قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی میں جینا اور محبت الہی میں مرنا ان کی
مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کوترجیح دینا نرم
وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز میں سر بسجو دہونا، یاد الہی میں رونا، رضائے
الہی کے حصول کیلئے تڑپنا سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں
میں روزے، اللہ تعالی کیلئے محبت کرنا، اس کی خاطر دشمنی رکھنا، اس کی خاطر کسی کو
کچھ دینا اور اس کی خاطر کسی سے روک لینا نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں
خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، احکام الہی پر عمل
کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں
سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز
مندر ہنا اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول ومحبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا،
اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب
رکھنا، ان سے محبت رکھنا محبت الہی صحبت اختیار کرنا، الله تعا کرنا اللہ تعالیٰ
کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا، یہ تمام امور اور ان کے علاوہ میں اضافے
ضافے کیلئے ان کی سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے
تقاضے بھی ہیں۔
محبت اور عشق میں فرق: محبت
و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر
شدت اختیار کرلے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو
طرح کا ہوتا ہے: مجازی اور حقیقی۔ عشق
مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا ہے، عشق
مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی
قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی
حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتاہے جبکہ
عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
سرکار کے پسینے سے صحابیات کی محبت:خادم
رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور خاتم المرسلین ﷺ ہمارے یہاں
تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا، حالت خواب میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک شیشی لی اور رسول کریم ﷺ کا پسینہ مبارک
اس میں ڈالنا شروع کر دیا۔ جب آپ بیدار
ہوئے تو دریافت فرمایا: اے ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپ
کا پسینہ ہے ہم اس کو اپنی خوشبو میں ڈالتی ہیں اور یہ سب خوشبوؤں سے عمدہ خوشبو
ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے
لیے آپ ﷺ کے پسینہ مبارک سے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ تو آپ نے ارشادفرمایا: تم
ٹھیک کرتی ہو۔ (مسلم، ص 913، حدیث: 2341)
عشق حقیقی سے مراد: عشق
حقیقی سے مراداللہ و رسول کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع
ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں
گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب
کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان
تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل
مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم
تیرے ہیں
عشق رسول کے نتیجے میں کوئی صدیق اکبر،کوئی فاروق اعظم،کوئی
غنی وباحیا اورکوئی شیرخدا ومشکل کشا بن گئے، الغرض اس نعمت عظمٰی کی بدولت ہرصحابی
آسمان ہدایت کا درخشندہ ستارہ بن گیا۔ عشق رسول انسانوں تک محدود نہیں عشق رسول سے
نہ صرف انسان مزین وآراستہ ہوئے بلکہ دیگر مخلوقات بھی روشن ومنور ہوئیں،کتب
احادیث و سیرت کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ جن وانس ہوں یاحوروملک،شجر و حجرہوں
یاچرندوپرند،چوپائے ہوں یا حشرات الارض الغرض مخلوق میں عاشقان رسول کی طویل
فہرستیں ہیں،محبت رسول کے ایمان افروز واقعات ہیں،الفت رسول کی لازوال داستانیں
ہیں اورچاہت رسول کی خوبصورت یادیں ہیں۔
عاشق رسول کی چند نشانیاں: عاشق رسول کی
کچھ علامات ونشانیاں ہوتی ہیں،ہمیں اپنے اندر ان نشانیوں کو تلاش کرنا چاہیے،وہ یہ
ہیں: (1)عاشق رسول اپنے محبوب اعظم ﷺ کی بے انتہا تعظیم وتکریم کرتا ہے(2)وہ رسول
اکرم ﷺ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے(3)وہ ان پر بکثرت درود وسلام پڑھتا ہے (4)وہ اپنے
رسول کریم ﷺ کی شان وعظمت سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ مزید شان سامنے آجائے
(5)وہ اپنے مقدس ومطہر نبی ﷺ کا عیب سننا ہرگز گوارا نہیں کرتا ہے کیونکہ جب عیب
زدہ محبوب کا عیب لوگ نہیں سنتے تو پھر جو ہستی ہر طرح کے ظاہری وباطنی عیب سے
منزّہ وپاک ہو تو اس کا عیب کیسے سنا جاسکتا ہے(6)وہ اپنے محبوب کریم ﷺ سے ملاقات
کا شوق رکھتا ہے(7)عاشق رسول اپنے محبوب رسول کریم ﷺ کی اطاعت واتّباع کرتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول کی شمع روشن ہوجاتی ہے،وہ محبت
رسول کے جام پی لیتا ہے شب وروز اسی محبت میں گزارتا ہے اورعشق رسول کی لازوال لذت
سے آشنا ہوجاتا ہے تو پھر وہ بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان وہ اپنی زبان سے
یہی کہتا نظر آئے گا:
جان ہے عشق مصطفے روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ وہ ناز
دوا اٹھائے کیوں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں پیارے
پیارے آقا ﷺ کا عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں
؟چنانچہ امام غزالی اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت
اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگر
یہ ملان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں
تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے۔ اور مال و دولت یہاں تک کہ جان تک اس
پر قربان کر دیتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 42)
بلا شبہ محبت خدا اور رسول ایک نعمت ہے محبت اور
عشق کے معنی و مفہوم میں ایک قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ اور رسول سے محبت تو ہر
مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔ لسان العرب میں عشق کا مطلب
یہ مذکور ہے کہ العشق فرط الحب یعنی محبت۔ میں حد سے تجاوز کرنا عشق ہے۔اعلی حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت
بامعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ یعنی بہت زیادہ پکی ہو جائے تو اس کو عشق کا نام
دیا جاتا ہے۔ پھر جس کی اللہ پاک سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے اثار
ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہما اوقات اللہ پاک کے ذکر و فکر اور اس کی اطاعت میں مصروف
رہےتو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ محبت ہی کا دوسرا
نام عشق ہے۔ (فتاوی رضویہ، 21/ 115)
سیرت مصطفی صفحہ 831 پر ہے اس آیت مبارکہ کا حاصل
مطلب یہ ہے کہ ہم مسلمانوں جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی
کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم کسی غیر کی محبت کو ان کی محبت پر ترجیح دو گے تو
وہ سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے
گا اور تم عذاب الہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ
بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ رسول کی محبت نہیں یقینا بلاشبہ اس کے
ایمان میں خلل ہے یہ آیت مبارکہ اللہ رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے
اور اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ یہ بہت ضروری ہے کہ ان کی
محبت ہر محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔
عشق و محبت مصطفی ﷺ کی چند علامات: کثرت ذکر، شوق
ملاقات، اتباع شریعت، قرب محبوب کی کوشش،
جان و مال کی قربانی، حکم محبوب پر عمل، محبت اور
نفرت کا معیار، راہ خدا کے مصائب پر صبر، تبرکات مقدسہ کی تعظیم۔
عاشقان رسول راہ عشق میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ عبادت گزار عشق و محبت کی نسیم صبح سے راحت پاتے ہیں۔ عشق و محبت
رسول عاشقان رسول کے دلوں کی غذا اور ارواح کا رزق ہے۔ عشق و محبت رسول سے محروم
شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے۔ عشق و محبت رسول سے فیض یاب ہونا فضل خداوندی ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی عاشق
رسول بنائیں۔ آمین
آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ عشق و محبت میں فرق
کیا ہے؟ محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کو تیار ہو
جاتا ہے۔ لہذا اس لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام
غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت
اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اور
اگر محبت کا یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادتی ہوتی
رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے۔ اور مال و دولت یہاں تک
کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 42)
عشق و محبت میں فرق: بلا
شبہ محبت خدا اور محبت رسول ایک بہت بڑی نعمت ہے محبت اور عشق کے معنی و مفہوم میں
ایک قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا
درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔
لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ محبت میں
حد سے تجاوز کرنا عشق ہے۔
امام عشق و محبت اعلی حضرت عشق کی تعریف بیان کرتے
ہوئے فرماتے ہیں: محبت بامعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ یعنی بہت زیادہ پکی ہو جائے
تو اس کو عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر جس کی اللہ کریم سے پختہ محبت ہو جائے اور
اس پختگی محبت کے اثار ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہر وقت اللہ کے ذکر و فکر اور اس کی
اطاعت میں مصروف رہےتو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ
محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاوی رضویہ، 21/ 115)
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
سیرت مصطفی صفحہ 831 پر ہے: اس آیت مبارکہ کا حاصل
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی
کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم کسی غیر کی محبت کو ان کی محبت پر ترجیح دو گے تو
وہ سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے
گا اور تم عذاب الہی اور کہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے اخری ٹکڑے سے یہ
بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ رسول کی محبت نہیں یقینا بلاشبہ اس کے
ایمان میں خلل ہے۔ یہ آیت مبارکہ اللہ رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے
اور اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ یہ بہت ضروری ہے کہ ان کی
محبت ہر محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض و فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی
ہے
سیرت صحابیات کی روشنی میں عشق و محبت مصطفی ﷺ پر
مشتمل چند علامات: 1۔کثرت ذکر 2۔شوق ملاقات 3۔اتباع شریعت 4۔قرب محبوب کی کوشش 5۔جان و مال کی قربانی 6۔حکم محبوب پر عمل 7۔محبت
اور نفرت کا معیار 8۔راہ خدا کے مصائب پر صبر 9۔تبرکات مقدسہ کی تعظیم۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حقیقی عشق نصیب
فرمائے۔ آمین
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی
ہے اور اس بارے امت کا اختلاف بھی نہیں ہے، بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر
محبوب (کی محبت)پر مقدم ہو۔
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
واردینے کے لیے تیار ہو جاتا ہےلہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں، چنانچہ
امام غزالی اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا
نام ہے کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت
اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادت ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق
محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت (یہاں تک کہ جان تک) اس پر قربان
کر دیتا ہے۔
محبت اورعشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ
اللہ ورسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے،
لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ العلق فرط الحب یعنی محبت میں حد
سےتجاوز کرنا عشق ہے اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق کی
تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ (یعنی بہت
زیادہ پکی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ پاک سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے آثار (اس طرح) ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات
اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس
کی محبت کو عشق کہا جائے،کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/
115ملتقطاً) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا
جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم،
ص 47، حدیث: 169)
دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ
دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی
ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت و معرفت کی لذت میں
کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی
کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى
بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ
کنزالایمان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تک تم میں سے کوئی
مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد اپنے ماں باپ بلکہ تمام جہان کے انسانوں سے
بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محمد کی محبت دین کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب
کچھ نا مکمل ہے
اعلی حضرت فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور
موکدہ ہو جائے تو اسی کو عشق کہتے ہیں کیوں کہ محبت کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ، 21/ 115)
پیارے آقا ﷺ سے عشق کے متعلق چند باتیں:
عشق
و محبت رسول وہ شفا ہے جس سے محروم شخص کا دل بیماریوں گھر بن جاتا ہے، عشق و محبت
رسول سے محروم شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے، عشق و محبت رسول کی لذت سے جو آشنا
نہیں اس کی زندگی غموں اور تکالیف کا شکار رہتی ہے۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان جو کہ ابھی کفر کی حالت
میں تھے صلح حدیبیہ کے زمانے میں مکہ سے مدینہ شریف آئے اور اپنی بیٹی سے ملنے ان
کے گھر گئے اور اس بستر پر بیٹھنے لگے جس پر محبوب خدا بیٹھتے تھے حضرت ام حبیبہ
نے بستر فورا لپیٹ دیا اور فرمایا یہ اللہ کے محبوب پاک کا بستر ہے تم ناپاک ہو
کیونکہ تم مشرک ہو اس لئے تم اس پاک بستر پر نہیں بیٹھ سکتے یہ سن کر ابو سفیان کو
بے حد رنج ہوا اور اٹھ کر چلا گیا ام حبیبہ نے فرمایا باپ جاتا ہے تو جائے لیکن
دامن مصطفیٰ ہاتھ سے نہ جائے۔ (خطبات صمدانی، 2/325)
حضور ﷺ کی اونٹنی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بے قرار
رہنے لگی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اس طرح اس نے اپنی جان دے دی۔ (خطبات
صمدانی،2/333)
دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے محبت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدت اختیار کرلے تو عشق کہلاتی ہے۔
عشق دو طرح کا ہوتا ہے: عشق حقیقی اور عشق مجازی۔ عشق
مجازی اکثر راہ دوزخ کی طرف لے جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا
ہے، قرآن کریم میں بھی عشق حقیقی اختیار کرنے والوں کی تعریف بیان فرمائی گئی
ہے: وَ لَىٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاۡاِلَى اللّٰهِ
تُحْشَرُوْنَ(۱۵۸) (پ 4، اٰل عمران: 158) ترجمہ کنز العرفان: اور اگر
تم مرجاؤ یا مارے جاؤ (بہرحال) تمہیں اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مولانا نعیم الدین مراد
آباری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ مخلص بندے جو عشق الٰہی اور ا س کی ذات پاک
کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان کا مقصود اس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں
ہے انہیں حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے دائرۂ کرامت میں اپنی تجلّی سے نوازے گا اس کی
طرف لاالى الله تحشرون میں اشارہ ہے۔
عشق حقیقی کے ثمرات: عشق
حقیقی کا مطلب اللہ اور اسکے رسولﷺ سے کامل محبت ہے جو اس محبت کو پانے میں کامیاب
ہوجاتا ہے وہ ہر وقت محبوب کے تصور میں گم رہتا ہے اور محبت و معرفت کی لذت میں
کھو کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے پھر وہ محبوب ہی کے نقش قدم پر چلنے کی
بھر پور کوشش کرتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان بھی قربان کرنے پر راضی ہوجاتا
ہے۔
عشق الہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
عشق رسول کے بغیر انسان کامل مومن نہیں ہوسکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی اسوقت تک
مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اسکے والدین اولاد گھر والو تمام لوگو اپنی جان
اور مال سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168، 169)
عاشق رسول اپنے محبوب کی بے انتہا تعظیم کرتا ہے،
اپنے محبوب کا ذکر کثرت سے کرتا ہے، ان پر کثرت سے درود و سلام پڑھتا ہے، وہ اپنے
محبوب کی دل و جان سے اطاعت و پیروی کرتا ہے، اپنے محبوب سے ملاقات کا شوق رکھتا
ہے،اپنے محبوب اعظمﷺ کے پیاروں سےمحبت کرتا ہے الغرض وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا
جس سے اسکا محبوب ناراض ہوجائے بلکہ وہ اپنے
محبوب ﷺ کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتا۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم
تیرے ہیں
عشق رسول کی اعلی مثال حضور ﷺکی صحبت پانے والے بے
مثال صحابہ کرام میں ملتی ہے کہ یہ عشق رسول ہی تھا کہ رحمت عالم ﷺکے وضو کا پانی
یا جسم اطہر سے جدا ہونے والے بال حاصل کرنے میں بےحد کوشش کرتے آپ کا لعاب دہن
چہرے اور جسم میں ملتے تھے، حضور ﷺ پوچھتے کیا چیز تمہیں ایسا کرنے پر ابھارتی ہے
تو عرض کرتے اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت ہم سے ایسا کرواتی ہے۔ (مشکوة المصابیح، 2/
216، حدیث: 4990)
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا جسکو ہو درد کا مزہ ناز دوا
اٹھائے
کیوں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق حقیقی جیسی عظیم
نعمت سے سرفراز فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین
ارشاد خداوندی ہے: قُلْ
اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محبت کیا چیز ہے محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب
کچھ وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟
جو عشق اللہ رسول کی ذات سے ہو اسے عشق حقیقی کہتے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں
فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے
میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس
میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال
و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔
محبت اور عشق کے معنی و مفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ
اللہ و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عشق:
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: محبت کے لغوی معنی ہیں جب محبت پختہ ار موکدہ
یعنی بہت زیادہ پکی ہو جائے تو اسے عشق کہتے ہیں پھر جسکی اللہ و رسول سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پر محبت کے آثار ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ وقت اللہ کے ذکرو
فکر میں اور اسکی اطاعت میں مصروف رہتا ہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت
کو عشق کہا جائے۔ محبت ہی کا دوسرا نام
عشق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
اللہ ہمیں
اللہ و رسول کی ذات سے عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے۔ عشق نے بڑی بڑی
مشکلات میں عقل انسانی کی راہنمائی کی ہے۔عشق نے بہت سی لاعلاج بیماریوں کا کامیاب
علاج کیا ہے۔ عشق کے کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
لیکن عشق بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک عشق حقیقی اور
دوسرا عشق مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت
پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا
ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون
کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ
میں کود پڑتاہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
عشق حقیقی کی اصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہے جبکہ عشق مجازی کسی سے دنیا کی وجہ
سے محبت کرنا ہے۔جبکہ اللہ کے بندوں سے اس کی رضا کے لئے محبت کرنا بھی عشق حقیقی
کے ہی زمرے میں آتا ہے۔
صرف ایک ہی محبت ہے جس میں طعنہ نہیں ہے الزام نہیں
ہے شرمندگی نہیں ہے رسوائی نہیں بے اعتباری نہیں ہے اور وہ صرف اللہ اور اس کے
رسول و ﷺ کی محبت ہے۔
اسی عشق کامل کے طفیل صحابہ کرام علیہم الرضوان کو
دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا۔یہ ان کے عشق کا کمال تھا
کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع رسول ﷺ سے انحراف
گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا ﷺ کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کو
مشعل راہ بنا کر جادہ پیما رہتے۔ یہاں تک کہ
لحد میں عشق رخ شہ کاداغ لے کے چلے اندھیری رات سنی تھی چراغ لیکے چلے
چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات
سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے
کفن میں کتنے کپڑے تھے، حضور کی وفات شریف کس دن ہوئی، ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ
کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں حضور کی موافقت ہو۔ حیات میں حضور ﷺ کا اتباع
تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ ہی کی اتباع چاہتے تھے۔ (بخاری، 1/468، حدیث: 1387)
اللہ اللہ یہ شوق اتباع کیوں نہ ہو
صدیق اکبر تھے
غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم ﷺ نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ
الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی نے نماز عصر نہ پڑھی
تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو
شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم
اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور ﷺ نے
دعا کی، ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نمازعصر ادا کی،
پھر ڈوب گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز، وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی
عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور ﷺ کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی
ہمیں حضور ﷺ ہی کے صدقہ میں ملیں۔ (شفاء، 1/594)
بوقت ہجرت غار ثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر گئے
اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا
انگو ٹھا رکھ دیا، پھر حضور اقدس ﷺ کو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر
اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاق زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر
صدیق اکبر کے پاؤں پر ملا انہوں نے اس خیال سے کہ حضور ﷺ کی نیند میں فرق نہ آئے
پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبر کے آنسو چہرہ انور پر
گرے چشم مبارک کھلی، عرض حال کیا۔ حضور ﷺ نے لعاب دہن لگا دیا فورا آرام ہوگیا۔ ہر
سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبر نے جان بھی سرکار
ﷺ کی نیند پر قربان کی۔ (مدارج نبوت، 2/58)
ان ہی نکات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:
مولیٰ علی نے واری تری نیند پر نماز وہ بھی عصر جو سب سے جو اعلیٰ
خطرکی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے اور حفظ جاں تو جان فروض غررکی ہے
ان واقعات سے صحابہ کرام کے عشق رسول ﷺ کا جذبۂ
صادق عیاں ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے اپنے محبوب آقا ﷺ کے ساتھ اپنے قلبی لگاؤ
اور والہانہ عشق کے آداب کی تکمیل میں ایثار و قربانی کی جو مثالیں پیش کیں وہ ہمارے
لیے مشعل راہ ہیں، آج بھی اگر ہم ان کی پیروی کریں تو سینوں میں عشق رسول کی شمع
فروزاں ہو سکتی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ
کرام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عشق الہی و عشق رسول ﷺ کی لازوال دولت
سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبين ﷺ
محبت و عشق میں فرق: دل
اگر کسی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہتے ہیں اور یہی محبت اگر شدت اختیار کر
لے تو عشق کہلاتی ہے۔
عشق دو طرح کا ہوتا ہے: مجازی (انسانوں کا انسانوں
سے عشق) حقیقی (یعنی محبت خدا و رسول سے عشق)۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا
ہے جبکہ عشق حقیقی شاہرہ جنت پر گامزن کرتا ہے, عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے
اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت
طوفان کا سامنا کرتا،کھبی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الٰہی پر قربانی کیلئے
سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے
عشق حقیقی سے مراد: عشق
حقیقی سے مراد اللہ و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں
جمع ہو جاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کر دیتی ہے وہ ہمہ وقت محبوب کے تصور و
جلوؤں میں گم رہتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندہ مومن کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔
قرآن و سنت اور محبت رسول: فرمان
باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ
وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا
جب تک میں اسے والدین، اولاد، گھر والوں، تمام لوگوں،اپنی جان اور مال سے زیادہ
محبوب نہ وہ جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث:168،169)
صحابہ کرام کا عشق رسول: یہ
عشق رسول ہی تھا کے وضو کے پانی یا جسم اطہر سے جدا ہونے والے بال حاصل کرنے میں
بے حد کوشش کرتے، آپ کا لعاب دہن ہاتھوں میں لے کر چہروں اور جسم پر ملتے تھے۔ مصطفی
جان رحمت ﷺ پوچھتے تھے: کیا چیز تمہیں ایسا کرنے پر ابھارتی ہے؟ تو جان ہے عشق
مصطفیٰ کے سچے مصداق عرض کرتے: اللہ و رسول کی محبت ہم سے ایسا کرواتی ہے اسی لئے
تو کوئی صدیق اکبر کوئی فاروق اعظم کوئی غنی و باحیا اور کوئی شیر خدا مشکل کشا بن
گئے۔
عشق رسول کی نشانیاں: عاشق
رسول اپنے محبوب اعظم ﷺ کی بے انتہا تعظیم و تکریم کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کا ذکر
کثرت سے کرتا ہے۔وہ ان پر بکثرت درود و سلام پڑھتا ہے۔ محبوب اکرم ﷺ کی نسبتوں سے پیار کرتا ہے۔ عاشق رسول اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت و اتباع کرتا
ہے۔
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز
دوا اٹھائے کیوں
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے
کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ
میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک
کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت یہاں تک کہ جان تک اس پر
قربان کر دیتا ہے۔
دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(مسلم، ص 47، حدیث: 169)
عشق رسول کے تقاضے: احکام
باری تعالیٰ کو غور سے سنیں اور ان پر عمل کیجئے حضور کے والدین رشتہ داروں کے ادب
و احترام کے آداب کا التزام رکھا جائے سوائے ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور
جہنمی ہونا قران و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ابولہب۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی
ہے اور اس بارے امت کا اختلاف بھی نہیں ہے، بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر
محبوب (کی محبت)پر مقدم ہو۔
محبت آخر کیا ہے چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب
کچھ واردینے کے لیے تیار ہو جاتا ہےلہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں چنانچہ
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس
کیفیت اور جذبے کا نام ہے کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر
یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادت ہوتی رہتی ہے یہاں
تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت (یہاں تک کہ جان تک) اس
پر قربان کر دیتا ہے۔
عشق محبت میں فرق: محبت
اورعشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ ورسول سے محبت تو ہر مسلمان
کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور
رہے کہ العلق فرط الحب یعنی محبت میں حد سےتجاوز کرنا عشق ہے۔
اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق
کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ (یعنی بہت
زیادہ پکی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ پاک سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے آثار (اس طرح) ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات
اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس
کی محبت کو عشق کہا جائے،کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 21/
115ملتقطاً)
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰس وہی طہٰ
ارشاد باری ہے: قُلْ
اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں۔ جو
عشق اللہ رسول کی ذات سے ہو اسے عشق حقیقی کہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محبت و عشق میں فرق: محبت
و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر
شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں
فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے
میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر چہ یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس
میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال
و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔
اللہ پاک
ہمیں دنیا کی محبت سے نکال کر عشق حقیقی نصیب فرمائے آمین۔