مکہ مکرمہ حجاز کا مشہور شہر مشرق میں حبلِ ابو قبیس اور  مغرب میں جبلِ قعیقعان دو بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، اس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ریتیلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیا ہے، اسی شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی، مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان بحری، ہوائی اور خشکی کے راستوں سے حج کے لئے آتے ہیں۔اس مقدس شہر کی فضلیت یہ ہے کہ اس میں خدا کا گھر ہے،حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہاں پیدا ہوئے اور عمر کا زیادہ تر حصّہ یہاں بسر کیا، قرآنِ پاک میں جابجا اس شہر کا ذکر موجود ہے، مکہ دنیا کے وسط میں واقع ہے، یہ امن و امان والی جگہ ہے، مکہ مکرمہ کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے 8ھ میں فتح کیا،حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کا ذکر اس طرح فرمایا:مَا اَطیَبَكَ مِن بلدِكَ و اَحَبَّكَ اِلَىَّ۔اے مکہ!تو کتنا عمدہ شہر ہے اور مجھے کس قدر محبوب ہے۔

احادیثِ نبوی اور فضیلت ِمکہ مکرمہ:

1۔حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے مکہ میں ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اللہ پاک نے اس کے لاکھ مہینوں کے روزے لکھ لئے اور مسجد حرام میں ایک نماز لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ جو مکہ میں ایک دن بیمار ہوتا ہے اللہ پاک اس کے جسم کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دیتا ہے۔

2۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: مکہ میں سختیاں اور درجے ہیں،جس نے یہاں کی شدت پر صبر کیا، میں روزِ قیامت اس کا شفیع و گواہ ہوں گا، مکہ اور مدینہ میں مرنا قیامت کے روز حساب اور خوف سے با امن رہ کر جنت میں سلامتی سے داخل کر دیتا ہے اور حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کے قیامت کے دن شفیع ہوں گے، آگاہ رہو کہ مکہ کے رہنے والے اہل ُاللہ ہیں اور اس کے گھر کے ہمسائے۔

3۔رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز ایک ہزار نماز جیسی ہے، مسجد حرام میں ایک نماز لاکھ نمازوں جتنا درجہ رکھتی ہے اور مسجدِ اقصی میں پانچ سو نمازوں جتنا۔

4۔رکن اور مقام کے درمیان جو جگہ ہے، وہ طہارت پاکیزگی اور قرب میں اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی ہوئی ہے۔

5۔رُکنِ یمانی اور رکنِ اسود کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

6۔یعنی مکہ میں اقامت نہایت سعادت ہے اور اس سے خروج شقاوت، وہاں کی رہائش نہیں چھوڑنی چاہئے، بخل اور سوال سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیطانی فعل ہیں۔

7۔ اللہ پاک کے نزدیک اکرم وہ ملائکہ ہیں جو بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔جس نے ایک نظر بیت اللہ کو دیکھا اور اس کی خطائیں خواہ سمندر کی جھاگ جتنی ہوں تو بھی اللہ پاک ان کو بخش دے گا۔

8۔ بیت اللہ کے گرد جس نے سات طواف کئے، اللہ پاک ہر قدم کے عوض ستر ہزار درجے بلند کرتا ہے اور ستر ہزار نیکیاں عطا کرتا ہے اور سات شفاعتوں کا حق عطا کرتا ہے، جس کی وہ اپنے مسلمان گھر والوں سے شفاعت کرنا چاہے اور اگر وہ چاہے تو اسے آخرت پر رکھ چھوڑے۔

9۔نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ حرم ہے، جس کو اللہ پاک نے روزِ ازل سے حرم بنایا۔اے لوگو ! کوئی مکہ مکرمہ میں ہتھیار لے کر نہ چلے ۔ (مسلم کتاب الحج، باب النبی عن حمل السلاح بمکۃ مشکوٰۃ باب حرم مکہ پہلی فصل، فضائل مکہ مکرمہ اور فضائل مدینہ منورہ، ص 17)

10۔ جس سے ہو سکے وہ مکہ و مدینہ منورہ میں سے کہیں مرے تو اسے چاہئے کہ وہیں جان دے، کیوں کہ میں سب سے پہلے اسی کی شفاعت کروں گا اور وہ مرنے والا قیامت کے دن اللہ پاک کے عذاب سے امن میں ہوگا۔

نوٹ:

یہ تمام احادیث ایک عربی رسالے سے ماخوذ ہیں جو مکہ مشرفہ کے فضائل میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ یہ مطبع عثمانیہ کا1325ھ کا چھپا ہوا ہے۔اسے عزیزی ظفر حسین مکہ معظمہ سے لائے تھے۔کتاب تاریخِ مکہ معظمہ مؤلف حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی ہاشمی ،ص 11-12- 13-14

مکہ معظمہ وہ شہر ہے جس کی تعریف میں قرآن ِمجید رطب اللسان ہے، یہ مبارک شہر جو سب شہروں سے افضل ہے، کئی خصوصیتوں کا حامل ہے، مکہ میں ربّ الامکان کا مکان ہے، مکہ میں مقامِ ابراہیم ہے، مکہ کو رب کریم نے بلدہ طیبہ کہا ہے، مکہ ہی وہ شہر ہے جسے اللہ پاک نے ام القری کہا۔

اللہ پاک سے دعا ہےوہ ہمیں اس بابرکت شہر میں بار بار ہرسال آنا نصیب فرمائے، اپنے مرشدِ کریم کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے اور وہاں خوب خوب عبادت کرنے،ڈھیروں نیکیاں کمانے کی سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم