دعوت اسلامی
کے زیر اہتمام پچھلے دنوں کراچی کے علاقے کورنگی ساڑھے پانچ میں محفل نعت کا سلسلہ ہوا جس میں35 سے زائد اسلامی بہنوں نے
شرکت کی۔
معاشرے میں خواتین کا سب سے زیادہ واسطہ لوگوں کو پڑتا ہے،
الحمدللہ عزوجل اللہ و رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انسانیت پر بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ اس نے صلہ رحمی کا حکم فرما کر اپنے
ماننے والوں کو ایک دوسرے کی عزت و ناموس کا محاظ بنادیا، آئیے، فرمانِ مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسم کی روشنی میں صلہ
رحمی کے متعلق سنتے ہیں تاکہ اس کو بڑھانے کا جذبہ بیدار ہو۔
۱۔ ہر حسن سلوک صدقہ ہے غنی کے ساتھ ہویافقیر
کے ساتھ۔
(مجمع
الزوائد کتاب الزکوة ج ۳، ص ۳۲۳حدیث نمبر4754)
۲۔ جس نے والدین سے حسن سلوک کیا اسے مبارک ہو کہ اللہ اس کی عمر بڑھا دے۔
(مستدرک ،کتاب بالبرو الصلوة ج 5 ص ۲۱۳، حدیث ۷۳۳۹)
۳۔ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔(بہار شریعت ج۳، ص ۵۵۸حصہ ۱۶)
رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک اسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک
کرے تو تم بھی کرو ، یہ چیز تو حقیقت میں مکافات (ادلا بدلہ )کر نا ہے کہ اس نے
تمہاری طرف چیز بھیج دی تم نے اس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آئی تم اس کے پاس
چلی گئی، حقیقۃً صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی
ہےتم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی رعایت و لحاظ کرو۔
خواتین صلہ رحمی کو کس طرح بڑھا سکتی ہے اس کی مختلف صورتیں
درجِ ذیل ہے۔
۱۔ ان کو صدقہ یا تحفہ دینا
۲۔ انہیں کسی کام میں تمہاری مدد درکار ہو تو اس کام میں ان
کی مدد کرنا
۳۔ انہیں سلام کرنا
۴۔ان کی ملاقات کو جانا
(۵) ان کے پاس
اٹھنا بیٹھنا
(۶) ان سے بات چیت کرنا
(۷) ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا
(۸) محارم رشتے داروں سے ناغہ دے کر ملتے رہیں، (ایک ملنے
کو جائیں دوسرے دن نہ جائے کہ اس طرح کرنے سے محبت و الفت زیادہ ہوتی ہے، باقی
قرابت داروں سے جمعہ جمعہ ملتی رہیں یا مہینے میں ایک بار۔
ابھی ہم نے صلہ رحمی بڑھانے کے طریقے ملاحظہ کیے۔ اب سنتے
ہیں کہ صلہ رحمی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔؟
صلہ رحمی دنیا و ہ آخرت میں فائدہ مند ہے کنزالعمال میں ہے اللہ
عزوجل سے ڈرو اور صلہ رحمی کرو کہ یہ تمہارے لیے دنیا میں زیادہ
باقی رہنے والا ہے اور آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہے۔(کنزالعمال جلد ۳، ص ۶۳۳)
اللہ عزوجل ہمیں خوب سے خوب صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
ہمارا
پیار ا دین اسلام جہاں ہمیں اخوت ( بھائی چارہ) اور برداشت سکھاتا ہے وہی یہ پیار
ا دین ہمیں صلہ رحمی کا درس بھی دیتا ہے، آج معاشرے میں
نااتفاقی اور محبت و الفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی کی کمی ہے، جس کے
سبب ہمارا معاشرہ بکھر کر جدا جدا ہوگیا ہے اب ہمیں اس اس بکھرے ہوئے معاشرے کو
سمیٹ کر ایک بہترین معاشرہ قائم کرنا ہے اور اس میں بہترین کردار ایک عورت ادا
کرسکتی ہے کہ ایک عورت ہی ماں، بہن ، بیوی، بہو، بیٹی ساس اور نند کی صورت میں
اپنے معاشرے میں بہترین سدھار پیدا کرسکتی ہے، اور اس کا بہترین طریقہ صلح رحمی
اور برداشت کو قائم کرنا ہے۔
صلح رحمی کسے کہتے ہیں؟:
صلہ
کے لغوی معنی ہے ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ملانا اصطلاحی معنی ، رشتے داریاں
قائم رکھنا اور رشتے داروں سے اچھااسلوک کرنا۔ (صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام ،ص
۲۲۲)
صلہ رحمی اللہ عزوجل کی ایسی اطاعت ہے کہ
پچھلی شریعتوں میں بھی اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے
جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے
رب سے ڈرتے اور حساب کی برائیوں سے اندیشہ رکھتے ہیں۔(سورة الرعد آیت نمبر:21)
ایک اور مقام پر صلح رحمی کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَاتَّقُوااللّٰهَ
الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَؕ-
ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو (سورة النسا آیت: ۱)
اس آیت مبارکہ میں رشتوں کا لحاظ رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا
ہے آج ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ایسی ہے جو غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتی ہیں
ان سے اچھے انداز ملتی ہیں لیکن اپنے گھر والوں اور رشتے داروں کے لیے ایک مسکراہٹ
بھی نہیں ہوتی ان کے پاس بیٹھنے کے لیے چند لمحے نہیں ہوتے، غیروں پر رحم کرنا اگر
چہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن گھر والوں پر رحم کرنا ضروری ہے اور اس پر زیادہ اجرو
ثواب ہے۔
چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سے قیامت کے دن ایک شخص
کولایا جائے گا اور اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس بنا پر جنت کی امید کی
جاسکے تو اللہ کریم ارشاد فرمائے
گا اس کو جنت میں داخل کردو اس لیے کہ یہ اپنے گھر والوں پر رحم کرتا
تھا۔(کنزالعمال، جلد ۱۶، ص ۳۷۹)
رشتے داروں کے ساتھ سلوک اس کا نام نہیں کہ وہ اچھا سلوک
کرے تو تم بھی کرو بلکہ یہ تو مکافات یعنی ادلا بدلہ کرنا ہے حقیقتاً صلہ ر حمی پر
ہے، کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہو اور تم اس کے ساتھ رشتے کے
حقوق کی رعایت و لحاظ رکھو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے
کہ وہ صلح رحمی کرے۔(صحیح بخاری جلد۸، ص ۵)
صلح رحمی کو بڑھانے کی مختلف صورتیں ہیں:
مثلاًایسے رشتے داروں سے وقتا فوقتا ملاقات کو جانا، پریشان
اسلامی بہن کی مدد کرنا، ان کی حاجت پوری کرنا، انہیں سلام کرنا، ان کے پاس ا ٹھنا
بیٹھنا ہے، ان سے بات چیت کرنا ، ان سے لطف و مہربانی سے پیش آنا، اگر کسی اسلامی
بہن کی کوئی بات بُری لگ جائے تو اسے در گزر کرنا، رشتے داروں پر مالی خرچ کرنا
یعنی اگر وہ غریب ہیں تو ان کی مدد کرنا کہ غریب کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، ان کی
مہمان نوازی کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، جب انسان رشتوں کو ملاتا ہے تو ان
کی عزت و تکریم کرتا ہے تو اس کی رشتے دار بھی عزت کرتے ہیں کہ جب ایسا شخص بیمار
ہوتا ہے تو اس کی عیادت کو جاتے ہیں، اور جب مرجاتا ہے تو اس کی نیک ہونے کی گواہی
دیتے ہیں۔
جس مؤمن کے اچھے ہونے کی گواہی اس کے مرنے کے بعد لوگ دیں
تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے مومن کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔(صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص
۴۱)
اللہ کریم ہمیں صلح رحمی قائم کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
عرب شریف ، عطارى
کابینہ میں بذریعہ اسکائپ Skype اصلاح اعمال اجتماع کا
انعقاد
مسلمانوں
کو گناہوں سے بچانے ،نیک بنانے ،خوف ِخدا و عشقِ مصطفےٰﷺ کی لازوال دولت دلانے کے عظیم
جذبہ کے ساتھ شیخ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطا کردہ 63 نیک اعمال کو اپنی
زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے اسلامی بہنوں کی مجلس نیک اعمال کے زیر
اہتما م پچھلے دنوں عرب شریف کے عطارى کابینہ میں بذریعہ اسکائپ Skype
اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں تقريبا 35 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ہمارے معاشرے میں امن و سکون کی کمی پائی جاتی ہے ہر کوئی
اپنی اپنی میں لگا ہوا ہے گویا ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے کسی گھر میں لڑائی
جھگڑا ہے تو کسی جگہ بدامنی و بے برکتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ صلہ رحمی کا نہ پایا
جانا بھی ہے اگراگر ہماری خواتین صلہ رحمی میں اپنا کر دار ادا کرے تو کتنے ہی
مسائل حل ہوجائیں گے اور امن چین کی فضا قائم ہوجائے گی۔
صلہ رحمی میں خواتین کا کردار:
ایک عورت کبھی ماں کبھی بیوی ، کبھی بہو، بہن بیٹی ، پھوپھی
خالہ وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے اگر ہر عورت اپنے اپنے حقوق ادا کرنے میں اپنا
کردار ادا کرے ہمارا معاشرہ ایک پُر امن معاشرہ بن جائے گا۔مثلا اگر بیوی ہے تو اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ
ساتھ اس گھر والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرے بچو ں کی اچھی پرورش کرے
انہیں ادب سکھائے اس طرح پیارو
محبت کی فضا قائم ہوگی اورگھر امن کا گہوارا بھی بن جائے گا۔
اسلامی بہنوں کو چاہیے صلہ رحمی کے معاملے میں اپنی صحابیات و
صالحات رضی اللہ عنھن کی سیرت کا بھی
مطالعہ کیجئے تاکہ معلوم ہو ہماری نیک بیبیوں کے کیا انداز ہوا کرتے تھے چنانچہ ام
المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار زیادہ پرہیزگار ، زیادہ سچی ،
زیادہ صلہ رحمی اور زیادہ صدقہ کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔(مسلم ص ۳۱۵، حدیث ۲۴۴۲)
فضیلت:
اسی طرح صلح رحمی کے فضائل پر غور
کرے کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم :قیامت کے دن اللہ عزوجل کے عرش کے سائے میں تین قسم کے لوگ ہوں گے، ( ان
میں سے ایک ہے) صلہ رحمی کرنے والا۔
(الفردوس با ثور۔۔ الخطاب، ج۲، ص ۹۹، حدیث ۲۵۶۲)
قیامت کے دن جب سورج سوا میل پر آگ برسا رہا ہوگا لوگ اپنے
پسینے میں سینے تک یا کان تک ڈوبے ہوں گے ان جان کنی کے حالات میں صلہ رحمی کرنے
والے کو عرش کا سایہ ملے گا۔
صلہ رحمی نہ کرنے سے کیا
نقصان ہوگا ؟:
وعیدات:
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ر شتہ کاٹنے والا جنت میں
نہیں جائے گا۔
( بخاری ج ۴، ص ۹۸، حدیث ۵۹۸۴)
غور کیجئے اس سے زیادہ نقصان کس کو ہوگا جس کے بارے میں
آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمادیں وہ جنت میں
نہیں جائے گا،اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی مسلمان
اسلامی بہنوں کے ساتھ خیر خواہی حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
معاشرے میں محبت و الفت کی کمی، نااتفاقی اور قطع رحمی کی ایک
بڑی وجہ حسد جیسی باطنی بیماری ہے، اور بدقسمتی سے اس مرض سے خواتین دو چار ہیں،
اگر خواتین حسد و جلن کی بیماری کو اپنے اندر سے ختم کردیں تو معاشرے میں صلہ رحمی
بڑھ سکتی ہے، اس بیماری کے خاتمہ سے عورت کسی بھی شعبے میں ہو کسی بھی رشتے میں ہو
وہ خود بھی سکون سے رہ سکتی ہے، اور دوسروں کے لیے بھی راحت کا باعث بن سکتی ہے،
حسد کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم آپس میں حسد نہ کرو ، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ
پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب ج ۴، ص ۶۰۶۶ ص ۱۷۷)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک
کے تحت فرماتے ہیں ، یعنی بدگمانی ، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی
ہے، اور اسلام بھائی چارہ اور محبت چاہتا ہے۔لہذا یہ عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی
بھائی بن جاؤ۔ (مراة المناجیع ۶، صحیح ۶۰۸)
تکبر ریا کاری ، جھوٹ غیبت
سے بھی اور حسد سے بچایا الہی
اگر اس معاشرے میں صلہ رحمی کو بڑھانا ہے تو حسد کا علاج
ضروری ہے، عورت ایک ماں ہوتی ہے ماں اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہے، وہی ماں اپنی
ساس اور نند کی برائی کرے گی تو اپنی اولاد کے دلوں میں دادی اور پھپھو کی محبت کو
کم کرے گی اور آگے جا کر یہ محبت کی کمی ان میں قطع تعلقی کا باعث بنے گی اسی طرح
عورت آپس میں حسد، و بغض کی وجہ سے ایک دوسرے کی دشمن ہوجاتی ہے اور پھر ان کی
نفرت پروان چڑھ کر دو بھائیوں کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتی ہے، اسی طرح ساس بہو
کی لڑائیاں ایک عورت کو اس کے گھر سے بے گھر کردیتی ہے اور یوں معاشرے میں فساد
برپا ہوجاتا ہے، اگر یہی عورت حسد کو ختم کرکے اپنے رب پر بھروسہ کرے تو صلہ رحمی
فروغ پاسکتی ہے، اگر عورت ماں ہونے کی حیثیت سے رشتوں کا احترام اپنی اولاد کی
تربیت کا حصہ بنائے تو وہی اولاد رشتوں کو مضبوط کرے گی ، صلہ رحمی فروغ پائے گی،
اگر ددو عورتیں دل سے کدورت و بغض کو نکال دے اور اللہ کے دیئے پر راضی ر ہے تو دو خاندانوں میں جدائی نہ ہو اسی
طرح اگر ساس بہو کی غلطیوں کو در گزر کرے تو طلاق جیسے معاشرے کے بڑے فساد
سےبچاسکتا ہے۔(المعجم الکبیر ،حدیث ۲۳۳۷،ص ۲۲۸)
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
آج
کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قطع رحمی کرتے ہیں یعنی رشتہ داریاں توڑتے نظر آرہے
ہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں پیار و محبت نام کی چیز نظر نہ آنے کے مترادف ہے۔اگر
ہمارے معاشرے سے قطع تعلقی کی نحوست ختم ہو جائے تو پیار و محبت اور امن و سکون
معاشرے کا جزو
لاینفک
بن سکتا ہے خوشگوار معاشرے کے لیے گھرانوں کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ
معاشرے Society كی بنیاد ہے۔اس قطع رحمی کی نحوست
کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے عورت کا اہم اور بنیادی کردار ہے اس کے لیے عورت
بحیثیتِ بہو، ساس اور بیوی کیا کردار ادا کرسکتی ہے اس کی مختصر تفصیل درجِ ذیل
ہے۔
بحیثیت بہو:
عورت صلہ رحمی کو بڑھانے کے لیے گھر کا بہت ہم کردار ادا کرسکتی ہے یہاں چند ایک چیزیں
بیا ن کی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے بہو صلہ رحمی کو فروغ دینے میں کامیاب ہوسکتی
ہے۔بہو کو چاہیے کہ گھر کے ا فراد کے آپسی جھگڑے میں فریق نہ بنے بلکہ جہاں تک
ممکن ہو حکمت عملی سے غیر جانب دار رہ کر صلح کی کوشش کرے کہ قرآن پاک میں
مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔(پارہ 26 ، سورہ الحجرات 10)
ایک کا راز دوسرے کو بتا کر ہمدرد بننے کی کوشش نہ کرے مثلاً
ساس کی کمیٹی ( بیسی) نکلی تو سسر کو
بتاکر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یا ایک نند کا راز دوسری کو بتا کر اچھی
بننا اپنا ہی مستقبل خراب کرنا ہے ، کہ پول بالاخر کھل ہی جاتا ہے۔
گھر کا سکون برباد کرنے میں سب سے زیادہ کردار گھر کی باتیں
باہر کرنے، سسرال والوں کی غیبت و چغلی کرنے اور ان کی شکایات میکے میں کرنے کا ہے
، کیونکہ اس سے غیبتوں، چغلیوں اور تہمتوں کا دروازہ کھلتا ہے جس کی وجہ سے صلہ
رحمی کے بجائے قطع رحمی و قطع تعلقی کو خوب فروغ ملتا ہے لہذا بہو کو اس سے پرہیز
کرنا چاہیے۔ساس اگر کسی وجہ سے پریشا ن ہو تو بہو کو چاہیے کہ اس کی دلجوئی کرے کہ
اس باہمی تعلقات اچھے ہونے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
بحیثیت بیوی :
میاں بیوی کا رشتہ بڑا پاکیزہ ہوتا ہے شوہر کے گھر میں اگر
بیوی سلجھی ہوئی اور باسلیقہ ہو تو نظامِ زندگی بڑا اچھا چل سکتا ہے، بیوی کو چاہے
کہ کبھی بھی اپنے خاوند کے سامنے ساس نند وغیرہ کی برائی بیان نہ کرے کیونکہ عام
طور پر جھگڑا اس بے وقوفی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور قطع رحمی کے امکانات کافی بڑھ
سکتے ہیں۔
اگر ساس، نند وغیرہ سے کبھی جھگڑا یا کوئی ایسی ویسی بات ہو
بھی جائے تو اولاً کوشش کرنی چاہیے کہ شوہر کو اس جھگڑے کا پتا نہ چلے کیونکہ جب
شوہر کو جھگڑے کا پتا چلے گا تو ہوسکتا ہے وہ غصے میں آکر اپنی ماں یا بہن سے قطع
تعلقی کر بیٹھے جو کہ شرعا ایک ممنوع کام ہے۔
اگر بیوی سے صبر نہ ہوسکے اور شوہر کو بتانے کی نوبت آ ہی
جائے تو پھر کوشش کرے کہ بات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرے یعنی چھوٹی سی
بات کا پہاڑ نہ بنائے کہ اسی طرح کرنے سے شوہر کے دل میں اپنی ماں بہن کے بارے میں
طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں جو کہ صلہ رحمی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن
سکتی ہے۔
بحیثیت ساس:
معاشرے میں ساس بہت زیادہ اہمیت کا حامل رشتہ ہے، ساس اگر
اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی جگہ رکھ کر اس سے حسنِ سلوک کرے گی تو معاشرے میں صلہ
رحمی کی اچھی فضا قائم ہوسکتی ہے۔سا س کو چاہیے کہ اگر بہو کسی معاملے میں کوئی
غلطی کر بیٹھے تو اس کے شوہر یعنی اپنے بیٹے کو شکایتی کرنے یا خود ڈانٹنے اور
جھاڑنے سے پرہیز کرے بلکہ معاملے کی نوعیت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرکے صلہ رحمی
کے عنصر کا پروان چڑھے ۔
اگر کبھی بیٹی اور داماد یا بیٹے اور بہو میں کسی بات پر
تنازعہ ( رنجش جھگڑا) ہوجائے تو ان کے تنازعے کو بڑھانے کے بجائے ان میں صلح
کروانے کی کوشش کرے۔اگر ہر گھر میں ساس یہ اصول " ہم تو بُرا کسی کا دیکھیں، سنیں نہ
بولیں" نافذ کروانے میں کامیاب ہوجائے تو کسی حد تک ممکن ہے کہ صلح رحمی کی
خوشبوئیں آنا شروع ہوجائیں۔
اللہ کریم جلا
جلالہ ہمیں صلہ رحمی کرنے اور قطع رحمی سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں
20نومبر کو حاجی عبد الحبیب عطاری کی والدہ کے
ایصالِ ثواب کے سلسلے میں محفل نعت کا انعقاد کیا جائیگا
20نومبر
2020ء بعد نماز عشاء رکن شوریٰ حاجی
مولانا عبد الحبیب عطاری کی والدہ مرحومہ کے ایصالِ ثواب (برسی) کے سلسلے میں جامع
مسجد مشکل کشا، گلشن اقبال 13-Bریلوے سوسائٹی کراچی میں محفل گیارہویں شریف کا
انعقاد کیا جائیگا۔
اس محفل پاک میں مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی مولانا
عبد الحبیب عطاری خصوصی بیان فرمائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق نماز عشاء 8:00 بجے ادا کی
جائیگی، نماز عشاء کے بعد 8:20 پر قرآن خوانی، 8:50 پر نعت خوانی اور 9:00 بجے
سنتوں بھرا بیان ہوگا۔ بیان کے بعد دعا ہوگی جبکہ محفل کے اختتام پر لنگر غوثیہ کا
بھی اہتمام ہے۔
دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹر نے توکل کے موضو ع
پر ایک بہترین کتاب شائع کردی
دعوتِ اسلامی کے 108 شعبہ جات میں ایک شعبہ اسلامک ریسرچ سینٹر بنام” اَلْمَدِیْنَۃُ العِلْمِیّۃ
“ بھی ہے جس کا بنیادی مقصد امتِ
مسلمہ کو اتھینٹک اور مستند اسلامی رسائل
اور کتابیں فراہم کرنا ہے۔
اسی کام کوآگے بڑھاتے ہوئے حال ہی مجلس ” اَلْمَدِیْنَۃُ العِلْمِیّۃ “ نے کتاب بنام ”توکُّل“ (اللہ پر
بھروسا) پر تحریری کام مکمل کرنے
کے بعد شائع کردیا ہے۔ مذکورہ کتاب کورکن مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ العِلْمِیّۃ ابو رجب محمد آصف عطاری مدنی نے تالیف کیا ہے۔
اس کتاب میں توکُّل کسے کہتے ہیں؟ اس کے کیا
فوائد ہیں؟ توکُّل نہ کرنے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟ توکُّل کیسے اپنایا جائے؟
کیااسباب و ذرائع اختیار کرنا توکُّل کے منافی ہے؟ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے
کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب کم و بیش 31 آیات مبارکہ، 22 احادیث مقدسہ، بزرگان کے
37 ارشادات و روایات، اور 47 دلچسپ حکایات پر مشتمل ہے۔
شیخ
طریقت امیر اہل سنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس
کا نام ”توکُّل“ (اللہ پربھروسا) رکھا ہے اور دارالافتاء اہل سنت (دعوت اسلامی) کے مولانا حسان رضا عطاری مدنی نے اس کی شرعی تفتیش فرمائی ہے۔
اس کتاب کی PDF
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔
شیخ طریقت
امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے مسلمانوں کو گناہوں سے بچانے اور نیک بنانے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر مختلف مدنی کاموں کی تحریکوں کا آغاز فرمایا ،
ملک و بیرون
ملک میں
81,733اسلامی
بہنوں نے روزانہ نیک اعمال کے جائزہ لیا۔
24,950اسلامی
بہنوں نے روزانہ ایک پارہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
31,422 اسلامی بہنوں نے روزانہ آدھا پارہ پڑھنےکی
سعادت حاصل کی ۔
62,173
اسلامی بہنوں نے گھر درس دئیے۔
48,143
اسلامی بہنوں نے 1200درودپاک پڑھے۔
80,315
اسلامی بہنوں نے 313 درود پاک پڑھے۔
80,707 اسلامی بہنوں نے 12 منٹ مطالعہ کیا۔
17,964
اسلامی بہنوں نے نفل روزوں کی نیتیں کیں
۔
12,372اسلامی
بہنوں نے نفل روزے رکھے۔
7,603
اسلامی بہنوں نے تہجد پڑھی۔
اگر کوئی
اسلامی بہن اس تحریک میں شامل ھونا چاھیں تو اس آئی ڈی پر رابطہ کریں۔
ہفتہ وار
مدنی مذاکرے میں امیر اہل سنت دامت
برکاتھم العالیہ کسی ایک مدنی رسالے کے مطالعے کی ترغیب ارشاد فرماتے ہیں اور رسالہ پڑھنے اور سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ مطالعہ کرنے یا
سننے والے خوش نصیبوں کی کارکردگی امیر اہل سنت کی بارگاہ میں
پیش بھی کی جاتی ہے۔اس ہفتے امیر اہل سنت دامت
برکاتھم العالیہ نے رسالہ’’ اچھی نیت کی برکت‘‘ پڑھنے یا سننے کی
ترغیب دلائی۔پاکستان اور بیرون ملک کی اسلامی بہنوں کی رسالہ’’اچھی نیت کی برکت‘‘ پڑھنے ،سننے اور انفرادی کوشش کے ذریعے سے
مطالعے کی کارکردگی
’’5
لاکھ70ہزار4سو 51رہی‘‘
دعوت اسلامی کی مجلس شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام پنجاب کالج پاکپتن شریف میں اجتماع میلاد کا انعقاد کیا
گیا جس میں کالج کے اسٹوڈنٹس، پروفیسرز اور دیگر اسٹاف نے شرکت کی۔
نگران مجلس شعبہ تعلیم عبد الوہاب عطاری نے
سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو سیرت نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
مطابق زندگی گزارتے ہوئے مدنی کاموں میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔