الحمد للہ مکہ مکرمہ زادھا اللّٰہ شرفا و تعظیما نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے باقاعدہ بیان سے قبل اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجئے تاکہ دل میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں رہے۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد

وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ (وسائل بخشش، ص327)

قران کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًاترجمۂ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے رب میرے اس شہر کو امان والا کردے۔ پارہ 30 سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اس شہر کی قسم ۔ (پ 30، البلد:2،1)

حضور اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم ہے ترجمہ: مکے میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے (جمع الجوامع ، 4 / 372 ،حدیث :12589) حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں مکہ مکرمہ میں رہ کر رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھنا غیر مکہ کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔ ( فیض القدیر ، 4 / 15 ،تحت الحدیث: 4478)

پاک گھر کے طواف والوں پر

بارش اللہ کے کرم کی ہے ۔

( وسائل بخشش ص 124(

حضرت علامہ محمد ہاشم ٹھٹوی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں، فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے خاموش، ذکرِ الٰہی کے ساتھ شدت کی گرمی میں، طواف اس طرح کیا کہ نہ کلام کیا، نہ کسی کو ایذا دی اور ہر شوط یعنی پھرے پر استلام کیا تو ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی ستر ہزار گناہ محو ہوں گے اور ستر ہزار درجے بلند ہوں گے۔ (کتاب الحج، ص 280) 


لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پ30،البلد:2،1) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ پاک نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ترجمہ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا۔ (پ4 ، اٰلِ عمران : 97،96)

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔(پ2،البقرۃ:144) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔( پ1،البقرۃ:125)

اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(اٰلِ عمرٰن:97) اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔( پ1،البقرۃ:125)

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے ۔(جمع الجوامع، 4/472، حدیث: 12589)


الحمدللہ مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے  اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو عبادت ہے۔ (1) قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ پارہ 1سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر( 126) میں ہے ترجمہ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم علیہ السلام نے کہ اے میرے رب میرے اس شہر کو امان والا کر دے ۔ پارہ (30) سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے :ترجمہ کنزالایمان : مجھے اس شہر کی قسم (یعنی مکہ مکرمہ)

(2) حضور اکرم،نور مجسم ، شہنشاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم ہے مکے میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں رمضان گزارنے سے ہزار گنا افضل ہے۔ حضرت عبدالرؤف مناوی اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: مکہ مکرمہ میں رہ کر رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھنا غیر مکہ کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس مکے کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔

پاک گھر کے طواف والوں پر

بارش اللہ کے کرم کی ہے۔( وسائل بخشش، ص 124)

(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مقام حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ کی قسم ! تو اللہ کی ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ کی تمام زمین سے مجھے پیاری ہے ۔ خدا کی قسم ! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت نزہۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے ، اس وقت تک مدینہ طیبہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشرف نہیں ہوا تھا، اس وقت مکہ پوری سر زمین سے افضل تھا مگر جب حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہو گیا ۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں جمہور علماء (یعنی اکثر علماء) کے نزدیک مکہ معظمہ شہرِ مدینہ منورہ سے افضل اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو زیادہ پیارا ہے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ امام مالک کے یہاں مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے زیادہ افضل ہے۔ وہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں پہلی حالت کا ذکر ہے ، پھر حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مدینہ منورہ زیادہ پیارا ہو گیا۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 561 صفحات پر مشتمل کتاب ملفوظات اعلیحضرت ص 236 پر ہے : عرض: حضور! مدینہ منورہ میں ایک نماز پچاس ہزار کا ثواب رکھتی ہے اور مکہ مکرمہ میں ایک لاکھ کا ، اس سے مکہ معظمہ کا افضل ہونا سمجھا جاتا ہے؟ ارشاد : جمہور حنفیہ (یعنی اکثر حنفی علماء) کا یہ ہی مسلک ہے اور امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک مدینہ افضل اور یہی مذہب امیر المؤمنین فاروق اعظم کا ہے۔ ایک صحابی ( رضی اللہ عنہ) نے کہا: مکہ معظمہ افضل ہے( سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا: کیا تم کہتے ہو مکہ مدینہ سے افضل ہے ! انہوں نے کہا واللہ ! بیت اللہ و حرم اللہ ۔فرمایا : میں بیت اللہ اور حرم اللہ میں کچھ نہیں کہتا ، کیا تم کہتے ہو کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے؟ انہوں نے کہا: بخدا خانہ خدا و حرم خدا ۔ فرمایا : میں خانہ خدا و حرم خدا میں کچھ نہیں کہتا، کیا تم کہتے ہو مکہ مدینے سے افضل ہے؟ وہ صحابی وہی کہتے رہے اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ فرماتے رہے۔ یہی میرا ( یعنی اعلیحضرت) کا مسلک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ جانیں۔ دوسری حدیث نص صریح ہے فرمایا مدینہ مکہ سے افضل ہے۔ (عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ،ص 186 تا 190 )


مکہ مکرمہ کا شرف و فضیلت:مکہ مکرمہ بہت ہی عظمتوں کا حامل ہے اور وہ فی نفسہ معظم و مکرم ہے اس لئے ہر مسلمان پر اس شہر کا احترام کرنا فرض ہے۔ اللہ پاک نے اس مقدس شہر کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا۔  یہ شہر مدارِ کائنات فخر انبیاء والرسل نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مولد و مسکن ہے اور مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سکونت پذیر ہونے کی وجہ مکہ مکرمہ کی عظمت و مرتبت میں مزید اضافہ ہو گیا  اور اس بلد امین کو ایسی حرمت و امنیت سے سرفراز کیا گیا کہ جو بھی اس شہر میں داخل ہو گیا وہ محفوظ و مامون ہو گیا۔

مکہ مکرمہ کی تاریخ: آج سے چار ہزار قبل مکہ کی سر زمین پر کیکر اور دوسرے خاردار درختوں کے سوا کچھ نہ تھا، یہاں نہ پانی تھا، نہ سبزہ ،نہ گھاس پھوس، نہ جانور اور نہ تو انسانوں کے قدم اس زمین سے آشنا تھے اور  پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام،سیدنا اسماعیل علیہ السلام و سیدہ ہاجرہ رضی اللہُ عنہا سمیت ہجرت کر کے  ملک شام سے مکہ مکرمہ کی سر زمین پر تشریف لائے اور پھر مکہ مکرمہ کی عمرانی اور  رفاہی ترقی کی سنگ بنیاد سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ سیدہ ہاجرہ  رضی اللہُ عنہا نے رکھی اور پھر بعد میں قبیلہ بنو جرہم بھی ان کا دست و بازو بنے اور اسی اثنا میں اللہ پاک کے حکم سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ شریف تعمیر فرمایا۔چنانچہ تاریخ  مکہ میں ہے :اسماعیل اپنی والدہ کے ہمراہ فاران یعنی مکہ میں قیام پذیر ہوئے ۔ (تاریخ  مکہ، 1/131)

مكہ مکرمہ کے فضائل احادیث کی روشنی میں :(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فتح مکہ پر فرمایا تھا کہ اللہ پاک نے اس شہر  ( مکہ )  کو حرمت والا بنایا ہے  ( یعنی عزت دی ہے )  پس اس کے  ( درختوں کے )  کانٹے تک بھی نہیں کاٹے جا سکتے، یہاں کے شکار بھی نہیں ہنکائے جا سکتے۔ اور ان کے علاوہ جو اعلان کر کے  ( مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں )  کوئی شخص یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔(صحيح البخاري ،حدیث:1587)(2) حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء  بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما رہے تھے : اللہ کی قسم ! تو اللہ کی زمین کا سب سے بہترین ٹکڑا اور اللہ کی ساری زمین سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا ۔(مشكاة المصابيح، حدیث:2725)  

(3) حضرت عیاش بن ابی ربیعہ المخزومی  بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یہ اُمّت خیر و بھلائی پر قائم رہے گی جب تک یہ اس حرمت (مکہ مکرمہ) کی اس کی تعظیم کے مطابق اس کی تعظیم کرتی رہے گی ، جب وہ اس کو ضائع کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (مشكاة المصابيح ، حدیث:2727) (4) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ سے فرمایا : میرے نزدیک تو سب سے اچھا اور سب سے پسندیدہ شہر ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کہیں اور نہ رہتا۔ (مشكاة المصابيح ، حدیث:2724)

(5) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک موقعہ پر فرمایا :جو شخص مکہ  میں فوت ہوا، گویا آسمان اول پر اسے موت آئی۔ (شفا، ص85)(6)  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :تم میں سے کسی کے لئے مکہ میں اسلحہ اٹھانا حلال نہیں۔ (صحيح مسلم ،حدیث: 1356)(7)  محمد بن قیس مخرمہ فرماتے ہیں کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جسے سرزمین مکہ یا مکہ مکرمہ جاتے راستے میں موت آئی وہ شخص قیامت کے دن امن والوں میں ہوگا ۔(العقد الثمين، 1/45)

(8)  امام جلال الدین سیوطی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت نقل کرتے ہیں مکہ مکرمہ میں رمضان المبارک کے روزے رکھنا کسی دوسرے شہر میں رمضان کے روزے رکھنے سے بلحاظ ثواب کے بہتر ہے۔  (الجامع الصغير، 2/24)(9)  مؤرخ جلیل علامہ قطب الدین رحمۃُ اللہِ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان نے مکہ کی ایک ساعت کی گرمی برداشت کی اللہ پاک اسے جہنم کی آگ سے ایک سو سال کی مسافت پر دور کر دیتا ہے۔(اعلام الاعلام، ص22)(10)  سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: جو آدمی مکہ مکرمہ میں ایک دن بیمار ہو جائے اور اس سے روز مرہ  کے کاموں کے معمولات ادا نہ ہوسکیں، تو اللہ پاک اسے نہ صرف اس دن کے اعمال کے اجر سے نوازتا ہے بلکہ سات سال کے اعمال کا خطیر اجر بھی مرحمت فرماتا ہے۔ (اعلام الاعلام، ص22)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں یہ مبارک شہر دیکھائے اور  اس میں موجود کعبہ شریف کی بار بار حاضری  نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاه خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اَلحمدُلِلّٰہ مکۂ مکرّمہ بہت ہی برکت اور عظمت والا شہر ہے۔ ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت بھی ہو تو یقیناً دیدارِ مکۂ مکرّمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ آیئے مکۂ مکرّمہ جو کہ اللہ پاک کا بہت پیارا شہر ہے اس کے فضائل سنتے ہیں:

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

(1)مکہ امن والا شہر ہے: قراٰنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکۂ مکرّمہ کا بیان ہوا ہے۔ چنانچہ پارہ ایک، سورۃ البقرہ آیت نمبر: 126 میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے رب میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پ1،البقرۃ:126)

(2)رَمَضانِ مکہ: حُضُورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے: رَمَضَانُ بِمَکَّۃَ اَفْضَلُ مِنْ اَلْفِ رَمَضَانَ بِغَیْرِ مَکَّۃ یعنی مکّے میں رَمَضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رَمَضان گزارنے سے افضل ہے۔(مسند البزار، 12/303،حدیث:6144)

(3)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب شہر: حضرت عبدُاللہ بن عدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ مَقام حَزوَرہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ کی قسم! تُو اللہ کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔ خدا کی قسم !اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، 3/518، حدیث:3108)

(4)مکۂ مکرَّمہ کی زمین قِیامت تک حرم ہے: حضرتِ صَفِیَّہ بِنْتِ شیبہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فتحِ مکّہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! اس شہر کو اُسی دن سے اللہ نے حرم بنا دیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کئے لہٰذا یہ قیامت تک اللہ کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حُرمت والا)ہے۔(ابن ماجہ،3/519،حدیث:3109)

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے

(5)مکہ و مدینہ میں دجَال داخل نہیں ہو گا:مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:لَا یَدْخُلُ الدَّجَّالُ مَکَّۃَ وَلَا الْمَدِیْنَۃَ یعنی مکّے اور مدینے میں دجّال داخِل نہیں ہوسکے گا۔(مسند احمد، 10/85، حدیث: 26106)

(6)مکۂ مکرَّمہ کی گرمی کی فضیلت:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَنْ صَبَرَ عَلٰی حَرِّ مَکَّۃَ سَاعَۃً مِّنْ نَہَارٍ تَبَاعَدَتْ عنْہُ النَّارُ یعنی جو شخص دن کے کچھ وقت مکّےکی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اُس سے دُور ہوجاتی ہے۔(اخبار مکہ، 2/311،حدیث:1565)

(7)مکۂ مکرّمہ میں بیمار ہونے والے کا اجر: حضرت سعید بن جُبَیر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:جو شخص ایک دن مکّے میں بیمار ہوجائے اللہ پاک اُس کیلئے اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے جو وہ سات سال سے کررہا ہوتا ہے (لیکن بیماری کی وجہ سےنہ کرسکتا ہو) اور اگر وہ (بیمار) مسافر ہوتو اسے دُگنا اَجْر عطا فرمائے گا۔(اخبار مكہ، 2/312، حدیث: 1569)

(8)مکۂ مکرّمہ میں فوت ہونے والے سے حساب نہیں ہوگا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو حَرَمین یعنی مکے یامدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِقیامت امن والے لوگوں میں اُٹھایا جائے گا۔(مصنف عبدالرزاق،9/174، حدیث: 17479)

آمِنہ کے مکاں پہ روز و شب بارِش اللہ کے کرم کی ہے

(9)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جائے ولادت:مکۂ پاک کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی شہر میں پیدا ہوئے۔(عاشقانِ رسول کی130 حکایات،ص200)

(10)ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے: مسجِدُ الحرام شریف میں ایک نماز کاثواب ایک لاکھ نَمازکے برابرہے۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات،ص201)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مکۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے بہت سے نام کتابوں میں درج ہیں ان میں سے 10 یہ ہیں: (1)اَلْبَلَد (2)اَلْبَلَدُ الْاَمین(3)اَلْبَلَدہ (4)اَلْقَرْیَہ (5)اَلْقادِسِیَّہ (6)اَلْبَیْتُ الْعَتِیق (7)مَعَاد (8)بَکّہ (9)اَلرَّاْسُ (10)اُمُّ الْقریٰ۔(العقد الثمین، 1/204)

دُعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو بار بار مکہ شریف کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم