الحمد للہ مکہ مکرمہ زادھا اللّٰہ شرفا و تعظیما نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے باقاعدہ بیان سے قبل اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجئے تاکہ دل میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں رہے۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد

وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ (وسائل بخشش، ص327)

قران کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًاترجمۂ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے رب میرے اس شہر کو امان والا کردے۔ پارہ 30 سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اس شہر کی قسم ۔ (پ 30، البلد:2،1)

حضور اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم ہے ترجمہ: مکے میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے (جمع الجوامع ، 4 / 372 ،حدیث :12589) حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں مکہ مکرمہ میں رہ کر رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھنا غیر مکہ کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔ ( فیض القدیر ، 4 / 15 ،تحت الحدیث: 4478)

پاک گھر کے طواف والوں پر

بارش اللہ کے کرم کی ہے ۔

( وسائل بخشش ص 124(

حضرت علامہ محمد ہاشم ٹھٹوی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں، فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے خاموش، ذکرِ الٰہی کے ساتھ شدت کی گرمی میں، طواف اس طرح کیا کہ نہ کلام کیا، نہ کسی کو ایذا دی اور ہر شوط یعنی پھرے پر استلام کیا تو ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی ستر ہزار گناہ محو ہوں گے اور ستر ہزار درجے بلند ہوں گے۔ (کتاب الحج، ص 280)