محمد
مجیب عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
انبيائے کرام عليہم السلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے
درس و نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔یہاں حضرت
آدم علیہ السلام کے واقعے سے حاصل ہونے والی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں:
(1)حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل
کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجده کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی
عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا
شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم
کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے
میں تول کر اس کے درست ہونے يا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے
منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
(2)تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناه تکبر تھا۔حديث پاک میں ہے:
تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے
اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور
متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔
(3)لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ: شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے چنانچہ وہ لمبے عرصے تک
زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل، تو بہ سے دور اور
گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اسی غفلت میں اچانک موت آجاتی ہے اور گناہوں سے
تو بہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔اس کا حل موت،قبر اور
آخرت کی یاد ہے۔
(4)تخلیقات الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا
شرعی حکم: اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں
حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے
لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کے ذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا
عورت کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی و غیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں
سے بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھیدنا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے
کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا۔
(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔