تاریخ کے اوراق :

فتحِ مکہ:ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، اس فتح کا پسِ منظر و سبب کیا تھا اور کیا نتائج رونما ہوئے، اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیئے۔

رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین، محترم، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے، یک لخت آپ کے مخالف ہوگئے، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھو جانے کا ڈر ہوا، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسول ِخدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پکار پر لبیک کہہ دیں تو 14 صدیاں بعد تو کیا، قیامت تک صحابی رسول کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے، ہر کلمہ گو انہیں رضی اللہ عنہم کہہ کر یاد کرے گا۔

بہر کیف یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا، جن کے مقدر میں تھا، انہوں نے لبیک کہا اور پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا، جب کفارِمکہ کا ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا اور اللہ پاک نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر گئے، لیکن افسوس! کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ رہے اور مسلمانوں کو پے در پے اذیت دیتے رہے، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا، مسلمان مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کی زیارت کیلئے بے قرار تھے، چنانچہ رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 1400 صحابہ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سےکام لیا اور مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا، جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔

10 رمضان المبارک 8 ہجری کو نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوگئے، مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو ہتھیار ڈال دے ، اُس کیلئے امان ہے، جو دروازہ بندکرے ، اس کے لئے امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے ، اُس کیلئے امان ہے۔

پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کعبہ مقدسہ کو بتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے اور باہر تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمایا۔

مکہ مکرمہ کے فضائل تاریخ:

الحمد لله مکہ مکرمہ نہایت با برکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے، اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجیئے، تاکہ دل میں ا س کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

مكۃ المكرمہ امن والا شہر ہے:

قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر مکۃ المکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)

پارہ 30 سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے :لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)۔(خزائن العرفان، ص1104)

مکۃ المکرمہ کے دس حروف کی نسبت سے مکے کے دس نام :

اے عاشقانِ رسول!مکۃ المکرمہ کے بہت سے نام کتابوں میں درج ذیل ہیں، ان میں سے 10 یہ ہیں۔

(1)البلد(2)البلدالامین(3)البلدہ(4)القریہ(3)القادسیہ(5)البیت العتیق(1)معاد(8)بکہ(9)الرَّاسُ (10) اُم القری۔ (العقد الثمنين فی تاريخ البلدالامین، ج1،ص204)

کفارِ قریش سے ارشاد فرمایا : بولو تم کو کچھ معلوم ہے ؟ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ کفار آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے:اَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْم۔آپ کرم والے بھائی اور کرم والےبھائی کے بیٹے ہیں،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا:لا تثریب علیکم الیوم فااذھبوا انتم الطلقاء۔آج تم پر کوئی الزام نہیں،جاؤ تم آزاد ہو۔

بالکل غیر متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آکر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔

فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے، اللہ پاک اپنے حبیب فاتحِ مکہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسنِ اخلاق کے صدقے ہمیں بھی با اخلاق بنائے اور دنیا و آخرت میں اس خلق عظیم والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سایہ رحمت عطا فرمائے۔آمین

احادیثِ فضائلِ مکہ:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب، ایک دوسری روایت میں ہے:بعث نمن الاٰمنین یوم القیامۃ یعنی وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔

میں مکے میں جاکر کروں گا طواف اور نصیب آبِ زم زم مجھے ہو گا پینا

الله پاک ہمیں بار بار ہزار بار پیارے مکے اور میٹھے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے۔(آمین)