مکہ
مکرمہ کی مختصر فضیلت:
مکہ مکرمہ
سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت ہونے کے باوجود تمام شہروں کا اصل یعنی ام
القریٰ ہے، یہی وہ مقدس ترین شہر ہے، جہاں سے روحِ زمین کا آغاز ہوا تھا اور فرشتے
اسی مبارک شہر میں عبادت کیا کرتے تھے، مکہ مکرمہ وہ بابرکت و بلند مرتبہ شہرہے جس کی عظمت کا خیال نہ صرف مسلمان، بلکہ
کفارِ مکہ بھی کرتے تھے اور کیوں نہ ہوں، ایسے مبارک شہر کی عظمت کہ اس میں
خدا کی عظیم نشانیاں، پیغمبرِ محمد صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت، خانہ کعبہ کی تعمیر کی نشانیاں، جنت
المعلی،جنتی پتھر، آبِ زم زم کا کنواں،انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
کے مزارات اور بے شمار نشانیاں اس شہر مبارک میں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے ایمان
کو تروتازہ و خشوع خضوع کردے، اس شہر مبارک کی فضیلت کے بارے میں اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں قسم کھا کر ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف
فرما ہو۔
(پ30،سورہ بلد:1)
شہر مکہ مکرمہ کی فضیلت کے بارے میں کچھ مختصر تذکرہ
پیش کیا گیاکہ یہ کتنی اہمیت و عظمت کا
حامل شہر ہے، اب شہر مبارک کی مختصر تاریخ پیشِ خدمت ہے:
مختصر
تاریخ شہر مکہ مکرمہ:مکہ کاتاریخی خط :
حجاز میں سعودی
عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہبِ اسلام کا پُر امن و مقدس ترین شہر ہے، مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور فاران میں
سطحِ سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے، یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے
پر ہے اور ایک روایت کے مطابق فاران مکہ شریف کا نام،جہاں حضرت ہاجرہ رضی
اللہ عنہا
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ٹھہرے
تھے۔
فاران وہی خط
ہےجو آج سے کچھ سال پہلے حجاز کے نام سے مشہور تھا اور آج سعودی عرب کے نام سے
مشہور ہے،اس طرح مکہ شریف کی تاریخ کا آغاز فاران سے ہوتا ہے۔حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا
مرکز تھا، جبکہ جنوبی عرب سے شمال میں رومی و بازنطینی سلطنتوں کے لئے زمینی راستے
پر تھا، جبکہ ہندوستان کے مصالحہ جات بحیرہ عرب اور اور بحیرہ ہند کے راستے سے یہیں
سے گزرتے تھے، 570 یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہ 60 ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی،
بعض روایتوں کے مطابق نو ہاتھی لے کر مکہ
پر حملہ آور ہوا، لیکن خدا کا کرم دیکھئے
کہ ابابیل پرندوں کے ذریعے ان کو شکست ہوئی اور ان کا پورا واقعہ سورہ فیل میں بیان
فرمایا۔یہ وہی سال تھا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیدائش
ہوئی، آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر وحی
نازل ہوئی اور آپ نے اپنی زندگی مبارک کا بیشتر حصّہ یہی مقدس شہر میں گزارا،
خلافتِ اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائےکرام
اور دانشوروں کا مسکن بن گیا، جو زیادہ سے
زیادہ کعبۃ الحرام کے قریب رہنا چاہتے تھے۔
مکہ کبھی بھی
ملتِ اسلامیہ و خلافتِ راشدہ کے زمانے میں دارالخلافہ نہیں رہا، اسلام کا پہلا
دارالخلافہ مدینہ ہی رہا ، مکہ صدیوں تک ہاشمی شرفا کی گورنری میں رہا، جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہتے تھے۔
1926ء میں
سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے اس کو سعودی عرب میں شامل کرلیا، مکہ مکرمہ
کے شہر کی زیارت اور اس میں موجود خانہ کعبہ کا طواف کرنا، ہر مسلمان کا مقصد اور خواہش
ہے، آئیے! حضورِ اقدس، نور عظمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشاد
کردہ مقدس ترین حدیثوں سے مکہ مکرمہ کی فضیلت پڑھئے۔
مکہ
مکرمہ کی فضیلت پر دس احادیث:
1۔بخاری شریف
میں ہے:جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
عمر ِمبارک سات سال یا تیرہ سال یا اس سے کچھ زائد ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے اپنے ربّ کے حضور سر تسلیم خم کیا اور مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیٹے کی قربانی
پیش کرنا چاہی، مگر اللہ پاک نے جنت سے مینڈھا بھیجا،اسے حضرت اسماعیل علیہ
السلام
کے فدیہ میں قربان کیا گیا،اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو کعبہ شریف تعمیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
مل کر کعبہ شریف کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔( بخاری، احادیث الانبیاء، صفحہ
858 تا 860، حدیث 336 خلاصہ)
2۔صحابی ابنِ
صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ
سے مروی ہے: بنی اسرائیل کی طرف تشریف لانے والے ایک ہزار انبیائے کرام علیہم
السلام
حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور یہ سبدو طویکے مقام پر اپنی نعلین شریف یعنی
مبارک جوتے اتار کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا
کرتے تھے۔(سبل
الہدیٰ، جلد1، صفحہ 209 تا211 خلاصہ)
3۔حضرت عبد
اللہ بن عدی ابن الحمیرا رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں، انہوں نے حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس وقت
فرماتے ہوئے سنا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت
کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے فرمایا: اے زمینِ مکہ! اللہ پاک کی قسم! تو اللہ
پاک کی بہتر زمین ہے اور مجھے بہت محبوب ہے، اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی
نہیں نکلتا۔(شفاء،
ص74،مشکوۃ، صفحہ 238، ابن ماجہ، صفحہ 224)
4۔مسند احمد
بن حنبل میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ
عنہما
سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتحِ مکہ
کے دن ارشاد فرمایا:زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے ہی یہ شہر حرمت والا ہے، قیامت
تک اس کی حرمت باقی ہے،دوسری روایت میں ہے:حضور سید عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس کا کاٹنا نہ توڑا جائے گا، گھاس نہ
کاٹی جائے، شکار نہ بھگایا جائے۔(شفاء، جلد 1، صفحہ 67)
یعنی سرزمینِ
مکہ مکرمہ وہ مقدس ترین شہرو زمین ہے، اس میں کسی کا خون بہا سکتے ہیں، نہ کسی کو
کاٹا جاسکتا ہے،حتی کہ گھاس پھوس ہی کیوں نہ ہو۔
5۔ حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:جو مکہ میں
فوت ہوا، گویا آسمانِ اول پر اسے موت آئی۔(شفاء،
ج1، ص85)
6۔زرقانی شریف
میں روایت ہے، حضور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خواب دیکھا
کہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی
خوش اسلوبی کے ساتھ مکہ مکرمہ داخل ہوئے۔(زرقانی، جلد 2، صفحہ 180)
7۔مکہ مکرمہ کی
ایک فضیلت خانہ کعبہ سے بھی ہے کہ یہ
مسلمانوں کا قبلہ اول اور اللہ پاک کا سب سے پہلا گھر ہے، چنانچہ حدیث ِمبارکہ میں
ہے،حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں :میں نے نبی ِاکرم، نور ِمجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصدیعنی(ارادے) سے آیا اور
اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا
رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس کے لئے
نیکیاں لکھتا ہے اور خطا مٹاتا اور درجات بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے
پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی،پھر سر منڈایا،بال کتروائے
تو گناہوں سے بالکل ایسے نکل گیا، جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(شعب
الایمان، جلد 3، صفحہ 478، حدیث 4115)
8۔حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:جو مکہ مکرمہ کے
قبرستان میں دفن کیا گیا، وہ قیامت کو امن سے اٹھے گا۔(شفاء العزام،
جلد 1، صفحہ 284)
9۔حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے سرزمینِ مکہ! تو کس قدر پیارا شہر ہے، مجھے کس
قدر محبوب ہے۔(مشکوۃ
شریف، کتاب الشفاء، جلد1، صفحہ 85)
10۔حضرت محمد
بن قیس بن مخرم رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں :حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جسے سرزمینِ مکہ یا مکہ مکرمہ جاتے راستے میں موت آئی، وہ قیامت کے دن امن
والوں میں ہوگا۔(شفاء
العزم، جلد 1، صفحہ 85،العقد الثمین، جلد1، صفحہ 45)
سبحان اللہ
سبحان اللہ!!کیا رونق و مزاج ہیں مکہ کےکہ ہر مسلمان کے دل کا نور ہے۔اللہ کریم ہم
اور آپ سب کو زیارتِ مکہ، طوافِ مکہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین