مکہ مکرمہ نہایت
فضیلت و عظمت والا شہر ہے۔ اسی مبارک شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ کعبہ معظمہ، صفا مروہ، منیٰ،
مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور جیسے بابرکت مقامات بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجۃ الحرام کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان حج
کیلئے آتے ہیں۔
(سیرتِ مصطفیٰ ، ص41 ملتقطا)
جب حضرت ابراہیم
علیہ
السلام
اللہ پاک کے حکم سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور
بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو اس سرزمین
میں،جہاں اب مکہ مکرمہ ہے، چھوڑ کر تشریف لے گئے تو اس وقت یہاں نہ کوئی آبادی تھی،
نہ کوئی چشمہ، نہ پانی۔ جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی
اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ پانی کی جستجو یا آبادی کی
تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان سات بار دوڑیں اور اللہ پاک کے حکم سے اس خشک زمین
میں ایک چشمہ(زم
زم)
نمودار ہوا۔ بعد ازاں جُرْہَم نامی ایک قبیلے نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا
تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا! جستجو کی تو دیکھا کہ زم زم شریف میں
پانی ہے !یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا سے وہاں بسنے
کی اجازت چاہی،انہوں نے اس شرط پر اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔چنانچہ
وہ لوگ وہاں بسے اور اس طرح شہرِ مکہ میں آبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ (تفسیر
صراط الجنان، ابرٰھیم، تحت الآیۃ:37 ملتقطا)
احادیثِ
مبارکہ کی روشنی میں اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرمائیے تاکہ دل میں
اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو:
1:”اے لوگو!
اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنادیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہٰذا
یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت
والا)ہے۔“
(ابن
ماجہ،3/519،حدیث:3109)
2:”یہ امت ہمیشہ
خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع
کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے۔“(ابن ماجہ، 3/519، حدیث :3110)
3:”تم میں سے
کسی کیلئے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔“ (مسلم،1/506،حدیث:3307)
4:”اللہ پاک کی
قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں
مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ
نکلتا۔“
(ابن
ماجہ،3/518، حدیث:3108)
شارحِ بخاری
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ
اللہِ علیہ
اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت تک مدینۂ طیبہ
حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
مشرف نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے افضل تھا مگر جب حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔ (نزہۃ
القاری،2/711)
راجح یہی ہے کہ مکہ عمومی طور پر مدینہ سے
افضل ہے۔
کیونکر نہ ہو مکے سے سوا شانِ مدینہ وہ جبکہ ہوا مسکنِ سلطانِ مدینہ
مکے کو شرف ہے تو مدینے کے سبب سے اس واسطے مکہ بھی ہے
قربانِ مدینہ
5:”مکے میں
رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔“
(جمع
الجوامع،4/372،حدیث:12589)
6:”مکے اور مدینے
میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔“(مسند امام احمد،10/85،حدیث:26106)
7:”جو دن کے
کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہوجاتی ہے۔“
(اخبار
مکہ،2/311،حدیث:1556)
8:”جو ایک دن
مکے میں بیمار ہوجائے اللہ پاک اس کیلئے اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے جو
وہ سات سال سے کررہا ہوتا ہے(لیکن بیماری کی وجہ سے نہ کرسکتا ہو)اور
اگر وہ(بیمار)مسافر
ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔“ (اخبار مکہ ،2/311،حدیث:1556)
9:”جس کی حج یا
عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔“
(مصنف
عبدالرزاق، ٩ /174،حدیث:17479)
10:”جو حرمین(یعنی
مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے حرم)میں سے کسی ایک میں مرے گا وہ قیامت کے
دن امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔“ (جواہر البحار،4/29)
اللہ پاک ہمیں
مکہ مکرمہ کی باادب باذوق حاضری نصیب فرمائے اور مقبول حج و عمرے کی سعادت سے مشرف
فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم