اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔ اس کی بنیاد اسلام کی عطا کردہ وہ آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمر رسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بزرگوں کی عزت وتکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا».’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (جامع ترمذی:1919)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’سفید بال نہ اُکھاڑو کیونکہ وہ مسلم کا نور ہے،جو شخص اِسلام میں بوڑھا ہوا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی وجہ سے اُس کے لئے نیکی لکھے گا اور خطا مٹا دے گا اور درَجہ بلند کرے گا۔‘‘(ابوداؤد)

بڑھاپے کی بڑی فضیلت ہے لہذا جو خوش نصیب عمر کے اس حصے کو پہنچ جائیں انہیں چاہیئے کہ اللہ پاک کی عبادت کے لئے مزید کمربستہ ہوجائیں اور پہلے کی بنسبت اب بڑھاپے میں زیادہ ذکر و اذکار اور نمازوں وغیرہ کا اہتمام پابندی سے کریں کہ اب بظاہری طور پر موت کا قاصد پہنچ چکا ہے اور کسی بھی وقت ملکِ اجل کی آمد ہوسکتی ہے۔

شیخِ طریقت امیر اہل سنت نے مزید شوق دلانے کے لئے عاشقانِ رسول کو اس ہفتے رسالہ ”“ بڑھاپے میں یادِ خدا “ پڑھنے سننے کی ترغیب دلائی اور پڑھنے سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نواز ا ہے۔

دعائے عطار

یاربِ کریم! جو کوئی 17صفحات کا رسالہ ” بڑھاپے میں یادِ خدا “پڑھ یا سن لے اُسے اپنی عمر کے پر حصے میں عبادت کی توفیق عطا فرما اور اسے ماں باپ سمیت بےحساب بخش دے۔ اٰمین

رسالہ مفت ڈاؤن لوڈ کریں

Download


عاشقانِ رسول کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کرنے اور عشقِ رسول کا جام پلانے کے لئے دین اسلام کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ22 اگست 2024ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں اراکینِ شوریٰ و مبلغین دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔تلاوت و نعت سے شروع ہونے والے اجتماع میں اصلاحِ نفس، اصلاح معاشرہ اور دینی معلومات کے موضوعات پر بیانات کئے جاتے ہیں جس کے بعد ذکر و اذکار، رقت انگیز دعا اور صلوۃ و سلام کا سلسلہ ہوتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق آج رات مدنی چینل پر براہِ راست نشر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں مدنی مرکز فیضانِ مدینہ نزد کامرس کالج شاہراہ ریشم روڈ مانسہرہ سے رکنِ شوریٰ مولانا حاجی محمد اسد عطاری مدنی خصوصی بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں رکنِ شوریٰ مولانا حاجی عبد الحبیب عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں رکن شوریٰ حاجی منصور عطاری، مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کاہنہ نو لاہور میں رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری، جامع مسجد میمن، میمن نگر 15/Aسوسائٹی کراچی میں حاجی سائیں برکت عطاری، رضائے مصطفٰے مسجد کورنگی نمبر 4 کراچی میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، جامع مسجد سبحانی سیکٹر 15 اورنگی ٹاؤن کراچی میں حاجی فضیل رضا عطاری، حنفیہ مسجد، مین قائد آباد، مرغی خانہ اسٹاپ، کراچی میں مبلغ دعوتِ اسلامی مولانا محمد رضا عطاری مدنی سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقانِ رسول سے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


ڈونیشن بکس ڈپارٹمنٹ کے تحت 6 اگست2024ء کو فیضان مدینہ العطار ٹاؤن میرپورخاص میں مدنی مشورہ ہوا جس میں میرپورخاص ڈویژن کے تمام مدنی عطیات بکس کے ذمہ داران اور  ڈویژن ذمہ دار سمیت آفس اسٹاف نے شرکت کی ۔

میرپورخاص ڈویژن کے نگران حافظ زین عطاری اور میرپورخاص ڈسٹرکٹ کے نگران افتخار احمدعطاری اور ڈویژن ذمہ دار نے شعبہ ڈونیشن بکس کی ترقی و تنزلی پر بات چیت کرتے ہوئے حاضرین کو آئندہ کے اہداف دیئے جبکہ 12دینی کاموں کے حوالے سے کلام کیا ۔(رپورٹ:فرحان عطاری ڈویژن ذمہ دار عطیات بکس مجلس،کانٹینٹ:محمد شعیب احمد عطاری) 


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی  کے تحت5اگست 2024ء کو ملتان میں فیضان صحابیات اور اوراق مقدسہ باکس کا افتتاح ہوا رکن شوری ابوماجد حاجی محمد شاہد عطاری مدنی اور نگران مجلس غلام الیاس عطاری نے اس موقع پر سب تحصیل ،ٹاون نگران ،اور ڈسٹرکٹ نگران کے درمیان بیان اور دعا فرمائی جبکہ حاضرین کو دینی کاموں کو بڑھانے کہ اہداف دئیے۔(رپورٹ:محمد علی رفیق صوبہ پنجاب آفس،کانٹینٹ:محمد شعیب احمد عطاری)


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی  کے تحت8اگست 2024ء کو اسلام آباد جی الیون میں مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنوں کے پنجاب ڈویژن ، ڈسٹرکٹ اور ٹاون ذمہ داران نے شرکت کی ۔

دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رکن ابوماجد حاجی محمد شاہد عطاری مدنی اور نگران مجلس غلام الیاس نےیوسی وائز کورسز کروانے ، تحصیل وائز فیضان صحابیات بڑھانے ،گلی گلی مدرستہ المدینہ بڑھانے، مدرستہ المدینہ بالغات اور دینی کام کے متعلق گفتگو کی ۔ اس موقع پر میلاد مصطفی کی تیاریاں اور شعبہ کورسز کہ حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔(رپورٹ:محمد علی رفیق صوبہ پنجاب آفس، کانٹینٹ: محمد شعیب احمد عطاری)


دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد میں جشن آزادی کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں رکن شوری دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی حاجی جنید عطاری مدنی صاحب، یونیورسٹی کے Dean ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس،فیکلٹی ممبرز،مختلف سیاسی، سماجی، ایجوکیشنل پروفیشنلز اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔

اس تقریب کا عنوان تھا:’’نعمتِ آزادی کی قدر کیجیے‘‘

اس تقریب میں خصوصی بیان استاذ الحدیث مولانا سید خالد شاہ عطاری مدنی صاحب نے کیا ، ان کے علاوہ پروفیسرز اور اسٹوڈنٹس نے بھی اظہار خیال کیا۔رکن شوری نے وطن عزیز کی ترقی اور حفاظت کے لیےدعا بھی کی۔ تقریب کا اختتام قومی ترانہ اور درود وسلام پر ہوا۔(رپورٹ: غلام محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی)


پاکستان اللہ تعالی ٰ کی ایک نعمت ہے،ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ اس نعمت کی قدر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور ایسے کام کریں جن سے ہمارے دین، ملک اور ہمیں فائدہ ہو۔ہمیں چاہیے کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد یاد رکھیں۔ دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکول سسٹم (پاکستان )کے پنجاب اور سندھ ریجن کے کیمپسز میں یوم آزادی کی تقریبات جوش و خروش کے ساتھ منعقد ہوئیں۔ اس موقع پر کیمپسز کو پاکستانی جھنڈوں اورسبز اور ہرے رنگوں سے مزین غباروں سے بھی سجایا گیا تھا۔یوم آزادی کی مناسبت سے کیمپسز کی دیواروں پر پاکستانی نقشے بنائے گئے ۔ ان دیواروں پر حب الوطنی پر مبنی اقوال اور امیر اہل سنت کے پاکستان سے متعلق کلام کے اشعار بھی لکھے گئے۔

ان تقریبات کا آغاز تلاوت ِقرآن پاک سے ہوا، بعد ازاں نعت شریف اور اردو انگریزی تقاریر کا سلسلہ بھی ہوا ۔ طلبہ نے یوم آزادی کی مناسبت سے تقاریر کیں ، طلبہ نے ایک آواز میں قومی ترانہ بھی پڑھا اور ملی نغمے بھی پیش کیے۔ اساتذہ کرام نے طلبہ کی تربیت کی اور انھیں قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد سے آگاہ کیا اور یوم ِآزادی کو اسلامی اصولوں کے مطابق منانے کی ترغیب دلائی۔

ان تقریبات کی خاص بات یہ تھی کہ طلبہ کے ہاتھوں میں سبز پرچم موجود تھے جو وہ وقفے وقفے سے لہرارہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی بلند کررہے تھے۔آخر میں پاکستان کی سلامتی،ترقی اور خوشحالی کے لیے دعائیں بھی مانگی گئیں۔(رپورٹ: غلام محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی)


یہ بات صحیح ہے کہ ہر ملک ہر علاقے اور ہر قوم میں مہمان نوازی کے طور طریقے اور انداز مہمان نوازی قدر مختلف ہوتے ہیں لیکن کسی بھی قوم میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کا عزت و وقار کے ساتھ پرتپاک استقبال کرنا اسے خوش آمدید کہنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی خوب سے خوب خدمت کرنا ضروری ہےاس لیے کہ دنیا کی ہر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

مہمان کی تعریف: وہ شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں آکر ٹہرے اور جلدی رخصت ہو جائے اس شخص کو مہمان کہا جاتا ہے ۔

مہمان کے حقوق: 1: حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: کہ "مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ ” جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔"

حضرت ابراھیم علیہ السلام کا نام ہمیں بڑے مہمان نوازوں میں ملتا ہے آپ علیہ السلام بغیر مہمان کے کبھی کھانا تناول نہیں فرماتے اور اگر کسی دن کوئی مہمان نہ آتا تو دروازے پر کھڑے ہوکر کسی بھی گزرنے والے کو مہمان بنا کر گھر میں لے آتے ایک دفعہ اسی طرح آپ علیہ السلام دروازے سے ایک شخص کو مہمان بنا کر لے آئے دسترخوان پر بٹھا کر کھانا سامنے رکھ کر فرمایا جی بسم اللہ کیجئیے تو اس نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں میں بسم اللہ نہیں پڑھ سکتا تو آپ علیہ السلام کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ جب تو میرے اللہ کو نہیں مانتا تو یہاں تیری ضرورت نہیں تو چلا جا وہ چلا گیا تو اللہ کی طرف سے ندا آئی کہ اے ابراہیم اس دنیا میں اب تک اس کو کون کھلاتا پلاتا رہا ہے اس کا تعلق کس مذہب سے ہے ؟ اس کے اعمال کیا ہیں ؟

اس کا فیصلہ بروز محشر ہوگا اس وقت وہ تیرا مہمان تھا لیکن ایک دن بھی تو اسے نہ کھلا سکا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی بات سن کر گھبرا گئے اور اسے ڈھونڈنے کی غرض سے نکل گئے تھوڑی دور وہ مل گیا تو آپ علیہ السلام اسے دوبارہ گھر لے آئے اور معذرت کرتے ہوئے بڑے احترام و اکرام کے ساتھ اسے کھانا کھلایا جب وہ کھا چکا تو کہنے لگا کہ مجھے تعجب ہے کہ پہلے آپ غصہ ہوکر مجھے گھر سے نکل جانے کا حکم دیتے ہیں اور اب اتنی مہمان نوازی آخر ماجرہ کیا ہے ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس رب کو تو ماننے کے لئے تیار نہ تھا مجھے اسی رب نے تیری مہان نوازی کا حکم دیا تو اس شخص نے سوچا کہ جس کو میں رب نہیں مانتا مجھ پر اس کی اتنی بڑی مہربانی کہ اس نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا اس نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ مجھے بھی اپنے دین میں داخل کردیجیے اور وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا یہ ہے مہمسان نوازی اس کی فضیلت اور اس کے حقوق۔( صحیح بخاری حدیث 6019)


مہمان نوازی ایک اعلی وصف ہے اور اسلام میں اسے بہت پذیرائی حاصل ہے۔  اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری،ج4،ص105،حدیث:6019)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(ممکنہ حد تک) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کی اسلام نے مہمان کو کس قدر عزت سے نوازا ہے ۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق مہمان کے کئی حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں

1.خوش آمدید (well come) کرنا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اور اس کا پر تپاک استقبال کرے۔

2.مناسب طعام و قیام ۔میزبان کو چاہیے کے اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کو بہترین کھانا پیش کرے اور اچھی رہائش فراہم کرے .ایک طویل حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک کافر بطور مہمان آیا تو آپ نے اس کی بھی مہمان نوازی کی ( مسلم ۔ کتاب الاشربہ۔ حدیث 2063)

3.مہمان کے ساتھ کھانا : مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سےفرمایا: تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھاؤ کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرماتا ہے۔(شعب الایمان ۔ حدیث ۔9186)

4.اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی(Interfere) نہ کرنا: مہمان بلکہ کسی بھی انسان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا اس کی دل آزاری اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں لہذا اس سے گریز کرنا بھی مہمان کے حقوق میں شامل ہے۔

5.الوداع کرنا :جب مہمان جانے لگے تو بہتر یہ ہے کہ اسے الوداع کہنے دروازے تک چل کر جائے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اچھا طریقہ یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ۔شعب الایمان، حدیث 9202)

الغرض ہر طرح سے اس کا خیال رکھنا اور اسے کسی بھی طرح کی تکلیف سے بچانا ایک مسلمان کے لئے انتہائی اہم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان حقوق کو ادا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ کریم ہمیں مہمان نوازی اور مہمان کے حقوق اچھے انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 


اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عظیم ہے

مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ  یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے(بخاری،ج4،ص105،حدیث:6019)

اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
آئیے اللہ پاک اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی نیت سے مہمان کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں:

1. مہمان نوازی میں جلدی کی جائے:
“ حکایت یں اور نصیحتیں کے صفحہ نمبر164 پر لکھا ہے : منقول ہے : جلدبازی شیطان کی طرف سےہے مگر اِن چھ(6) کاموں میں جلدی کرنا شیطان کی طرف سے نہیں وہ یہ ہیں
01: جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس میں جلدی کرنا ،
02: مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنا ،
 03: کسی کے مرنے پر اس کے کفن دفن کاانتظام کرنا
04: بچی کے بالغ ہونے پر اس کی شادی کرنا
05: قرض کی ادائیگی کا وقت آجائے تو اُسے جلد ادا کرنا 06: اورکوئی گناہ ہوجائے توفوراً توبہ کرنا ۔
(الروض الفائق،المجلس الثالث عشر فی ذکر جھنم،باب:صفۃالفقیر
،ص:86)

جس نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اسکی بھی مہمان نوازی کی جائے:ابو الاحوص جشمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد (مالک بن نضلہ الجشمی رضی اللہ عنہ)سے ر وآیت کرتے ہیں، کہتے ہیں:میں نے عرض کی، یارسول اﷲ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا، اس نے میری مہمانی نہیں کی، اب وہ میرے یہاں آئے تو اس کی مہمانی کروں یا بدلا دوں؟۔ ارشاد فرمایا:بلکہ تم اس کی مہمانی کرو(سنن الترمذي''،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء في الإحسان والعفو،الحدیث: 2013،ج:3،ص:405)

سنت ابراھیمی پر عمل کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے(بہار شریعت،حصہ :16،ص:397)

پسند ،ناپسند کا خیال:(ممکنہ صورت میں مہمان کا پسندیدہ کھانے کا انتظام کرے ) بہار شریعت میں ہے کہ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو(بہار شریعت،حصہ :16،ص:397)

اصرار نہ کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو

کھانا رکھ کر غائب نہ ہو:میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضر رہے

ناراض نہ ہو: مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحبِ وسعت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔

کھانے کے بعد ہاتھ دھلائے :جب کھا کر فارغ ہوں ان کے ہاتھ دھلائے جائیں اور یہ نہ کرے کہ ہر شخص کے ہاتھ دھونے کے بعد پانی پھینک کر دوسرے کے سامنے ہاتھ دھونے کے لیے طشت پیش کرے(المرجع السابق،ص:345)

مہمان رخصت کرنے کا سنت طریقہ :رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث:33578،ج:4،ص:52)

اللہ پاک ہمیں جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

(1)ایمان کی علامت: مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ ترجمہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو چاہیے کہ وہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے ۔(بخاری، حدیث: 6019)

(2) نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کشف الخفاء، حدیث: 1641)

(3) فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن ماجہ، حدیث: 3356)

(4)مہمان نوازی کے فوائد : مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔

مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

(5)۔مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتی ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔


مہمانوں کی عزّت و تکریم اور خاطرتواضع  اسلامی معاشرے کی اعلیٰ تہذیب اور بلندیِ اَخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود مہمانوں کی خاطرداری فرماتے تھےاور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کے لئے قَرْض لے لینا بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت سیّدناابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے: ایک بار بارگاہِ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلام نے مجھے ایک یہودی سے اُدھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرَہ گِروی (Mortgage) رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار،ج 9،ص315، حدیث: 3863ملخصاً)

اس سے ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ آئیے مہمان کے حقوق کے بارے میں پڑھئیے ۔

1) مہمان کے لیے کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے: حديث پاک میں ہے: " جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے جن میں سے ایک مہمان کو کھانا کھلانا بھی ہے۔" (سنن الترمذى ، كتاب البر والصلة ، باب ماجاءفى التاني والعجلة3/407، الحديث:2019)

2) مہمان کے ساتھ حسن سلوک: اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (بخاری،ج4، ص105، حدیث:6019)۔ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

3) مہمان اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

4) مہمان نوازی کرنا انبیاء و صالحین کی سنت ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام نہآیت ہی مہمان نواز تھے۔آپ علیہ السلام مہمان کے بغیر کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔ آپ علیہ السلام مہمان کا بہت زیادہ اکرام کیا کرتے تھے ۔۔مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو بھی کی جائے ۔امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔" (شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

5) میزبان مہمان کو بوجھ نہ جانے: میزبان کو چاہیے کہ وہ مہمان کو اپنے بوجھ نہ جانے اور اس کی احسن طریقے سے مہمان نوازی کرے کہ فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :" جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ "(مسنداحمد،ج 6،ص142، حديث:17424)

6) مہمان کو وحشت میں مبتلا نہ کیجئے: علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)

7) مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے کہ یہ سنت ہے:حضور نبی رحمت ، شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے:"مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔"(سنن ابن ماجه، كتاب الأطعمة ، باب الضيافة،4/52، الحديث :3358)

مہمان نوازی کے فوائد :مہمان نوازی سے مہمان کے دل میں میزبان کی عزّت اور محبّت بڑھتی ہے، آپس کے تعلّقات مضبوط ہوتے ہیں، رَنجِشیں دور ہوتی ہیں، ربّ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے، بندۂ مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرکے میزبان کو ثواب کمانے کے مواقع میسّر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔اللہ پاک مہمان کی احسن طریقے سے مہمان نوازی کرنے اور اس کے حقوق ادا کی توفیق عطا فرمائے آمین