اور نماز قائم نہ کی گئی ہو، مگر ان پر شیطان مسلط ہوگیا تو جماعت کو لازم جانو کہ بھیڑیا اس بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے دور ہو۔(مشکوۃ المصابیح، جلد اول، حدیث 999)

3۔جو اذان مسجد میں پالے، پھر وہ نکل جائے کہ نہ نکلا ہو کسی کام کے لئے، نہ وہ لوٹنے کا ارادہ کرتا ہو تو وہ منافق ہے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد اول، حدیث 1008)

4۔ جب تم مسجد میں ہو اور نماز کی اذان دی جائے تو تم میں سے کوئی نماز پڑھے بغیر نہ نکلے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد اول، حدیث 1006)

5۔روایت ہے کہ ایک مرتبہ آقا ﷺ نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں، جونماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلا دوں۔(احیاء العلوم، جلد اول، ص462)

الامان والحفیظ!یہ رحمت جانِ عالم ﷺ کے الفاظ ہیں، یقیناً اگر آپ ﷺ ہمیں اپنی زبان مبارک سے ایسا کہہ دیں تو ایسا آدمی بدبخت ہے، بظاہر یہ ایک معمولی کوتاہی لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمیں اللہ پاک سے دور کرنے کا سبب ہے، اس لئے اسلامی بھائیوں کو چاہئے کہ وہ بلا عذر شرعی جماعت ترک نہ کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے والا بنا دے۔آمین مزید معلومات کے لئےفیضان نماز کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔


جماعت کے فضائل  اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے سے جہاں بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں۔انہیں انعامات میں سے نماز بھی بلاشبہ اللہ عزوجل کا عظیم الشان انعام ہے کہ اس میں اللہ عزوجل نے ہمارے لئے دونوں جہاں کی بھلائیاں رکھ دی ہیں۔نیز اسی طرح جماعت نماز کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں ،یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ لہٰذا جماعت کے فضائل بیان کئے جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0ترجمہ کنزالایمان : اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔ احادیث مبارکہ جماعت کے فضائل سے مالا مال ہیں۔

جماعت کے فضائل پر احادیث مبارکہ:

1۔ جو کوئی اللہ عزوجل کے لیے چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے ۔ اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ۔ایک نار سے سے دوسری نفاق سے۔

2۔ جو شخص پنج وقتہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے اللہ تعالیٰ اس کو ستر حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔

3۔ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتےاُن لوگوں پر درودبھیجتے ہیں جو صفیں باندھتے ہیں۔

4۔ تنبیہہ الرجال میں ہے جو شخص ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو پانچ فضیلتیں عنایت فرمائے گا۔( 1) فشار قبر( یعنی قبر کے بھینچنے ) کی اذیت سے وہ محفوظ رہے گا (مطلب یہ قبر نرمی سے دبائے گی)۔ ( 2) قبر میں جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں اس کے دماغ کو تر و تازہ کریں گی ۔ ( 3) قیامت کے دن اس کے حساب و کتاب میں آسانی ہو گی۔( 4) پل صراط سے چمکتی ہوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا۔ ( 5) جنت کی شراب طہور اسے پلائی جائے گی۔

5۔ باجماعت نماز ادا کرنے کی اس قدر فضیلت ہے کہ ہمارے پیارے آقا میٹھے مصطفیٰ ﷺ نے ایک نابینا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استفسار پر اسے بھی باجماعت نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ایک نابینا صحابی کا سوال حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی ،یا رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں۔ تو کیا مجھے رخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں؟ فرمایا: حیَّ علی الصلوٰۃ، حیَّ علی الفلاح سنتے ہو؟ عرض کی جی ہاں، فرمایا تو باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے حاضر ہو۔ اس حدیث پاک سے جماعت کی فضیلت کا اندازہ لگائیں بلکہ شریعت مطہرہ میں نابینا کو مسجد میں جا کر جماعت سے نماز ادا کرنا واجب نہیں ہے پھر بھی نابینا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جماعت کی پابندی کا حکم فرمایا گیا تاکہ جماعت کی عظیم سعادت سے محروم نہ ہو۔

جماعت فوت ہونا بچے کی موت سے سخت تر ہے: حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،ایک بار میری جماعت فوت ہوگئی تو صرف حضرت ابو اسحاق بُخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری تعزیت کی ۔اور اگر میرا بیٹا فوت ہوتا تو دس ہزار سے زائد لوگ میری تعزیت کرتے ۔افسوس! لوگوں کے نزدیک دُنیا کی مصیبت سے زیادہ دین کی مصیبت آسان ہو گئی (مکاشفۃ القلوب)

اللہ اکبر ہمارے بزرگوں کے نزدیک جماعت کی کس قدر اہمیت تھی ان کے نزدیک مال و اولاد کی کوئی بات ہی نہیں تھی مصائب و آلام اسلام کی آمد پر بزرگوں کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ یہ حضرات خوش ہوا کرتے ہیں ۔

منقول ہے کہ جو شخص ہمیشہ پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھتا ہے اللہ عزوجل اس کو پانچ باتیں عنایت فرمائے گا (1)تنگدستی اس کی دور (2)عذاب قبر سے اسے محفوظ رکھے گا (3)قیامت کے دن اس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا (4)پل صراط سے تیز اڑنے والے پرندے کی طرح گزر جائے گا (5)جنت میں بلاحساب وکتاب داخل ہو گا۔

اور جو شخص پنج وقتہ نماز باجماعت میں سستی کرے اللہ تعالیٰ اس کو بارہ عذاب میں مبتلا کرے گا، تین عذاب دنیا میں تین مرتے وقت تین قبر میں تین قیامت کے دن۔

دنیاوی تین عذاب؛ ( 1) اس کی کمائی سے برکت اٹھ جائے گی ( 2) اس کے چہرے سے نیکی اور تقوی کی علامت مٹ جائے گی ( 3) لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔

مرنے کے وقت تین عذاب ؛ ( 1) جان کنی کے وقت بھوکا ہوگا ( 2) پیاسا ہو گا ( 3) روح نکلتے وقت سخت تکلیف۔

قبر کے تین عذاب یہ ہیں؛ ( 1) منکر نکیر کا سوال سختی سے ہوگا ( 2) قبر میں تاریکی ہوگی ( 3) قبر میں تنگی ہو گی

قیامت کے تین عذاب یہ ہیں ( 1) حساب سختی سے لیا جائے گا ( 2) اللہ عزوجل اس پر نہایت غضب ناک ہوگا ( 3) عذاب جہنم اس پر شدت سے ہوگا۔


اللہ پاک کے بے شمار انعامات میں سے ایک انعام نماز باجماعت بھی ہے نمازِباجماعت تنہا نماز سے ستائیس درجے افضل ہے۔  ہر عاقل بالغ، آزاد اور قدرت رکھنے والے مسلمان مرد پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور کسی مجبوری کے بغیر ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار چھوڑنا فِسق ہے بلکہ عُلما کی ایک جماعت بشمول حضرت اِمام اَحمد بن حَنبل علیہ الرحمہ،جماعت کو فرضِ عین کہتے ہیں۔اگر فرضِ عین نہ مانیں تب بھی نماز باجماعت واجب اور ضروری تو ہے۔حضور ﷺ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔ (فیوض الباری ج 3،ص 297،بتغیر قلیل )(فیضان نماز، ص 140)عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں۔(بہار شریعت ج 1،حصہ 3،ص 584) اور انہیں جماعت قائم کرنے یاجماعت میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں۔ (فیضان نماز ص 164)

نمازِ باجماعت کے بارے میں آقا کریم ﷺ کے فرامین:

1۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس درجے زائد ہے۔ (بخاری ج 1،ص 233، حدیث 647) (فیضان نماز ص 141)

ایک اور روایت ہے کہ نمازِ باجماعت تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے بڑھ کر ہے۔ (بخاری ج 1، ص 232، حدیث645) (فیضان نماز ص 141)

2۔ اللہ باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب (یعنی پیارا )رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ج 2،ص 309 حدیث 5112) (فیضان نماز ص 140)

3۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر الله سے اپنی حاجت (یعنی ضرورت)کا سوال کرے تو الله اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء ج 7، ص 299، حدیث 10591) (فیضان نماز ص 141)

4۔جو کوئی الله کے لیے چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی،ایک نار سے دوسری نفاق سے۔ (ترمذی ج 1،ص 274، حدیث 241)(فیضان نماز ص190) نماز شروع کرتے وقت سب سے پہلے جو تکبیر کہی جاتی ہے اسے تکبیر اولیٰ یا تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔

5۔اگر یہ نمازباجماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس رہ جانے والے کےلیے کیا ہےتو گھسٹتے ہوئے حاضر ہوتا۔ (معجم کبیر ج 8،ص 266، حدیث 7886)(فیضان نماز ص229)

حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں: اللہ کا فرمان ہے: ترجمہ كنزالایمان:وہ فرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اورنہ خریدوفروخت اللہ کی یاد اور نماز برپا رکھنے اور زکوٰة دینے سے ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں۔(پ 18،النور: 37) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے: یہ وہ لوگ تھے کہ ان میں جو لوہار ہوتا تھا وہ اگر ضرب (یعنی چوٹ) لگانے کے لیے ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز سنتا تو اب ہتھوڑا لوہے وغیرہ پر مارنے کے بجائے فورا رکھ دیتا اور چمڑ ے کا کام کرنے والا چمڑے میں سوئی ڈالے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی تو سوئی باہر نکالے بغیر چمڑا اور سوئی وہیں چھوڑ کر باجماعت نماز کے لیے مسجد کی طرف چل پڑتا۔ (کیمیائے سعادت ج 1، ص 339)(فیضان نماز ص149-148)

محترم اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے پہلے وقتوں میں مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھنے کا کیسا جذبہ ہوتا تھا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں۔ بروز حشر لوگ ایک ایک نیکی کو ترسیں گے،تو کہیں ہمیں بھی پچھتاوا نہ ہو کہ ہم نے اپنی زندگی غفلت میں گزاردی۔ 


اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمد للہ نماز بھی ان میں سے ایک عظیم الشان نعمت ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ پاک قرآن کریم سورۃ البقرہ، آیت 43 میں فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0

ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

تشریح:اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز سے 27 درجہ افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، جلد 1، صفحہ 330)

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند احمد، مسند اما احمد بن حنبل، جلد2، صفحہ 309، ح5112)

خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت

کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت

2۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجہ زائد ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، حدیث 647)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرے دامن کرم سے بھرے گا

3۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 232، حدیث 645)

4۔ جس نے فجر اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 62، حدیث 2875)

میں پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت

ہو توفیق ایسی عطا یا الہی

5۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر باجماعت ادا کی، گویا ساری رات قیام کیا۔(مسلم، صفحہ 258، حدیث 1491)

احادیث مبارکہ کی تشریح: مذکورہ بالا تمام احادیث سے یہ معلوم ہوا کہ نماز باجماعت کی بہت زیادہ فضیلت ہے، اکیلے نماز پڑھنے سے باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا بہت سعادت مندی کی بات ہے، اے کاش! تمام اسلامی بھائی تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کریں۔

اللہ پاک سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ہو کرم ربّ رحمت، پئے سرو رِسالت

نہ نماز با جماعت، کی چھٹے کبھی سعادت

پابندیِ نماز کا درس: اللہ پاک نے قرآن مجید میں متعدد مرتبہ نماز کی پابندی کا حکم دیا ہے، نمازِ پنجگانہ پہلی امتوں میں سے کسی پر بھی فرض نہیں کی گئی، یہ صرف حضور ﷺ کے صدقے امت ِمحمدیہ ﷺ پر فرض کی گئی ہے اور نماز کا عظیم تحفہ مدینے والے آقا ﷺ کو معراج کی رات عطا فرمایا گیا، فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:٭نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔٭نماز مؤمن کی معراج ہے۔٭نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔٭نمازی کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے بروزِ قیامت اللہ عزوجل کا دیدار ہوگا۔

لیکن افسوس! آج اکثر مسلمانوں کو نماز کی بالکل پرواہ نہیں رہی، ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی نظر آتی ہیں، اللہ پاک نے نماز فرض کر کے ہم پر یقیناً احسانِ عظیم فرمایا ہے، ہم تھوڑی سی کوشش کریں، نماز پڑھیں تو اللہ کریم ہمیں بہت سارا اجرو ثواب عنایت فرماتا ہے۔

جنت میں نرم نرم بچھونوں کے تخت پر

آرام سے بٹھائے گی اے بھائیو! نماز


نماز دینِ اسلام کا اہم رکن اور دین کے ستونوں میں سے دوسرا اور بہت ہی اہم ستون ہے .قرآن پاک میں خداوند قدوس نے اگر کسی چیز کا حکم سب سے زیادہ ایمان والوں کو دیا ہے تو وہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ نماز ہی ہے  نماز کو میرے آقا و مولا احمد مصطفیٰ ﷺ نے مومن کی معراج اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے یہ اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں پر احسان عظیم ہے اور اسی طرح نماز باجماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں .اللہ پاک نے اسے بھی ہمارے لیے بے شمار نیکیاں کمانے کا ذریعہ بنایا ہے چناچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو(پ-1 ، البقرۃ) اور پھر نماز با جماعت ادا کرنے سے جہاں اللہ اور اور اس کے رسول کے حکم پر عمل ہوتا ہے وہی ایمان والا ہونے کی گواہی بھی ملتی ہے نماز کو جماعت سے پڑھنے سے 27 درجے بڑھاکر اجرو ثواب دیا جاتا ہے اللہ پاک اور اس کے فرشتے باجماعت نماز پڑھنے والوں پر درود بھیجتے ہیں باجماعت نماز پڑھنے والا پل صراط سے بجلی کی تیزی سے گزرے گا باجماعت نماز کے متعلق ہمارے آقا رہبر محمد ﷺ کے بہت سے فرامین ہیں لیکن یہاں 5 فرامین قلمبند کیے جاتے ہیں ۔

1_ بندہ جب باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت کا سوال کرے تو اللہ پاک کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ بندہ حاجت پورے ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء)

2- نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس 27 درجے بڑھ کر ہے ۔(بخاری شریف)

3-نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون سے فرمایا جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل آیا اس کےلئے جنت الفردوس میں (70) ستر درجے ہوں گے ہر درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا ایک سدھایا ہوا تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا ستر سال میں طے کرتا ہے۔

4- جس نے فجر و عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لیے جہنم اور نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے (مسلم شریف)

5- اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب رکھتاہے (مسند احمد بن حنبل)

کیا ہی پیارے فضائل ہیں نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے جہاں دینی فوائد ہیں وہاں دنیاوی فوائد ہیں باجماعت نماز پڑھنے سے اپنے علاقے کے لوگوں کے حال احوال بھی معلوم ہوجاتے اور نیکی دعوت کو عام کرنے کا بہت ہی بہترین ذریعہ ہے مگر افسوس ہمارے ہاں نماز جماعت کے ساتھ صرف رمضان المبارک میں اکثر تعداد پڑھتی ہے غیر رمضان میں بہت ہی کم نمازی جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ہمارے اسلاف نے کبھی بھی اپنی نمازوں کو جماعت کے علاوہ نہیں پڑھا تھا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بازار میں تھے نماز کے لیے اقامت کہی گئی آپ نے دیکھا کہ بازار والے اٹھے اور دکانیں بند کرکے مسجد میں داخل ہو گئے تو فرمایا کہ آیت مبارکہ ( یعنی وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا....) ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہے اللہ اکبر کس قدر ان لوگوں کو اپنی نماز کی فکر اور ایک ہم ہیں کہ موؤذن جب اذان دیتا ہے تو ہم کاروبار میں ایسے مگن ہوتے ہیں کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا تو دور آذان کا جواب بھی نہیں دیتے ہر کوئی اس دور میں کامیابی چاہتا ہے مگر جب مؤذن دن میں رب کی جانب سے کامیابی کی طرف بلاتا ہے تو ہم لبیک نہیں کہتے اس کی صدا پر نماز کو باجماعت ادا کرنے سے ہمارا آخرت اور دنیا دونوں میں بس فائدہ ہی فائدہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ مسجد کی طرف جانے والے کے ہر قدم ہر ایک درجہ بلند ہوجاتاہے اور ایک گناہ مٹادیا جاتاہے ، نماز کے لیے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ نماز کو باجماعت پڑھنے کی توفیق عطاکرے آمین


باجماعت نماز بہت اہمیت و فضیلت کی حامل ہے، اس میں بہت سی حکمتیں موجود ہیں، باجماعت نماز سے اللہ کے لئے بھائیوں اور دوستوں کا آپس میں تعارف اور جان پہچان ہوتی ہے اور محبت کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کے بغیر ایمان کا برقرار رہنا آسان نہیں ہے، نماز باجماعت کی فضیلت یہ بھی ہے، جو آدمی مسلسل چالیس دن تکبیر تحریمہ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے گا تو اللہ اس کو نفاق اور جہنم کی آگ سے بَری اور آزاد کردے گا۔

فرامینِ آخری نبی ﷺ:

1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:دو یادو کے اوپر جماعت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب امامۃ)

2۔ باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر 27 درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری)

3۔ جو اللہ کے لئے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی، ایک دوزخ سے، دوسری نفاق سے۔(صحیح مسلم وبخاری)

4۔ لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔

5۔ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آ گیا ہے اور تم لوگ اپنی ذمّہ جماعت سے نماز لازم کر لو، کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے، جو اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہو گئی ہو۔حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔(سنن ابی داؤد)

باجماعت نماز پابندی سے پڑھنے کا درس: عبداللہ ابن عمر بازار میں تھے، مسجد میں نماز کے لئے اقامت کہی گئی، آپ نے دیکھا کہ بازار والے اٹھے اور دکان بند کر کے مسجد میں داخل ہوگئے، تو فرمایا: رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ یعنی وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا، ایسے لوگوں کے حق میں ہے۔

جماعت سے تو گر نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا

اللہ پاک دل جمعی کے ساتھ اور جوش و چستی کے ساتھ مسلمانوں کو تمام نمازیں باجماعت پابندی کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمدللہ ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

1۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لئے جائے، لیکن وہ لوگوں کو پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہوں تو اللہ اسے باجماعت نماز پڑھنے والوں کی مثل اجر عطا فرما دیتا ہے اور اس سے ان کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔(حسن سنن ابی داؤد:564، سنن نسائی:856)

2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اندھیروں میں مساجد کی طرف جانے والوں کو بروزِ قیامت مکمل نور کی بشارت دے دو۔(حسن سنن ابی داؤد:561، سنن نسائی:223)

3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری)

4۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب فی فضل التکبیرۃ ا ل اولیٰ 1:281، رقم 241)

5۔حضرت عبداللہ بن مسعود نے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی1:452، رقم 654)

خلاصہ:ان احادیث سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں نماز وقت پر پڑھنی چاہئے اور مردوں کو باجماعت نماز پڑھنی چاہئے۔

اللہ پاک ہم سب کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اے عاشقانِ نماز! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار نعمتیں عطا ہوئی ہیں، ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح جماعت کی نعمت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

آیت مبارکہ: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0

ترجمہ کنزالایمان:اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ:

1۔ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج2، ص9،حدیث 5112)

2۔جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(حلیۃ ال اولیٰ اء جلد 7، صفحہ 299، حدیث10591)

3۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، ح647)

4۔نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 232، ح645)

5۔جس نے فجر اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 22، حدیث 2875)

فرض نماز جماعت سے ادا کرنے کے بے شمار فضائل ہیں، اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل ہوتا ہے، باجماعت نماز پڑھنے والا پل صراط سے سب سے پہلے بجلی کی طرح گزر جائے گا، باجماعت نماز ادا کرنے والوں کی شان و شوکت دیکھ کر اہلِ محشر رشک کریں گے، نماز کے لئے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے، بروزِ قیامت عرش کا سایہ نصیب ہوگا، باجماعت نماز کی تکبیر اولیٰ پانا سو اونٹنیاں پانے سے بہتر ہے۔

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا

علامہ سید محمد احمد رضوی فرماتے ہیں:ہر عاقل، بالغ مسلمان جو قدرت رکھتا ہو، اس مرد پر نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے اور بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے، بلکہ ایک جماعت علماء بھی یہی فرماتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل فرض نماز کی جماعت کو فرضِ عین فرماتے ہیں، اگر فرض ِعین نہ مانا جائے تو اس کے بعد واجب و ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں ہے، حضور ﷺ عمومی طور پر فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے تھے، مگر یہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔

بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا

ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا

اللہ پاک ہمیں فرامینِ مصطفیٰ ﷺ پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین


تمہید:عاقل، بالغ، آزاد اور قادر پر مسجد کی جماعت   اولیٰ واجب ہے، بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گناہ گار اور مستحق سزا ہے، کئی بار ترک کرے تو فاسق اور مردود الشہادة اور اس کو سخت سزا دی جائے گی۔

جماعت کی تعریف:چند لوگوں کا ایک ساتھ اکٹھے ہو کر ایک جگہ پر ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کہلاتا ہے، جماعت چند لوگوں کے اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں۔

باجماعت نماز کی بہت زیادہ فضیلت ہے، حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے، ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی ہوگا۔

احادیث مبارکہ:

اثنان فما فوقہماجماعۃدو یادو کے اوپر جماعت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیہا، باب الاثنان جماعۃ، جلد1، صفحہ522، حدیث 972)

2۔ باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر 27 درجے فضیلت رکھتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان،باب فضل الصلاۃ الاجماعۃ، جلد1، صفحہ231، حدیث 219)

3۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کر دیا جاتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاجماعۃ والامامۃ،باب فضل الصلاۃ الاجماعۃ، جلد1، صفحہ232، حدیث 220)

4۔ جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب فی فضل التکبیرۃ ال اولیٰ ، جلد1، صفحہ281، حدیث 241)

5۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالتِ اسلام میں کل(قیامت کے دن) اللہ پاک سے کامل مؤمن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے، وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے، یعنی وہ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرے۔(صحیح مسلم، کتاب الامساجد ومواضع الصلاۃ،باب صلاۃ الاجماعۃ من سنن الھدی، جلد1، صفحہ452، حدیث 654)

خلاصہ:

٭نماز پنجگانہ باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ یکجا ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں۔

٭باجماعت نماز کی ادائیگی قرب و موا نست اور محبت کے رشتے کو مضبوط و مستحکم بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

٭باجماعت نماز سے اطاعتِ امیر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

٭معاشرے کے اندر حدث و یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔

٭وقت کی پابندی کا درس ملتا ہے۔

٭عملاً مساوات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

٭باجماعت نماز پڑھنے سے محبت بڑھتی اور مل کر اللہ کا ذکر کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔

٭باجماعت نماز پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے۔


موضوع باجماعت نماز کے فضائل وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0 (پ 1،البقرۃ:43) ترجمۂ کنز العرفان اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

جماعت سے متعلق پانچ احادیث:

1۔ جو الله کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لئے دو( ٢)آزادیاں دی جاتی ہیں ۔ایک نار (جہنم) سے اور دوسری نفاق سے۔ (مومن کی نمازص 193)

2۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مومن کی نماز ص193)

3۔ الله پاک باجماعت نماز پڑھنے والے کو محبوب یعنی پیارا رکھتا ہے(مسند احمدبن حنبل جلد 2 ص 309 حدیث 5112)(فیضان نماز ص 140)

4۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں پچیس 25درجے زائد ہے(بخاری جلد 1 ص 233 حدیث 647)

5۔ نماز تنہا پڑھنے سے ستائس (27)درجے بڑھ کر ہے۔(بخاری جلد 1 232 حدیث 645)

باجماعت نماز کی اہمیت : علامہ سید محمود احمد رضوی فرماتے ہیں ہر عاقل بالغ ہر (یعنی آزاد) اور قادر (یعنی جو قدرت رکھتاہو) ہر مسلمان (مرد) پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور بلا عذر (یعنی بغیر کسی مجبوری کے )ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گناہ گار ہے اور کئی بار ترک فسق ہے بلکہ ایک جماعت علما جن میں (امام) احمد بن حنبل بھی شامل ہیں وہ جماعت کو فرض عین قرار دیتے ہیں اگر فرض عین نہ مانا جائے تو اس کے واجب ہونے میں ضروری ہونے میں تو شبہ ہی نہیں حضورﷺ کا عمو می عمل یہ ہی تھا کے آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے اِلّا (یعنی مگر)یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی (فیوض الباری جلد 3 ص 297 بتغیر قلیل) (فیضان نماز140)

باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ فيها، باب الاثنان جماعۃ، 1 : 522، رقم : 972)

باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم کی چند احادیث درج ذیل ہیں :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 619)

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاة الجماعۃ، 1 : 232، رقم : 620 3)

3۔ جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب في فضل التکبيرة الاولیٰ، 1 : 281، رقم : 241 4)

4۔ جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔‘‘ پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔( مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی، 1 : 452، رقم : 654 )

جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟ بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ : أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِيْنًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ الْعِشَاءَ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامۃ، باب وجوب صلاة الجماعۃ، 1 : 231، رقم : 618 ) واللہ اعلم ورسولہ اعلم


با جماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ دو آدمی بھی ہو تو جماعت قائم کریں ایک امام بنے دوسرا مقتدی۔ نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ یکجاہونے کہ مواقع میسر ہوتے ہیں ۔ اس طرح انہیں اہل محلہ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ کون کس حال میں ہے کوئی ایسا تو نہیں جو پریشان و تنگدست ہے یا بیمار ہے ۔ با جماعت نماز کی ادائیگی قرب و موانست اور محبت کے رشتے مضبوط و محکم بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی اور سکھ دکھ میں شریک ہوکر ایک صحتمند اور خوشحال معاشرے کی تعمیر ممکن ہے ۔ وحدت و یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا درس ملتا ہے ۔ عملاً مساوات کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اتحاد، نظم اور یقین محکم کا درس ملتا ہے اور تربیت ہوتی ہے ۔ نیکیوں میں سبقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

با جماعت نماز کے فضائل پر پانچ فرامین مصطفیٰ:

1۔باجماعت نماز ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاذان ، باب الفضل صلاة الجماعت ، 1: 231،رقم : 219 )

2۔ جب آدمی اچھی طرح وضو کرکے مسجد کی طرف جاتا ہے کہ نماز کے سوا دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے پھر وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے ہیں جب تک وہ با وضو رہتا ہے اور اس کے لئے یہ دعا کرتے ہیں ، اے اللہ ! اس پر سلامتی بھیج اے اللہ ! اس پر رحم فرما۔

3۔ جو اللہ تعالیٰ کےلئے چالیس دن نماز با جماعت پڑھےاور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لئے دو آزادیاں ہے ایک جہنم سے اور دوسری نفاق سے۔ (سنن ترمذی ابواب الصلوۃ ، باب فی فضل التکبیرة ال اولیٰ ، 281: 1، رقم:241 )

4۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس ذریعے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹادے اور درجات کو بلند کردے ۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ کہا مشقت کے باوجود وضو کرنا اور ایک۔نماز کے بعد دوسری کا انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود مسجد میں ہی نماز پڑھنا۔ پس یہ تمہارے لئے نفس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

5۔ فرمان مصطفٰی ﷺ جس نے نماز عشاء با جماعت ادا کی گویا اس نے نصف رات کا قیام کیا۔ کسی ایک کے لئے یا جماعت کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مسجد قریب ہونے کہ باوجود گھر میں نماز ادا کرے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت میں ) اللہ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہےوہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نماز پنجگانہ با جماعت ادا کرے)


بے شک مسجد میں آنا، مسجد سے محبت کرنا، مسجد میں دل لگانا، پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا، نیک بندے کی علامت ہے، اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0(پ 1، البقرہ:43) ترجمہ کنز العرفان:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیوں کہ جماعت کی نماز پر 27 درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، پارہ 1، سورۃ بقرہ، زیر آیت 43، جلد 1، صفحہ 340)

ہر مسلمان مرد جو عقلمند ہے پاگل نہیں ہے، بالغ ہے نا بالغ نہیں ہے، آزاد ہے، پہلے دور میں جیسے باقاعدہ پیسوں سے غلام خریدے جاتے تھے، ایسے غلام نہیں ہے اور جو قادر ہے، یعنی مسجد تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے، اس پر پانچوں نمازیں مسجد میں آکر باجماعت ادا کرنا واجب ہے، اگر بغیر کسی شرعی مجبوری کے ایک بار بھی جماعت چھوڑ دے گا تو گناہ گار ہوگا اور اگر کئی بار ترکِ جماعت کرے گا تو ایسا شخص فاسق ہے۔(بہار شریعت، جلد 1، صفحہ582، حصہ 3،بتغیر قلیل)

اور جو شخص مسجد میں پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا، مثلاً نابینا ہے یا اس کی ٹانگیں سلامت نہیں ہیں، شدید بیمار ہے، چل پھر نہیں سکتا، تو ایسے شخص پر اگرچہ جماعت واجب نہیں ہے، البتہ اس کے لئے بھی افضل یہی ہے کہ جیسے ممکن ہو، مسجد میں آئے اور نماز باجماعت ہی ادا کرے۔

الحمدللہ ہمارے آقا و مولا، محبوبِ خدا ﷺ کا عمومی عمل مبارک یہی تھا کہ آپ ﷺ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے نعتیہ دیوان میں لکھتے ہیں:

میں پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت

ہو توفیق ایسی عطا یا الہی

نماز باجماعت سے متعلق پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ:

1۔ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 309، حدیث 5112)

2۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سوال کرے، تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔(کنزالعمال، کتاب الصلوۃ، جزء 7، جلد 4، صفحہ 227، حدیث 20239)

3۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے افضل ہے۔(بخاری، کتاب الاذان، صفحہ 223،حدیث 646)

4۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجے بڑھ کر ہے۔(تاریخ بغداد، جلد 2، صفحہ 404)

5۔ جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اس کے لئے جنت الفردوس میں 70درجے ہوں گے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا یعنیtrained تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا 70 سال میں طے کرتا ہے اور جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے جنتِ عدن میں 50 درجے ہونگے، ہر دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا یعنیtrained تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے اور جس نے عصر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے اولادِ اسماعیل میں سے ایسے 8 غلام آزاد کرنے کا ثواب ہو گا، جو کعبہ شریف کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں اور جس نے مغرب کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے حجِ مبرور(یعنی مقبول حج) اور مقبول عمرے کا ثواب ہو گا اور جس نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے لیلۃ القدر میں قیام(یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہوگا۔(شعب الایمان، باب الصبر، جلد 7، صفحہ137، حدیث 9761)