الحمدللہ مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے  اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو عبادت ہے۔ (1) قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ پارہ 1سورۃُ البقرہ کی آیت نمبر( 126) میں ہے ترجمہ کنزالایمان: اور جب عرض کی ابراہیم علیہ السلام نے کہ اے میرے رب میرے اس شہر کو امان والا کر دے ۔ پارہ (30) سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے :ترجمہ کنزالایمان : مجھے اس شہر کی قسم (یعنی مکہ مکرمہ)

(2) حضور اکرم،نور مجسم ، شہنشاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم ہے مکے میں رمضان گزارنا غیر مکہ میں رمضان گزارنے سے ہزار گنا افضل ہے۔ حضرت عبدالرؤف مناوی اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: مکہ مکرمہ میں رہ کر رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھنا غیر مکہ کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس مکے کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔

پاک گھر کے طواف والوں پر

بارش اللہ کے کرم کی ہے۔( وسائل بخشش، ص 124)

(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مقام حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ کی قسم ! تو اللہ کی ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ کی تمام زمین سے مجھے پیاری ہے ۔ خدا کی قسم ! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت نزہۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے ، اس وقت تک مدینہ طیبہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشرف نہیں ہوا تھا، اس وقت مکہ پوری سر زمین سے افضل تھا مگر جب حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہو گیا ۔ مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں جمہور علماء (یعنی اکثر علماء) کے نزدیک مکہ معظمہ شہرِ مدینہ منورہ سے افضل اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو زیادہ پیارا ہے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ امام مالک کے یہاں مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے زیادہ افضل ہے۔ وہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں پہلی حالت کا ذکر ہے ، پھر حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مدینہ منورہ زیادہ پیارا ہو گیا۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 561 صفحات پر مشتمل کتاب ملفوظات اعلیحضرت ص 236 پر ہے : عرض: حضور! مدینہ منورہ میں ایک نماز پچاس ہزار کا ثواب رکھتی ہے اور مکہ مکرمہ میں ایک لاکھ کا ، اس سے مکہ معظمہ کا افضل ہونا سمجھا جاتا ہے؟ ارشاد : جمہور حنفیہ (یعنی اکثر حنفی علماء) کا یہ ہی مسلک ہے اور امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک مدینہ افضل اور یہی مذہب امیر المؤمنین فاروق اعظم کا ہے۔ ایک صحابی ( رضی اللہ عنہ) نے کہا: مکہ معظمہ افضل ہے( سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا: کیا تم کہتے ہو مکہ مدینہ سے افضل ہے ! انہوں نے کہا واللہ ! بیت اللہ و حرم اللہ ۔فرمایا : میں بیت اللہ اور حرم اللہ میں کچھ نہیں کہتا ، کیا تم کہتے ہو کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے؟ انہوں نے کہا: بخدا خانہ خدا و حرم خدا ۔ فرمایا : میں خانہ خدا و حرم خدا میں کچھ نہیں کہتا، کیا تم کہتے ہو مکہ مدینے سے افضل ہے؟ وہ صحابی وہی کہتے رہے اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ فرماتے رہے۔ یہی میرا ( یعنی اعلیحضرت) کا مسلک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ جانیں۔ دوسری حدیث نص صریح ہے فرمایا مدینہ مکہ سے افضل ہے۔ (عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ،ص 186 تا 190 )