مکہ مَکٌ سے
بنا ہے، مکہ کا معنی ہلاکت اور سر کچل ڈالنا، کیونکہ اللہ پاک نے کئی بار مکہ معظمہ کے دشمنوں کو ہلاک کیا،
اس لئے اسے مکہ کہتے ہیں، مکہ حجاز کا مشہور شہر ہے، جو مشرق میں جبل ِابو قبیس اور مغرب میں جبلِ قعیقعان کے درمیان واقع
ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت
اسماعیل علیہ السلام اور ان کی
والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو
مکہ مکرمہ میں لاکر شہرِ مکہ آباد کیا، شہرِ مکہ میں آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آبائی وطن اور وحی کے نازل ہونے کی جگہ ہے، مکہ
مکرمہ کے فضائل کی طرح اس کے نام بھی متعدد ہیں:
1۔البلد الامین 2۔القادسیہ 3۔البیت العتیق
4۔معاد 5۔بکہ 6۔ام القری 7۔الراس 8۔القریہ
فضائل
مکہ:
1۔حرم ہونا، پیارے
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و
زمین پیدا کئے، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3109)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس
شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں نہیں، بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے، ہر دین میں
یہ جگہ محترم ہے۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4، صفحہ 221)
2۔بہترین زمین:
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3108)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے
ہیں:جمہور علما کے نزدیک مکہ معظمہ شہر مدینہ سے افضل اور حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ پیارا ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 225)
3۔حرم شریف کی
بے حرمتی مؤجب ہلاکت:نبی کریم صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس کی حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،
جلد 3، صفحہ 519، ح3110)
4۔ہتھیار
اٹھانا منع ہے: رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف، جلد 1، صفحہ 506، ح3307)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ
معظمہ میں کھلے ہتھیار اٹھائے پھر نا کہ مسلمان مرعوب ہوں،حرام ہے، غلاف میں ڈھکے
ہوئے ہتھیار اپنی حفاظت کے لئے اٹھانا درست ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 223)
5۔حساب سے امن:مصطفے
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی
اور اسی حالت میں سے حرمین(مکہ مدینہ) میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا، نہ عذاب۔(مصنف
عبدالرزاق، جلد 9، صفحہ 174، ح17479)
6۔قیامت کے خوف سے امن:فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو حرمین میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اسے
اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا۔(مشکوۃ المصابیح،
جلد 1، صفحہ 241، ح2632)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حرمین
میں مرنے والا قیامت کی بڑی گھبراہٹ جسے فزع اکبر کہتے ہیں، اس سے محفوظ رہے گا،
مگر یہ فوائد فقط مسلمانوں کے لئے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ
246)
7۔رمضانِ مکہ
مکرمہ:نبی رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع
الجوامع، جلد 4، صفحہ 372، ح12579)
حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس افضلیت کی وجہ تحریر فرماتے
ہیں:اللہ پاک نے مکے کو اپنے گھر کے لئے
منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم
بنایا۔(فیض
القدیر، جلد 4، صفحہ 51)
8۔جہنم کی آگ
سے دوری: حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔(اخبار
مکہ، جلد 2، صفحہ 311، ح1565)
9۔دگنا اجر:
آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو ایک دن مکے میں بیمار ہوجائے، اللہ پاک اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا
فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ (بیمار)
مسافر ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(مرجع الی السابق)
10۔دجال سے
حفاظت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔
(مسند
احمد بن حنبل، جلد 10، صفحہ 85، ح26106)
اے اللہ پاک
ہمیں مقبول حج و عمرہ کی سعادت عطا فرما۔آمین