مکہ وہ شہر ہے
جس کی تعریف میں قرآنِ مجید رطب اللسان ہے، یہ اپنے اندر آثارِ انبیائےکرام رکھتا
ہے، اسے محبوبِ خدا،سرورِ انبیا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام علیہم
الرضوان
کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، یہ مبارک
شہر جو سب شہروں سے افضل ہے ، کئی خصوصیات و فضائل رکھتا ہے، مکہ کے فضائل بیان
کرنے سے قبل اس کی مختصر تاریخ جانتی ہیں:
بلدِ حرام مکہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ لفظ مکہ یا مک یا مکک سے
مشتق ہے اور مَک جذب کرنے اور دھکیلنے کو کہتے ہیں، اسی لئے اس شہر میں لوگ چلنے
اور طواف کرنے میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔(تاریخ
العروس،6/462، شفاء العرام1/154)
ولادتِ
مکہ مکرمہ:
مکہ
کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟ اس پر مفسرین کے مختلف اقوال ملتے ہیں:
1۔حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:دنیا
کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا،
جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں، پھراس کے نیچے زمین پھیلا دی گئی۔(مصنف
عبد الرزاق، تفسیر طبری1/547)
تفسیر ِ کبیر میں ایک روایت ہےکہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے
اور یہ زمین کی ناف ہے،اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ
ہے۔(معجم
البلدان7/256، تفسیر کبیر3/9)
اس کے علاوہ
بھی قول ملتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ سرزمین دنیا کی تمام زمینوں سے
باعتبارِ پیدائش قدیم ہے۔
نام مکہ:
انگریزی زبان
میں Mecca
کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی
مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے، 1980ءکی دہائی میں حکومتِ سعودی عرب نے شہر کا انگریزی
نام Mecca
سے بدل Makkah
کر دیا، اس مقدس شہر اور عظیم شہر کے بہت سے نام ہیں، جو تقریبا 50 ہیں۔(شفاء
الغرام، معجم البلدان)
قرآنِ مجید میں
اس عظیم شہرکو مختلف مقامات پر مختلف ناموں
سے ذکر فرمایا ہے،جیسے مکہ،بکہ،البلد، القریہ،اُم القریٰ،معاد،اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:لا اقسم بہذا البلدمیں
اس بلد کی قسم اٹھاتا ہوں۔(سورۃ البلد، آیت نمبر1)
اسی طرح سورہ
فتح:24 میں مکہ کا ذکر آیا:وہوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ۔اللہ
نے وادیِ مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے۔
بکہ کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ ۔ ترجمہ:لوگوں کے لئے عبادت کی غرض سے
بنایا جانے والا پہلا گھر بکہ میں ہے، جو تمام دنیا کے لیے برکت اور ہدایت والا
ہے۔(سورہ
ٔال عمران، آیت نمبر 96)
مکہ
اور بکہ کےدرمیان فرق:
حضرت علی رضی
اللہ عنہ
سے منقول ہے:بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوائے پورا شہر مکہ ہے، بکہ ہی وہ مقام ہے جہاں طواف کیا جا سکتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ طواف صرف حرم کے اندر ہی جائز
ہے، باہر نہیں، کیونکہ باہر کا حصہ مکہ میں شمار ہوتا ہے، یہی قول امام مالک، امام
ابراہیم نخعی، امام عطیہ اور امام مقاتل رحمۃُ
اللہِ علیہم
کا ہے۔(معجم
البلدان8/134، ابن کثیر1/383، تفسیر طبری4/6)الغرض مکہ
مکرمہ کے اور بھی کئی نام ہیں، جیسے نسَّاسَہٗ، حَاطِمہٗ، حرم، صلاح، با سہٗ،
راس،و غیرہ
مکہ
مکرمہ کی ابتدائی آبادی:
اس لق و دق
صحرا کو گلِ گلزار اور چمن دار بنانے والے پہلے انسان حضرت اسماعیل علیہ
السلام
اور حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
ہیں،جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حکمِ
الٰہی سے اس بے آب و گیاہ ریگستان اور نا ہموار ٹیلہ میں تھوڑا سا پانی اور مشکیزہ
بھر کر پانی دے کر اللہ پاک کے حکم سے
چھوڑ آئے، بیابان ٹیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، وہی
ہے، جو مکہ شریف میں ہے جو تمام لوگوں کے
لئے بابرکت اور رحمت والا ہے۔(ال عمران:96)
اس آیت سے
معلوم ہوا!حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
سب سے پہلے اس مقدس شہر کو آباد کیا،البتہ اطراف واکناف میں قبیلہ جرہم آباد تھا،
جسے بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا
رشتہ ازدواج قائم ہوا۔(ماخوذ
تاریخ مکہ مکرمہ)
فضائلِ
مکہ احادیث کی روشنی میں:
کعبہ کی زمین(باستثنائے
مرقد ِمبارک رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)دنیاو مافیہا سے افضل ہے، جو کعبہ کے
اندر داخل ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی رحمت میں داخل ہوتا ہے اور جو اندر جا کر باہر
آتا ہے، وہ اللہ پاک کی مغفرت لئے ہوئے آتا ہے، اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی
گنا افضل ہے،اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کو جو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ عطا فرمایا،
سب کعبہ کی برکت سے عطا فرمایا، فرمانِ باری ہے:وَمَنْ
دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً۔جو اس (حرم) میں داخل ہو
جائے امن والا ہے۔
حضور نبی کریم
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ معظم ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیِر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔اللہ
پاک نے شہر ِمکہ کو یہ خصوصیت بیت اللہ کی وجہ سے دی اور اس شہر مکہ کو اپنے گھر
کے لئے منتخب کر کے اس شہر کی عظمت بڑھا دی۔
2۔ پیارے آقا علیہ
السلام
نے فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔(مسند احمد بن
حنبل، حدیث نمبر 26106)
3۔جو دن کے
کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔
4۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو فرماتے ہوئے سنا :تم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار
اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف)
5۔شہرِ ِ مکہ
کی خصوصیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
مکہ معظمہ سے فرمایا:تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری
قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)
6۔حضرت عیاش
بن ابو ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، حالات ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ)
معلوم ہوا !
انسان کی بقا، اتحاد، عزت و وقار مکہ سے وابستہ ہے، اس کی تعظیم مسلمانوں میں کم
ہوگی تو امت افتاد و پریشانی میں گرفتار
ہو جائے گی۔
7۔مسلم و بخاری
کی حدیثِ مبارکہ میں ہے:حج و عمرہ ایک ساتھ کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقرو گناہوں کو مٹاتے ہیں، جیسا
کہ بھٹی سونے، لو ہے اور چاندی سے زنگ ختم کرتی ہے۔
8۔مکہ کی عظمت
اور فضائل کا اندازہ اس سے کریں کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مقدس شہر سے نقل مکانی سے منع فرمایا۔
حضرت ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا: ہجرت باقی نہ رہی، لیکن جہاد اور نیت ہے۔(بخاری18/3)
9۔حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:گھر میں آدمی کی نماز ایک نماز کا ثواب رکھتی ہے، محلہ کی مسجد میں نماز
پڑھنے کا ثواب 25 نمازوں کے برابر ہے، جو جامع مسجد میں نماز پڑھے، اسے پانچ سو
نمازوں کا ثواب ملے گا اور جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی میں نماز
پڑھے، اسے پچاس ہزار کا ثواب ملے گا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ
نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(ابن ماجہ)
10۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس نے بیت اللہ کی زیارت کی، پھر یہاں سے کسی سے جھگڑا، بدزبانی، فساد نہ کیا
تو گناہوں سے اس طرح ہو جاتا ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے، گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔(بخاری)
شہرِ مکہ کی
فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے: فتحِ مکہ کے دن حضور علیہ السلام نے
فرمایا:اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت
عطا فرمائی، جس دن زمین آسمان کو پیدا فرمایا، یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت
حرام ہے ۔(بخاری)
الغرض کوئی
انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس سے پہچانا جاتا ہے،جس طرح انسان نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کرتا ہے، وہ عام انسان نہیں رہتا، بلکہ
وقت کا غوث، قطب ،ابدال بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان
سب کچھ کعبۃ اللہ، بیت اللہ کی برکت سے ملا ہے ۔