مقدس
شہر مکہ:
مکہ مکرمہ
متبرک اور معزز نام ہے، اس قابل صد تعظیم وتکریم شہر کا ہے، جس پر دنیا جہاں کی
عظمتیں اور نعمتیں قربان، جن کے چشمہ فیض سے عالم مستفیض ہو رہا ہے، جو خطہ مقدسہ
اس کرہ ارضی کے وجود کا مؤجب اور باعث تخلیق بنا، جو اپنی لطافت، نظافت، شرافت،
عظمت ،جلالت و شرف و مجد میں یگانہ روزگار ہے اور جس کی توصیف و تحمید سے قرآنِ مجید
،احادیثِ نبوی اور تاریخِ عالم کے اوراق مزیّن و معمور ہیں ۔
قرآنِ مجید میں
اس سر زمین کو بکہ اور مکہ جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیا ہے، بکہ اور مکہ حقیقت
میں ایک ہی لفظ ہے۔اس پیارے شہر کو بکہ اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس جگہ بڑے بڑے
جابر اور ظالم لوگوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں اور تکبر اور بڑائی کرنے والا یہاں
آکر پست ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے بکہ کہا جاتا ہے اور اس بنا پر بھی کہ زائرین
اور طواف کرنے والوں کا یہاں ہر گھڑی جھمگھٹا رہتا ہے، مطاف کا ہر وقت کچھا کھچ
بھرا رہتا ہے اور اس کےگلی کوچے بھی لوگوں کے جمِ غفیر سے معمور رہتے ہیں۔(تفسیر
کبیر ،ج 3، ص 8)
مکہ
مکرمہ کی آبادی:
حضرت ابرہیم علیہ
السلام
کو وحی ذریعے اللہ پاک نے اس زمین کے خطے پر جانے کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت ابراہیم
علیہ السلام، حضرت ہاجرہ
اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو
مکہ لے کر آئے اور انہیں بیت اللہ کی جگہ کے پاس ایک گھنے درخت کے نیچے بٹھا دیا،
یہ درخت مسجد کے اوپر والی جانب میں اسی جگہ تھا، جہاں زم زم ہے، ان دونوں میں سے
نہ کوئی مکہ میں رہتا تھا نہ ہی وہاں پانی تھا، حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے انہیں وہاں بٹھا کر ان پاس کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کی ایک مشک رکھ دی
اور روانہ ہو گئے، اللہ پاک کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ساتھ وہاں صبر و استقامت اور ہمت سے رک گئیں اور اللہ پاک کے حکم پر سر تسلیم خم
کر دیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں
سے زم زم جاری ہوا، یوں یہ ارضِ مقدسہ آباد ہوتی چلی گئی ۔(سیرت الانبیاء
،ص308)
فضائل
مکہ مکرمہ:
مالکِ بحروبر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہ
ہو گا۔(مسند
احمد بن حنبل ،ج 10،ص 85،حدیث 2610)
نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر
کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے ۔(اخبار مکہ، ج 2، ص 311، حدیث
1565)
حضرت سعید بن جبیر رضی
اللہ عنہ
نے فرمایا:جو ایک دن مکہ میں بیمار ہو جائے، اللہ پاک اس کے لئے اسے اس نیک عمل کا
ثواب عطا فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ مسافر ہو تو اسے
دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(اخبار مکہ، ج 2 ،ص 311 ،حدیث 1565)
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے حج یا عمرہ کرنے کی نیت کی
تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین( مکہ و مدینہ) میں موت آگئی تو اللہ پاک بروزِ قیامت اسے اس طرح
اٹھائے گا کہ نہ اس پر حساب ہو گا نہ عذاب، ایک دوسری روایت ہے، وہ بروزِ قیامت
امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔(مصنف عبد الرزاق، ج 9،ص 184،حدیث 17479)
آمنہ کے مکان پر روزوشب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
مکہ میں ایک نیکی
ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔
نبی رحمت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:اے
لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے،جس دن آسمان و زمین پیدا کئے،
لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام (حرمت والا) ہے۔( ابن
ماجہ، ج 3، ص 519، حدیث 3109)
حضرت عبداللہ بن عدی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے، میں نے حضور انور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام
ِحزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔
خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا
جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج3، ص 518، حدیث 3108)
حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں
ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔ (جمع الجامع، ج 4، ص 382، حدیث 12589)
(عاشقان رسول کی130 احکامات مع مکے مدینے کی زیارتیں)
نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ میں ہی پیدا ہوئے ۔
میقات کے باہر
سے آنے والے بغیر احرام مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے اور یہی مکہ میں خانہ کعبہ،مقام
ِ ابراہیم، حجرِاسود، بئرِزم زم، میدانِ عرفات و مزدلفہ، صفاو مروہ ہیں۔
حرم ہے اسے ساحت ِہر دو عالم جو
دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ (ذوقِ نعت)
اللہ پاک اس
مقام ِمقدسہ کا ادب واحترام کرنے اور اس متبرک مقام کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔
آمین
بجاہ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم