مکہ
مکرمہ کے فضائل :
مکہ المکرمہ
نہایت بابرکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا
ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقینا ًدیدارِ مکۃ المکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بعض
رسولوں کوبعض رسولوں پرفضیلت عطاکی ہے۔اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں
میں سے ،ماہِ رمضان المبارک کو،راتوں میں سے لیلۃ القدرکی رات کواسی طرح شہروں میں
سے مکۃ المکرمہ اورمدینہ منورہ کوفضیلت عطاکی ہے۔شہرِمکہ کی اللہ رب العزت نے قرآنِ
پاک میں قسم اٹھائی ہے۔اللہ رب العزت نے اس شہرکی قسم اٹھائی ہے، مجھے اس شہرمکہ
کی قسم !اے محبوب اس (شہرمکہ)میں تم تشریف فرماہو۔(پارہ
30سورہ البلد)قرآنِ
پاک سے اس بات کاپتاچلاکہ جس جگہ محبوبانِ خداکے پاؤں لگ جائیں وہ جگہ عام جگہ
نہیں رہتی بلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول جگہ ہوتی ہے۔حضور نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:
1۔’’مکے میں رمضان گزارنا غیرِمکہ میں ہزار
رمضان گزارنے سے افضل ہے۔‘‘(جمع الجوامع، ج4، ص472، حدیث 12589)
2 ۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکہ فتح فرمایا تواس روزفرمایا:اس شہرکواللہ
پاک نے اس دن سے حرمت عطافرمائی جس روز زمین اورآسمان کوپیداکیاتھا۔یہ اللہ پاک کی
حرمت کے باعث تاقیامت حرام ہے اور اس میں جنگ کرناکسی کے لئے نہ مجھ سے پہلے حلال
ہواورنہ میرے لئے مگردن کی ایک ساعت کے لئے کسی پس وہ اللہ پاک کی حرمت کے ساتھ
قیامت تک حرام ہے نہ اس کاکانٹاتوڑاجائے اورنہ اس کاشکاربھڑکایاجائے اوراس کی گری
پڑی چیزصرف وہ اٹھائے جس نے اعلان کرناہواورنہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔(البخاری)
3۔حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی
اللہ عنہ فرماتے
ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کومقامِ
حزورہ پرکھڑے ہوئےدیکھا،حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
فرماتے تھے:اللہ پاک کی قسم!تو ساری زمین میں سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی
تمام زمین میں خداکوزیادہ پیاری ہے !اگرمیں تجھ سے نکالانہ جاتاتوکبھی نہ نکلتا۔(ترمذی
،ابن ماجہ)
4 ۔حضرت جابر رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ،میں نے نبی کریمصلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکوفرماتے
ہوئے سنا:تم میں سے کسی کویہ جائزنہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں ہتھیاراٹھائے پھرے۔(مسلم)
5۔حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا
فرماتی ہیں:رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:
ایک لشکر کعبہ معظمہ پرحملہ کرے گاتوجب وہ میدانی زمین میں ہوں گے توان کے اگلے
پچھلے سب کودھنسادیا جائے گا۔میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!ان کے اگلے پچھلوں کوکیسے دھنسادیاجائے گا حالانکہ
ان میں سوداگربھی ہوں گے اور وہ بھی جو اس لشکر سے نہیں!رسول اللہصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دھنسایاتوسارے اگلے پچھلوں کوجائے
گاپھراپنی نیتوں پراٹھائے جائیں گے۔(مسلم، بخاری)
6۔حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
مکہ معظمہ سے فرمایا: تو کیسا پاکیزہ شہرہے اور تو مجھے کیساپیاراہے!اگرمیری قوم
مجھے یہاں سے نہ نکالتی تومیں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)
7۔حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،حضورنبی اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:کوئی شہرایسانہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ان کے راستوں میں
سے ہرراستہ پرصف بستہ فرشتے حفاظت کررہے ہیں۔(بخاری)
8۔حضرت عیاش ابن ابوربیعہ مخزومی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:یہ امت بھلائی پررہے گی جب تک اس حرمت کابحق تعظیم واحترام کریں جب اسے
بربادکریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ)
9۔حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:جواپنے گھرمیں نمازپڑھے اسے پچیس نمازوں کاثواب،جوجامع مسجدمیں نمازپڑھے
اسے پانچ سونمازوں کاثواب،جوجامع مسجداقصیٰ اورمیری مسجد(مسجدنبوی)میں
نمازپڑھے اسے پچاس ہزارنمازوں کاثواب اور جومسجدحرام میں نمازپڑھے اسے ایک لاکھ
نمازوں کاثواب ملتاہے۔(ابن ماجہ)
اللہ پاک ماہِ
رمضان المبارک کے صدقے ہمیں زیارتِ مکہ مکرمہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ مکرمہ حجاز
کا مشہور شہر مشرق میں حبلِ ابو قبیس اور
مغرب میں جبلِ قعیقعان دو بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، اس کے چاروں
طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ریتیلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیا ہے، اسی
شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کی ولادتِ باسعادت ہوئی، مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں تمام دنیا کے
لاکھوں مسلمان بحری، ہوائی اور خشکی کے راستوں سے حج کے لئے آتے ہیں۔اس مقدس شہر کی
فضلیت یہ ہے کہ اس میں خدا کا گھر ہے،حضور
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہاں
پیدا ہوئے اور عمر کا زیادہ تر حصّہ یہاں بسر کیا، قرآنِ پاک میں جابجا اس شہر کا
ذکر موجود ہے، مکہ دنیا کے وسط میں واقع ہے، یہ امن و امان والی جگہ ہے، مکہ مکرمہ
کو حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے 8ھ میں فتح کیا،حضور پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کا ذکر اس طرح فرمایا:مَا اَطیَبَكَ
مِن بلدِكَ و اَحَبَّكَ اِلَىَّ۔اے
مکہ!تو کتنا عمدہ شہر ہے اور مجھے کس قدر محبوب ہے۔
احادیثِ
نبوی اور فضیلت ِمکہ مکرمہ:
1۔حضورِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے مکہ میں ماہِ رمضان کے روزے رکھے،
اللہ پاک نے اس کے لاکھ مہینوں کے روزے لکھ لئے اور مسجد حرام میں ایک نماز لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ جو
مکہ میں ایک دن بیمار ہوتا ہے اللہ پاک اس
کے جسم کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دیتا ہے۔
2۔حضور پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: مکہ میں سختیاں اور درجے ہیں،جس نے یہاں
کی شدت پر صبر کیا، میں روزِ قیامت اس کا شفیع و گواہ ہوں گا، مکہ اور مدینہ میں
مرنا قیامت کے روز حساب اور خوف سے با امن رہ کر جنت میں سلامتی سے داخل کر دیتا
ہے اور حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس
کے قیامت کے دن شفیع ہوں گے، آگاہ رہو کہ
مکہ کے رہنے والے اہل ُاللہ ہیں اور اس کے گھر کے ہمسائے۔
3۔رسولِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز ایک ہزار نماز جیسی ہے، مسجد حرام میں ایک نماز
لاکھ نمازوں جتنا درجہ رکھتی ہے اور مسجدِ اقصی میں پانچ سو نمازوں جتنا۔
4۔رکن اور
مقام کے درمیان جو جگہ ہے، وہ طہارت پاکیزگی اور قرب میں اللہ پاک کے نزدیک سب سے
بڑی ہوئی ہے۔
5۔رُکنِ یمانی
اور رکنِ اسود کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
6۔یعنی مکہ میں
اقامت نہایت سعادت ہے اور اس سے خروج شقاوت، وہاں کی رہائش نہیں چھوڑنی چاہئے، بخل
اور سوال سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیطانی فعل ہیں۔
7۔ اللہ پاک
کے نزدیک اکرم وہ ملائکہ ہیں جو بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔جس نے ایک نظر بیت
اللہ کو دیکھا اور اس کی خطائیں خواہ
سمندر کی جھاگ جتنی ہوں تو بھی اللہ پاک
ان کو بخش دے گا۔
8۔ بیت اللہ
کے گرد جس نے سات طواف کئے، اللہ پاک ہر قدم کے عوض ستر ہزار درجے بلند کرتا ہے
اور ستر ہزار نیکیاں عطا کرتا ہے اور سات شفاعتوں کا حق عطا کرتا ہے، جس کی وہ اپنے مسلمان گھر والوں سے شفاعت کرنا
چاہے اور اگر وہ چاہے تو اسے آخرت پر رکھ چھوڑے۔
9۔نبیِّ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ حرم ہے، جس کو اللہ پاک نے روزِ
ازل سے حرم بنایا۔اے لوگو ! کوئی مکہ مکرمہ میں ہتھیار لے کر نہ چلے ۔
(مسلم کتاب الحج، باب النبی عن حمل السلاح بمکۃ مشکوٰۃ باب حرم مکہ پہلی فصل،
فضائل مکہ مکرمہ اور فضائل مدینہ منورہ، ص 17)
10۔ جس سے ہو
سکے وہ مکہ و مدینہ منورہ میں سے کہیں مرے تو اسے چاہئے کہ وہیں جان دے، کیوں کہ میں سب سے پہلے اسی کی شفاعت کروں گا اور وہ مرنے
والا قیامت کے دن اللہ پاک کے عذاب سے امن میں ہوگا۔
نوٹ:
یہ تمام احادیث
ایک عربی رسالے سے ماخوذ ہیں جو مکہ مشرفہ کے فضائل میں حسن بصری رحمۃ
اللہ علیہ
کی طرف منسوب ہے۔ یہ مطبع عثمانیہ کا1325ھ کا چھپا ہوا ہے۔اسے عزیزی ظفر حسین مکہ معظمہ سے لائے تھے۔کتاب تاریخِ
مکہ معظمہ مؤلف حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی ہاشمی ،ص 11-12- 13-14
مکہ معظمہ وہ شہر ہے جس کی تعریف میں قرآن ِمجید
رطب اللسان ہے، یہ مبارک شہر جو سب شہروں سے افضل ہے، کئی خصوصیتوں کا حامل ہے،
مکہ میں ربّ الامکان کا مکان ہے، مکہ میں مقامِ ابراہیم ہے، مکہ کو رب کریم نے
بلدہ طیبہ کہا ہے، مکہ ہی وہ شہر ہے جسے اللہ پاک نے ام القری کہا۔
اللہ پاک سے
دعا ہےوہ ہمیں اس بابرکت شہر میں بار بار ہرسال آنا نصیب فرمائے، اپنے مرشدِ کریم کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے اور
وہاں خوب خوب عبادت کرنے،ڈھیروں نیکیاں کمانے کی سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ
مکرمہ کی مختصر فضیلت:
مکہ مکرمہ
سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت ہونے کے باوجود تمام شہروں کا اصل یعنی ام
القریٰ ہے، یہی وہ مقدس ترین شہر ہے، جہاں سے روحِ زمین کا آغاز ہوا تھا اور فرشتے
اسی مبارک شہر میں عبادت کیا کرتے تھے، مکہ مکرمہ وہ بابرکت و بلند مرتبہ شہرہے جس کی عظمت کا خیال نہ صرف مسلمان، بلکہ
کفارِ مکہ بھی کرتے تھے اور کیوں نہ ہوں، ایسے مبارک شہر کی عظمت کہ اس میں
خدا کی عظیم نشانیاں، پیغمبرِ محمد صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت، خانہ کعبہ کی تعمیر کی نشانیاں، جنت
المعلی،جنتی پتھر، آبِ زم زم کا کنواں،انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
کے مزارات اور بے شمار نشانیاں اس شہر مبارک میں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے ایمان
کو تروتازہ و خشوع خضوع کردے، اس شہر مبارک کی فضیلت کے بارے میں اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں قسم کھا کر ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف
فرما ہو۔
(پ30،سورہ بلد:1)
شہر مکہ مکرمہ کی فضیلت کے بارے میں کچھ مختصر تذکرہ
پیش کیا گیاکہ یہ کتنی اہمیت و عظمت کا
حامل شہر ہے، اب شہر مبارک کی مختصر تاریخ پیشِ خدمت ہے:
مختصر
تاریخ شہر مکہ مکرمہ:مکہ کاتاریخی خط :
حجاز میں سعودی
عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہبِ اسلام کا پُر امن و مقدس ترین شہر ہے، مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور فاران میں
سطحِ سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے، یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے
پر ہے اور ایک روایت کے مطابق فاران مکہ شریف کا نام،جہاں حضرت ہاجرہ رضی
اللہ عنہا
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ٹھہرے
تھے۔
فاران وہی خط
ہےجو آج سے کچھ سال پہلے حجاز کے نام سے مشہور تھا اور آج سعودی عرب کے نام سے
مشہور ہے،اس طرح مکہ شریف کی تاریخ کا آغاز فاران سے ہوتا ہے۔حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا
مرکز تھا، جبکہ جنوبی عرب سے شمال میں رومی و بازنطینی سلطنتوں کے لئے زمینی راستے
پر تھا، جبکہ ہندوستان کے مصالحہ جات بحیرہ عرب اور اور بحیرہ ہند کے راستے سے یہیں
سے گزرتے تھے، 570 یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہ 60 ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی،
بعض روایتوں کے مطابق نو ہاتھی لے کر مکہ
پر حملہ آور ہوا، لیکن خدا کا کرم دیکھئے
کہ ابابیل پرندوں کے ذریعے ان کو شکست ہوئی اور ان کا پورا واقعہ سورہ فیل میں بیان
فرمایا۔یہ وہی سال تھا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیدائش
ہوئی، آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر وحی
نازل ہوئی اور آپ نے اپنی زندگی مبارک کا بیشتر حصّہ یہی مقدس شہر میں گزارا،
خلافتِ اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائےکرام
اور دانشوروں کا مسکن بن گیا، جو زیادہ سے
زیادہ کعبۃ الحرام کے قریب رہنا چاہتے تھے۔
مکہ کبھی بھی
ملتِ اسلامیہ و خلافتِ راشدہ کے زمانے میں دارالخلافہ نہیں رہا، اسلام کا پہلا
دارالخلافہ مدینہ ہی رہا ، مکہ صدیوں تک ہاشمی شرفا کی گورنری میں رہا، جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہتے تھے۔
1926ء میں
سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے اس کو سعودی عرب میں شامل کرلیا، مکہ مکرمہ
کے شہر کی زیارت اور اس میں موجود خانہ کعبہ کا طواف کرنا، ہر مسلمان کا مقصد اور خواہش
ہے، آئیے! حضورِ اقدس، نور عظمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشاد
کردہ مقدس ترین حدیثوں سے مکہ مکرمہ کی فضیلت پڑھئے۔
مکہ
مکرمہ کی فضیلت پر دس احادیث:
1۔بخاری شریف
میں ہے:جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
عمر ِمبارک سات سال یا تیرہ سال یا اس سے کچھ زائد ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے اپنے ربّ کے حضور سر تسلیم خم کیا اور مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیٹے کی قربانی
پیش کرنا چاہی، مگر اللہ پاک نے جنت سے مینڈھا بھیجا،اسے حضرت اسماعیل علیہ
السلام
کے فدیہ میں قربان کیا گیا،اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو کعبہ شریف تعمیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
مل کر کعبہ شریف کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔( بخاری، احادیث الانبیاء، صفحہ
858 تا 860، حدیث 336 خلاصہ)
2۔صحابی ابنِ
صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ
سے مروی ہے: بنی اسرائیل کی طرف تشریف لانے والے ایک ہزار انبیائے کرام علیہم
السلام
حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور یہ سبدو طویکے مقام پر اپنی نعلین شریف یعنی
مبارک جوتے اتار کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا
کرتے تھے۔(سبل
الہدیٰ، جلد1، صفحہ 209 تا211 خلاصہ)
3۔حضرت عبد
اللہ بن عدی ابن الحمیرا رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں، انہوں نے حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس وقت
فرماتے ہوئے سنا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت
کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے فرمایا: اے زمینِ مکہ! اللہ پاک کی قسم! تو اللہ
پاک کی بہتر زمین ہے اور مجھے بہت محبوب ہے، اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی
نہیں نکلتا۔(شفاء،
ص74،مشکوۃ، صفحہ 238، ابن ماجہ، صفحہ 224)
4۔مسند احمد
بن حنبل میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ
عنہما
سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتحِ مکہ
کے دن ارشاد فرمایا:زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے ہی یہ شہر حرمت والا ہے، قیامت
تک اس کی حرمت باقی ہے،دوسری روایت میں ہے:حضور سید عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس کا کاٹنا نہ توڑا جائے گا، گھاس نہ
کاٹی جائے، شکار نہ بھگایا جائے۔(شفاء، جلد 1، صفحہ 67)
یعنی سرزمینِ
مکہ مکرمہ وہ مقدس ترین شہرو زمین ہے، اس میں کسی کا خون بہا سکتے ہیں، نہ کسی کو
کاٹا جاسکتا ہے،حتی کہ گھاس پھوس ہی کیوں نہ ہو۔
5۔ حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:جو مکہ میں
فوت ہوا، گویا آسمانِ اول پر اسے موت آئی۔(شفاء،
ج1، ص85)
6۔زرقانی شریف
میں روایت ہے، حضور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خواب دیکھا
کہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی
خوش اسلوبی کے ساتھ مکہ مکرمہ داخل ہوئے۔(زرقانی، جلد 2، صفحہ 180)
7۔مکہ مکرمہ کی
ایک فضیلت خانہ کعبہ سے بھی ہے کہ یہ
مسلمانوں کا قبلہ اول اور اللہ پاک کا سب سے پہلا گھر ہے، چنانچہ حدیث ِمبارکہ میں
ہے،حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں :میں نے نبی ِاکرم، نور ِمجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصدیعنی(ارادے) سے آیا اور
اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا
رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس کے لئے
نیکیاں لکھتا ہے اور خطا مٹاتا اور درجات بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے
پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی،پھر سر منڈایا،بال کتروائے
تو گناہوں سے بالکل ایسے نکل گیا، جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(شعب
الایمان، جلد 3، صفحہ 478، حدیث 4115)
8۔حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:جو مکہ مکرمہ کے
قبرستان میں دفن کیا گیا، وہ قیامت کو امن سے اٹھے گا۔(شفاء العزام،
جلد 1، صفحہ 284)
9۔حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے سرزمینِ مکہ! تو کس قدر پیارا شہر ہے، مجھے کس
قدر محبوب ہے۔(مشکوۃ
شریف، کتاب الشفاء، جلد1، صفحہ 85)
10۔حضرت محمد
بن قیس بن مخرم رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں :حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جسے سرزمینِ مکہ یا مکہ مکرمہ جاتے راستے میں موت آئی، وہ قیامت کے دن امن
والوں میں ہوگا۔(شفاء
العزم، جلد 1، صفحہ 85،العقد الثمین، جلد1، صفحہ 45)
سبحان اللہ
سبحان اللہ!!کیا رونق و مزاج ہیں مکہ کےکہ ہر مسلمان کے دل کا نور ہے۔اللہ کریم ہم
اور آپ سب کو زیارتِ مکہ، طوافِ مکہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مقدس
شہر مکہ:
مکہ مکرمہ
متبرک اور معزز نام ہے، اس قابل صد تعظیم وتکریم شہر کا ہے، جس پر دنیا جہاں کی
عظمتیں اور نعمتیں قربان، جن کے چشمہ فیض سے عالم مستفیض ہو رہا ہے، جو خطہ مقدسہ
اس کرہ ارضی کے وجود کا مؤجب اور باعث تخلیق بنا، جو اپنی لطافت، نظافت، شرافت،
عظمت ،جلالت و شرف و مجد میں یگانہ روزگار ہے اور جس کی توصیف و تحمید سے قرآنِ مجید
،احادیثِ نبوی اور تاریخِ عالم کے اوراق مزیّن و معمور ہیں ۔
قرآنِ مجید میں
اس سر زمین کو بکہ اور مکہ جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیا ہے، بکہ اور مکہ حقیقت
میں ایک ہی لفظ ہے۔اس پیارے شہر کو بکہ اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس جگہ بڑے بڑے
جابر اور ظالم لوگوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں اور تکبر اور بڑائی کرنے والا یہاں
آکر پست ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے بکہ کہا جاتا ہے اور اس بنا پر بھی کہ زائرین
اور طواف کرنے والوں کا یہاں ہر گھڑی جھمگھٹا رہتا ہے، مطاف کا ہر وقت کچھا کھچ
بھرا رہتا ہے اور اس کےگلی کوچے بھی لوگوں کے جمِ غفیر سے معمور رہتے ہیں۔(تفسیر
کبیر ،ج 3، ص 8)
مکہ
مکرمہ کی آبادی:
حضرت ابرہیم علیہ
السلام
کو وحی ذریعے اللہ پاک نے اس زمین کے خطے پر جانے کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت ابراہیم
علیہ السلام، حضرت ہاجرہ
اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو
مکہ لے کر آئے اور انہیں بیت اللہ کی جگہ کے پاس ایک گھنے درخت کے نیچے بٹھا دیا،
یہ درخت مسجد کے اوپر والی جانب میں اسی جگہ تھا، جہاں زم زم ہے، ان دونوں میں سے
نہ کوئی مکہ میں رہتا تھا نہ ہی وہاں پانی تھا، حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے انہیں وہاں بٹھا کر ان پاس کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کی ایک مشک رکھ دی
اور روانہ ہو گئے، اللہ پاک کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ساتھ وہاں صبر و استقامت اور ہمت سے رک گئیں اور اللہ پاک کے حکم پر سر تسلیم خم
کر دیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں
سے زم زم جاری ہوا، یوں یہ ارضِ مقدسہ آباد ہوتی چلی گئی ۔(سیرت الانبیاء
،ص308)
فضائل
مکہ مکرمہ:
مالکِ بحروبر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہ
ہو گا۔(مسند
احمد بن حنبل ،ج 10،ص 85،حدیث 2610)
نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر
کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے ۔(اخبار مکہ، ج 2، ص 311، حدیث
1565)
حضرت سعید بن جبیر رضی
اللہ عنہ
نے فرمایا:جو ایک دن مکہ میں بیمار ہو جائے، اللہ پاک اس کے لئے اسے اس نیک عمل کا
ثواب عطا فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ مسافر ہو تو اسے
دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(اخبار مکہ، ج 2 ،ص 311 ،حدیث 1565)
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے حج یا عمرہ کرنے کی نیت کی
تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین( مکہ و مدینہ) میں موت آگئی تو اللہ پاک بروزِ قیامت اسے اس طرح
اٹھائے گا کہ نہ اس پر حساب ہو گا نہ عذاب، ایک دوسری روایت ہے، وہ بروزِ قیامت
امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔(مصنف عبد الرزاق، ج 9،ص 184،حدیث 17479)
آمنہ کے مکان پر روزوشب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
مکہ میں ایک نیکی
ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔
نبی رحمت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:اے
لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے،جس دن آسمان و زمین پیدا کئے،
لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام (حرمت والا) ہے۔( ابن
ماجہ، ج 3، ص 519، حدیث 3109)
حضرت عبداللہ بن عدی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے، میں نے حضور انور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام
ِحزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔
خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا
جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج3، ص 518، حدیث 3108)
حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں
ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔ (جمع الجامع، ج 4، ص 382، حدیث 12589)
(عاشقان رسول کی130 احکامات مع مکے مدینے کی زیارتیں)
نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ میں ہی پیدا ہوئے ۔
میقات کے باہر
سے آنے والے بغیر احرام مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے اور یہی مکہ میں خانہ کعبہ،مقام
ِ ابراہیم، حجرِاسود، بئرِزم زم، میدانِ عرفات و مزدلفہ، صفاو مروہ ہیں۔
حرم ہے اسے ساحت ِہر دو عالم جو
دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ (ذوقِ نعت)
اللہ پاک اس
مقام ِمقدسہ کا ادب واحترام کرنے اور اس متبرک مقام کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔
آمین
بجاہ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ
بھی پیارا تو میٹھا مدینہ
فضائلِ
مکہ مکرمہ:
قرآنِ کریم میں
متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اوّل،سورۂ بقرہ آیت
نمبر 126 میں ہے:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے میرے ربّ میرے شہر کو امن والا کر
دے۔
احادیث
کی روشنی میں:
1۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مکہ میں رمضان گزارنا غیرمکہ میں ہزار
مضان سے افضل ہے۔
(جمع
الجوامع، جلد 4، صفحہ372،حدیث12589)
شرحِ
حدیث:
حضرت علامہ
عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ
پاک کے تحت لکھتے ہیں:مکۃالمکرمہ میں رہ کر رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا،غیر مکہ
کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے، کیونکہ اللہ پاک نے اس مکہ کو اپنے
گھر کے لئے منتخب فرمایا ہے، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو
امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔(فیض القدیر،
جلد 4، صفحہ 51، تحت الحدیث)
2۔حضرت عبداللہ
بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے مروی ہے، میں نے حضور اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقامِ
حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین
زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں
مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ
نکلتا۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 518)
3۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:(فتحِ مکہ کے دن خطبہ دیا اور)اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے
اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس نے آسمان و زمین پیدا کئے گئے، لہٰذا یہ قیامت تک
اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام یعنی(حرمت والا) ہے۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 519)
4۔مالکِ
بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوگا۔(مسند احمد بن
حنبل، جلد 10، صفحہ 85)
5۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر
کرے ،جہنم کی آگ سے دور ہو جاتی ہے۔(اخبار مکہ، جلد 2، صفحہ 311 )اللہ
پاک ہمیں بھی مکہ مکرمہ کی گرمی میں صبر کرنا نصیب فرمائے۔ آمین
6۔حدیث ِپاک میں
ہے:کعبہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ دیکھنا
عبادت ہے۔(فردوس
الاخبار، جلد 1، حدیث2791)
7۔ایک اور روایت
میں ہے:زمزم کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔(اخبار مکہ للفاکھی، جلد 2، صفحہ 14)
8۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور
اسی حالت میں اسے حرمین میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے
گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔(مصنف عبد الرزاق، جلد 9، صفحہ 174)
9۔ایک اور روایت
میں ہے:وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔
10۔مکہ مکرمہ
کی ایک فضیلت یہ بھی ہے،حضور اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ میں پیدا ہوئے۔(تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 30/31)
مکہ مکرمہ نہایت
برکت اور صاحب اعظم شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور
اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔قرآنِ کریم میں
بھی متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان ہے۔پارہ
30، سورۂ بلد کی پہلی آیت میں ہے:لا اقسم بھذا البلد۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر
کی قسم، یعنی
(مکہ مکرمہ کی)۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش)
پیاری بہنو!آئیے
! مکہ مکرمہ کے چند فضائل پڑھئے:
1۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا، غیر مکہ
میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔( جمع الجوامع، ج 4، ص 372، حدیث
12589)
2۔مالکِ بحروبر،قاسمِ
کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔ (مسند احمد بن
حنبل، ج10، ص 85، حدیث 26109)
3۔حضرت صفیہ
بنتِ شیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نبیِ
رحمت، شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فتحِ مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و زمین پیدا
کیا، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت
والا)ہے۔(ابن
ماجہ، ج3، ص 519، حدیث 3109)
4۔نبی ِّکریم،
رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔(اخبار
مکہ، ج 2، ص311، حدیث 1565)
5۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور
اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ
حساب ہوگا نہ عذاب۔ایک دوسری روایت میں ہے: وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں
اٹھایا جائے گا۔(عاشقان
رسول کی حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں، ص194)
آمنہ کے مکاں پہ روز و شب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
6۔حضرت عبداللہ بن عدی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے، میں نے حضور تاجدارِ رسالت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقامِ حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے
تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی
قسم! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج
3، ص 518، حدیث 3108)
میں مکے میں جا کر کروں گا طواف اور نصیب آب زمزم مجھے
ہوگا پینا(وسائل بخشش)
7۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے ابو
القاسم محمد رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصد(یعنی ارادے) سے آیا
اور اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس
کےلئے نیکی لکھتا ہے اور خطا مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ جب
کعبہ معظمہ کے پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھرسر
منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا
ہوا۔(شعب
الایمان، ج3، ص 478، حدیث 4115)
پاک گھر کے طواف والوں پر بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
8۔رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو بیت اللہ کے طواف کے سات پھیرے
کرے اور اس میں کوئی لغو یعنی بیہودہ بات نہ کرے، تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔(المعجم الکبیر،
ج20، ص360، حدیث 845)
9۔جس نے مکہ
مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور روزہ رکھا اور رات میں جتنا میسر آیا، قیام کیا تو
اللہ پاک اس کے لئے اور جگہ کے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا اور ہر دن ایک غلام
آزاد کرنے کا ثواب اور ہر رات ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر روز جہاد میں
گھوڑے پر سوار کر دینے کا ثواب اور ہر دن میں نیکی اور ہر رات میں نیکی لکھے گا۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 523، حدیث 3117)
10۔حدیثِ پاک
میں ہے:کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ
دیکھنا عبادت ہے۔ (اخبار
مکہ لکفاکھی، ج 2، ص 14، حدیث 1105)اللہ کریم ہمیں با ادب حاضریِ مکہ کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ وہ شہر ہے
جس کی تعریف میں قرآنِ مجید رطب اللسان ہے، یہ اپنے اندر آثارِ انبیائےکرام رکھتا
ہے، اسے محبوبِ خدا،سرورِ انبیا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام علیہم
الرضوان
کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، یہ مبارک
شہر جو سب شہروں سے افضل ہے ، کئی خصوصیات و فضائل رکھتا ہے، مکہ کے فضائل بیان
کرنے سے قبل اس کی مختصر تاریخ جانتی ہیں:
بلدِ حرام مکہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ لفظ مکہ یا مک یا مکک سے
مشتق ہے اور مَک جذب کرنے اور دھکیلنے کو کہتے ہیں، اسی لئے اس شہر میں لوگ چلنے
اور طواف کرنے میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔(تاریخ
العروس،6/462، شفاء العرام1/154)
ولادتِ
مکہ مکرمہ:
مکہ
کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟ اس پر مفسرین کے مختلف اقوال ملتے ہیں:
1۔حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:دنیا
کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا،
جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں، پھراس کے نیچے زمین پھیلا دی گئی۔(مصنف
عبد الرزاق، تفسیر طبری1/547)
تفسیر ِ کبیر میں ایک روایت ہےکہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے
اور یہ زمین کی ناف ہے،اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ
ہے۔(معجم
البلدان7/256، تفسیر کبیر3/9)
اس کے علاوہ
بھی قول ملتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ سرزمین دنیا کی تمام زمینوں سے
باعتبارِ پیدائش قدیم ہے۔
نام مکہ:
انگریزی زبان
میں Mecca
کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی
مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے، 1980ءکی دہائی میں حکومتِ سعودی عرب نے شہر کا انگریزی
نام Mecca
سے بدل Makkah
کر دیا، اس مقدس شہر اور عظیم شہر کے بہت سے نام ہیں، جو تقریبا 50 ہیں۔(شفاء
الغرام، معجم البلدان)
قرآنِ مجید میں
اس عظیم شہرکو مختلف مقامات پر مختلف ناموں
سے ذکر فرمایا ہے،جیسے مکہ،بکہ،البلد، القریہ،اُم القریٰ،معاد،اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:لا اقسم بہذا البلدمیں
اس بلد کی قسم اٹھاتا ہوں۔(سورۃ البلد، آیت نمبر1)
اسی طرح سورہ
فتح:24 میں مکہ کا ذکر آیا:وہوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ۔اللہ
نے وادیِ مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے۔
بکہ کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ ۔ ترجمہ:لوگوں کے لئے عبادت کی غرض سے
بنایا جانے والا پہلا گھر بکہ میں ہے، جو تمام دنیا کے لیے برکت اور ہدایت والا
ہے۔(سورہ
ٔال عمران، آیت نمبر 96)
مکہ
اور بکہ کےدرمیان فرق:
حضرت علی رضی
اللہ عنہ
سے منقول ہے:بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوائے پورا شہر مکہ ہے، بکہ ہی وہ مقام ہے جہاں طواف کیا جا سکتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ طواف صرف حرم کے اندر ہی جائز
ہے، باہر نہیں، کیونکہ باہر کا حصہ مکہ میں شمار ہوتا ہے، یہی قول امام مالک، امام
ابراہیم نخعی، امام عطیہ اور امام مقاتل رحمۃُ
اللہِ علیہم
کا ہے۔(معجم
البلدان8/134، ابن کثیر1/383، تفسیر طبری4/6)الغرض مکہ
مکرمہ کے اور بھی کئی نام ہیں، جیسے نسَّاسَہٗ، حَاطِمہٗ، حرم، صلاح، با سہٗ،
راس،و غیرہ
مکہ
مکرمہ کی ابتدائی آبادی:
اس لق و دق
صحرا کو گلِ گلزار اور چمن دار بنانے والے پہلے انسان حضرت اسماعیل علیہ
السلام
اور حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
ہیں،جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حکمِ
الٰہی سے اس بے آب و گیاہ ریگستان اور نا ہموار ٹیلہ میں تھوڑا سا پانی اور مشکیزہ
بھر کر پانی دے کر اللہ پاک کے حکم سے
چھوڑ آئے، بیابان ٹیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، وہی
ہے، جو مکہ شریف میں ہے جو تمام لوگوں کے
لئے بابرکت اور رحمت والا ہے۔(ال عمران:96)
اس آیت سے
معلوم ہوا!حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
سب سے پہلے اس مقدس شہر کو آباد کیا،البتہ اطراف واکناف میں قبیلہ جرہم آباد تھا،
جسے بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا
رشتہ ازدواج قائم ہوا۔(ماخوذ
تاریخ مکہ مکرمہ)
فضائلِ
مکہ احادیث کی روشنی میں:
کعبہ کی زمین(باستثنائے
مرقد ِمبارک رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)دنیاو مافیہا سے افضل ہے، جو کعبہ کے
اندر داخل ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی رحمت میں داخل ہوتا ہے اور جو اندر جا کر باہر
آتا ہے، وہ اللہ پاک کی مغفرت لئے ہوئے آتا ہے، اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی
گنا افضل ہے،اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کو جو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ عطا فرمایا،
سب کعبہ کی برکت سے عطا فرمایا، فرمانِ باری ہے:وَمَنْ
دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً۔جو اس (حرم) میں داخل ہو
جائے امن والا ہے۔
حضور نبی کریم
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ معظم ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیِر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔اللہ
پاک نے شہر ِمکہ کو یہ خصوصیت بیت اللہ کی وجہ سے دی اور اس شہر مکہ کو اپنے گھر
کے لئے منتخب کر کے اس شہر کی عظمت بڑھا دی۔
2۔ پیارے آقا علیہ
السلام
نے فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔(مسند احمد بن
حنبل، حدیث نمبر 26106)
3۔جو دن کے
کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔
4۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو فرماتے ہوئے سنا :تم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار
اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف)
5۔شہرِ ِ مکہ
کی خصوصیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
مکہ معظمہ سے فرمایا:تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری
قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)
6۔حضرت عیاش
بن ابو ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، حالات ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ)
معلوم ہوا !
انسان کی بقا، اتحاد، عزت و وقار مکہ سے وابستہ ہے، اس کی تعظیم مسلمانوں میں کم
ہوگی تو امت افتاد و پریشانی میں گرفتار
ہو جائے گی۔
7۔مسلم و بخاری
کی حدیثِ مبارکہ میں ہے:حج و عمرہ ایک ساتھ کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقرو گناہوں کو مٹاتے ہیں، جیسا
کہ بھٹی سونے، لو ہے اور چاندی سے زنگ ختم کرتی ہے۔
8۔مکہ کی عظمت
اور فضائل کا اندازہ اس سے کریں کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مقدس شہر سے نقل مکانی سے منع فرمایا۔
حضرت ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا: ہجرت باقی نہ رہی، لیکن جہاد اور نیت ہے۔(بخاری18/3)
9۔حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:گھر میں آدمی کی نماز ایک نماز کا ثواب رکھتی ہے، محلہ کی مسجد میں نماز
پڑھنے کا ثواب 25 نمازوں کے برابر ہے، جو جامع مسجد میں نماز پڑھے، اسے پانچ سو
نمازوں کا ثواب ملے گا اور جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی میں نماز
پڑھے، اسے پچاس ہزار کا ثواب ملے گا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ
نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(ابن ماجہ)
10۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس نے بیت اللہ کی زیارت کی، پھر یہاں سے کسی سے جھگڑا، بدزبانی، فساد نہ کیا
تو گناہوں سے اس طرح ہو جاتا ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے، گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔(بخاری)
شہرِ مکہ کی
فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے: فتحِ مکہ کے دن حضور علیہ السلام نے
فرمایا:اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت
عطا فرمائی، جس دن زمین آسمان کو پیدا فرمایا، یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت
حرام ہے ۔(بخاری)
الغرض کوئی
انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس سے پہچانا جاتا ہے،جس طرح انسان نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کرتا ہے، وہ عام انسان نہیں رہتا، بلکہ
وقت کا غوث، قطب ،ابدال بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان
سب کچھ کعبۃ اللہ، بیت اللہ کی برکت سے ملا ہے ۔
مکہ مکرمہ وہ
مبارک جگہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس میں رہنے کی خواہش فرمائی، مکہ مکرمہ کی رہائش مستحب ہے، کیونکہ اِس میں نیکیاں
اور اطاعتیں بڑھتی ہیں، سلف و خلف آئمہ میں
سے بے شمار حضرات نے مکہ مکرمہ کی رہائش اختیار کی، مکہ مکرمہ میں رہائش کی سب سے
بڑی دلیل یہ ہےکہ رسول الله صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس میں رہائش فرمائی اور حضرت بلال رضی
اللہ عنہ
نے اپنے اشعار میں مکہ مکرمہ دوبارہ جانے کی تمنا کی تھی۔(صحیح بخاری،
حدیث نمبر : 3926)
کعبۃ الله
قابلِ احترام گھر ہے، جو مسجد حرام کے درمیان
واقع ہے۔اب مکہ مکرمہ کے 10 فضائل حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں پیش کئے جاتے ہیں:
1۔رسول الله صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ پاک کی
قسم !توالله پاک کی زمین بہترین جگہ ہے اور اللہ پاک کو محبوب ترین ہے، اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو میں
کبھی نہ نکلتا۔(جامع
ترمذی ، حدیث نمبر 3925)
2 ۔حضرت کعب
بن احبار رحمۃُ
اللہِ علیہ نے
فرمایا:اللہ پاک نے شہروں کو چنا تو سب سے زیادہ بلد حرام کو پسند فرمایا۔ (شعب
الایمان، بیہقی ، حدیث : 3740)
3۔عبدالله بن
عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کی
حدیث ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو مکہ مکرمہ میں اونٹنی پر سوار حزوره(یہ وہ بازار ہے جو مکہ میں سیدہ
ام ہانی رضی
الله عنہا
کے گھر کے باہر تھا جو کہ بعد میں مسجد ِحرام کی توسیع میں شامل ہو گیا) مقام
پر یہ فرماتے سنا :اللہ پاک کی قسم! تو
اللہ پاک کی زمین میں بہترین جگہ ہےاور
الله پاک کے ہاں محبوب ترین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں
کبھی نہ نکلتا۔(مسند
احمد 4/305)
4۔حضرت جابر رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:میری اس مسجد میں ایک نماز دیگر مساجد میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے، البتہ
مسجد حرام کی ایک نمازایک لاکھ نمازوں سے
بھی بڑھ کر ہے۔(مسند
احمد : 3/ 343، 397)
5۔حضرت عبد
الله بن زبیر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:کعبہ کو بیتِ عتیق اس لئے کہا گیا ہے، کوئی کافر بادشاہ اس پر قابض نہیں
ہوا۔ (جامع
ترمذی، حدیث نمبر : 3170)
6۔حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا
فرماتی ہیں،میں نے نبی ِّکریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
سے پوچھا: کیا وجہ ہےکہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا لگایا گیا ہے؟ تو آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تیری قوم (قریش) کا
مقصد یہ تھا کہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔(صحیح
بخاری ، حدیث نمبر : 1584)
7۔ بہت سی
احادیث میں یہ مضمون آیا ہے:قربِ قیامت کعبہ کو شہید کر دیا جائے گا، چنانچہ حضرت ابو
ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:چھوٹی چھوٹی ٹیڑھی پنڈلیوں والا ایک حبشی کعبہ کی عمارت ڈھائے گا۔( صحیح
بخاری ، حدیث نمبر 1591)
8۔حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول
الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:گویا کہ میں اُس کالے ٹیڑھی پنڈلیوں
والے شخص کو دیکھ رہا ہوں، جو کعبہ کے ایک ایک پتھر اکھاڑ دے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر :1595)
9۔نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:ایک لشکر کعبہ پر حملہ کرنے آئے گا تو ان
سب کو مقامِ بیداء پر دھنسا دیا جائے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث 2117)
10۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے، میں نے گزارش کی: اللہ پاک کے رسول! میں بھی کعبہ میں داخل ہونا چاہتی
ہوں تو رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:حجر (حطیم)
میں
داخل ہو جاؤ، یہ بیت اللہ ہی کا حصّہ ہے۔(سنن نسائی ، حدیث نمبر : 2914)
واہ! کیا شان
ہے مکہ مکرمہ کی! الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس مقدس شہر، مقدس جگہوں میں حاضری کے
شرف سے نوازے، اس کا ادب اور احترام کرنے کی توفیق سے نوازے اور ڈھیروں نیکیاں
اکٹھی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تاریخ
کے اوراق :
فتحِ مکہ:ہجرت
کے آٹھویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا
کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، اس فتح کا پسِ منظر و سبب کیا تھا اور کیا نتائج
رونما ہوئے، اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیئے۔
رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے وہ
لوگ جو آپ کو صادق و امین، محترم، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل
جانتے تھے، یک لخت آپ کے مخالف ہوگئے، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے
میں اپنی سرداریاں کھو جانے کا ڈر ہوا، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسول ِخدا
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
پکار پر لبیک کہہ دیں تو 14 صدیاں بعد تو کیا، قیامت تک صحابی رسول کے عظیم لقب سے
جانے جائیں گے، ہر کلمہ گو انہیں رضی اللہ
عنہم
کہہ کر یاد کرے گا۔
بہر کیف یہ ان
کے نصیب میں ہی نہ تھا، جن کے مقدر میں تھا، انہوں نے لبیک کہا اور پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں
اٹھائیں، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا، جب کفارِمکہ کا ظلم و ستم حد سے
تجاوز کر گیا اور اللہ پاک نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ
ہجرت کر گئے، لیکن افسوس! کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ رہے اور مسلمانوں کو پے در پے
اذیت دیتے رہے، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا، مسلمان مکہ مکرمہ میں بیت
اللہ شریف کی زیارت کیلئے بے قرار تھے، چنانچہ رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 1400 صحابہ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔کفارِ مکہ نے پھر
جفا کاری سےکام لیا اور مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا، بالآخر
طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا، جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔
10 رمضان
المبارک 8 ہجری کو نبی اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوگئے، مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو ہتھیار ڈال دے ، اُس کیلئے امان ہے، جو دروازہ
بندکرے ، اس کے لئے امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے ، اُس کیلئے امان ہے۔
پھر
آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
کعبہ مقدسہ کو بتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے اور باہر تشریف
لا کر خطبہ ارشاد فرمایا۔
مکہ
مکرمہ کے فضائل تاریخ:
الحمد
لله مکہ مکرمہ نہایت با برکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی
تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو
بھی عبادت ہے، اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجیئے، تاکہ دل میں
ا س کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔
وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا
مدینہ
مكۃ
المكرمہ امن والا شہر ہے:
قرآن ِکریم میں
متعدد مقامات پر مکۃ المکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت
نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ
اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ
کنز الایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ
1، سورہ بقرہ، آیت 126)
پارہ 30 سورۃ
البلد کی پہلی آیت میں ہے :لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ
کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)۔(خزائن
العرفان، ص1104)
مکۃ
المکرمہ کے دس حروف کی نسبت سے مکے کے دس نام :
اے
عاشقانِ رسول!مکۃ المکرمہ کے بہت سے نام کتابوں میں درج ذیل ہیں، ان میں سے 10 یہ
ہیں۔
(1)البلد(2)البلدالامین(3)البلدہ(4)القریہ(3)القادسیہ(5)البیت
العتیق(1)معاد(8)بکہ(9)الرَّاسُ (10) اُم القری۔ (العقد الثمنين
فی تاريخ البلدالامین، ج1،ص204)
کفارِ قریش سے
ارشاد فرمایا : بولو تم کو کچھ معلوم ہے ؟ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
کفار آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے:اَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْم۔آپ
کرم والے بھائی اور کرم والےبھائی کے بیٹے ہیں،نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا:لا تثریب علیکم
الیوم فااذھبوا انتم الطلقاء۔آج تم پر کوئی الزام نہیں،جاؤ تم آزاد
ہو۔
بالکل غیر
متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اس
عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آکر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی
بیعت کرنے لگے۔
فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے، اللہ
پاک اپنے حبیب فاتحِ مکہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کے حسنِ اخلاق کے صدقے ہمیں بھی با اخلاق بنائے اور دنیا و آخرت میں اس خلق عظیم
والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
سایہ رحمت عطا فرمائے۔آمین
احادیثِ فضائلِ مکہ:
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی
اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ
قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب، ایک دوسری روایت میں ہے:بعث نمن الاٰمنین
یوم القیامۃ یعنی
وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا
جائے گا۔
میں مکے میں جاکر کروں گا طواف اور نصیب آبِ زم زم مجھے
ہو گا پینا
الله پاک ہمیں
بار بار ہزار بار پیارے مکے اور میٹھے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے۔(آمین)
مکہ مَکٌ سے
بنا ہے، مکہ کا معنی ہلاکت اور سر کچل ڈالنا، کیونکہ اللہ پاک نے کئی بار مکہ معظمہ کے دشمنوں کو ہلاک کیا،
اس لئے اسے مکہ کہتے ہیں، مکہ حجاز کا مشہور شہر ہے، جو مشرق میں جبل ِابو قبیس اور مغرب میں جبلِ قعیقعان کے درمیان واقع
ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت
اسماعیل علیہ السلام اور ان کی
والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو
مکہ مکرمہ میں لاکر شہرِ مکہ آباد کیا، شہرِ مکہ میں آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آبائی وطن اور وحی کے نازل ہونے کی جگہ ہے، مکہ
مکرمہ کے فضائل کی طرح اس کے نام بھی متعدد ہیں:
1۔البلد الامین 2۔القادسیہ 3۔البیت العتیق
4۔معاد 5۔بکہ 6۔ام القری 7۔الراس 8۔القریہ
فضائل
مکہ:
1۔حرم ہونا، پیارے
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و
زمین پیدا کئے، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3109)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس
شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں نہیں، بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے، ہر دین میں
یہ جگہ محترم ہے۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4، صفحہ 221)
2۔بہترین زمین:
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3108)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے
ہیں:جمہور علما کے نزدیک مکہ معظمہ شہر مدینہ سے افضل اور حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ پیارا ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 225)
3۔حرم شریف کی
بے حرمتی مؤجب ہلاکت:نبی کریم صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس کی حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،
جلد 3، صفحہ 519، ح3110)
4۔ہتھیار
اٹھانا منع ہے: رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف، جلد 1، صفحہ 506، ح3307)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ
معظمہ میں کھلے ہتھیار اٹھائے پھر نا کہ مسلمان مرعوب ہوں،حرام ہے، غلاف میں ڈھکے
ہوئے ہتھیار اپنی حفاظت کے لئے اٹھانا درست ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 223)
5۔حساب سے امن:مصطفے
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی
اور اسی حالت میں سے حرمین(مکہ مدینہ) میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا، نہ عذاب۔(مصنف
عبدالرزاق، جلد 9، صفحہ 174، ح17479)
6۔قیامت کے خوف سے امن:فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو حرمین میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اسے
اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا۔(مشکوۃ المصابیح،
جلد 1، صفحہ 241، ح2632)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حرمین
میں مرنے والا قیامت کی بڑی گھبراہٹ جسے فزع اکبر کہتے ہیں، اس سے محفوظ رہے گا،
مگر یہ فوائد فقط مسلمانوں کے لئے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ
246)
7۔رمضانِ مکہ
مکرمہ:نبی رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع
الجوامع، جلد 4، صفحہ 372، ح12579)
حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس افضلیت کی وجہ تحریر فرماتے
ہیں:اللہ پاک نے مکے کو اپنے گھر کے لئے
منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم
بنایا۔(فیض
القدیر، جلد 4، صفحہ 51)
8۔جہنم کی آگ
سے دوری: حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔(اخبار
مکہ، جلد 2، صفحہ 311، ح1565)
9۔دگنا اجر:
آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو ایک دن مکے میں بیمار ہوجائے، اللہ پاک اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا
فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ (بیمار)
مسافر ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(مرجع الی السابق)
10۔دجال سے
حفاظت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔
(مسند
احمد بن حنبل، جلد 10، صفحہ 85، ح26106)
اے اللہ پاک
ہمیں مقبول حج و عمرہ کی سعادت عطا فرما۔آمین
مکہ مکرمہ نہایت
فضیلت و عظمت والا شہر ہے۔ اسی مبارک شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ کعبہ معظمہ، صفا مروہ، منیٰ،
مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور جیسے بابرکت مقامات بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجۃ الحرام کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان حج
کیلئے آتے ہیں۔
(سیرتِ مصطفیٰ ، ص41 ملتقطا)
جب حضرت ابراہیم
علیہ
السلام
اللہ پاک کے حکم سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور
بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو اس سرزمین
میں،جہاں اب مکہ مکرمہ ہے، چھوڑ کر تشریف لے گئے تو اس وقت یہاں نہ کوئی آبادی تھی،
نہ کوئی چشمہ، نہ پانی۔ جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی
اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ پانی کی جستجو یا آبادی کی
تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان سات بار دوڑیں اور اللہ پاک کے حکم سے اس خشک زمین
میں ایک چشمہ(زم
زم)
نمودار ہوا۔ بعد ازاں جُرْہَم نامی ایک قبیلے نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا
تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا! جستجو کی تو دیکھا کہ زم زم شریف میں
پانی ہے !یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا سے وہاں بسنے
کی اجازت چاہی،انہوں نے اس شرط پر اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔چنانچہ
وہ لوگ وہاں بسے اور اس طرح شہرِ مکہ میں آبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ (تفسیر
صراط الجنان، ابرٰھیم، تحت الآیۃ:37 ملتقطا)
احادیثِ
مبارکہ کی روشنی میں اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرمائیے تاکہ دل میں
اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو:
1:”اے لوگو!
اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنادیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہٰذا
یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت
والا)ہے۔“
(ابن
ماجہ،3/519،حدیث:3109)
2:”یہ امت ہمیشہ
خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع
کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے۔“(ابن ماجہ، 3/519، حدیث :3110)
3:”تم میں سے
کسی کیلئے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔“ (مسلم،1/506،حدیث:3307)
4:”اللہ پاک کی
قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں
مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ
نکلتا۔“
(ابن
ماجہ،3/518، حدیث:3108)
شارحِ بخاری
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ
اللہِ علیہ
اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت تک مدینۂ طیبہ
حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
مشرف نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے افضل تھا مگر جب حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔ (نزہۃ
القاری،2/711)
راجح یہی ہے کہ مکہ عمومی طور پر مدینہ سے
افضل ہے۔
کیونکر نہ ہو مکے سے سوا شانِ مدینہ وہ جبکہ ہوا مسکنِ سلطانِ مدینہ
مکے کو شرف ہے تو مدینے کے سبب سے اس واسطے مکہ بھی ہے
قربانِ مدینہ
5:”مکے میں
رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔“
(جمع
الجوامع،4/372،حدیث:12589)
6:”مکے اور مدینے
میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔“(مسند امام احمد،10/85،حدیث:26106)
7:”جو دن کے
کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہوجاتی ہے۔“
(اخبار
مکہ،2/311،حدیث:1556)
8:”جو ایک دن
مکے میں بیمار ہوجائے اللہ پاک اس کیلئے اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے جو
وہ سات سال سے کررہا ہوتا ہے(لیکن بیماری کی وجہ سے نہ کرسکتا ہو)اور
اگر وہ(بیمار)مسافر
ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔“ (اخبار مکہ ،2/311،حدیث:1556)
9:”جس کی حج یا
عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔“
(مصنف
عبدالرزاق، ٩ /174،حدیث:17479)
10:”جو حرمین(یعنی
مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے حرم)میں سے کسی ایک میں مرے گا وہ قیامت کے
دن امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔“ (جواہر البحار،4/29)
اللہ پاک ہمیں
مکہ مکرمہ کی باادب باذوق حاضری نصیب فرمائے اور مقبول حج و عمرے کی سعادت سے مشرف
فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
حدیثِ پاک میں ہے: کعبہ
معظمہ بیت المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، 2/427،حدیث:3366)
ارشاد
باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا
گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے۔(آل
عمران:96)حضرت
عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے: دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے
مکہ مکرمہ بنایا گیا، جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں،پھر زمین اس کے نیچے
سے پھیلا دی گئی۔(مصنف
عبد الرزاق5/ 92-تفسیر طبری1/547) تفسیر کبیر میں ہے: مکہ مکرمہ
روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے، اس لئے اسے ام القریٰ بھی
کہتے ہیں اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔ (معجم البلدان7/256، تفسیر
کبیر3/9)قرآن
پاک میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان آیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض
کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت
126)مکہ
مکرمہ میں مسجد الحرام کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد
فرمایا:اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔(
بقرہ: 144)اور
اس میں موجود مقام ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: ترجمۂ
کنزالعرفان:اور (اے
مسلمانو)
تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(البقرہ: 125)اور
لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ
کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(آل
عمران:97)اور
خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ترجمہ ٔکنزالعرفان:اور یاد کرو جب ہم نے اس
گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔(بقرہ:125)پارہ 30، سورۃ البلد کی
پہلی آیت میں ارشاد فرمایا:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)(خزائن
العرفان، صفحہ1104)حضور نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ
میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع الجوامع،جلد 4، صفحہ 472، حدیث12589)مالکِ
بحروبر، قاسمِ کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:یعنی مکے اور مدینے میں دجّال نہیں ہو سکے گا۔( مسند احمد بن حنبل جلد
10، صفحہ 85، حدیث26106)حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو
دیکھا کہ آپ مقام حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں
بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین
میں سے مجھے زیادہ پیاری ہے،اللہ پاک کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جات تو
میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ،3/518، حدیث3108) شارح بخاری مفتی شریف
الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت نزہۃالقاری
میں لکھتے ہیں :یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت مدینہ طیبہ حضور اقدس صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے مشرف نہیں ہوا تھا،اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے
افضل تھا، مگر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ
طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔(نزھۃ القاری، جلد 2، صفحہ 711)حضرت
عبداللہ رضی
اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے
فرمایا:اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔(تالی تلخیص2:365، رقم
221)حضرت
انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی
اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مسجد اقصی اور میری مسجد میں نماز
پڑھے، اسے پانچ ہزار نمازوں کا اور مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ نمازوں
کا ثواب ملتا ہے۔بیشک یہاں سے کوئی محروم نہیں لوٹتا، مگر یہ بھی یاد رہے! وہاں
ایک گناہ بھی ایک لاکھ گناہ ہے۔اللہ پاک ہم سب کو فرض علوم سیکھ کر میٹھا میٹھا
مکہ اور مدینہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریمصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم